’’ایک نئے مدینہ کی تخلیق: ریاستی اقتدار،اسلام اور برطانوی عہد استعمار میں شمالی ہند میں پاکستان کی جستجو’’
Creating A New Medina: State Power, Islam and the Quest for Pakistan in Late Colonial North India
مصنف: وینکٹ دھولی پالا
اسلام کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے بیسویں صدی کے نصف اول میں دو بڑے واقعات پیش آئے:ترکی میں خلافت کا خاتمہ (1924ء)اوربرصغیر ہند میں ایک نئی مسلم ریاست،پاکستان کاقیام(1947)پاکستان کے نظریہ سازوںنے قیام پاکستان کی معنویت کی جن مختلف حوالوں سے تشریح ووضاحت کی، ان میں یہ حوالہ بھی شامل تھا کہ وہ ترکی کی اسلامی خلافت کا بدل ہوگا لیکن قیام پاکستان کے چند سالوں کے اندر یہ خواب حقیقت کی سنگلاخ چٹان سے ٹکراکر پاش پاش ہوگیا۔ایک طرف جہاں اصحاب علم وقلم کی اکثریت اس خیال کی حامل رہی ہے کہ پاکستان کے قیام کے پس پشت خالص مذہبی محرکات کارفرما تھے۔وہیں دوسری طرف اصحاب فکر ونظر کا ایک طبقہ پوری قوت کے ساتھ یہ باور کرانے پرمصر رہا ہےکہ دو قومی نظریہ کی مذہبی اساس پراگر چہ عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے اور اُن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی،تاہم اس دینی پہلو کو قیام پاکستان کا بنیادی محرک قرار نہیں دیا جاسکتا۔زیر تبصرہ کتاب دوسری تھیوری کو مسترد کرنے اور دلائل کے ساتھ اس بات کے اثبات میں لکھی گئی ہے کہ پاکستان کا وجود خالص ایک اسلامی نظریاتی وجود ہے۔اس کا بامعنی عنوان اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
کتاب کا پانچواں(Ulama at the forefront of Politics) اور ساتواں باب(Fusing Islam and State Power) اس لحاظ سے اہم ہےکہ اول الذکر میں قوم پرست علما جن میں علمائے دیوبند سرفہرست ہیں،کی طرف سے پاکستان کےقیام کے نظریے پر تنقیدات سے بحث کی گئی ہے، جبکہ ثانی الذکر باب میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے پاکستان سے متعلق نقطۂ نظر اور پُرجوش کاوشوں کا تجزیہ کیا گیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈبلیو سی اسمتھ جیسے صاحب علم کا قول ہے کہ 1942ء تک نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والا کوئی بھی گروہ باقی نہیںرہ گیاتھا،حالاں کہ طبقۂ علما کی طرف سے تقسیم ہند کو روکنے کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے یہ بات غلط لگتی ہے۔(ص:281) اس باب میں انھوں نے تین علما کی نظری وعملی کاوشوں سے الگ الگ عنوان کے تحت تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ مولانا سید محمد ابو المحاسن سجاد، مولانا طفیل احمد منگلوری اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی۔ بانی امارت شرعیہ مولانا محمد سجاد نے ’’مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا پر ایک اہم تبصرہ‘‘ کے عنوان سے 1940ء میں تفصیلی مضمون لکھا جس میںاپنے اس نقطۂ نظر کی وضاحت کی کہ پاکستان کسی بھی صورت میں ایک اسلامی ریاست نہیں بن پائے گا اور مسلم لیگ کے اس دعوے کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ وہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرپائے گا۔ (ص:284) دل چسپ بات یہ ہے کہ مولانا سجادکے نقطۂ نظر سے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کی شکل دینا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ پاکستانی علاقے میں آباد ہندوؤں کی نصف تعداد کو ہندوستان بھیج دیا جائے اور حکومت میں غیر مسلموں کا کوئی حصہ نہ ہو جب کہ محمد علی جناح یہ قبول کرتے ہیں کہ غیر مسلموں کو بھی پاکستان کی قانون سازیہ اور حکومتی نظم ونسق میں حصہ دیا جائے گا۔ (ص:285)مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی نظر میں قیام پاکستان کی مخالفت کی ایک بڑی بنیاد یہ تھی کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مطابق، غیر مسلم اقلیتوں کی بھی اسلامی حکومت میں نمائندگی ہوگی۔اس لیے یہ گویا آج کی جدید سیکولرریاست کے مانند ہوگی نہ کہ اسلامی ریاست کے اصولوں کے مطابق۔مولانا سیوہاروی کے بقول غیرمسلموں کو اسلامی ریاست میں صرف ذمی کی ہی حیثیت دی جاسکتی ہے۔ (ص:304)
مصنف کے مطابق سب سے مضبوط اور عاقلانہ نقطۂ نظر مولانا حسین احمد مدنی کا تھا جو موجودہ دور کے تقاضے کے مطابق نیشن اسٹیٹ کے تصور کو خالص مذہبی دلائل کی بنیاد پر تسلیم کرتے تھے۔ (ص106-10)تاہم صحیح بات یہ ہے کہ مولانا مدنی کے متحدہ قومیت کے نظریہ اور بے باکی کے ساتھ اس کے اظہار نے کثیر ذہنوں سے دو قومی نظریے کے فسوں کو باطل کرنے میں جو وسیع کردار ادا کیا، اس پر اس کتاب میں کسی ایک جگہ ترکیز کے ساتھ بحث نہیں کی جاسکی۔اس طرح اس ضمن میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی ’’متحدہ قومیت‘‘ کی رد میں لکھے گئے رسالے ’’مسئلہ قومیت ‘‘پر بھی تفصیلی اورتجزیاتی انداز میں گفتگو ہونی چاہیے تھی ۔ کیوں کہ دو قومی نظریے کی بحث اس کے بغیر ادھوری ہے۔
پاکستان کے ایک بنیادی نظریہ ساز کی حیثیت سے مولانا شبیر احمد عثمانی پر لکھا گیا باب،جس کا ذکر اوپر آیا،اہل علم ودانش کے لیے خصوصی طور پرقابل مطالعہ ہے۔۔ مولانا عثمانی کے نظریۂ پاکستان کی حمایت اور اس تعلق سے جوش و ولولے کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ جس طرح مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد پورا جزیرۂ عرب اسلامی حکومت کے زیر نگیں آگیا، اسی طرح پاکستان کے قیام کے بعد پورا ہندوستان پاکستان کے زیر اقتدار آجائے گا۔ (ص:361) ان کی نظر میں جس طرح خلیفہ عباسی معتصم نے رومی قبضے میں ایک مسلم عورت کی دکھ بھری پکار ’’وامعتصماہ‘‘پر رومی علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، اسی طرح پاکستان بن جانے کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر مظالم کی صورت میں ان کی داد رسی کی جائے گی۔ مصنف نے ان تمام بیانات کے تفصیلی حوالے دئے ہیں۔ (ص:375)
مولانا عثمانی نے علماء کا ایک وفد دیوبند بھیجاجس نے مجلس شوریٰ کے ارکان سے درخواست کی کہ وہ دارالعلوم کے مدرسین وطلبہ کی ملت مخالف سرگرمیوں پرقدغن لگائے۔قوم نے جس مقصد کے لیے ادارہ بنوایا ہے اور وہ اس کی مالی مدد کررہی ہے، یہ سرگرمیاں اس مقصد کے خلاف ہیں۔ (ص:357)لیکن شوریٰ نےاس درخواست کو مسترد کردیا۔ ایک تفصیلی گفتگو ’’مولانا اشرف علی تھانوی اور مسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے بھی کتاب میں شامل ہے۔ (ص:96-114) جس میں مولانا تھانوی کے قوم پسند علما کے موقف سے اختلاف اور مولانا مدنی کے متحدہ قومیت کے نظریے پر اُن کی تنقیدی فکر ورائے سے بحث کی گئی ہے۔
بہرحال یہ کتاب اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کی بھیڑ میں کوئی انوکھی کتاب نہیں ہے۔ تاہم اس کی متعدد بحثیں، تجزیہ ونتائج موجودہ تناظر میں اپنی تازگی کے ساتھ افادیت کی حامل ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے بہت سے واقعات کی نئی پرتیں کھلتی محسوس ہوتی ہیں۔ حقائق کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔اس موضوع پرلکھی گئی اس ضخیم کتاب کا کوئی بدل کم ازکم اردو میں موجود نہیں ہے۔یہ نظریہ پاکستان کی نظریاتی دستاویز ہے۔ مستقبل میں پاکستان کے قیام کے نظریاتی پہلوپر لکھی جانے والی کسی بھی مفصل اورتجزیاتی تحریر کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہوگا۔
کمنت کیجے