عمران شاہد بھنڈر
ہیگل ایک ایسا فلسفی ہے جس کے بارے میں ابھی حال ہی میں ٹام راکمور نے لکھا ہے کہ اس کے بارے میں جتنی تیزی سے کتابیں شائع ہو رہی ہیں، اتنی تیزی سے وہ پڑھی بھی نہیں جا سکتیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نئی نسل کی ہیگل میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے، قطع نظر اس سے کہ ہیگل سے زیادہ مشکل فلسفی فلسفے کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ اگر ہم ہیگل کو اپنے تناظر میں دیکھیں تو سہولت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری وہ اگلی نسل جو فلسفہ میں دلچسپی رکھتی ہے وہ ہیگلیائی فکر کو جاننے کے بارے میں خصوصی طور پر متجسس ہے۔ میرے خیال میں اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیسویں صدی جو کہ ہیگل کی نشاۃ ثانیہ کہلائی جاتی ہے، اس میں ہیگل پر اتنا زیادہ کام ہو چکا ہے کہ اس میں دلچسپی کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ بالخصوص مابعد جدید فکر کا سارا زور ہیگل کی مخالفت پر لگا گیا ہے۔ یہ الگ سوال ہے کہ کیا مابعد جدید فکر ہیگل کے فلسفے میں کسی بھی قسم کی دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں؟ ژاک دریدا کے یہ الفاظ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ ”ہم ہیگل کے فلسفے کی قرأت اور ازسرنو قرأت کو کبھی بھی مکمل نہیں کر پائیں گے۔“اسی پس منظر میں دیکھیں تو پاکستان کی نئی نسل میں ہیگل سے متعلق دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری بھی ہیگل میں دلچسپی برقرار ہے۔ میں اگلی چند سطور میں یہ کوشش کروں گا کہ ہیگل کی سب سے اہم کتاب جو کہ اس کے انسائیکلوپیڈیا کی کتاب اوّل بھی ہے اور جسے ”مختصر منطق“ کہا جاتا ہے، اس کے آغاز میں بیان کیے گئے چند مقولات کا آسان فہم خلاصہ پیش کروں۔
یاد رہے کہ ہیگل کو سمجھنے میں سب سے بڑی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ اس کی فکر کو کسی ایسے “مرکز” سے شروع کیا جاتا ہے کہ جو بنا بنایا ہے۔ یعنی جیسے کوئی بھی بنی بنائی شے ہوتی ہے اور اس سے آغاز کر دیا جائے۔ ہیگل کی منطق میں وجود کے آغاز کی تفہیم اس کی فکر کے مشکل ترین مراحل میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ منطق کا آغاز کسی بنے بنائے ’وجود‘ سے نہیں ہوتا، بلکہ ”وجودِ محض“ سے ہوتا ہے۔ اور وجود محض جب ”موجود“ ہو تو اس وقت کوئی دوسرا وجود موجود نہیں ہوتا۔اور دوسرا وجود کہیں خارج سے ودیعت نہیں کیا جاتا، کیونکہ خارج کا تو اپنا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ وہ دوسرا ”وجودِ محض“ کے اندر سے برآمد ہوتا ہے۔جیسا کہ ہیگل کہتا ہے،
”وجودِ محض سے آغاز ہوتا ہے: کیونکہ ایک طرف وہ خالص فکر ہے، اور دوسری طرف وہ خود بلاواسطہ، سادہ، اور غیر متعین ہے؛ اور آغاز میں کسی دوسری شے سے ربط نہیں ہوتا۔“ سیکشن، 86
ہیگل کے یہ الفاظ ”وجود محض“ کے بارے میں ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ وجودِ محض کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وجودِ محض خالص فکر ہے۔ ہیگل کے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں:
”جب فکر کا آغاز ہوتا ہے تو ہمارے پاس سوائے غیر متعین فکر کے اور کچھ بھی نہیں ہے: اور ہم اس وقت تک متعین نہیں کر سکتے جب تک پہلا اور دوسرا دونوں موجود نہ ہوں؛ اور آغاز میں ہمارے پاس ابھی تک دوسرا نہیں ہے۔“ سیکشن، 86
یہاں تک دو باتیں واضح ہو گئی ہیں: ایک یہ کہ آغاز میں وجود محض اور فکرِ محض ہے۔ یعنی فکرِ محض اس لیے کہ ابھی اس کے پاس دوسرا یا “معروض” نہیں ہے، جبکہ وجودِ محض اس لیے کہ ابھی وہ فکر محض میں اپنے خصائص، خدو خال اور اوصاف کی تشکیل کے عمل سے نہیں گزرا۔ میں یہاں ہیگل کے لاجک میں سے انگریزی کا ایک اقتباس جوں کا توں پیش کرنا چاہوں گا تاکہ یہ نکتہ مزید واضح ہو سکے۔ ہیگل لکھتا ہے:
The indeterminate, as we here have it, is the blank we begin with, not a featurelessness reached by abstraction, not the elimination of all character, but the original featurelessness which precedes all definite character, and is the very first of all. And this we call Being. It is not to be perceived by sense, or pictured in imagination: it is only and merely thought, and as such it forms the beginning.
Section, 86
ہیگل یہاں جس ”غیر متعین“ کی بات کر رہا ہے وہ خالص فکر ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی ایسی شے موجود ہے کہ جو مخصوص خد و خال یا نقوش رکھتی ہے اور اس شے میں سے وہ خد و خال تجرید کر لیے گئے ہیں، بلکہ وہ کہتا ہے کہ وہ تمام متعین اوصاف سے پہلے وجودِ محض کو موضوع بناتا ہے۔ اسی کو ہیگل ”وجود“ کہتا ہے۔ اب چونکہ یہ وجود کہیں خارج میں موجود نہیں ہے جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، اس لیے اس کا حسیاتی ادراک بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یہ وجود یا وجودِ محض خالص فکر ہے۔ یعنی وجود، دراصل، فکر کا وجود ہے۔ اور یہ فکر آغاز میں خالی اور غیر متعین ہے۔
یہاں تک ہم نے ہیگل کے لاجک کے ایک بنیادی اور اہم مقولے کی وضاحت کر دی ہے۔ آئیے اب ہم ہیگلیائی مفہوم میں ’عدم‘ کے مقولے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’عدم‘ کو سمجھنے کے لیے یہ یاد رہے کہ ’عدم‘ وجود سے خارج میں یا وجود سے ماورا کوئی شے نہیں ہے، بلکہ یہ ’عدم‘ وجود ہی کے اندر اس وجود کے ہونے کی نفی ہے جسے ہم نے ابھی فکر کا وجود کہا ہے، یعنی تجریدی اور خالی وجود، صرف فکر! یہ وجودِ محض یا وجود ہی ہے جسے کہ عدم کہا گیا ہے۔ ہیگل کے الفاظ دیکھیے:
But this mere Being, as is mere abstraction, is therefore the absolutely negative: which, in a similarly immediate aspect, is just Nothing
Section, 87
یہ سیکشن ہماری ساری بحث کو سمیٹ لیتا ہے۔ یعنی جب ہم وجود یا وجودِ محض کو خد و خال سے مبرا تصور کرتے ہیں تو وہ صرف تجرید ہوتی ہے، جو کوئی بھی مقرونی صفت نہیں رکھتی۔
ہم اپنی اب تک کی وضاحت کا احاطہ کرنے اور اسے مزید قابل فہم بنانے کے لیے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ ہم وجود کے لیے ’اے‘ استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ آغاز میں ہمارے سامنے صرف ’اے‘ ہے، اور یہ ’اے‘ خالص ہے۔ اگر سوال اٹھایا جائے کہ یہ ’اے‘ کیا ہے؟ تو جب تک دوسرا نہ ہو گا، اس وقت تک یہ ’اے‘ عدم کہلائے گا۔ اور عدم کو ناٹ اے سے ظاہر کرتے ہیں۔
لہذا ہم یہاں پوری سہولت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اے ہی ناٹ ہے۔ اس لیے اسے ہم یوں لکھیں گے۔
اے = ناٹ اے۔
ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ اے برابر ہے ناٹ اے کے، اور ناٹ اے برابر ہے اے کے۔ اس کو ہم یوں بھی لکھ سکتے ہیں کہ
ناٹ اے = اے
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اے اور ناٹ اے ایک دوسرے میں سرایت کیے ہوتے ہیں۔ جدلیات میں اسی کو تخالفین کی ایک دوسرے میں نفوذ پذیری کہا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ناٹ اے کہیں خارج سے وارد نہیں ہوا، کیونکہ خارج تو کوئی موجود ہی نہیں ہے، بلکہ یہ اے کے اندر ہی مستور تھا۔ یہاں سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ناٹ اے، اے کے اندر ہی موجود تھا تو کیا اے، ناٹ اے سے الگ کوئی وجود رکھتا ہے؟ اس کا آسان جواب یہی ہے کہ ہرگز نہیں! کیونکہ یہ اے ہی ہے جو کہ ناٹ اے ہے، اور یہ ناٹ اے ہی ہے جو کہ اے ہے۔ اس مفہوم میں جدلیات میں پہلے اور بعد کی تقسیم نہیں ہے۔ یہاں سے ہیگل کا لاجک ایک خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے، جس کی گہرائی میں اترنے کا یہ مناسب موقع نہیں ہے۔ اسے میں کسی اگلے مضمون میں پیش کروں گا۔ فی الوقت ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اے اور ناٹ اے یا ناٹ اے اور اے کے درمیان جو جدلیاتی رشتہ قائم ہوا ہے اس میں ان کے “بننے” کا عمل کیسے شروع ہوتا ہے۔ اس نکتے کا مزید تجزیہ کرنے سے پہلے ہیگل کا ایک اہم ترین سیکشن سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہیگل کہتا ہے:
Nothing, if it be thus immediate and equal to itself, is also conversely the same as Being is. The truth of Being and Nothing is accordingly the unity of the two: and this unity is Becoming.
Section, 88
اس سیکشن میں کہا گیا ہے کہ وجود اور عدم کا سچ ان کی وحدت میں ہے۔ یعنی یہ دونوں ایک ہی شے کے دو پہلو ہیں۔
اگر گزشتہ بحث واضح ہو چکی ہو تو اس نکتے کو سمجھنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جونہی وجود اور عدم کے مقولات کی تجریدی حیثیت کی رَد و نمو ہوتی ہے تو جو پہلا مقرونی مقولہ سامنے آتا ہے وہ ”بی کمنگ“ کہلاتا ہے۔ یعنی بی کمنگ وجود اور عدم وجود کی وحدت کا عکاس ہے۔ اب ہم اس کو یوں بھی لکھ سکتے ہیں،
اے + ناٹ اے = اے
اے اور ناٹ اے کی تجریدات کی نفی ہوتی ہے اور اے یعنی وجود متعین ہو جاتا ہے۔ اور ہر متعین وجود میں دونوں (وجود اور عدم) موجود ہوتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ پہلے اے کی تجریدی حیثیت کی نفی ہوئی اور ناٹ اے مکشوف ہوا، بعد ازاں ناٹ اے کی نفی ہوئی اور ایک متعین اے ظاہر ہوا۔ اس متعین اے میں دونوں شامل ہیں۔
ہیگل کو اس بات کا احساس تھا کہ وجود اور عدم وجود کو ایک ہی کہنے سے اصولِ موضوعہ کی سی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور یہ قاری کے لیے بے پناہ مشکلات کو جنم دے سکتا ہے، تاہم اس باریک مقولاتی فرق کو واضح کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ ہیگل اپنے منطق میں کوئی ایک بھی خلا باقی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا کہ جس کو بآسانی ہدف بنا لیا جائے۔ اسی وجہ سے فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ ہیگل کا فلسفہ ہر شے کو نگل جانا چاہتا ہے۔ میں اس میں یہ بھی اضافہ کرتا چلوں کہ ہیگل کا فلسفہ نہ صرف وجود کو نگل جاتا ہے، بلکہ وہ عدم کو بھی ہڑپ کر جاتا ہے۔اور اسے
”بننے“ کے عمل میں شامل رکھتا ہے۔
نوٹ: اگلے حصے میں ہم بتائیں گے کہ وجود اور عدم جامد کیٹیگریز نہیں ہیں بلکہ اپنے داخلی تضاد کی وجہ سے مسلسل Unrest کا شکار رہتی ہیں۔ آگے چل کر یہ بھی وضاحت کی جائے کہ جسے ناٹ اے کہا گیا ہے، وہ فطرت ہے، اور جسے اے کہا گیا وہ فکر ہے اور دونوں کی وحدت آئیڈیا ہے۔
کمنت کیجے