Home » محبت کیا ہے؟ سقراط کا نقطہ نظر
شخصیات وافکار فلسفہ کلام

محبت کیا ہے؟ سقراط کا نقطہ نظر

دوست کا سوال ہے کہ محبت کیا ہے؟ اس کو ڈیفائن کر دیں۔ دیکھیں:محبت ایک ایسا احساس اور جذبہ ہے کہ جس پر ہر زمانے میں اہل علم نے گفتگو کی ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ ایک ایسا احساس ہے کہ اسے ڈیفائن کرنا مشکل ہے اور اس سے ہاتھ اٹھا لیے جبکہ بعض نے اس جذبے کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔ پہلے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے کہ جسے محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا یعنی وہ نا قابل بیان احساس ہے۔ دوسرا گروہ کہ جنہوں نے محبت کو ڈیفائن کیا تو آپس میں بہت اختلاف کیا کہ جس سے یہ محسوس ہونے لگا کہ محبت ایک اضافی اصطلاح (relative term) ہے جسے ہر کسی نے اپنے تجربات کی روشنی میں سمجھا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کو زندگی میں کئی ایک محبتوں کا تجربہ ہوتا ہے اور ہر کوئی اس کا ایک معنی ومفہوم سمجھتا یا رکھتا ہے۔ آپ کے نزدیک محبت کیا ہے، آپ نیچے کمنٹ میں بیان کر سکتے ہیں۔

ایک تعریف کے مطابق کسی کو پسند کرنے اور اس کا دھیان رکھنے کا مضبوط اور مسلسل احساس (very      strong       and        constant        feeling          of liking         and         caring          for           somebody) محبت کہلاتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق محبوب کے دھیان رکھنے (caring) کو محبت کا لازم جزو قرار دیا گیا ہے۔ بعض کے مطابق محبت کسی کے احترام اور الفت کا ایک مثبت اور مضبوط جذبہ (a      strong          positive          emotion           of            regard          and affection) ہے۔ اس تعریف کے مطابق احترام (respect) کو محبت کا لازم جزو قرار دیا گیا ہے۔ کیمبرج ڈکشنری کے مطابق محبت سے مراد کسی دوسرے کو ایسے پسند کرنا ہے کہ جس میں رومانویت اور جنسیت بیک وقت موجود ہو (the          feeling           of          liking         very            much         and             being romantically            and          sexually          attracted        to)۔ اس تعریف کے مطابق رومانس اور جنس محبت کے لازمی اجزا ہیں۔ بعض کے نزدیک کسی دوسرے کی خوشی سے خوش ہونا محبت ہے۔ اس تعریف کے مطابق محبت کا معنی اپنے محبوب کو خوش کرنا اور رکھنا ہے۔ اور بعض کے نزدیک غیر مشروط بے غرضی (unconditional          selflessness) محبت کہلاتی ہے۔ اس تعریف کے مطابق عاشق کا کام محبوب کو تعلق دینا ہے اور دیتے چلے جانا ہے اور وہ بھی بغیر کسی شرط کے۔ یعنی محبوب کی طرف سے اس کو تعلق نہ بھی ملے تو بھی یہ دیتا رہے تو یہ محبت ہے۔

یہ سب تعریفات ہی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں کہ لوگوں کے ذاتی تجربات ہیں اور محبت کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ لیکن محبت کی کوئی جامع مانع تعریف ہونی چاہیے اور شاید وہ ممکن نہیں ہے کہ محبت محبت میں فرق ہوتا ہے۔ کھانے سے محبت (food        love) کا معنی بالکل اور ہو گا جبکہ شریک حیات سے محبت (partner         love) کا معنی اور ہو گا۔ یونانی فلسفیوں نے محبت کی چھ قسمیں بیان کی ہیں؛ خاندان کی محبت (family         Love)، دوستوں کی محبت (friendly        love)، افلاطونی محبت (Platonic       love)، خود کی محبت (love of self)، مہمان کی محبت (guest         love)، خدائی محبت (unconditional         love) اور رومانوی محبت (romantic        love)۔ ان پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے۔ یہ بات درست ہے کہ محبت اور محبت کے فرق کی وجہ سے اس کے تقاضوں میں بھی فرق ہو گا اور اسی سبب سے اس کی تعریف میں بھی اختلاف ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر کسی مخالف جنس (opposite         gender) سے رومانوی محبت میں قربت (intimacy) کی خواہش ایک فطری عمل ہو گا لیکن پالتو کی محبت (pet        love) میں یہ غیر فطری ہو جائے گا۔ اگرچہ جن کا محبت کا تصور مسخ ہو جائے تو وہ اپنے پالتو (pet)سے بھی ازدواجی تعلق (marital        relationship) قائم کر سکتے ہیں لیکن عام انسانوں کا تجربہ اس حوالے سے بالکل مختلف رہا ہے۔

