Home » علم کا مسئلہ اور محترم زاہد مغل صاحب
شخصیات وافکار فلسفہ

علم کا مسئلہ اور محترم زاہد مغل صاحب

عصر حاضر میں مذہب کو سب سے بڑا خطرہ esotericization سے ہے اور یہ جدیدیت کے براہ راست اثرات سے پیدا ہوا ہے۔ یہ عمل دین کو دینِ مبین نہیں رہنے دیتا، اور اسے جعلی علوم کی چیستاں بنا دیتا ہے۔ اس کے تین ذرائع ہیں: مابعدالطبیعات (metaphysics)، جدید کلامی مباحث (modern          the ological           discussions)، جدید تعبیری حاصلات (modern        hermeneutical       achievements)۔ عصرِ حاضر میں ان مباحث کو جس طرح آگے بڑھایا جاتا ہے اور جو نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں ان میں خرابی ہی خرابی ہے، اور اس کی سب سے بنیادی اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں خود آگاہ عقل کا تصور اور اس کی کارفرمائی غائب ہے۔ عقل نہ ہو تو وہ کچھ ہوتا ہے جو اس وقت ہمارے ہاں علم و عمل میں ہو رہا ہے۔ ہم یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ مذہب اپنا اپنا ہوتا ہے، لیکن علم اپنا اپنا نہیں ہوتا۔ اس کو مزید سادہ بنایا جا سکتا ہے کہ معلومات اپنی اپنی ہوتی ہیں، اور علم اپنا اپنا نہیں ہوتا۔ مذہب کی حیثیت ہمارے لیے ایسی معلومات یعنی خبر کی ہے جو ہمیں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام سے حاصل ہوئی ہے اور ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔ محترم زاہد مغل صاحب کو یہ خوش فہمی ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کا تصور عقل اور علم exclusive ہے اور جو کسی کی بیعت کرنے حاصل ہوتا ہے اور جس کا عقلِ معروف سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

محترم زاہد مغل صاحب نے کانٹ کے خلاف بھی محاذ کھولا ہوا ہے۔ اس سے کانٹ کے بارے میں کچھ پتہ چلے نہ چلے، یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کتنے عظیم آدمی ہیں۔ میرے خیال میں کانٹ بہت بڑا آدمی ہے اور جو اس کو بھی ”جپھا“ ڈال لے وہ یقیناً اس سے بھی بڑا آدمی ہو گا۔ وہ کانٹ کا رد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قارئین کو یہ گُر بھی بتاتے رہتے ہیں کہ جو لوگ کانٹ سے متاثر ہیں (میرے بارے میں ان کا یہی خیال ہے) ان کی تحریر میں کیا کیا خصوصیتیں پائی جا سکتی ہیں۔ ان کی تحریر میں ایسے مقامات میری خاص دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ بہرحال، مجھے ایسا لگتا ہے کہ کانٹ سے ان کی دشمنی کی وجہ مابعد الطبیعات کے بارے میں کانٹ کا فلسفیانہ موقف ہے۔ کانٹ کا یہ موقف دو بنیادوں پر کھڑا ہے۔ ایک، انتقادِ عقلِ محض اور دوم، اس سے پیدا ہونے والا تصورِ علم۔ اگر اس میں تشبیہی اور تنزیہی علم کا قضیہ داخل کر دیا جائے تو صورتِ حال بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ کانٹ کے مطابق عقلاً صرف تشبیہی اور مادی علم ممکن ہے اور تنزیہی علم یا علم الحقائق کی تشکیل عقل کی استعداد سے باہر ہے۔ ایک مذہبی آدمی کے لیے کانٹ کا یہ موقف ہر لحاظ سے مفید ہے اور آدمی اگر واجب الوجود کی کلامی بحث سے واقف ہو تو کانٹ کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ علم الکلام میں کارفرما عقل اور کانٹ کی عقل محض میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لیے کہ کلامی عقل ممکن کے ادراک پر رک جاتی ہے اور واجب الوجود کے ارادی یا اضطراری شعور و اثبات کا دعویٰ نہیں کرتی اور اس کو سلباً ثابت کرتی ہے۔ یہاں سے آگے ذات و صفات کے مباحث عقلِ تسلیم کے پیدا کردہ ہیں۔ میں علم الکلام کو مکمل عقلی علم کہتا ہوں اور سائنس کے بارے میں بھی میری یہی رائے ہے۔ فرق یہ ہے کہ اول الذکر مکمل تنزیہی ہے اور مؤخر الذکر قطعی تشبیہی علم ہے۔ اب محترم زاہد مغل صاحب وجودِ باری کو بھی عقل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں اور ان کے خیال میں مذہب کوئی عقلی چیز ہے۔ عصرِ حاضر کے ہمارے اہلِ علم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہب کو عقلی اور دنیا کو مذہبی بنانا چاہتے ہیں، اور یہ علمی منصوبہ نہ صرف عقلاً محال ہے بلکہ مذہب ہی کو غارت کر دینے والا ہے۔

محترم زاہد مغل صاحب اور میرے درمیان جو بنیادی اختلاف ہے اس کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: میرا موقف ہے کہ وحی نہایت ثقہ بنیادوں پر عقل کے لیے قابل قبول اور سرشاری کا باعث ہے۔ اور ان کا موقف، جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، یہ ہے کہ وحی اور مذہب کو عقلی دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ آنجناب وجودِ باری کے بھی عقلی دلائل رکھتے ہیں۔ یہ دو قطعی مختلف موقف ہیں۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ ماوارئے عقل قضایا (axioms) کو بلا استدلال قبول کرنا یا کر لینا عقل کی تقدیر ہے۔ عقل کا ہر وجودی موقف یہی ہے۔ اس کے بغیر عقل کی سرے سے کوئی معنویت ہی نہیں ہے اور نہ ہی عقل علوم میں فعال ہو سکتی ہے۔ اگر جدید علوم میں فعال پیراڈائم شفٹ کے تصور کو بھی سامنے رکھا جائے تو یہ بات بالکل ظاہر ہو جاتی ہے کہ جدید عقل مآل کار توہم پرستی میں مبتلا ہے۔ محترم زاہد مغل صاحب عقل کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے اور جو تصور وہ رکھتے ہیں وہ ویسا ہی بے سر و پا ہے جیسا کہ ان کا ”لازمی وجودی حقائق کے اضطراری شعور“ کا موقف ہے۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ:

علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود

عصرِ حاضر تشبیہی اور مادی علم کے غلبے کا عہد ہے اور اس کی بنیاد ایسی عقلِ محض ہے جو وحی کے انکار پر رک جاتی ہے۔ جو نکتہ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ عقلِ محض سے عقلِ تسلیم تک سفر سے عقل کی نوعیت نہیں بدل جاتی، اس کا دائرہ کار تبدیل ہو جاتا ہے۔ عقلِ تسلیم مغیبات میں اپنے پورے نظامِ استدلال سے شریک ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ یہ علم الکلام کی اصل حیثیت اور حقیقت ہے۔ عقلِ تسلیم ایمان لانے کے بعد کا مرحلہ ہے اور اس کے لیے کوئی عقلی دلائل نہیں دیے جا سکتے کیونکہ ایمان ایک وجودی فیصلہ ہے کوئی عقلی ججمنٹ نہیں ہے۔ عقلِ تسلیم ایمان، وحی اور نبوت پر اٹھنے والے عقلی اعتراضات کو رفع کر سکتی ہے، اور وحی میں جو عقلی مسائل در آتے ہیں ان کو حل کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ عقل محض اور عقل ایمانی میں نوعاً کوئی فرق نہیں ہے وہ ایک ہی طریقے اور استدلال پر کام کرتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایمانی مقتضیات عقل میں تنزیہ کو غالب کر دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس ملکہ یا faculty کا نام عقل کے علاوہ کچھ اور رکھنا چاہیے۔ لیکن علم الکلام سے کوئی مابعدالطبیعات یا عرفان پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ہرمینیات (hermeneutics) کی قبیل کا کوئی علم ہے۔

محترم زاہد مغل صاحب ایمانوئل کانٹ کو جاوید چودھری سمجھ کر اسلامی تہذیب کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ علمی معاملات میں مخاصم کے موقف کی درست تفہیم مکالمے کی بنیاد ہوتی ہے، جو ان کی تحریر سے غائب ہے۔ وہ کانٹ کو سوفسطائی سمجھتے ہیں۔ اگر کانٹ سوفسطائی ہے تو علم الکلام تو کہیں بڑھ کر سوفسطائیت ہے۔ سوفسطائی تو امکانِ علم کے ہی قائل نہیں، تو پھر کانٹ سے مکالمہ ہی بے معنی ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مابعدالطبیعات کے مسئلے پر محترم زاہد مغل صاحب کو زیادہ غصہ آتا ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ ایک مذہبی آدمی نے مابعدالطبیعات کا کرنا کیا ہے؟ مابعد الطبیعات ایک مذہبی آدمی کی ضرورت نہیں ہے۔ وحی اور مابعدالطبیعات کے دعاوی باہم سخت متضاد ہیں، اور مابعدالطبیعات سے شغف مقامِ وحی سے غافل کر دینے کا میلان رکھتا ہے۔ کانٹ وحی اور مابعدالطبیعات دونوں کا انکار کرتا ہے، اور یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ اس میں کانٹ کے مابعدالطبیعات کے انکار کا غم کھانا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا بلکہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کانٹ امکانِ وحی کے خلاف جو دلائل رکھتا ہے ان کا عقلی رد سامنے لایا جائے۔ جس کلچر اور علمی روایت میں عقلی علوم ہی کا خاتمہ ہو گیا ہو وہاں مابعدالطبیعات کا جھنڈا اٹھانا سخت حماقت کی بات ہے۔ مغرب نے تو scientism کے ذریعے اپنی طبیعات ہی کو مابعدالطبیعات بنا لیا ہے، اس کا رد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا scientism وہابیت ہے، علم الکلام کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ جدیدیت اور جدید علوم نے مسلم شعور ہی کا ملیدہ بنا دیا ہے اس کی بازیافت کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ سارے کام اس وقت ہو سکتے ہیں جب ہمارے پاس بھی وہی عقل ہو جس معنی میں وہ عصر حاضر میں فعال ہے۔ محترم زاہد مغل صاحب پتہ نہیں کدھر کو نکل کھڑے ہوئے ہیں اور جو تھوڑی بہت چیزیں بچ رہی تھیں ان کا بھی تیا پانچہ کرتے جا رہے ہیں۔

میں مابعدالطبیعات کے خلاف نہیں ہوں، لیکن ہمیں اس وقت اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کانٹ جب یہ کہتا ہے کہ انسان مابعدالطبیعات کی طرف فطری میلان رکھتا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ حقائق کی طلب اور علم میں اس کی تلاش فطری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طلب سچی ہے اور کوشش نارسا ہے اور یہ موقف درست بھی ہے۔ عقیدے یا ایمانیات کو عقلی علم بنانا عقیدے کی فنا ہے، اور اس کو عرفان یعنی مذہبی مابعدالطبیعات بنا دینا عقیدے کو سخت متنازع بنا دینے کے مترادف ہے۔ جدید سائنس اور شیخ اکبرؒ کی مابعدالطبیعات نے ہمارے عقیدے کے لیے اسی نوعیت کے سنگین مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ہمارے ہاں بالعموم جو بھی علمی کام ہو رہے ہیں وہ ایک دم ردی ہیں، اور محترم زاہد مغل صاحب بھی ردی میں اضافہ ہی فرما رہے ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ جو دینی خدمت سرانجام دے رہے ہیں وہ اس کا بھی ایک گوشوارہ مرتب فرمائیں تاکہ ہم بھی ان کے قافلے میں بھرتی ہو سکیں کیونکہ علم میں دین کی خدمت سے بڑا کام اس زمانے میں کوئی نہیں۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں