عمران شاہد بھنڈر
متناہی اور لامتناہی کے درمیان تعلق اس حد تک پیچیدہ ہے کہ اس کو سمجھنے میں ارسطو سے کانٹ تک تمام فلسفی کہیں نہ کہیں غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لامتناہیت سے ان کی مراد تجریدی لامتناہیت سے تھی جو کہ غلط ہے، کیونکہ تجریدی لامتناہیت بھی اپنی سرشت میں متناہی ہوتا ہے۔ فلسفیوں کی تقلید میں متکلمین اس غلطی کا شدت سے شکار ہوئے ہیں کہ آج تک متکلمین کے پیروکار اس غلطی سے باہر نہیں نکل سکے۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ خدا زمان و مکاں سے ماورا ہے، اس لیے لامتناہی ہے۔ اس میں ایک سادہ سی غلطی ہے جس کو یہ لوگ دیکھ نہیں پاتے کہ اگر کوئی خدا زمان و مکاں سے ماورا ہے تو وہ لامتناہی نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی سرشت میں متناہی ہی ہوتا ہے۔ حتمی دوئی یا ثنویت میں خدا کی لامتناہیت منطقی طور پر قائم نہیں رہتی۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کا ابطال جرمن فلسفی ہیگل نے انتہائی اعلیٰ دلائل کے ساتھ پیش ہے۔ اس نکتے کو محمد اقبال سمجھ چکا تھا۔ اس لیے اقبال لکھتا ہے:
”چنانچہ یہ رہنمائی اور ہدایت کارانہ غلبے کا عنصر یہ ظاہر کرتا ہے خودی کی آزاد ذاتی فعلیت ہے۔ وہ اپنی حیات اور آزادی میں مطلق خودی کے ساتھ حصے دار ہے، مگر مطلق خودی نے متناہی خودی کو ابھار کر اور اسے اپنے طور پر فیصلہ کر سکنے والا بنا کر خود اپنی آزادی اور آزادانہ رائے کو محدود کر لیا ہے۔“ نئی تشکیل، چوتھا لیکچر، 135
اس اہم اقتباس کے مذہبی حصے سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ جب فعال متناہی خودی موجود ہوتی ہے تو لامتناہی خودی بھی اپنی فعلیت میں محدود ہو جاتی ہے۔ یعنی لامتناہی کے سامنے جب متناہی موجود ہو تو لامتناہی بھی متناہی ہوتا ہے۔ مزید اس کی وضاحت یہ ہے کہ لامتناہی، متناہی سے ماورا رہے تو وہ پھر بھی محدود ہوتی ہے۔ جب متناہی موجود ہو تو اس سے ماورا ہونا اس کا متناہی ہونا ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ متناہی کی موجودگی میں لامتناہی کو لامتناہی کہا جا سکے۔ کائنات کے حوالے سے اس کی وضاحت یوں ہے کہ اگر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کائنات موجود نہیں ہے، تو جو لامتناہی موجود ہو گا وہ تجریدی ہو گا۔ جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ تجریدی شناخت، حقیقت میں، کوئی شناخت نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں فرق، تضاد وغیرہ جیسے منطقی مقولات موجود نہیں ہوتے۔ تاہم جونہی متناہی (کائنات) کا ابھار ہوتا ہے وہ تجریدی لامتناہیت (خدا) بھی محدود ہو جاتی ہے۔ منطقی نقطہ نظر سے فرق اور تضاد جیسے مقولات کا استخراج ممکن ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ متناہی (کائنات) کی موجودگی میں اس سے ماورا کوئی لامتناہی موجود ہے تو وہ ایک شدید قسم کے منطقی مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہیگل نے اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے:
The infinity is the wrong or negative infinity, it is only a negation of a finite: but the finite rises again the same as ever. SL, Section, 94
اقبال نے ہیگل کے تصورِ لامتناہیت کو باتمام و کمال قبول کر لیا ہے۔ اقبال لکھتا ہے:
The argument really tries to reach the infinite by merely negating the infinite۔ But the infinite reached by contradicting the finite is a false infinite. Reconstruction, Second lecture,P, 33
س کا آسان الفاظ میں مفہوم یہ ہے کہ وہ لامتناہی جو متناہی کی نفی سے حاصل ہو وہ باطل لامتناہی ہو گی۔ مزید اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ لامتناہی (خدا) نے متناہی (کائنات) کی نفی کر دی ہے تو یہ اس کی اپنی نفی متصور ہوتی ہے اور وہ باطل لامتناہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ متناہی دوبارہ ظاہر ہوتا ہے۔ جب تک متناہی کا متناہی میں انجذاب نہ ہو، حقیقی لامتناہی ممکن نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ لامتناہی نے متناہی کی نفی کر دی ہے تو لامتناہی بھی عدم میں چلا جاتا ہے۔ اگر متناہی دوبارہ پیدا ہوتا ہے تو صورت حال پھر وہیں کی وہیں موجود ہو گی۔ اقبال اس کی مزید وضاحت یوں کرتا ہے:
The true infinite does not exclude the finite; it embraces the finite without effacing its finitude, and explain and justifies its being. Reconstruction, Second Lecture, P, 34
اب یہاں ہیگل کے الفاظ دیکھیے:
The real infinite, far from being a mere transcendence of the finite, always absorption of the finite into its own fuller nature. SL, Section, 45
میں جس نکتے کا آغاز میں ذکر کر چکا ہوں وہی یہاں اقبال نے ہیگل کی تقلید میں جوں کا توں پیش کر دیا ہے کہ جو لامتناہی، متناہی کی نفی سے حاصل ہو وہ اپنی تشریح بھی نہیں کر سکتا۔ لامتناہی کو اپنی وضاحت کے لیے متناہی کی ضرورت ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ جس کے بارے میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ متناہی (کائنات) بطور واجب الوجود اپنے وجود کی تصدیق کراتی ہے۔ ان معنوں میں متناہی کا واجب الوجود ہونا حقیقی ہوتا ہے۔ لہذا ہمارے لیے متناہی (کائنات) اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ لامتناہی (تصورِ خدا)۔ ان معنوں میں کہ جب لامتناہی اور متناہی ایک دوسرے میں شامل ہوں تو لامتناہی، متناہی ہوتا ہے اور متناہی، لامتناہی کی سطح پر موجود ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں ہی ایک دوسرے کے بغیر ’عدم‘ ہیں۔ لہذا حقیقی لامتناہی وہ ہے جس میں متناہی موجود ہو، جو کلیت کو محیط ہو۔ واضح رہے کہ منطق یہاں پہنچ کر ٹھہر جاتی ہے، یعنی منطق کے ذریعے اور منطق کے لیے منطقی منہج میں آگے بڑھ کر غیر منطقی نتائج نکالنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس سے آگے صرف غیر منطقی طریقے سے ہی جایا جا سکتا ہے کہ جہاں عقیدے پر مبنی مفروضات کا انبار لگا دیا جائے کہ جن کی کوئی منطقی تصدیق ممکن نہ ہو سکے۔ یہی فلسفی اور متکلم میں فرق ہے کہ فلسفی اول تا آخر تمام منطقی تقاضے پورے کرتا ہے، لیکن متکلم ایک خاص حد تک منطقی ہوتا ہے، پھر اچانک چھلانگ لگا کر عقیدے کی اس دنیا میں داخل ہو جاتا ہے کہ جس کے بارے میں وہ صرف عقیدہ رکھتا ہے، لیکن اس کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے