ڈاکٹر محمد رحمان
مائکرو ایولوشن کے عمل کا مشاہدہ چونکہ براہ راست کیا جا سکتا ہے اس لیے ارتقا پسند اور ارتقا مخالف تقریبا تمام طبقات مائکرو ایولوشن کو ٹھیک مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ارتقا پسند طبقہ مائکرو ایولوشن کے شواہد کو میکروایولوشن کے شواہد کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ سوال کرتا نظر آتا ہے کہ اگر آپ مائکرو ایولوشن کو ٹھیک مانتے ہیں تو میکروایولوشن کو ٹھیک کیوں نہیں مانتے۔ سوشل میڈیا اور پاپولر سائنس میں ارتقا پسند طبقہ بہت شدت سے یہ تاثر قائم کرتا نظرآتا ہے کہ مائکرو ایولوشن ہی میکرو ایولوشن کا باعث ہے۔
پچھلے دونوں سوشل میڈیا پر موجود بہت قابل احترام شخصیت نے اس مسلے کو ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ
مائیکروو ایولوشن کو ماننا اور “مے کروو ایوولوشن” کا انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے کہ آپ دس قدم تو چل سکتے ہیں لیکن دس ہزار قدم نہیں چل سکتے۔
اس مثال کو ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میں یہ سمجھ نہیں پایا کہ یہ مثال میکرو ایولوشن کے حق میں کیونکر جاتی ہے کیونکہ اردگر نظر ڈورانے پر کئی ایسے احباب نظر آتے ہیں جو دس قدم تو بڑی آسانی سے چل لیتے ہیں لیکن انکے لیے دس ہزار قدم تو کجا ہزار قدم لگاتار چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس ضمن میں مائیکل بیہی بھی ایک مثال دیتے ہیں کہ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ بغیر کسی آلے کےتین فٹ تک اونچا جمپ لگاسکتا ہے تو اس کے اس دعوے کو ٹھیک ماننے میں آپ کو ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔ اگر وہ یہ دعوی کرے کہ وہ تین کی بجائے چھ فٹ اونچا جمپ لگا سکتا ہے تو بھی شاید یہ سوچ کر اس دعوے کو ٹھیک مان لیں کہ یہ کوئی پیشہ ور اتھلیٹ ہو گا جس نے کڑی محنت سے اتنا سٹمنا ڈویلپ کر لیا ہے کہ وہ چھ فٹ تک جمپ لگا سکے لیکن اگر وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ بغیر کسی آلے کے سو فٹ تک اونچا جمپ لگا سکتا ہے تو آپ اسکی بات پر یقین نہیں کریں گے۔
ہمارے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ ہم ثابت کر سکیں کہ دونوں میں سے کونسی مثال مائیکرو ایولوشن اور میکروایولوشن کے مذکورہ قضیے کے لیے زیادہ موزورں ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ مائکرو ایولوشن، میکرو ایولوشن کا باعث ہے یا نہیں اور اس سوال کا جواب دینے کے لیے اس شعبے کے ماہرین سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔آئیں دیکھتے ہیں کہ اس سوال کے بارے میں اس شعبے کے ماہرین اور مستند ری سرچ کیا کہتی ہے؟
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے حیاتیاتی ارتقا پر تحقیق کرنے والے ایک ری سرچر ڈیوڈ ریزنک اور یونیورسٹی آف میسوری کے سائنسدان رابرٹ ریکلفز نے ڈارون کے دو سو سالہ یوم پیدائش کی خوشی میں نیچرجریدے [1]میں اس موضوع پر خاطر خواہ روشنی ڈالی۔ وہ لکھتے ہیں کہ
Most evolutionary biologists think that Darwin explained macroevolution simply as microevolution writ large. In fact, Darwin had rather more to say about the relationship between microevolution and macroevolution and invoked additional principles to define it
میرا نہیں خیال کہ انکے اس جملے کے بعد اس بات میں کوئی شک باقی بچتا ہے کہ اس نظریے کا موجد خود مائکرو ارتقا اور میکرو ارتقا کو الگ الگ تصور کرتا تھا لیکن مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ اگر میں نے اس موضوع کو یہیں پر سمیٹ دیا تو سب سے پہلا رد عمل یہ آئے گا کہ ڈارون کو گزرے تقریبا ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران یہ شعبہ بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ اس ردعمل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس موضوع کو آگے بڑھانا ضروری ہے۔ اوپر مذکورہ نیچر جریدے کے پیپر میں ریزنک اور ریکلفز لکھتے ہیں کہ
The keys to Darwin’s thinking about macroevolution are the ‘principle of divergence’ and extinction. In this Review, we consider how these principles have fared since the publication of On the Origin of Species, and we discuss whether Darwin’s concept of the relationship between microevolution and macroevolution can provide useful insight today
یعنی اس ریویو پیپر میں انکا مین مدعا یہ ہے کہ مائکرو ایولوشن اور میکروایولوشن کو آپس میں لنک کرنے کے لیے ڈارون نے جس “پرنسپل آف ڈائورجنس” اور ایکسٹنشن کا سہارا لیا تھا انکی موجودہ حیثیت پر روشنی ڈالی جا سکے۔ اس پیپر کے تعارفی سیکشن کا اختتام وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ
This relationship continues to generate controversy both within the biological sciences and in the confrontation between science and religion
اوپر والی گفتگو سے یہ چیز روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے کہ مائکرو ایولوشن اور میکروایولوشن کو آپس میں منسلک کرنے کے لیے نہ صرف نئے میکیزم کی ضرورت ہے بلکہ یہ بات بائیولوجیکل سائنسز میں ابھی تک بحث طلب ہے کہ اس عمل کے لیے کونسا میکنزم ٹھیک ہے ۔
چونکہ اس پیپر میں انکا مین مدعا پرنسپل آف ڈائورجنس اور ایکسٹنشن کی موجودہ صورتحال واضح کرنا تھا اس لیے پیپر کے اختتامی سیکشن میں وہ لکھتے ہیں کہ
There is compelling evidence, however, of a role for biotic interactions in at least some extinction events, and a complementary relationship between divergence and extinction finds enough support for Darwin’s proposal to merit further consideration as a viable link between microevolution and macroevolution
اوپر ذکر کئے گئے پیپر میں ایک اور بہت اہم پہلو پر گفتگو کی گئی ہے کہ
Macroevolution posed a problem to Darwin because his principle of descent with modification predicts gradual transitions between small scale adaptive changes in populations and these larger-scale phenomena, yet there is little evidence for such transitions in nature. Instead, the natural world is often characterized by gaps, or discontinuities. One type of gap relates to the existence of “organs of extreme perfection”, such as the eye, or morphological innovations, such as wings, both of which are found fully formed in present-day organisms without leaving evidence of how they evolved. Another category is that species and higher ranks in the taxonomic hierarchy are often separated by gaps without evidence of a transition between them
یہاں پر بھی عام تاثر “کہ فوسل ریکارڈ نیو ڈاروینئن ایولوشن کو سپورٹ کرتا ہے” کے برعکس ارتقائی سائنسدانوں کو یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ قدرت میں فوسل ریکارڈ میں گیپس موجود ہیں اور ایک خاندان کی سطح پر نوع سے دوسرے خاندان کی نوع میں تبدیلی کے بہت کم شواہد ہیں۔ وین سٹیٹ یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کے دو سائنسدان ( Radomir Crkvenjakoy and Henry H. Heng) پراگرس آف بائیو فزکس اینڈ مولیکولر بیالوجی [2]میں شائع ہونے والے اپنے پیپر میں اسی بات کو زیادہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں
Recent estimates suggest the pattern of morphological change during a species’ lifespan in the record is that over half of all fossil species experience stasis (no change after their abrupt appearance in the record), one third follow a random walk pattern of change, while less than one-fifth exhibit the true MS pattern of gradual change (Hunt et al., 2015, Jablonski, 2017). Furthermore, based on the pattern of the sudden appearance of individual higher taxa in the record, it seems that the majority of the species which are progenitors of these long-living mono- phyletic species lineages follow a punctuated mode of evolution
فوسل ریکارڈ کا یہ ٹھہراو ہمارے موضوع کے لیے کس طرح اہم ہے اسکا اندازہ آپ کو انکی لکھی گئی اگلی سطور سے بخوبی ہو جائے گا کہ
Both stasis and random walk mode on the scale of millions of years during a species’ duration preclude microevolutionary change having the ability to constantly surface in and extrapolate to the macroevolutionary pattern
اوپر والی سطور جو کہ خود ارتقائی سائنسدانوں کے الفاظ ہیں واضح الفاظ میں بتا رہے ہیں کہ مائکرو ایولوشن کے ذریعے میکرو ایولوشن کی وضاحت نہیں کی جا سکتی ۔ اسکے بعد وہ لکھتے ہیں کہ
The MS (modern synthesis ) has not faced up to this fact and to the problem of what causes the stasis. MS proponents agree that stasis is due to stabilizing selection but have advanced unconvincing explanations for various external selective factors, mainly climactic (Eldredge et al., 2005), since these factors do not exhibit the required stability necessary for acting on the majority of species in the record
ڈگلس ارون ( Douglas H. Erwin) کنٹیمپریری ڈیبیٹس ان فلاسفی آف بیالوجی[3] (contemporary debates in philosophy of biology)نامی کتاب کے دسویں باب کے مصنف ہیں ۔ اس باب کا عنوان ہماری اس گفتگو کو مکمل طور پر سمیٹ دیتا ہے کہ
Microevolution and macroevolution is not governed by the same processes
اس باب میں وہ اس موضوع پر بہت تفصیلی گفتگو کرتے ہیں اور باب کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ
Finally, the origin of morphological novelties documented by the fossil record indicates a disjunction between the processes responsible for the origin of “higher taxa” and those responsible for most genera and families (suggesting that different processes exist even within macroevolution). I have also suggested that our traditional views of both microevolution and macroevolution have been hampered by an unduly uniformitarian view of the evolutionary processes. At least some of the most emergent phenomena in the history of life appear to have changed the processes of evolution by changing the nature of what selection can act upon, by constructing new and more complex evolutionary entities, and by subsuming previously independent entities to manage conflict
اب جب یہ واضح ہو چکا کہ مائکرو ایولوشن اور میکرو ایولوشن دو الگ الگ تصورات ہیں اور انکو آپس میں منسلک کرنے کا سوال ابھی تک حل طلب ہے جس میں سائنس دانوں کا زیادہ جھکاؤ اسی طرف ہے کہ مائکرو ایولوشن میکرو ایولوشن کا باعث نہیں بن سکتی تو اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ مائکرو ایولوشن کے مشاہدات کو میکرو ایولوشن کے ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ڈگلس اس باب میں ارتقائی سائنس دان سمپسن کے بیان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
In a statement that would presage much of the career of Stephen Jay Gould, Simpson (1944) wrote: “Macro-evolution involves the rise and divergence of discontinuous groups, and it is still debatable whether it differs in kind or only in degree from micro-evolution. If the two proved to be basically different, the innumerable studies of micro-evolution would become relatively unimportant and would have minor value in the study of evolution as a whole
حوالہ جات:
[1] NATURE|Vol 457|12 February 2009|doi:10.1038/nature07894 [2] https://doi.org/10.1016/j.pbiomolbio.2021.10.002 [3] https://doi.org/10.1002/9781444314922.part5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد رحمان نے یونیورسٹی آف کانٹیبریا ، سپین سے پارٹیکل فزکس میں پی ایچ ڈی کی ہے اور کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر علمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے