سید منظور الحسن
جناب احمد جاوید صاحب میرے لیے بمنزلۂ استاد ہیں۔ استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کو جن معاصرین کا غیر معمولی اکرام کرتے ہوئے دیکھا، اُن میں اُنھی کا نام سر ِفہرست ہے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں بارہا تلقین فرمائی کہ اُن کی مجالس میں شریک رہوں اور کسبِ فیض کی کوشش کروں ۔ کئی بار ہمت کی، مگر فلسفے کی وجودیاتی صلابت اور تصوف کی ہزار چشمی درمیان میں حائل رہی۔ہمیشہ یہی خیال غالب رہا کہ :
دلِ گداختہ و چشم تر ہی کافی ہے
فتوحِ مملکتِ مہر و ماہ کرنے کو
میرے مضمون پر اُن کی گفتگو سراسر قدر افزائی ہے۔ اُن جیسی عالی مرتبت شخصیت کا ناچیز کی تحریر پر نظر ڈالنا ، پھر اُس میں مذکور نقد کو خندہ پیشانی سے گوارا کرنا اور اُس کے بعد پوری دل نوازی سے اُسے موضوعِ سخن بنانا من جملۂ احسان ہے۔ ایسی عالی ظرفی اصحابِ صبر کا خاصا اور نصیب والوں کا حصہ ہے:
وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ.(حٰم السجدہ 41: 33-35)
’’ اور (یاد رکھو کہ) یہ دانش اُنھی کو ملتی ہے، جو ثابت قدم رہنے والے ہوں اور یہ حکمت اُنھی کو عطا کی جاتی ہے جن کے بڑے نصیب ہیں۔‘‘
’’قرآنِ مجید میں نظم کلام ـــــ ایک تنقید کا جائزہ‘‘ کے زیرِ عنوان میرے مضمون کی نسبت سے اُنھوں نے جو گفتگو فرمائی ہے، اُس میں طرزِ تحریر پر بھی کلام کیا ہےاور صاحبِ تحریر کو بھی کلماتِ خیر سے نوازا ہے، مگر نفس مضمون کو موضوع بنانا مناسب نہیں سمجھا۔ گویا التفات و گریز کا وہی طریقہ اختیار کیا ہے، جو غالباً اُنھیں بھی کسی خوش خرام سے پیش آیا تھا:
تھا جانبِ دل صبح دم وہ خوش خرام آیا ہوا
آدھا قدم سوئے گریز اور نیم گام آیا ہوا
لہٰذا موضوعِ زیرِ بحث پر خامہ فرسائی محض اضافی ہو گی۔ دو معروضات، البتہ نگاہِ التفات کی طالب ہیں ۔
ایک یہ کہ راقم کے بعض جملوں کو تمسخر اڑانے سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ بات اگرچہ محبت و شفقت کی مہکار لیے ہوئے ہے ، مگر گل دستۂ خوں چکاں سے کسی طور کم نہیں ہے۔ جس شخصیت کا غیر معمولی احترام میرے جلیل القدر اساتذہ جناب جاوید احمد غامدی اور جناب ڈاکٹر خورشید رضوی کرتے ہیں، جن کی توقیر ادب، فلسفہ ، تصوف اور مذہب کے ہر حلقے میں مسلم ہے، جنھیں میرے رفقا اپنا استاد مانتے ہیں، جن کا عجز مثالی، جن کی انسانی حمیت قابلِ تقلید اورجن کی بندگیِ رب لازوال ہے ، اُن کی کسی بات کو ہنسی میں اڑانے کا کوئی تصور بھی کیوں کرے گا؟ پھر مجھ جیسا سادہ منش ایسی جسارت کیسے کر سکتا ہے، جوتصوف کے قادریہ گھرانے میں پروان چڑھا ہے؟ جہاں آداب کا آغاز غلو کی نہایت سے ہوتا ہے۔ خانقاہِ غامدی کی تربیت اُس پر مستزاد ہے۔ جہاں پہلا سبق ہی یہ پڑھایا جاتا ہے کہ: ’ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔‘ مطلب یہ ہے کہ خاک سار کا عمر بھر یہی چلن رہا ہےکہ:
گھر اور بیاباں میں کوئی فرق نہیں ہے
لازم ہے مگر عشق کے آداب میں رہنا
ایسے لطیف طبع کے لیے تو تمسخر کبائر کا درجہ رکھتا ہے اور پھر وہ کسی صاحبِ منزلت کے باب میں ہو! الامان، الحفیظ۔ میں ایسی انشا پردازی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
دوسرے یہ کہ عالی جناب کی گفتگو سے یہ تاثر نمایاں ہے کہ وہ کلام کی بے نظمی کو من جملۂ نقائص شمار کرتے ہیں ــــ جبھی تو اُنھوں نے ’’فرد فرد خیالات‘‘، ’’پریشان افکار‘‘ اور ’’نامربوط تاثرات‘‘ کی تراکیب کو تمسخر پر محمول کیا ہے۔ ـــــ گویا وہ نظم کو کم از کم محاسنِ کلام کے درجے میں ضرور قبول کرتے ہیں۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اصلاً وہ بھی نظم کی ضرورت کے قائل ہیں۔ تاہم ہمارا معاملہ درجۂ حسن سے کچھ آگے کا ہے۔ ہم اِسے کلام کا جزوِ لازم خیال کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ جو کلام ابلاغ مدعا کے لیے وضع کیا جائے ، اُس کا منظم ہونا ضروری ہے۔ بے ربطی اور تفریق اگر کسی انسان کے کلام میں در آئے تو اُس کے مدعا کو مختلط کر دیتی ہے، کجا یہ کہ اُسے قرآنِ مجید جیسی کتاب ہدایت سے منسوب کیا جائے۔ اِس وجہ سے ہمارا طالب علمانہ اصرار ہے کہ نظم کلام کی حیثیت طالبانِ فہم قرآن کے لیے چراغِ راہ کی ہے۔ اِس کی دریافت اور اِس کی وضاحت کے لیے مدرسۂ فراہی کے علما کی جدوجہد ایک صدی پر محیط ہے۔ ’’تدبرِ قرآن‘‘ اور ’’البیان‘‘ کی صورت میں یہ مجسم اور مشہود ہے۔ برس ہا برس کی یہ خالص علمی جدو جہد اتنا حق ضرور رکھتی ہے کہ اہل علم اِس پر سے سرسری گزرنے کے بجاے اِس کے چند اجزا کا بہ غور مطالعہ فرما لیں۔ ممکن ہے کہ یہ اقدام رائج علم کے ٹھہراؤ میں جدت انگیز تلاطم کا پیش خیمہ ثابت ہو ۔ بہرحال یہ:
اک ناصحانہ عرض ہے، دریاؤں پر یہ فرض ہے
دل کی طرح ہر لہر میں تجدیدِ طغیانی کریں
وہ شمع ہے در طاقِ دل، روشن ہیں سب آفاقِ دل
افتادگانِ خاک اٹھو، افلاک گردانی کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید منظور الحسن صاحب جی سی یونیورسٹی سے ایم فل اسلامیات ہیں اور ادارہء علم و تحقیق المورد فیلو اور ماہنامہ اشراق امریکہ کے مدیر ہیں ۔
کمنت کیجے