فرسودہ رسوم و رواج اور اسلام
معاشرتی تناظر میں مردوں اور عورتوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر کے ان کے حقوق و فرائض کی جدا جدا فہرست تیار کرنا ایک انسانی وجود کو الگ الگ حصوں میں بانٹنے کے مترادف ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں مل کر ایک مکمل انسانی وجود کے پیکر میں متشکل ہوتے ہیں اور ان کی ایک دوسرے سے وابستگی اور تعاون ہی معاشرتی وجود، ارتقا، امن، سکون اور راحت کی ضمانت ہے لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اگر عورت کے حوالے سے ہم تاریخ انسانی کا جائزہ لیں تو پوری تاریخ عورت کی مظلومیت کی داستانِ خوں چکاں ہے۔ عورت یونان میں ہو یا روم میں، عرب میں ہو یا عجم میں، یورپ میں ہو یا ایشیا میں ہر جگہ ظلم و ستم کا شکار تھی۔
انسانی تاریخ میں پہلی بار اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حیثیت دی بلکہ عزت و احترام میں عورت کو مرد پر فوقیت دی۔ اس کے حقوق کا تعین کیا، اس کے جذبات و احساسات کا احترام کیا، اس کی خدمات اور قربانیوں کو تسلیم کیا اور وہ جسے پیدائش کے فوراً بعد زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔
اسلام دنیا بھر میں بہت تیزی سے پھیلا، ملکوں کے ملک اور قوموں کی قومیں جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہوتی چلی گئیں۔ انہوں نے ایک نئے دین اور نئی تہذیب کی بالا دستی تو تسلیم کر لی لیکن اپنے آپ کو اس دین کے معاشرتی تقاضوں میں ڈھالنے کے لیے نہ تو مناسب تربیت میسر آئی اور نہ اندر سے آمادگی پیدا ہوئی کہ اپنی صدیوں کی روایات اور آباو اجداد سے متوارث ملنے والے توہمات کو کیسے یک بارگی جھٹک کر ایک نئے ماحول اور نئی دنیا میں آباد ہو جائیں۔ بقول اقبال:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
بہت جلد ایسی شعوری کوششیں شروع کی گئیں جن سے یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام یعنی قرآن و سنت بھی عورتوں کو مردوں سے کم تر حیثیت دیتے ہیں۔
ذیل میں ہم پہلے ایسی کوششوں کا مختصراً تذکرہ کریں گے اور اس کے بعد کتاب و سنت کی رو سے عورت کے مقام پر روشنی ڈالیں گے۔
1-تخلیقی تفاوت:
قدیم دور سے یہ مشہور ہے کہ عورت مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس لیے مرد سے کم تر ہے۔ اس سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ حوا، آدم کی پسلی سے پیدا ہوئیں اس کے لیے بائبل کے علاوہ قرآن حکیم کی آیت:
وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا۔
” اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا“۔
اور صحیح بخاری کی حدیث المرأة كالضلع (عورت پسلی کی طرح ہے) سے استدلال کیا جاتا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن حکیم میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ۔ جس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اگر اس سے مراد یہ ہو کہ حوا آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی تو قرآن حکیم میں دوسری جگہ آتا ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا۔
”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہیں میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے۔“
کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ ہر شخص کی بیوی اس کی پسلی سے پیدا کی گئی؟ درحقیقت یہ قدیم ادب میں سے ایک تشبیہ تھی جسے رسول اللہﷺ نے بھی بیان فرمایا کہ عورت لچک میں پسلی کی طرح ہےجیسے پسلی نازک ترین اعضا کے لیے حفاظتی حصار ہے اسی طرح عورت اپنے بچوں کے لیے حفاظتی حصارہے۔ جب کہ قرآن حکیم نے مرد اور عورت دونوں کو تخلیقی اعتبار سے برابر قرار دیتے ہوئےبتایا کہ اللہ نے پہلے ایک جان پیدا کی اور پھر اس سےاس کا جوڑا بنایا اور زندگی کی تخلیق اور ارتقا سے متعلق ہمارے سامنے جوسیل(Cell) تھیوری ہے وہ قرآنی بیان سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔
2- عورت جنت سے نکلنے کا باعث بنی:
بائبل کے بیان کے مطابق آدم اور حوا دونوں جنت میں مزے سے رہ رہے تھے کہ حوا نے آدم کو ورغلا کر وہ درخت چکھنے پر آمادہ کیا جو ان کے جنت سے نکلنے کا باعث بنا۔ قرآن حکیم نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہا:
وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى۔
”اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ راست سے ہٹ گیا۔“
قرآن نے آدم اور حوا کے قصہ میں کہیں بھی حوا کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔
3- شوہر بیوی پر حاکم ہے:
مرد کی عورت پر برتری ثابت کرنے کے لیے قرآن حکیم کی اس آیت سے استدلال کیا گیا:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ۔
”مرد عورتوں پر قوام ہیں۔“
اور قوام کا ترجمہ”حاکم“کیا گیا اور اس کے بعد عورت کو اپنی رعایا میں شامل کر لیا گیا جب کہ عربی زبان کی رو سے قوام اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد ، ادارے یا نظام کے معاملات کو درست طور پر چلانے ، اس کی حفاظت اور نگہبانی کرنے اوراس کی ضروریات مہیا کرنے کا پابند ہو۔ چوں کہ بدنی ساخت کے اعتبار سے مرد مضبوط ہوتا ہےاور اسے ان ذمہ داریوں اور عوارض کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو عورتوں کو ماہواری اور بچوں کی پیدائش کے سلسلے میں اٹھانا پڑتی ہیں اس لیے حفاظت اور ضروریات کی کفالت مرد کی ذمہ داری قرار دی گئی جس کی وجہ سے اسے ایک گونہ برتری حاصل ہو گئی جبکہ قرآن حکیم نے عزت و احترام میں عورت کو مرد پر برتری دیتے ہوئےتوازن قائم کردیا۔ ارشاد ربانی ہے:
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً۔
”جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ نہیں لا سکتے ان کو اسی(80) کوڑے لگائے جائی۔“
عورت کو عزت و آبرو میں برتری دے کر اس پر حرف گیری کرنے والے کی سزا بتائی گئی ہے۔
4- بیوی کو مارنے کی اجازت:
قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا۔
”جن مردوں کو اپنی بیویوں سے نشوز کا اندیشہ ہو وہ انہیں سمجھاہئں بجھائیں، پھر ان کو بستروں میں الگ کر دیں، پھر انہیں ماریں، اگر وہ کہا مان لیں تو ان پر زیادتی کے بہانے نہ تلاش کرو۔“
اس آیت کو جواز بنا کر مردوں نے ذرا ذرا سی بات پر خواتین پر تشدد کا دروازہ کھول دیا اور اپنے ظلم کے جواز کے لیے یہ آیت پیش کرنے لگے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس آیت کا مفہوم کیا ہے۔
ان احکام کا تعلق میاں بیوی کی خالص نجی اور ذاتی زندگی کےاس پہلو سے ہے جس میں ان کے تعلقات سے کسی دوسرے کو آگاہی نہیں ہوتی اس کی وضاحت انہی آیات میں موجود ہے کہ آیت میں مذکور پہلے تین مراحل کا تعلق میاں بیوی کے خاندا نوں کو آگاہ کرنے سے قبل ان کے بیڈ روم کے معاملات سے ہے۔
مذکورہ سزا کا تعلق نشوز کے جرم سے ہے:نشوز کا مطلب ہے اپنےآپ کو برتر اور دوسرے فریق کو حقیر سمجھ کر اس کی تذلیل کرنا اور اسے برا بھلا کہنا اور اس کے ساتھ بدتمیزی کرنا۔ نشوز کے مختلف درجے ہیں۔ نشوز کے جس درجے میں بیوی کو سرزنش کرنا جائز ہے اس کی وضاحت رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زائدصحابہ کرام میں موجودگی میں فرمائی، جس میں آپ کا ارشاد ہے:
”تمھارا اپنی بیویوں پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر پر کسی دوسرے شخص کو نہ بلا لائیں ، جسے تم میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ اگر وہ ایسا کریں تو انہیں سرزنش کرو لیکن خیال رہے کہ اس سے چوٹ آئے نہ زخم لگے۔“
اگر مذکورہ وجہ کی بنا پر بیوی کو سرزنش کرنا پڑے تو اسے اس طرح نہ مارا جائےجس سے اس کے بدن پر چوٹ آئے یا زخم آئے اور سر، چہرے اور نازک اعضا پر نہ مارا جائے۔ در حقیقت اس سے مقصود اسے مارنا نہیں بلکہ اسے جرم کا احساس دلانا ہے۔ یاد رہے کہ بیوی کی سرزنش اسلامی نقطہ نظر سے ہر گز پسندیدہ عمل نہیں ہے تاہم اس ناگوار عمل کے ذریعے ایک گھر ٹوٹنے، ایک خاندان دربدر ہونے اور دو برادریوں میں تلخی پیدا ہونے سے بچا جاسکتا ہو تو اسے کم تر برائی کے طور پر گوارا کیا گیا ہے۔
اگر شوہر بیوی کو ایذا دے، مذکورہ جرم کے علاوہ کسی وجہ سے مارے یا توہین کرے یا نفقہ نہ دے یا شوہر اخلاقی خرابی میں مبتلا ہو تو بیوی کو حق حاصل ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اس سے علیحدہ ہو جائے۔
5- وراثت میں نصف حق:
عورت کے کم تر ہونے پر اس سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ قرآن حکیم نے وراثت میں اس کا حصہ کم رکھا ہے۔
اگر وراثت کی تقسیم اور مرد اور عورت کی معاشی ذمہ داریوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو عورت پر کسی قسم کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے،اپنی نہ کسی دوسرے کی۔اس کے باوجود اسے وراثت میں حصہ دے کر اسے معاشی استحکام اور معاشی خود مختاری دی گئی ہے جبکہ مرد کے ذمے اپنے علاوہ، اپنے بیوی بچوں، والدین اور بعض حالات میں بہن بھائیوں کی کفالت بھی ہوتی ہے اس لیے وراثت کی تقسیم میں حصوں کے حوالے سے عورت کو مرد پر ترجیح دی گئی ہے۔
6-عورت کی آدھی گواہی:
عورت کے عقل اور دین میں کم تر ہونے پر اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ قرآنی حکم نے دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے۔
فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى۔
” اگر گواہی کے لیے دو مرد نہ ہوں تو اپنی پسند کے ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو تا کہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کرا دے۔“
اس آیت کی تشریح میں گواہ بن جانا (اچانک کوئی واقع پیش آئے اور موجود افراد خود بخود گواہ ہو جائیں) اور کسی دستاویز پر گواہ بنانے کو گڈ مڈ کر دیا گیا ہے۔ آیت کا تعلق گواہ بنانے سے ہے، خود بخود گواہ بن جانے سے نہیں ہے۔ اس آیت کا تعلق کسی واقع کے عدالتی ثبوت سے نہیں ہے بلکہ قرض خواہ کے حق کے تحفظ سے ہے، جس کے لیے:
دستاویز تیار کرنا
گواہ بنانا
رہن رکھنا
اور دوسری بہت دی ہدایات دی گئی ہیں ورنہ اس امر پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ لیبر روم میں موجود صرف ایک عورت کی گواہی پرنسب ثابت ہو جاتا ہے۔رسول اللہﷺ نے صرف ایک باندی کے کہنےپر کہ اس نے فلاں مرد اور فلاں عورت کو دودھ پلایا۔ ان دونوں مرد اور عورت میں جو میاں بیوی ہو گئے تھے علیحدگی کروا دی تھی۔
حنفی فقہا نے تقریبا تمام امہات الکتب میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ خواتین کی گواہی مثلاً حدود میں قبول نہ کرنے کی وجہ ان کے علم، عقل یا دین کی کوئی کمی نہیں بلکہ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ انہیں عدالتوں میں نہ گھسیٹا جائے اور تندو تلخ جرح کے سامنے نہ کھڑا کر دیا جائے۔
عورت کو کم تر ثابت کرنے کےلیے اسلام سے جو استدلال کیے گئے تھے ان کا جائزہ لینے کے بعد ہم مختصراً کتاب و سنت کی روشنی میں عورت کی حیثیت اور اس کے مقام کا جائزہ لیں گے۔
1-تخلیق کے اعتبار سے:
قرآن حکیم نے بتایا کہ تخلیق کے اعتبار سے مرد اور عورت دونوں برابر ہیں دونوں کو نفس واحد (ایک جان) سے پیدا کیا گیا ۔
مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے دوست ، خیر خواہ اور غم گسار ہیں۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ۔
”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔“
هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ۔
”تمھاری بیویاں تمھارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔“
انما النساء شقائق الرجال۔
”عورتیں مردوں کا دوسرا پہلو (Other half)ہیں۔“
یعنی مرد اورعورت دونوں مل کر ایک جسم ہیں جس کا ایک پہلو مرد اور دوسرا عورت ہے۔
2-حق ملکیت اورمالی تصرفات:
اسلام نے عورت کو مالکانہ حقوق دئیے اور یہ اسی طرح کے حقوق ہیں جیسے مردوں کے ہیں یعنی روزگار، کمانے کا حق اور اسے اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا حق۔ ارشاد ربانی ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ۔
”مرد جو کماتے ہیں وہ ان کا ہے اور عورتیں جو کماتی ہیں وہ ان کا ہے“۔
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا۔
”والدین اور اقربا کے ترکے میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی، ترکہ خواہ کم ہو یا زیادہ، دونوں کا حصہ مقرر ہے بلکہ نکاح کے موقع پر مردوں پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کو حق مہر دیں جو مرد کی مالی حیثیت کے مطابق ہو۔“
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً۔
”عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دیا کرو۔“
اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو ڈھیروں سونا دیا ہو اور بعد میں طلاق ہو جائے تو مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ بیوی سے وہ مال واپس لے۔
وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا۔
” اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری کرنا چاہو اور تم نے پہلی کو ڈھیروں مال دیا ہو تو اس سے کچھ بھی واپس نہ لو۔“
الغرض قرآن حکیم نےعورت کو مکمل حق ملکیت دیا ہے اور مرد و عورت کے مالکانہ حقوق میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔عورت اپنی ملکیتی اشیا کو استعمال کرنے، فروخت کرنے، ہبہ کرنے یا کسی کوعاریۃً دینے میں مرد کی اجازت یا رضا مندی کی محتاج نہیں۔
3- خود نکاح کرنے کا حق:
قرآن حکیم نے عورت کو حق دیا ہے کہ وہ اپنا نکاح خود کر سکتی ہے ۔ ایسی طلاق یافتہ عورت کے بارے میں جسے شوہر نے تین طلاق دے دی ہوں قرآن میں ہےکہ وہ اپنے پہلے شوہر کے لیے جائز نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے۔
حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ۔
”یہاں تک کہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔“
ایک دوسری آیت میں عورت کے اولیاء (والدین/سرپرست) سے کہا گیا ہے کہ جو عورت کسی مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو تمہیں اختیار نہیں کہ اسے روک دو۔
فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ۔
”عورتوں کو اپنے ہونے والے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔“
سنن ابو داود میں ہے کہ ایک نوجوان کنواری عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور آ کر اس نے شکایت کی کہ اس کے باپ نے اس کی رضا مندی کے بغیر اس کا نکاح اپنے بھتیجے سے کر دیا۔ آپ نے اس کے والد کو بلا بھیجا اور لڑکی کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اپنا نکاح باقی رکھے چاہے فسخ کر دے۔
4- عورت کا حقِ طلاق:
غلطی سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ نکاح کے معاہدے کو ختم کرنے کا اختیار صرف مرد کو ہے اور عورت اس سلسلے میں بے بس ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اگر مرد کسی وجہ سے محسوس کرتا ہے کہ بیوی کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکتاتو وہ دیا ہوا مہر اور دوسرا سازو سامان عورت کو چھوڑ کر گواہوں کی موجودگی میں اسے طلاق دے سکتا ہے اور اگر عورت محسوس کرتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے اس شوہر سے نباہ نہیں کر سکتی تو وہ لیا ہوا حق مہر شوہر کو واپس کر کے قانونی طریقے سے الگ ہو سکتی ہے۔ ایک دوسرے سے الگ ہونے کے برابر مواقع اسلام نے دونوں کو دئیے ہیں۔ ان احکام کے علاوہ کتاب و سنت میں بےشمار آیات و احادیث ہیں جن میں خواتین کے حقوق کا تحفظ ، ان کے عزت و احترام اور ان کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا حکم بار بار دیا گیا، مثلاً ارشاد ربانی ہے:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔
”ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔“
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔
عورتوں کے حقوق بھی اسی طرح ہیں جیسے ان کے فرائض ہیں،دستور کے مطابق
ارشاد نبوی ہے:
عورتوں کی عزت صرف باعزت آدمی کرتا ہے اور کمینہ شخص ہی ان کی توہین کرتا ہے۔
تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ بہتر ہے اور میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بہت اچھا ہوں۔
کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے، اگر اس کوکوئی عادت ناپسند ہو تو کوئی پسند بھی ہوگی۔
جس کسی کی ایک بیٹی ہو وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، نہ اسے کم تر سمجھے اور نہ بیٹوں کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
رسول اللہﷺ خواتین کی اس قدر رعایت فرماتے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ لمبی قرأت کروں گا پھر مجھے کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو میں نماز مختصر کر دیتا ہوں مبادا بچے کی ماں پریشان ہو رہی ہو ۔
حضرت اوس انصاری رسول اللہﷺ کے پاس آئے ان کی بہت سی بیٹیاں تھیں کہنے لگے میری بہت سی بیٹیاں ہیں، میں دعا کرتا ہوں کہ مر جائیں ۔آپ نے فرمایا ابن ساعدہ، بچیوں کوبد دعا مت دو، بیٹیاں تو برکت کا باعث ہوتی ہیں۔ تھوڑے پر راضی ہو جاتی ہیں، مصیبت میں مدد کرتی ہیں، بیماری میں تیمارداری کرتی ہیں ان کا بوجھ زمین پر ہے اور ان کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔
الغرض اسلام نے خواتین کو بہت بلند مقام دیا ہے ۔
کتاب و سنت کی رو سے عورت کے مقام کے تعین کے بعد موضوع کے اصل سوال کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے کہ کیا بچوں کی پیدائش، ان کے درمیان مناسب وقفے اپنی اور ان کی صحت اور ان کی پرورش، تربیت، کفالت اور دوسری ذمہ داریوں کے پیش ِنظر کیا عورت کو اسلام کی رو سے کوئی حق حاصل ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں پر عمل کرے یا ایسا کوئی بھی اقدام شرعاً درست نہیں ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی:
عورت کی تولیدی صحت کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا کوئی عورت یا کوئی جوڑا بچوں کے پیدائش کے سلسلے میں کوئی ایسی منصوبہ بندی کر سکتا ہے جو ان کی ضروریات، خواہشات، صحت تندرستی اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے ہم آہنگ ہو ، اسلام اس پہلو سے کیا رہنمائی مہیا کرتا ہے؟
اگر اس مسئلے کو عالمی تناظر، تاریخی تسلسل اور جغرافیائی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض حالات میں مخصوص پس منظر کی وجہ سے آبادی کی کثرت مطلوب ہوتی ہے اور ایسا ان ممالک یا علاقوں میں ہوتا ہے جہاں آبادی کے تناسب سےوسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں اور آ بادی میں اضافہ اس شرح سے نہیں ہوتا کہ ملکی ترقی کے لیے افرادی قوت پوری کی جا سکیں یا ایسے معاشرے جہاں طاقت کا سرچشمہ افرادی برتری کو سمجھا جاتا ہے بالخصوص قبائلی معاشروں میں جہاں افرادی کثرت مطلوب ہوتی ہے، جب کہ دوسری طرف بعض مختلف حالات میں آبادی کو کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ملکی وسائل آبادی کے بوجھ کو نہیں سہار سکتے، لوگوں کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی، بچوں کی پرورش اور تربیت، تعلیم، علاج معالجہ، روزگار اور مکانات کی فراہمی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے اور آبادی کا بڑا حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔
انسانی زندگی کی ان دونوں طرح کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے آبادی میں اضافے اور بچوں کی پیدائش میں کمی دونوں آپشنز (options) کھلے رکھے ہیں۔ البتہ بچوں کی لگاتار پیدائش خواتین کی صحت کے لیے گوناگوں مسائل پیدا کرنے کا موجب ہو سکتی تھی اس لیے اسے منظم کرنے اور ایک منصوبے کے تحت لانے کے لیے کچھ انتظامات قدرت نے خود کر دیے ہیں اور کچھ دوسرے انسانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔
قدرتی منصوبہ بندی:
1- عمر کا تعین:
قدرت نے اس امر کا اہتمام کیا ہے کہ خواتین کی پوری زندگی بار آوری (productivity)كی صلاحیت کی حامل نہیں ہوتی بلکہ ایک عورت تقریباً 15 سال سے 45-50 سال کے درمیان یعنی تیس پینتیس سال کا عرصہ اس صلاحیت کی حامل رہتی ہے اور اس میں بھی ابتدائی پندرہ بیس سال کی بار آوری یعنی بچوں کی پیدائش طبی طور پر محفوظ سمجھی جاتی ہے اور جوں جوں خاتون کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے بچے کی پیدائش سے ماں اور بچے کی زندگی کے لیے خطرات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مرد طویل عرصے تک اولاد پیدا کرنے کے قابل رہتا ہے۔
2- ماہانہ وقفے:
خواتین کو بار آ وری کی مدت میں ہر مہینے آٹھ دس روز ماہانہ وقفے سے گزرنا پڑتا ہے جس کے دوران قرآن حکیم کے واضح حکم کے مطابق میاں بیوی کے اختلاط اور جنسی عمل کی ممانعت ہے:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ۔
”لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، انہیں بتا دیں کہ یہ آلودگی ہےحیض کے دنوں میں بیویوں سے اختلاط سے باز رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے صحبت نہ کرو۔“
3- بچے کی پیدائش کا وقفہ:
جب کسی خاتون کے ہاں بچہ ہوتا ہے تو اس کے بعد وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جو کم و بیش چالیس دن کی مدت ہوتی ہے۔ اس عرصے میں میاں بیوی کے لیے ایک دوسرے سے پرہیز ضروری ہے اور یہ پابندی اسلام نے عائد کی ہے۔
4- مخفی قدرتی وقفہ:
قدرت نے حمل قرار پانے کا ایک ایسا انتظام رکھا ہوا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ جب بھی میاں بیوی جنسی عمل سے گزریں تو حمل قرار پا جائے بلکہ جو عورتیں بار آوری کی عمر میں ہوتی ہیں، ان کو ہر مہینے صرف چند گھنٹوں کے لیے ایسا ہوتا ہے کہ ان کے رحم سے بیضہ(Egg) سفر کر کے رحم کے منہ پر آکر رک جاتا ہے اور اگر ان چند گھنٹوں میں میاں بیوی کا اختلاط ہو تو حمل قرار پا جاتا ہے ورنہ نہیں۔ وہ چند گھنٹے کون سے ہیں ؟ بے شمار عورتوں پر طبی تحقیق کرنے کے بعدماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ گھنٹے مختلف عورتوں میں حیض سے پاک ہونے کے بعد مختلف ایام میں آتے ہیں اس لے ان کے لیے کوئی فارمولا نہیں بنایا جا سکتا کہ فلاں فلاں تاریخوں میں آئیں گے، اور یہ قدرت کی طرف سے ایک مخفی منصونہ بندی ہے۔
5- دودھ پلانے کے ذریعے وقفہ:
قرآن حکیم نے ماؤں کو یہ کہا ہے کہ وہ دو سال تک اپنے بچوں کو دودھ پلائیں:
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ۔
”مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، جو یہ چاہتے ہوں کہ رضاعت کی مدت پوری کریں۔“
اور یہ معلوم ہے کہ جس عرصے میں مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں اس میں بالعموم انہیں ماہواری نہیں ہوتی اور جب ماہواری نہ ہو توحمل نہیں ٹھہرتا، اس لیے جو ماں اپنے بچے کو باقاعدگی سے دودھ پلائے گی اس کے بچوں میں قدرتی طور تین تین سال کا وقفہ ہوجائے گا۔
6- نکاح کی عمر:
قدرت کی طرف سے منصوبہ بندی کا ایک مظہر نکاح کے لیے عمر کا تعین بھی ہے۔ اگرچہ کتاب و سنت نے وضاحت کے ساتھ کہیں یہ نہیں بتایا کہ نا بالغی میں نکاح کرنا جائز نہیں لیکن اگر ہم نکاح کے مقاصد پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مر د اور عورت کے درمیان نکاح کا معاہدہ کرانے کا مقصد یہ بتایا ہے کہ:
وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً۔
”ان دونوں سے آگے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں۔“
یعنی اللہ کا مقصد یہ ہے کہ نسل انسانی کو بقا اور تسلسل حاصل رہے۔
بندے جو نکاح کرتے ہیں ان کے بالعموم دو مقاصد ہوتے ہیں:
اولاد کا حصول
جنسی آسودگی کا حصول
ان تینوں مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی نابالغی کی شادی سے متعلق نہیں ہے۔ نابالغی کی شادی سے نہ تو نسل انسانی کو بقا ملتی ہے نہ اولاد حاصل ہو تی ہے اور نہ جنسی آسودگی۔
اگرچہ اسلام نے نابالغی کی شادی پر قطعی پابندی عائد نہیں کی کیوں کہ بسا اوقات نا گزیر وجوہ کی بنا پر اس کی ضرورت بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن مقاصد کے حوالے سے دیکھا جائے تو نابالغی کی شادی سے نکاح کے مقاصد حاصل نہیں ہوتے اس لیے قرآن حکیم کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کی کوئی عمر ہوتی ہے اور وہ آیت ہے:
حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۔
”تاآنکہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔“
اور بلا شبہ نکاح کی عمر بلوغ کی عمر ہے۔
7- عقل کا استعمال:
دنیا بھر میں تقریباً تمام جانداروں میں توالد و تناسل کا سلسلہ نر اور مادہ کے باہمی ملاپ سےچلتا ہے لیکن جانوروں میں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کے نر اور مادہ ہر وقت اور ہر موسم میں جنسی ملاپ کے لیےآمادہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں اپنے نر یا مادہ ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا بالعموم مادہ پر خاص موسم میں متعین وقفے سےایک کیفیت طاری ہوتی ہے جس میں اسے نر سے ملاپ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت اس کی جنس کے نر کوبھی اس کی خبر ہو جاتی ہے اور وہ دونوںملاپ کی ضرورت پوری کر کےواپس اپنی نارمل زندگی میں لوٹ جاتے ہیں جبکہ انسان کے لیے اس طرح موسموں کی پابندی، وقفوں کا تعین اور کیفیتوں کے نزول کی صورت حال نہیں ہوتی بلکہ وہ جنسی عمل میں اپنی آزادانہ مرضی کے تابع ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اور دوسرے جانوروں میں یہ فرق کیوں ہے؟ جب کہ توالدو تناسل کے لیے جنسی ملاپ کا عمل سب کے لیے یکساں ہے۔ تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ اللہ نے جانوروں کو عقل سے نہیں نوازا س لیے انہیں فطرت کی راہنمائی عطا کی اور وہ اس کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہیں جب کہ انسان کو عقل و شعور اور آگاہی بخشی گئی جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اسے کب اس عمل سے گزرنا چاہیے اور کب احتیاط کرنی چاہیے، کیا اسے زیادہ بچوں کی ضرورت ہے اور وہ بکثرت جنسی عمل کے ذریعے زیادہ اولاد حاصل کرے یا اسے کم بچوں کی خواہش ہے تا کہ وہ اس کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کرے۔ عقل ایک ایسا نور ہے جس کی روشنی میں انسان اپنے مستقبل کے لیے بآسانی منصوبہ بندی کر سکتا ہے اور یہ نور اللہ نے صرف انسان کو دیا ہے۔
مانع حمل طریقوں کا استعمال:
اسلام خاص حالات میں منصوبہ بندی سے روکتا نہیں ہے، خواہ اس کے لیے مانع حمل ادویہ استعمال کی جائیں یا حمل روکنے کا کوئی اور مناسب طریقہ اختیار کیا جائے۔
امام غزالی نے اپنی مشہور تالیف”احیاء علوم الدین“میں خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل احتیاطی تدابیر پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
مندرجہ ذیل صورتوں میں مانع حمل احتیاطی تدابیر اختیار کرنا جائز ہیں:
جب کسی شخص کے بچے بہت ہوں اور وہ صحیح طریقے سے ان کی تربیت کے فرائض انجام نہ دے سکتا ہو ۔
جب عورت کمزور ہو ، وہ مزید حمل کی مشقت نہ برداشت کر سکتی ہو۔ جب کہ ہمارے دور میں جن خواتین کے بچے بڑے آپریشن سے ہوتے ہیں ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ زیادہ بچوں کو جنم دے سکیں اگر وہ مانع حمل تدابیر اختیار نہیں کریں گی اور اس کے نتیجے میں اس امر کا خطرہ ہوتا ہے کہ وہ جان کی بازی ہار جائیں اور ان کے بچے ماں کی شفقت اور تربیت سے محروم ہو جائیں۔
جب عورت کے مسلسل حمل میں مصروف ہونے کی وجہ سے مرد کے لیے اپنی خواہش پوری کرنے کا راستہ نہ رہتا ہو۔
جب خاوند غریب ہو اور بچوں کی کفالت نہ کر سکتا ہو۔
جب عورت کو یہ خوف ہو کہ کثرت اولاد کی وجہ سے اس کی خوبصورتی متاثر ہوگی اور خاوند کی توجہ سے محروم ہو جائے گی۔
چونکہ مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں کتاب و سنت نے نہ تو حکم دیا ہے اور نہ اس سے روکا ، اس لیے فقہاءاسلام اور ائمہ مجتہدین نے اس سے استدلال کرتے ہوئے مختلف آرا اختیار کی ہیں۔ فقہا کی آرا اور ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
1- کوئی ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا جائز نہیں جو مانع حمل ہو ۔ یہ اہل ظاہر کا نقطہ نظر ہے، البتہ اگر کسی شخص کا اپنی باندی کے ساتھ جنسی تعلق ہو تو اس کے بارے میں احتیاطی تدبیر اختیار کرنا جائز ہے، کیوں کہ باندی working woman ہوتی ہے اور اگر مالک سے اس کی اولاد ہو جائے تو اسے بعض ایسے حقوق حاصل ہوجاتے ہیں جو مالک کے مفادات سے متصادم ہوتے ہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص نے یہ صورت پیش کی کہ اس کی ایک باندی ہے جو اس کے کام کاج کرتی ہے اور اس کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات بھی ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس سے ان کی اولاد ہو ، اس لیے اس سے عزل کر لیتا ہے تاکہ حمل نہ ٹھہر جائے۔
رسول اللہﷺ نے اس عمل سے روکا نہیں البتہ آپ نے فرمایا کہ جس جان نے وجود میں آنا ہے اس نے آ کر رہنا ہے۔
اس حدیث کی بنا پر اہل ظاہر کی رائے یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، اس لیے یہ جائز نہیں۔
امر واقع یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں کہ عزل یا حمل روکنے کی احتیاطی تدابیر کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ فطری اصول اپنی جگہ قائم ہے کہ انسان جو کام جس طرح کا کرتا ہے اس کے نتائج اس کے مطابق ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ عزل کوئی ایسی قطعی اور حتمی تدبیر نہیں ہے جس کے اختیار کرنے سے سو فیصد اطمینان ہو کہ اب حمل قرار نہیں پائے گا، کیوں کہ اس میں معمولی سی تاخیر، کوتاہی یا بے احتیاطی حمل ٹھہرنے کا سبب بن سکتی ہے اور اگر کبھی ایسا ہو تو یہ ہر گز نہ سمجھنا چاہیے کہ عورت وہ حمل کہیں باہر سے لائی ہے، مبادا اسے بدکار قرار دے دو بلکہ یہ سوچنا کہ ہزار احتیاط کے باوجود بھی تقدیر میں یہی لکھا تھا جو پورا ہو کر رہا۔
احتیاطی تدابیر پر دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک جان کا قتل ہے اور قرآ ن حکیم میں آتا ہے:
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ۔
” افلاس کے ڈر سے اپنے اولاد کو قتل نہ کرو۔“
امام غزالی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ قتل کا مفہوم متعین ہے کہ کسی زندہ انسان سے اس کی زندگی چھین لینا۔
احتیاطی تدابیر کے باعث اگر کسی شے کو وجود ہی نہیں ملا تو اس کو قتل کرنے یا اس سے زندگی چھیننے کی تعبیر سرے سے غلط ہے۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی نکاح نہیں کرتا اور اسے احتلام ہوتا رہتا ہے تو کیا وہ زندگی بھر انسانوں کے قتل کا مرتکب ہوتا رہا ہے یا جب کسی عورت کو حیض آنا بند ہو جاتا ہے، اس کے بعد میاں بیوی کاباہمی ملاپ قتل کے مترادف سمجھا جائے گا، کیوں کہ اس ملاپ کے نتیجے میں اولاد ہونے کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہوتا۔ لہذا اہل علم و دانش میں سے کسی نے بھی احتیاطی تدابیر کو قتل اولاد قرار نہیں دیا۔
احتیاطی تدابیر پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن میں ہے :
وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا۔
”زمین میں کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔“
اس لیے فقر و افلاس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا درحقیقت اللہ کی رزاقیت کے بارے میں ایمان اور یقین کی کمی ہے۔
لیکن مذکورہ آیت کی یہ تفسیر درست نہیں اس لیے رزق اللہ کے ذمے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام وسائل رزق اللہ نے پیدا کیے ہیں۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کمانا ، غلہ کاشت کرنا اور کھانا تیار کر کے دینا سب اللہ نے اپنے ذمے کر لیا ہے اور انسانوں کا کام صرف کھانا تناول کر لینا ہے۔
الغرض احتیاطی تدابیر کے حرام یا بے فائدہ ہونے کے جتنے دلائل ہیں ان میں کوئی وزن نہیں ہے اور وہ آیات اور احادیث کی غلط تعبیر و توجیہ کا نتیجہ ہیں۔
2- خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے استعمال کرنا مطلقاً جائز ہے۔ اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے:
کنا نعزل والوحی ینزل۔
صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم عزل کیا کرتے تھے اور اس زمانے میں قرآن کا نزول جاری تھا، یعنی اگر عزل کرنا ممنوع ہوتا تو قرآن کے ذریعے اس کی ممانعت کر دی جاتی نیز رسول اللہﷺ کو بھی اس کا علم تھا، اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپﷺ اس سے منع فرما دیتے یہی وجہ ہے کہ امام بیہقی کی تصریح کے مطابق صحابہ کرام میں سے سعد بن ابی وقاص، ابو ایوب انصاری، زید بن ثابت، حضرت عمر اور حضرت علیؓ اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے۔
3- خاندانی منصوبہ بندی جائز ہے لیکن اس صورت میں جب کہ میاں بیوی دونوں اس کے لیے رضا مند ہوں۔ یہ حنفی فقہا کی رائے ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ اولاد کا حصول میاں بیوی دونوں کا برابر حق ہے ، اس لیے کسی ایک فریق کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسرے فریق کی رضا مندی کے بغیر اسے اولاد سے محروم کردے۔
دورِ حاضر کے مجتہدین نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
اسقاطِ حمل:
خواتین کی تولیدی صحت کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا اسقاط حمل جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کن صورتوں میں اور کن حالات میں؟
اسقاط حمل کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں علماء کی دو مختلف آرا ہیں۔ جمہور علماء اور ائمہ کرام کی رائے یہ ہے کہ بلا ضرورت اسقاط حمل جائز نہیں البتہ اگر کوئی ضرورت درپیش ہو تو حمل کے ابتدائی ایک سو بیس دن کے اندر حمل گرانا جائز ہے، اس کے بعد جائز نہیں ہے۔
امام غزالی اور امام ابن تیمیہ کی رائے یہ ہے کہ جب عورت کے رحم میں حمل قرار پا جاتا ہے اسی وقت سے اس میں زندگی ہوتی ہے، کیوں کہ زندگی صرف زندگی سے وجود میں آتی ہے لہٰذا اسے کسی بھی وقت گرانا درست نہیں ہوتا۔
جمہور علماء کی دلیل یہ ہے کہ اگر چہ حمل میں زندگی کے آثار ابتدا سے ہی ہوتے ہیں لیکن اس میں روح جسے قرآن فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي۔ ” میں اس میں اپنی روح پھونک دی“ کہا ہے ایک سو بیس دن پورے ہونے پر پھونکی جاتی ہے۔
حضرت علیؓ سے جب اس مسئلے کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ قرآن کی رو سے جب حمل ساتویں مرحلے میں داخل ہو جائے تو اسے گرانا جائز نہیں ہے اور وہ سات مرحلے ان آیات میں ہیں:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ، ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ۔
ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا
پھر اسے ایک قطرہ بنا کر مستحکم ٹھکانا دیا
پھر نطفہ کو جما ہوا خون بنایا
پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا
پھر گوشت کے لوتھڑے کو ہڈیوں میں ڈھالا
پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا
پھر ہم نے اسے ایک اور مخلوق بنا کر پیدا کیا
جب اوپر کے چھ مرحلے مکمل ہو جائیں اور پیٹ کا بچہ ساتویں مرحلہ میں داخل ہو جائے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اور اس کے بعد اس کا اسقاط جائز نہیں۔
دور حاضر میں جدید پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے عالم اسلام میں کئی مؤثر ادارے قائم کئے گئے ہیں جو دنیا بھر سے اہل علم، سکالرز، اور متعلقہ علوم کے ماہرین کی تحقیقات کی روشنی میں اسلامی آرا پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ عالم عرب کے ایک اسی قسم کے ادارے”مجمع الفقہ الاسلامی کویت“ نے 15-10 دسمبر 1988کے اجلاس میں سالہا سال کی تحقیقات کے بعد مندرجہ ذیل قرارداد منظور کی:
اسلامی شریعت میں نکاح کا مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی کو تحفظ حاصل رہے اور انسانی نسل برقرار رہے۔ اس مقصد کو نظر انداز کرنا درست نہیں، اس لیے:
کوئی ایسی قانون سازی درست نہیں جو میاں بیوی کو پابند کر دے کہ وہ اتنی تعداد سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے۔
کسی مرد یا عورت کو مکمل طور پر بانجھ کردینا تا کہ ان کی اولاد نہ ہو سکے اس وقت تک درست نہیں جب تک کہ اسلامی شریعت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق اس کی ضرورت نہ ہو۔
عارضی طور پر بچوں کی پیدائش کو اس طرح روک دینا درست ہے کہ حمل کے وقفے طویل ہو جائیں یا وقتی طور پر بچوں کی پیدائش رک جائے بشرطیکہ اس کی کوئی جائز وجہ ہو اور میاں بیوی دونوں اس پر راضی ہوں اور اس کی وجہ سے کسی فریق کو کوئی نقصان نہ ہو اور اس کے لیے اختیار کردہ ذرائع جائز ہوں اور اس کی وجہ سے ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو کوئی نقصان نہ ہو۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
کمنت کیجے