چلیں، ہم یونانیوں سے شروع کرتے ہیں۔ سقراط جو کہ افلاطون کے استاذ تھے، کا محبت کے بارےکہنا تھا کہ وہ ایک لفظ جو آپ کو زندگی کے ہر قسم کے درد اور بوجھ (pain         and           burden        of        life) سے آزاد کروا دیتا ہے، محبت ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ محبت پاگل پن (madness) کا نام ہے اور یہ پاگل پن جنت کی نعمتوں سے بھی بڑھیا چیز ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ محبت ایک ابدی چیز (immortal) ہے۔ سقراط نے محبت کی سیڑھی (ladder         of             love) کا تصور پیش کیا کہ جس کے پانچ درجات ہیں۔

سقراط کے مطابق خوبصورت کی محبت میں پہلا درجہ ظاہری خوبصورتی (physical        beauty) کا ہےکہ جس کی بنیاد جنسی خواہش (sexual desire)ہے۔ یہ محبت کا پہلا درجہ کہلاتا ہے اور اکثر لوگ یہاں ہی اٹک (stuck) جاتے ہیں۔ اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ جیسے کوئی لڑکی بہت خوبصورت لگی تو اب اس سے قربت (intimacy)کا دل کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کے لیے محبت میں گرنا (fall       in        love) یا کرش (crush) کر جانا جیسی اصطلاحات عام ہیں۔ تو یہ اس لڑکی کے ظاہری وجود اور نظر آنے والی خوبصورتی سے محبت ہے۔

کچھ لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں اور محبوب کی ظاہری خوبصورتی کی بجائے اس کے باطن کی خوبصورتی (beauty        of         the          soul) کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جیسا کہ محبوب کی روح، اس کی نیکی، اخلاق اور رویوں وغیرہ سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ ظاہری محبت کو مزید ایک گہرا معنی دے دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کو کسی کے اخلاق، کردار اور صفات سے محبت کرنا کہتے ہیں جیسا کہ طلبا میں اپنے کسی استاذ کی محبت یا مریدوں میں اپنے کسی شیخ کی محبت ہوتی ہے۔ ذہین کی ذہانت، سخی کی سخاوت، بہادر کی بہادری، محنتی کی محنت، عادل کے عدل، منصف کے انصاف، با حیا کے حیا، متقی کے تقوی، نیک کی نیکی اور عالم کے علم وغیرہ سے محبت اسی قبیل سے ہے۔

کچھ لوگ اس درجے سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور وہ ایسے اعمال اور قوانین کی خوبصورتی سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو اس فرد کی باطنی خوبصورتی یعنی اس کے اخلاق، کردار اور نیکی کے پیچھے ہوتے ہیں۔ یہ خود اخلاق اور نیکی کی محبت ہے یعنی انسان اخلاقی قوانین واعمال کی خوبصورتی (beauty        of           actions          and           laws) سے محبت کرنا شروع کر دے۔ یہاں پہنچ کر ایک شخص کو ہر قسم کے اخلاق حسنہ سے محبت ہو جاتی ہے، بھلے وہ کسی میں بھی ہوں، وہ اس کا محبوب ہو گا کہ اب اس کا محبوب مجرد اخلاق حسنہ ہیں نہ کہ ایک فرد میں موجود اخلاق حسنہ۔ یہاں پہنچ کر سخاوت، ایثار، حیا، عدل، انصاف، تقوی، نیکی، ذہانت، محنت وغیرہ اس کا محبوب بن جاتا ہے۔

کچھ لوگ اس درجے سے بھی سے آگے بڑھتے ہیں اور اب وہ اس علم کی خوبصورتی (beauty         of            knowledge) سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ان اخلاقی قوانین اور اعمال کا مصدر (origin) ہوتا ہے۔ اس کو وہ حکمت کی خوبصورتی (beauty        of           wisdom) بھی کہتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایک شخص کو اس علم اور حکمت سے محبت ہو جاتی ہے کہ جس سے وہ اخلاق حسنہ اور اعلی صفات پیدا ہو رہے ہوتے ہیں کہ جن سے وہ محبت رکھتا ہے۔ یہاں پہنچ کر اس کا محبوب وہ علم بن جاتا ہے کہ جو اخلاق حسنہ مثلا سخاوت، ایثار، حیا، تقوی، نیکی، عدل، انصاف وغیرہ کی تعلیم دیتا ہے۔

کچھ لوگ اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور خوبصورتی کی ایک ایسی صورت (The       form         of         beauty) سے محبت پیدا کر لیتے ہیں کہ جو ابدی، غیر متغیر اور کامل (eternal, immutable         and           perfect) ہوتی ہے۔ سقراط کے نزدیک یہ اصل میں خوبصورت کی محبت ہے اور جن میں یہ پائی جاتی ہے تو ان کو سقراط حکمت کا شیدائی (lover        of         wisdom) بھی کہتا ہے۔ یہ اس علم کی صورت یعنی فارم سے محبت ہے جو اس کے ظاہری وجود سے زیادہ کامل ہے۔ سقراط اس تھیورائزیشن کے ذریعے آپ کو ظاہری خوبصورتی سے تجریدی خوبصورتی (highest          and         abstract          form          of           beauty) کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تک پہنچتا کون ہے؟ اور یہاں تک پہنچنے کے بعد خوبصورتی اور محبت کا ایسا ماورائی تصور کس کو ہضم ہو گا کہ جس سے ظاہری خوبصورتی کو مائنس کر دیا گیا ہو۔ عام انسانوں کی محبت کا تجربہ عقلی اور شعوری محبت نہیں ہوتا بلکہ حسی یعنی حواس خمسہ پر قائم اور جذباتی (emotional attachment             based          on           five           senses) ہوتا ہے۔ سقراط کا ایک قول یہ بھی ملتا ہے کہ اگر تمہیں اچھی بیوی مل جائے تو تمہیں خوشی (happiness) مل جائے گی لیکن اگر تمہیں ایک بری بیوی مل گئی تو تم ایک فلسفی بن جاؤ گے۔ غالباً اس کا کہنا یہ تھا کہ جس نے ایسی ظاہری خوبصورتی (physical         beauty) کو پا لیا کہ جس میں باطنی خوبصورتی (beauty        of         the           soul) نہ تھی تو وہ خوش تو ہو جائے گا لیکن وہیں اٹک (stuck) جائے گا اور حقیقی خوبصورتی (eternal, immutable              and           perfect                beauty) تک نہ پہنچ پائے گا۔ ویسے سقراط کا اپنا کیس بھی یہی تھا کہ تذکرہ نگاروں کے بقول اس کی بیوی کے اخلاق بہت برے تھے لیکن سقراط اس کے مقابلے میں بہت تحمل کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ سقراط کو اس کے ذاتی مسائل اور ان کے حل کے شوق نے محبت کے اس نظریے تک پہنچایا ہو کہ انسان کا معاملہ یہی ہے کہ جن حالات سے وہ دو چار ہوتا ہے، ان سے نکلنے کے لیے کوئی نہ کوئی نظریہ بنا لیتا ہے۔

سقراط پر اس حوالے سے تنقید موجود ہے کہ اس نے محبت کے جذبے کو ایک عقلی بحث بنانے کی کوشش کی ہے جو کہ انسانوں کے عام تجربات سے بہت مختلف ہے۔ سقراط نے محبت کے جذبے کو حکمت کی تلاش (pursuit of wisdom) کے ساتھ جوڑ دیا ہے حالانکہ یہ خوشی کی تلاش (pursuit       of          happiness) تھی۔ البتہ اسلامی تناظر میں سقراط کی محبت کی سیڑھی کے نقطہ نظر کو استعمال کر کے اس کے نتائج تک پہنچا جا سکتا ہے۔ سقراط جس حقیقی خوبصورتی (eternal, immutable             and         perfect            beauty) کی بات کرتا ہے، وہ سب جنت کی نعمتوں کی صورت میں اسلامی بیانیے (islamic         narrative) میں موجود ہے۔ روایات کے مطابق جنت کی نعمتوں کو ایک تو زوال نہیں ہے اور دوسرا کمال ہی کمال ہے یعنی جنت کے حسن میں ایک تو زوال نہ ہو گا اور دوسرا وقت کے ساتھ اس حسن میں اضافہ ہوتا ہی چلا جائے گا، وہ ایک جگہ ٹھہرا نہیں رہے گا۔

اب اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ شادی کرتے وقت ظاہری خوبصورتی (physical           beauty) کو دیکھنا فطری بات ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ شادی کسی عورت کے حسن وجمال، حسب نسب اور مال ودولت کی وجہ سے بھی کی جاتی ہے لیکن حدیث میں یہ بھی ہے کہ شادی کرتے وقت دین اور اخلاق کو ترجیح دو اور کامیاب ہو جاؤ۔ سقراط کے الفاظ میں اپنے لائف پارٹنر کے انتخاب میں ظاہری خوبصورتی کے ساتھ باطن کی خوبصورتی (beauty of       the          soul) کو نہ صرف دیکھو بلکہ اس خوبصورتی کو تلاش کر کے اس تک پہنچو۔ ایک صحیح حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ عزوجل تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہاری نیتوں اور اخلاق کو دیکھتا ہے۔ تو محبوب کے باطن کی خوبصورتی کو دیکھنا دین میں مطلوب امر ہے۔

پھر آگے بڑھتے ہوئے ان اخلاق حسنہ سے محبت کرنا سیکھ جاؤ کہ جن کے سبب سے تمہیں کوئی محبوب ہے۔ اور ہمارے دین میں اخلاق حسنہ اور نیک اعمال کی محبت مقصود بھی ہے اور اس کی رغبت بھی دلائی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کے اخلاق سے بھی محبت ہو جائے جو کہ قرآن کا بیان ہیں۔ اخلاق حسنہ سے جب محبت پیدا ہو جائے گی تو جس میں بھی وہ اخلاق ہوں گے، اس سے لازماً محبت پیدا ہو گی۔ اب اگر ڈھلتی عمر کے ساتھ آپ کے لائف پارٹنر کی ظاہری خوبصورتی جاتی بھی رہے گی تو بھی محبت باقی رہے گی کہ اب اس محبت کی بنیاد اس کے وہ اخلاق، رویے، قربانی اور ایثار ہے جو اس نے اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے کیا ہے ۔یہ وہی بات ہے کہ جسے قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اپنے لائف پارٹنر میں کوئی چیز بری لگے اور اللہ عزوجل نے اس میں بہت خیر رکھ چھوڑا ہو۔ اس خیر کی طرف نظر پھیرو گے تو اپنے لائف پارٹنر کو پسند کرنا شروع کر دو گے۔انسان میں اچھے اخلاق، عمدہ صفات، نیکی اور تقوی کی محبت کا پیدا ہو جانا ممکن ہے۔

اس کے بعد اس علم سے محبت پیدا کر لو کہ جو ان اخلاق حسنہ اور نیک اعمال کی بنیاد ہے اور مذہبی بیانیے میں وہ وحی کا علم (revealed               knowledge) ہے یعنی کتاب وسنت کا علم۔ یہاں سے اخلاق حسنہ کے مصدر اور ماخذ یعنی وحی کے علم سے محبت پیدا ہو گی یعنی کتاب وسنت سے محبت پیدا ہو گی۔ اب لائف پارٹنر سے باہمی اختلاف کی صورت میں وہ کتاب وسنت کی طرف رجوع کرے گا اور اسے حکم (judge) مانے گا۔

ماڈرن سائیکالوجی یہی کہہ رہی ہے کہ ظاہر کی محبت (physical          love) سال سے ڈیڑھ سال باقی رہتی ہے کہ جسے پر جوش محبت (passionate         love) کا نام دیا جاتا ہے اور یہ محبت از خود چلتی ہے کہ اسے کسی قوت محرکہ (driving          force) کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ اپنے آپ میں خود ایک قوت محرکہ ہے۔ یہ وہی محبت ہے جو کرب اور غم (anguish) بھی پیدا کرتی ہے اس پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے۔ اس مرحلے کے بعد یا تو محبت ختم ہو جاتی ہے اور اگر میچور ہو چکی ہو تو وہ رفیق محبت (companionate            love) میں بدل جاتی ہے۔ اور رفیق محبت (companionate         love) کو چلانے کے لیے یہاں تک پہنچنا بہت ضروری ہے یعنی کتاب وسنت کی محبت تک کہ وہ اس کے تابع ہو چکی ہو تو لمبا عرصہ چل جائے گی بلکہ زندگی بھر چلے گی۔ سورۃ البقرۃ میں قرآن مجید جہاں عائلی قوانین (family        laws) کی بات کرتا ہے، وہاں تقوی کا حکم بار بار جاری کرتا ہے کہ اگر اللہ کا ڈر اور خوف دلوں میں ہو گا تو لائف پارٹنرز ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں گے اور انہی حقوق کی ادائیگی کے سبب ایک تعلق قائم رہے گا اور بنا رہے گا۔

اور محبت کی سیڑھی (ladder       of           love) کے آخری درجے میں حسن اور خوبصورتی کی کامل صورت سے محبت پیدا کر لو اور وہ جنت اور اس کی نعمتوں کا حسن ہی ہو سکتا ہے جو کہ فزیکل ہوں گی۔ قرآن مجید میں اکثر ایسے مقامات ہیں کہ جہاں مردوں کو یہ ترغیب دی گئی ہے کہ اپنے بیوی بچوں کی ایسی تربیت کریں یا ایسے اعمال کریں یا ایسی دعا کریں کہ اللہ عزوجل انہیں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جنت میں جمع کر دے۔ اس طرح ظاہری خوبصورتی (physical          beauty) سے شروع ہونے والا محبت کا ایک تعلق جنت کے ساتھی کی صورت میں اپنی انتہا کو پہنچ کو امر (immortal) ہو جائے گا۔ کہیں فرمایا کہ اپنے بیوی بچوں کو ایسا ماحول فراہم کرو کہ وہ جہنم کی آگے سے بچ جائیں۔ اور کہیں فرمایا کہ ایسی دعا کرو کہ اللہ عزوجل ہمارے لائف پارٹنرز اور اولادوں کو جنت میں ہمارے ساتھ جمع کر دے۔ یہ سب دنیاوی محبتوں کو کمال تک پہنچانے کی صورتیں ہی ہیں۔ تو سقراط کی محبت کی سیڑھی (ladder of        love) جنت میں پہنچ کر اپنے کمال کو پا لیتی ہے۔ اسلامی بیانیے میں ظاہر کی محبت (physical        love) سے آپ شروع ہوتے ہیں اور اسی پر کمال حاصل کرتے ہیں نہ کہ سقراط کی طرح تجرید (abstraction) کی طرف چلے جاتے ہیں۔

اسلامی بیانیے کے تناظر میں سقراط کی تجریدی خوبصورتی کی محبت (love         for           the               abstract          beauty) کو ہم ایک اور طرح سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ظاہر کی محبت (physical           love) کو اگر ہم خدا کی محبت کی طرف پھیر دیں تو یہ کمال کی صورت سے محبت (love          for         the           form         of         beauty) ہی کہلائے گا۔ اور یہ مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ حضرات صوفیا کے ہاں اسے عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کے سفر کا نام دیا جاتا ہے۔ ہماری شریعت میں ازالہ نہیں بلکہ امالہ ہے یعنی محبت اگر پیدا ہو جائے تو اس کو ختم کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کا رخ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک جگہ محبت کے جذبے کو دبائیں گے تو یہ دوسری جگہ ابھر آئے گا لہذا کسی نا محرم سے محبت کے احساس کو بیوی سے محبت کی طرف پھیر دیں۔ ایک روایت کے مطابق اگر تمہیں کوئی عورت اچھی لگے تو اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارو تو اس سے اس عورت کا خیال جاتا رہے گا۔ اور اگر بیوی ہی نہ ہو تو اسی کو بیوی بنا لے کہ جو بھلی اور اچھی لگی ہو اور اس محبت کو امر کر لے۔ یہ تو عام انسانوں کے لیے حل ہے اور بہترین حل ہے۔ رہے خواص تو وہ کسی انسان کی محبت کے جذبے کو اللہ کی محبت کے جذبے میں ڈھال سکتے ہیں لیکن یہ آسان کام نہیں ہے، بہت مشکل ہے۔ بہت رونا دھونا مانگتا ہے اور وہ بھی اللہ کے سامنے .

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں