حافظ حسن علی
چوبیس جولائی بروز بدھ کو سپریم کورٹ نے مبارک ثانی قادیانی کیس کی نظر ثانی اپیلوں پر حتمی فیصلہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ قادیانیوں کو اپنے نجی دائرہ کار میں اپنے مذہب و مسلک کی تبلیغ و ترویج کا مکمل حق حاصل ہے ۔ لہٰذا اس بنیاد پر گزشتہ فیصلہ کی رومبارک ثانی قادیانی کی رہائی قانونی و آئینی ہے ۔
عدالت نے نظر ثانی کیس سماعت میں طلب کیے جانے والے ملک پاکستان کے مشہور دس دینی اداروں کے استدلالات کا بھی جائزہ لیا ۔ اور مختلف دینی اداروں کیطرف سے اٹھائے جانے والے نکات کا انتہائی مضبوط بنیادوں پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے انہیں ناکافی قرار دیا ۔
دراصل مبارک ثانی قادیانی پر الزام تھا کہ اس نے 2019 میں “مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی و مدرستہ البنات کی سالانہ تقریب جو”نصرت جہاں کالج فار ویمن”منعقد ہوئی میں ممنوعہ کتاب “تفسیر صغیر”اور چند دیگر کتابیں کی تفسیریں تقسیم کی ہیں ۔
جسپر پنجاب ایکٹ دفعہ دفعہ 7 بمع 9 ، مجموعہ تعزیراتِ پاکستان دفعہ 298سی اور دفعہ 295 بی کے تحت کاروائی کی جانی چاہیے ۔
عدالت عالیہ کا ابتدائی فیصلہ ،
سپریم کورٹ نے اس ایف آئی آر پر اپنے ابتدائی فیصلے میں مؤقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا کہ پنجاب ایکٹ دفعہ 7 کا اطلاق ممنوعہ کتاب کے مصنف ، ناشر ، طابع ، پر ہوتا تھا ۔ البتہ 2021 میں مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے اس شخص کو بھی اس اطلاق میں شامل کر لیا گیا جو ممنوعہ مواد تقسیم کرتا ہوں ۔ لہٰذا چونکہ جس وقت مجرم سے جرم صادر ہوا ۔ اس وقت مذکورہ قانون موجود ہی نہیں تھا ۔ اور قانون کے وجود میں آنے سے پہلے کیے جانے والے متنازعہ افعال پر قانونی چارہ جوئی ممکن نہیں ۔
سپریم کورٹ نے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298سی سے متعلق واضح کرتے ہوئے لکھا کہ چونکہ ملزم نے ممنوعہ کتب کی تقسیم ایک قادیانی ادارے میں کی ۔ لہذا اس پر اس دفعہ کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ مذکورہ دفعہ عوامی سطح پر قادیانی تعلیم و تبلیغ کی بندش سے متعلق ہے ۔ جبکہ نجی دائرہ کار میں قادیانیوں کو اپنے مسلک و مشرب کی تعلیم و تبلیغ کا مکمل حق حاصل ہے ۔
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے مزید واضح کیا کہ مذکورہ کیس میں جرم ثابت ہونے پر مجرم کو چھ ماہ قید ہوتی ہے ۔ جبکہ ادھر ملزم مبارک ثانی قادیانی دوران سماعت مقدمہ اس سے زائد عرصہ جیل کاٹ چکا ہے ۔
لہذا سپریم کورٹ مذکورہ نکات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ملزم کو رہا کرنیکا فیصلہ سناتی ہے ۔
نظر ثانی کی اپیلیں
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے متعلق مختلف دینی طبقات نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عالیہ میں نظر ثانی کی اپیلیں دائر کیں۔ جس میں سپریم کورٹ سے اپنے ابتدائی فیصلے کے مندرجات پر از سر نو غور کرنے کی استدعا کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے نظر ثانی کیس کی پہلی سماعت کے بعد ملک پاکستان کے دس بڑے دینی اداروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے متعلقہ مسئلہ پر ان سے انکی رائے مانگ لیں۔
نظر ثانی اپیل ، دلائل
دینی اداروں نے مختلف آراء و افکار کا اظہار کیا البتہ پانچ دینی اداروں نے یکساں مؤقف اختیار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنی تنقید کی بنیاد یہ رکھی کہ سپریم کورٹ نے ابتدائی فیصلے میں قرآنی آیات سے غلط طور استدلال کیا ہے ۔ اور اسکے ساتھ “مقدمہ مجیب الرحمٰن بنام حکومت پاکستان” اور”ظہیر الدین بنام حکومت پاکستان “میں وفاقی شرعی عدالت و سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے سے بھی انحراف کیا ہے ۔
سپریم کورٹ نے اس پر مؤقف اختیار کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ دونوں فیصلوں میں زیر بحث مسئلہ عوامی سطح پر قادیانی تبلیغ و ترویج کا تھا ۔ جبکہ مبارک ثانی کیس میں معاملہ کی نوعیت مختلف ہے ۔ کیونکہ یہ ایک نجی تقریب میں قادیانی مواد کی تقسیم سے متعلق ہے ۔ اس دوران جامعہ غوثیہ فریدیہ کے مفتی شیر محمد خان نے سورہ توبہ کی آیات سے استدلال کرتے ہوئے مسجد ضرار کے ضمن میں قادیانی تبلیغ و ترویج پر سوال اٹھایا کہ غیر مسلموں کیطرف سے تعمیر کی جانیوالی مسجد کو ڈھانے کا حکم دیا گیا ۔ تاکہ عام عوام التباس کا شکار نہ سکیں ۔ اور ایک غیر مسلم کمیونٹی مسلمانوں کے شعائر کا استعمال کرتے ہوئے خود کو مسلمان باور نہ کرا سکے ۔ مذکورہ استدلال کے جواب میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ آئین و قانون پاکستان میں بھی قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دینے کی اجازت نہیں اور نہ ہی خود کو مسلمان باور کرانے کی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے دفعات کا اطلاق عوامی سطح پر قادیانی تبلیغ و ترویج سے متعلق ہے ۔ اس بارے سپریم کورٹ نے مقدمہ “بعنوان ظہیر الدین بنام ریاست” میں جاری ہونے والے فیصلے سے استشہاد بھی کیا ۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مذکورہ بالا سابقہ فیصلہ کا ایک اقتباس پیش کیا ۔
” مذکورہ بالا قیود سے واضح طور پر دو کام مراد ہیں جو عوامی مقامات پر یا عوام کی نظروں کے سامنے سر انجام دیے جائیں، نہ کہ وہ جو نجی طور پر سر انجام دیئے جائیں۔”
اسکے علاؤہ سپریم کورٹ نے مقدمہ”بعنوان طاہر نقاش بنام ریاست” کے اپنے سابقہ فیصلے سے بھی استشہاد لیا ۔ جہاں سپریم کورٹ نے قادیانی عبادت گاہ میں قرآنی و مذہبی تعلیمات آویزاں کرنے کو” گستاخی”شمار کرنے والی استدعا کو مسترد کیا تھا ۔ جسکی رو مجموعہ تعزیرات پاکستان 295 سی کا اطلاق ملزم پر نہیں ہو سکتا ۔بہرحال سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں دوسری آئینی ترمیم جسکی رو سے قادیانی گروہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا کا مکمل سیاق بھی نقل کیا ۔ جس میں علماء امت نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے جائز شہری حقوق کو تسلیم کیا ہے ۔
سپریم کورٹ نے اس بارے مفتی محمود رحمہ اللہ کی تحریر بنام “امت اسلامیہ کا موقف” کا اقتباس پیش کیا ۔ جسے اسوقت کی خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔ اقتباس کچھ یوں ہے ۔
“اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہیے کہ مرزا غلام احمد کے پیرو کار ، انھیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تا کہ اس اعلان کو موثر بنانے کے لیے اور اسلامی جمہور ہے پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں
مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں”
سپریم کورٹ نے اسکے علاؤہ بھی دوسری آئینی ترمیم کے سیاق و سباق میں ہونے والی کئی اہم گزارشات کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ جس میں قادیانی و لاہوری گروپ کے غیر مسلم ڈیکلیئر کر دیے جانے کے بعد ان گروپس کے قانونی و آئینی حقوق کے دفاع پر زور دیا گیا تھا ۔
خلاصہ امر یہ ہیکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے آخر میں فیصلہ کن الفاظ میں مذکورہ مسئلہ کو بے غبار انداز میں کچھ یوں لکھا ۔
آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انھیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پرمسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے ، نہ ہی عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے۔ تاہم اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے بھی مخصوص اداروں کے اندر انھیں قانون کے تحت مقررہ کردہ معقول قیود کے اندر گھر کی خلوت کا حق حاصل ہے۔”
مجموعہ تعزیراتِ پاکستان ۔
افادہ عام کی خاطر مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 بی اور سی کو شئیر کیا جاتا ہے ۔ تاکہ مسئلہ مذکورہ کو سمجھنے میں آسانی ہوں۔
دفعه – 298 – بعض مقدس شخصیات اور مقامات کے لیے مخصوص القاب، اوصاف یا خطابات وغیرہ کا ناجائز استعمال
(1) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ خو اہ زبانی ہوں یا تحریری یاد یکھے جاسکتے والے نقوش کے ذریعے :
(2) رسول پاک حضرت محمد علی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی خلیفہ یا صحابی کے سوا کسی اور شخص کو امیر المومنین ، خلیفہ المسلمين ، صحابی یا رضی اللہ عنہ کے طور پر منسوب کرے یا پکارے: (5) حضرت محمد صلی علیم کی کسی زوجہ کے سوا کسی شخصیت کو ام المومنین کے طور پر منسوب کرے یاپکارے:
(ع) حضرت محمد میں قیام کے خاندان کے افراد (اہل بیت) کے سوا کسی اور شخصیت کو اہل بیت کےالفاظ سے حوالہ دیتا یا خطاب کرتا ہے:
(1) اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے کے طور پر منسوب کرے ، یا موسوم کرے یا پکارے: اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک کی ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہو گا۔
سی 298
قادیانی گروپ وغیرہ کا شخص جو خود کو مسلمان کہے یا اپنے مذہب کی تخلیق یا پر چار کرے۔ قادیانی گروپ یالاہوری گروپ ( جو خود کو احمدی نیا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں ) کا کوئی شخص جو بلا واسطہ یا بالواسطہ ، خود کو مسلمان ظاہر کرے، یا اپنے مذہب کو اسلام کے نام سے موسوم کرے یا الفاظ ، مو و زبانی ہوں یا تحریری یا دیکھے جاسکنے والے نقوش کےذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ یا پر چار کرے، یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دوت دے، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرے، اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال قید ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ حسن علی ادارہ علوم اسلامی سترہ میل سے فارغ التحصیل اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم-فل علوم اسلامیہ کے طالب علم ہیں۔
کمنت کیجے