جڑانوالہ سانحہ کی جتنی بھی پر زور مذمت کی جائے ناکافی ہے لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کریہہ اور بھیانک حادثات میں ہر مرتبہ ہم فقط مذمتی رہیں گے یا پھر اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی اور اس ضرورت کو عملی جامہ پہنایا جائے گا…… میرا جواب یہی آخری والا ہے کہ اب ہمیں کچھ کام کرنے ہونگے اور کچھ سے ہاتھ پیچھے ہٹانا ہوگا. ایسا جہاں انفرادی طور پر کرنا پڑے گا وہیں ریاستی پالیسیوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا….. اس ضمن میں کئی پہلو ذہن میں سامنے آ رہے ہیں :
پہلا پہلو :
مسالک و مذاہب کی داخلی و خارجی حرکیات کی تحدید کی اشد ضرورت ہے. میں کئی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مسلکی تناظر میں ریاست کو نیم سیکولر بالکل واضح موقف لینا ہوگا کہ ہر ایک اپنی چار دیواری میں اپنے اپنے مذہب پر عمل درآمد میں آزاد ہونگے… ، بین المذاہب رواداری اور برداشت کے حوالے سے عوامی ردعمل یا دینی حمیت کے نام ورغلانے کو لاء ان آرڈر کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے قابل قرار واقعی سزا متصور کیا جائے گا. اس کے ساتھ ساتھ یہ ہجوم کے نام پر زبردستی قانونی کارروائیوں کی بالکلیہ حوصلہ شکنی کرنا پڑے گی.
دوسرا پہلو:
برصغیر میں بالخصوص اور مسلم زوال کے عہد میں بالعموم سازش ہو گئی، سازش کر لی گئی جیسے سست اور جاہلانہ و کاہلانہ روش کی بڑی چال چلن اور مانگ ہے….. … لیکن میں اس پر کہا کرتا ہوں عناصر محرک ہونگے مان لیا لیکن لوکل ایکٹو سیلز تو سب انہی گلی محلوں کے ہی تھے…لہذا بیرونی کے ساتھ داخلی عناصر و محرکات سے کو لازمی قرار واقعی سزا ہونی چاہیے….. لب لباب یہ کہ جب اندر سے نا ملے تو کوئی باہر سے ہمیں کیا کہہ یا کرنے سکنے کی مجال رکھتا ہے…. لہذا یہ گھسٹا پٹا فارمولا چھوڑنا ہوگا. اپنی گھٹن ، فرسٹریشن اور جہالت کو جنونیت کی شکل میں باہر نکالنے کے لیے عبادت گاہوں کو جلانا اور دیگر مذاہب و مسالک کے افراد کو قتل کرنا، ان کے گھروں کو جلانا یا مسمار کرنا دین کی خدمت نہیں ہے ۔
تیسرا پہلو :
یہاں تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مذہبی تنافر و تشدد کی ایک تاریخ ہے. جس میں شخصیات، فکریات، تصنیفات اور عوامی ذہنی سازی اثر انداز رہے ہیں ان عناصر کو خاص مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اس کی سرپرستی یا اس کی ریاستی حوصلہ افزائی بالکل ممنوعات میں شمار ہونی چاہیے اور ان کے داخلی اور خارجی استعمالات کی روش کو اب ترک کرنا پڑے گا…. اور جتھوں
چوتھا پہلو :
توہین مذاہب کا تعلق سب ادیان و مذاہب کے ساتھ ہے ریاستی سطح پر متشدد گروہانہ مزاج کی ذہن سازی کرنے اور اکسانے کی کے رویوں کی بجائے عوام کی تربیت کی جائے کہ اہانت کے قانون کے تقاضے کیا ہیں؟ اور ایسی صورت حال میں قانونی کارروائی ہی حل ہے کیونکہ اگر ایک جانب اہانت ہوئی ہے تو مخالف کو اس بات کی قطعا اجازت نہیں کہ مرتکب اہانت کے مذہب کی اہانت کی جائے. ایسی صورت میں جانبین اہانت کی مرتکب ہونگے اور دونوں اطراف کو بلکہ دوسری جانب شدت کی رویوں اور اعمال کرکے مفسدین فی الارض متصور ہو نگے اور سخت سزا کے مستحق ہونگے. اس واقعے میں مسلمانوں کی جانب سے شدید زیادتی کی گئی لہذا چرچ جلانے والوں کو بھی قانون اہانت کی روشنی میں اور املاک کو جلانے و مسمار کرنے کی وجہ سے سزا دینی ہوگی تاکہ اس جتھائی مزاج کی بیخ کنی کی جائے..
کمنت کیجے