علم کے تصور پر عائد کی جانے والی ہر شرط دراصل تصور حقیقت پر عائد ہوجاتی ہے۔ یورپی افکار نے اس معاملے میں اغلاط کا ایک مجموعہ جمع کردیا ہے جس سے جدید مسلمان ذہن پراگندہ ہے۔ یورپ کے تجربیت پسندوں نے کہا کہ علم وہ ہے جو قابل حسی تجربہ ہو، نتیجتاً ان کا تصور حقیقت عالم ناسوت (یعنی زمان و مکان سے متعلق عالم) میں سکڑ گیا۔ کانٹ کو اس رائے کے مسائل کا کچھ ادراک ہوا تو وہ عالم مثال (یعنی “کلیات عامہ” سے متعلق عالم) کو ماننے پر مجبور ہوا لیکن غلطی یہ کی کہ اسے نرا خیال قرار دے دیا اور کہا کہ عالم مثال کا مقصد بس عالم ناسوت سے متعلق ذہنی تصورات میں وحدت پیدا کرنا ہے، جب تک عالم ناسوت کی کسی شے کا حسی تجربہ نہ ہو، عالم مثال از خود کسی حقیقت کا علم فراہم نہیں کرتا۔ نتیجتاً اس کا تصور علم و حقیقت بھی عالم ناسوت میں بند رہا، البتہ عالم مثال اس کے فلسفے میں ایک بے ڈھنگی شے (یعنی از خود غیر حقیقی مگر مظہر حقیقت) کے طور پر آکر فٹ ہوگیا جو فلسفے کے سنجیدہ طالب علم کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے رہے کہ علم وہ ہے جس کا تجربہ ہر کوئی کرسکے اور تجربے سے مراد خاص سائنسی طریقے کا تجربہ ہے۔ علم کی یہ تعریف عالم ناسوت کے ان اعلی درجے کے حقائق کو بھی حقیقت سے خارج کردیتی ہے جن تک رسائی کسی خاص علم میں تمام عمر صرف کردینے والے ایک فیصد ماہرین کو ہوتی ہے اور دنیا کی غالب ترین (شاید نوے فیصد) آبادی کے لئے ان تک رسائی بوجوہ تقریباً ناممکن ہے۔ ویسے بھی، علم کی اس تعریف کی صداقت خود اس پیمانے پر پورا اتر کر آج تک کوئی ایک بھی انسان ثابت نہیں کرسکا۔
اس نوع کی جتنی بھی تعریفات ہیں ان سب کے نتیجے میں نبی کو بذریعہ وحی حاصل ہونے والا ادراک و معرفت حقیقت کی تعریف سے نکل جاتا ہے۔ مغربی فلاسفہ سے متاثر ہوجانے والے بعض نئے مسلم مفکرین نے اس رائے میں پناہ تلاش کی کہ علم اور عقیدے یا ایمان میں فرق ہوتا ہے۔ عقیدے کو علم سے خارج کرنے کی قربانی دینے کے باوجود بھی یہ رائے نہ اس مسئلے کو ایڈریس کرتی ہے کہ نبی کا ادراک حقیقت کس معنی میں علم ہے اور نہ اسے کہ عقیدہ کسی حقیقت کی گواہی کیسے ہے؟
اسلامی تاریخ میں اہل علم البتہ ایسی فاش غلطیوں کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اگرچہ علم کی کئی تعریفات کی گئیں اور ہر ایک پر اعتراضات ہوئے یہاں تک کہ یہ کہا گیا کہ علم کی تعریف کرنا عبث ہے کہ یہ اجلی البدیہیات (one of the most obvious among all obvious) ہے، تاہم دو تعریفات بہت بامعنی ہیں:
1) علم کا معنی “الحاضر عند المدرک” ہے
2) علم کا مطلب ہے “معرفۃ المعلوم علی ما ھو بہ”، آسان لفظوں میں مطلب یہ کہ علم اعتقاد اور معلوم جیسا کہ وہ ہے کے مابین مطابقت ہے
یہاں ہر تعریف کی اہمیت کے الگ پہلو ہیں، سردست دوسری تعریف کو لیجئے جو قاضی باقلانی صاحب نے کی۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے تعریف میں لفظ “شیئ” کے بجائے “معلوم” اس لئے استعمال کیا کیونکہ معدوم شیئ نہیں ہوتی جبکہ علم کا تعلق موجود (شیئ) و معدوم (لا شیئ) دونوں سے ہے (آپ نے معدوم کو چار اقسام میں رکھا ہے، فی الوقت اس سے سہو نظر کیجئے)۔ قاضی صاحب کی اس تعریف کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ یورپی فلاسفہ کے خیالات کی طرح علم اور حقیقت کو عالم ناسوت میں بند نہیں کرتی۔ اس تعریف کی رو سے علم کی شرط معرفت و ادراک کا معلوم کے مطابق ہونا ہے۔ ہمارے ہاں نہ علم پر یہ شرط عائد کی جاتی ہے کہ وہ قابل حسی تجربہ ہو (کہ اس شرط کے بعد اولیات عقلیات تک حقیقی نہیں رہتے) اور نہ یہ کہ وہ انسانوں کے ہاں معروف زمانی و مکانی الفاظ میں قابل بیان ہو (کہ اس شرط کے بعد حقیقت وحی، امور متشابہات، عالم ارواح، صفات و ذات باری حقیقت سے خارج ہو جاتے ہیں) اور نہ یہ کہ وہ ہمہ وقت سب کے لیے یکساں مرتبے پر لائق ادراک ہو (اس لئے نبی کے ادراک حقیقت کو علم کہلانے کے لئے دیگر لوگوں کو ویسا ہی تجربہ ہونا کوئی شرط نہیں، بعض حقائق کی معرفت خصوصی احوال پر متفرع ہوسکتی ہے جس سے دیگر لوگ محروم ہوں)۔ جو مفکر علم پر ایسی شرطیں عائد کرے، اسے اس شرط کی صحت پر دلیل دینا ہوگی۔
اب ترتیب بحث پر غور کیجئے:
• نبی کو بذریعہ وحی جس حقیقت کا ادراک ہوا وہ چونکہ معلوم کے مطابق ہے، لہذا وہ علم ہے
• غیر نبی نے معجزے کے جس طریقے پر نبی کے دعوی نبوت کی تصدیق کی، وہ دلیل چونکہ اس دعوے کی سچائی کے مطابق ہے، لہذا اس کی جانب سے نبی کے دعوی نبوت کی سچائی کی تصدیق علم ہے
• اور ایک سچے (صادق) کی خبر کی تصدیق کیا جانا چونکہ دلیل کا تقاضا ہے، لہذا نبی (یعنی صادق) اپنے ادراک سے جن حقائق کی خبر دے رہے ہیں امتی کا ان حقائق کی تصدیق کرنا علم ہے۔
یہ ہے وہ راست منہج جو اہل کلام کے ہاں پایا جاتا ہے۔ یہ جسے عقیدے و علم کی دوئی کہا جاتا ہے، مسلمانوں میں یہ منہج بحث معروف نہیں رہا۔
کمنت کیجے