عمران شاہد بھنڈر
بعض “فنکار” یہ کہنے اور سننے کے بہت شوقین ہوتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے “خلق” کیا ہے وہ زمان و مکاں سے ماورا ہے۔ زمان و مکاں سے ماورائیت کا قضیہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اس وقت اُردو میں جو لوگ لکھ رہے ہیں ان میں سے شاید چند ہی ایسے لوگ ہوں جو زمان و مکاں کی ماورائیت کی فلسفیانہ تاریخ سے آگاہ ہوں، مگر عدم آگاہی ان کو یہ دعویٰ کرنے سے نہیں روکتی کہ جو کچھ انہوں نے “خلق” کیا ہے وہ زمان و مکان سے ماورا ہے۔
اگر تو زمان و مکاں سے ماورا سے ان کی مراد یہ ہے کہ پاکستان کے کسی لکھنے والے کو ہندوستان میں بھی پڑھا جاتا ہے یا پھر شیکسپیئر کو کئی دوسرے ممالک میں بھی پڑھا جاتا ہے تو اس میں زمان و مکاں سے ماورا ہوجانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ شیکسپئیر ہو یا اقبال ان کا عہد ان کے فن پاروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ فلسفے کی تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگ اس فکر کے مفہوم کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ بیشتر لکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شاید اس کائنات سے ہی ماورا ہوگئے ہیں، یعنی ایک ایسی زبان جو انسان کی اپنی ثقافت کی تشکیل کردہ ہے وہ انہیں زمان و مکاں سے ماورا لے گئی ہے۔ لیکن جونہی ہم ان کی “تخلیقات” کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تمام استعارے، تشبیہات، علامتیں وغیرہ اسی سماج اور ثقافت کی تشکیل ہیں جس میں انسان مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور جس کے یہ فن کار خود پروردہ ہوتے ہیں۔
اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ وہ زمان و مکاں سے ماورا ہوگئے ہیں تو اس سے بہت سے فلسفیانہ نوعیت کے سوالات اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، جن کی ترتیب میری نظر میں کچھ یوں ہوگی:
کیا زمان و مکاں سے ماورا بھی کوئی ثقافت موجود ہے اور اگر ہے تو اس میں اور زمان و مکاں میں مقید ثقافت کے درمیان تفریق کن عوامل کی بنیاد پر کی جائے؟ اگر تفریق ہے تو کس اصول کے تحت ان فنکاروں نے زمان و مکاں سے ماورا ثقافت کا فہم حاصل کیا؟
اگر فہم حاصل ہوگیا تھا تو کیا محض تخیل نے یہ سرگرمی انجام دی یا اس کی فہم کے عمل میں عقل کا بھی کوئی عمل دخل تھا؟
تخیل و عقل میں ہم آہنگی زمان و مکاں سے ماورا شعور کی بدولت ہوئی یا زمان و مکاں میں مقید شعور کی وجہ سے؟
ان کو یہ خبر کیسے ہوئی کہ جس زمان و مکاں میں وہ پہنچ چکے ہیں اس میں بھی وہ انہی فنی اصولوں کی پیروی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں؟
جو لوگ ان کی “تخلیق” کی تشریح کریں گے کیا ان کے لیے بھی زمان و مکان سے ماورا ہونا ضروری ہے؟ اور اگر نہیں تو ایک ایسی ثقافت جو زمان و مکاں سے ماورا ہونے کی وجہ سے “شے فی الذات” ہے، اس کا فہم شارحین کیونکر حاصل کر پائیں گے؟
اگر اس قسم کی کوئی “تخلیق” زمان و مکاں سے ماورا ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو کم از کم تمام مابعد جدید افکار کو بھی چیلنج درپیش رہتا ہے جو اس دعوے پر اصرار کرتی ہے کہ ہر قسم کا فن پارہ ثقافتی تشکیل ہے۔
زمان و مکاں سے ماورا ہوجانے کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ یہ نکتہ تجرید پسندوں کے ان افکار کی نمائندگی نہیں کرتا کہ جن پر میں نے مختصر بات کی ہے۔ اس کے باوجود فن پارے کے حوالے سے اگر اس کے “اثر” کی بات کی جائے جو انسانی جذبات پر نمودار ہوتا ہے، تو اس کی وضاحت درکار ہے کہ کیونکر کوئی فن پارہ بعد کے زمانوں میں متعلقہ یا غیر متعلقہ ہوتا ہے۔ یہ ایسا سوال نہیں ہے کہ جس کو اسی تجریدی طریقے سے حل کر لیا جائے کہ جس طریقے سے تجرید پسند کرتے ہیں۔ رہی بات کسی بھی فن پارے کی تو یہ اہم ترین نکتہ بھی ہمہ وقت ذہن میں رہنا چاہیے کہ صرف فنون لطیفہ ہی بعد کے زمانوں میں اپنے اثرات نہیں رکھتے بلکہ علم البشریات، سماجیات، سیاسیات، فلسفہ اور سائنس کی ایسی انگنت قدیم کتابیں ہیں جو نہ صرف پڑھی جاتی ہیں بلکہ انسانی اور معاشرتی رجحانات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر میکاولی کی “دی پرنس” جو 1532 میں شائع ہوئی، آج بھی اس کے نئے ایڈیشنز مارکیٹ میں لائے جارہے ہیں اور سیاسیات کی تاریخ اس کتاب کے مطالعے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ سولہویں صدی میں شائع ہونے کے باوجود اُردو میں اس کی حالیہ اشاعت کے کئی ایڈیشنز سامنے آچکے ہیں۔ اسی طرح روسو کی “معاہدہ عمرانی” جو 1762 میں شائع ہوئی لیکن آج بھی اس کے حوالے بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح معاشیات میں سمتھ، ریکارڈو اور مارکس کی اہمیت برقرار ہے۔ یہ تو خیر اتنی پرانی باتیں نہیں ہیں کہ ژاک دریدا نے اپنی کتاب “ڈی سیمی نیشنز” میں سقراط اور افلاطون کے افکار سے متعلق بحث کی ہے۔ اور بھی انگنت کتابیں ایسی ہیں جن کے یہاں حوالے دیے جاسکتے ہیں۔ یہ قضیے طے کرنا بہت مشکل ہے کہ فلسفیانہ کتابوں میں موجود افکار کی انسانی شعور میں رد و نمو ہو چکی ہے اور اب ان کی اشاعت غیر متعلقہ ہے۔ لہذا کسی پرانی کتاب کا نئے عہد میں متعلقہ ہونا صرف فنون تک محدود نہیں ہوتا۔ بہرحال اس “اثر” کی نوعیت پر مزید روشنی ڈالنا ضروری ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ شاعری میں اس اثر کی نوعیت کن عوامل کی وجہ سے ہے، یہ انفرادی فن پارے کے تجزیات سے ہی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے واضح ہوگا کہ کیا فنکار زمان و مکاں سے ماورا ہوگیا تھا یا عہد حاضر کے فن کار اپنے عہد سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور اسی موضوع پر گئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے