Home » یوال نوح حراری کی Homo Deus
انگریزی کتب تاریخ / جغرافیہ سائنس مطالعہ کتب

یوال نوح حراری کی Homo Deus

یوال نوح حراری مشہور لکھاری ہیں۔ اس سے پہلے ان کی مشہور کتاب The Sapiens پر گفتگو ہو چکی ہے۔ Homo Deus حراری کی دوسری کتاب ہے جس کی شہرت The Sapiens سے زیادہ نہ سہی مگر کم نہیں ہے۔ پھر یہ کتاب The Sapiens ہی کا اگلا حصہ ہے کیونکہ The Sapiens زیادہ تر ماضی کی بات کرتی ہے جبکہ اس کتاب کا موضوع انسانیت کے ممکنہ مستقبل کے بارے میں ہے۔ اگر آپ The Sapiens کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کتاب کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ بیشتر مباحث The Sapiens سے ملتی جلتی ہیں۔ بالخصوص کتاب کے ابتدائی حصے میں جس کو بنیاد بنا کر حراری دنیا اور انسانوں کے مستقبل پر بات کر رہے ہیں اس کے ماضی کے بھی کئی واقعات کو دوبارہ بیان کیا ہے تاکہ اپنی بات کو وہ زیادہ واضح انداز میں بیان کر سکیں۔ کیونکہ The Sapiens پر میں پہلے بات کر چکا ہوں تو اس کتاب کی وہ باتیں جن کا ذکر The Sapiens میں آ گئی ان کو کوشش کروں گا تکرار نہ کروں۔ مزید بات کرنے سے پہلے ایک بات کا اعتراف کر دوں کہ یہ موضوع میرے لیے نیا ہے اور اس کی بہت سی باتوں سے میرا لاعلم ہونا عین ممکن ہے تو میرے گفتگو میں اس کمی کو پہلے سے ہی سے مد نظر رکھتے ہوئے ہی اس تحریر کو پڑھنا ہوگا۔ تاکہ قابلِ اصلاح چیزوں کی نشاندھی بھی ہو جائے اور میری معلومات کی محدودیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے.
دوسری اہم چیز کتاب پر گفتگو سے پہلے ذہن نشین کرنا ضروری ہے وہ حراری کا نظریہ ہے۔ جو کے The Sapiens پڑھنے کے بعد واضح ہو جاتا ہے۔ حراری مکمل طور پر نظریہ ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں۔ جس کا مطلب وہ انسان کی تخلیق کو نہیں مانتے۔ دوسرا وہ خدا کے وجود کے قائل نہیں یعنی کہ ملحد ہیں ان کے ورلڈ ویو میں مذہب یا خدا کہیں جگہ نہیں پاتے۔ انہوں نے جو نقشہ بھی کھینچا وہ خدا کے بغیر ہے۔ حراری اپنی حد تو الحاد کے مبلغ ہیں لیکن مذاہب کے ماننے والوں کے بارے میں ان کا رویہ معاندانہ نہیں۔ وہ ان کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔
حراری کا نظریہ ارتقاء اور ملحدانہ نظریے کے مطابق دنیا اور مستقبل کی تعبیر ایسی چیزیں ہیں جن سے بیشتر لوگ متفق نہیں بالخصوص ان کا خدا کے وجود کو تسلیم نہ کر کے اور خدا کو نظر انداز کرکے دنیا اور کائنات کی تعبیر کسی صورت بھی ہمیں قبول نہیں.

حراری نے کتاب کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ پہلے دنیا کے بنیادی طور پر تین بڑے مسائل تھے۔ قحط ،وبا اور جنگیں۔ ان تین مسائل کے گرد ہی انسان کا طرزِ گھومتا تھا۔ خدا کا تصور بھی ان ہی مسائل کی دین ہے کیونکہ انسان ان تینوں سے بچنے کے لیے ہی خدا سے دعائیں مانگتا تھا۔ وہ خدا سے دعائیں مانگتا تھا کہ بیمار تندرست ہو جائیں ، بھوکے کا پیٹ بھر جائے اور اس کی زمین پر امن ہو۔ لیکن جب انسان نے ترقی کی تو ان تینوں مسائل کا حل انسان کی اپنی کوششوں اور تدبیر سے ہی ممکن ہوا۔ انسان نے جب میڈیکل سائنس میں ترقی کی تو اس کو معلوم ہوا کہ بیماری خدا کی ناراضگی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان کے اندر کچھ جرثوموں کے باعث ہے۔ ایسے ہی انسان نے جیسے جیسے ٹیکنالوجی اور سائنس میں ترقی کی تو اس کی مجموعی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا یوں قحط کے مسائل پر قابو پا لیا گیا۔ اب جدید دنیا میں بڑی حد تک قحط کا مسئلہ حل ہو چکا ہے اگر کسی علاقے میں قحط ہے تو اس کی وجہ خدا کی ناراضگی نہیں بلکہ اس علاقے کے آس پاس کے سیاسی حالات کی وجہ سے ہے۔ جس میں کچھ طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر دوسرے علاقوں تک رسد و طلب کے مسائل پیدا کرتی ہیں تو قحط برپا ہوتا ہے۔
ایسے ہی دوسری عالمی جنگ کے تباہ کن تجربے کے بعد اس کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا اب جنگوں سے چھٹکارا پا چکی ہے۔ اس میں سب سے بڑی وجہ معیشت کی بنیاد کی تبدیلی ہے۔ اب ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معیشت کی بنیاد معدنی وسائل کی بجائے علم اور ٹیکنالوجی پر رکھی ہے۔ اس کی وجہ سے کسی ملک کو دوسرے ملک پر قبضہ کرنے سے دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ کیونکہ آپ کسی دوسرے ملک کی زمین میں موجود معدنیات یا پھر دوسرے اثاثوں پر تو قبضہ کر سکتے ہیں مگر وہاں کے لوگوں کے ذہنوں کو قابو نہیں کر سکتے جن کی تحقیق پر اب جدید معیشت کی بنیاد ہے۔اب بھی اگر دنیا میں کسی جگہ جنگیں ہو رہی ہیں تو اس کی وجہ وہاں کی معیشت مادی وسائل پر مبنی ہے جبکہ جو معیشتیں ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہیں ان کو جنگوں کی ضرورت ہے نہ ہی کوئی خطرہ۔
جہاں تک قحط کی بات ہے تو موجودہ دور میں لوگ بھوک کی بجائے بسیار خوری کے باعث مر رہے ہیں۔ حراری کہتے ہیں کہ پچھلی دو تین دہائیوں میں القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کی کاروائی سے اتنے لوگ ہلاک نہیں ہوئے جتنا فاسٹ فوڈ اور مرغن غذاؤں کی وجہ سے مرے ہیں.
حراری کہتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں بہت سے لوگ مرے جن کی تعداد پندرہ سے بائیس ملین کے درمیان ہے۔ یہ چار سالوں پر محیط جنگ تھی جبکہ اس کے فوراً بعد ۱۹۱۸ میں سپینش فلو آیا جس سے ہلاکتوں کی تعداد جنگ عظیم اول سے کم از کم دو گنا زیادہ تھی۔ مگر ہماری یاداشت میں جنگ کی تباہ کاریاں موجود ہیں مگر ایسی عالمی وباؤں کی۔ لیکن میڈیکل سائنس میں ترقی کے باعث انسان نے وباؤں کی سنگینی کا بھی کافی حد تک تدارک کر دیا ہے۔ حراری نے یہ بات ۲۰۱۶ میں کہی تھی ، تین ہی سالوں بعد دنیا نے کورونا کی وبا دیکھی۔ اس میں بھی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ستر لاکھ سے زائد لوگ موت کی نیند سو چکے۔ لہذا حراری کا یہ دعویٰ تین سالوں بعد ہی غلط ثابت ہوا۔ اس پر کہا جا سکتا ہے کہ کورونا کی تباہی کو اگر پچھلی صدیوں کی وباؤں کی تباہی کے مقابلے میں دیکھا جائے تو شاید یہ کم لگے۔ لیکن پھر بھی میڈیکل سائنس کی اس ترقی کے باوجود بھی اس بیماری نے بڑی تباہی مچائی۔ ایسے ہی بقول حراری کے خشک سالی اور قحط موسمیاتی تبدیلیوں اور مالی بدانتظامی کے باعث ہوتے ہیں۔ یہی حال جنگوں کا ہے جن کے پیچھے سیاسی مفادات ہوتے تھے۔ خدا پر ایمان نہ رکھنے والے یا اس کو عضو معطل سمجھنے والے ذہن اس پر مختلف تاویلیں پیش تو کریں گے لیکن خدا پر یقین رکھنے والوں کے لیے ان ہی باتوں میں اپنے نظریے کے درست ہونے کی دلیل ہے کہ خداوند متعال قادر مطلق ہے۔ ٹھیک ہے سیلاب اور خشک سالی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہے مگر ان موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ خدا کا ارادہ اور حکم ہے۔ خدا ہی لوگوں کے ذہن میں اچھے خیالات ڈالتا ہے جس سے ان کے اندر بحرانوں سے نمٹنے کے خیالات آتے ہیں اور اس کی ڈھیل دینے پر شیطان کا جب لوگوں کے ذہن خراب کرتا ہے تو دنیا میں فساد برپا ہوتے ہیں۔ خدا کے وجود کی حقانیت کتاب کا موضوع نہ ہی اس پر یہاں بات کرنا مقصود ہے لیکن الحادی ذہن کے کھڑے ہوئے نقشے جس کے مکمل عقلی اور منطقی ہونے کا ان کا دعویٰ ہے اس دعویٰ میں بھی بہت گہرے نقص موجود ہیں۔
حراری نے بائیو ٹیکنالوجی میں مزید ترقی کے امکانات پر بات کی ہے اور بتایا ہے کہ ماضی میں حیرت انگیز کامیابیوں کے بعد اب سائنسدانوں کا اگلا ہدف انسان کو امر کرنے کا ہے مطلب موت کو شکست دینا۔ یہ بات گو کہ ناممکنات میں سے ہے مگر اس سے کچھ ممکنات نکل سکتے ہیں مثلاً اوسط عمر میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ انسان دو تین سو سال تک صحت مندی سے زندگی گزار لیں، یہ بہت بڑی کامیابی ضرور ہوگی لیکن موت کا خاتمہ اس دنیا میں ممکن نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان کی اوسط عمر میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تو اس سے دنیا کے نقشے پر کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں؟ اگر یوں ہی انسان کی موت مؤخر ہوتی جائے اور نئی نسلیں جو پیدا ہوں گی ان کے درمیان جو جنریشن گیپ ہو گا اس کو کیسے پر کیا جائے گا ؟ فیصلہ سازی کی قوت کس نسل کے پاس ہوگی؟ پھر آبادی میں جو اضافے سے مسائل پیدا ہوں گے ان کا کیا حل ہوگا؟ وسائل کی منصفانہ تقسیم کیسے رو بہ عمل لائی جائے گی کہ صورتحال معمول پر رہے۔ پھر بائیو ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں میں بھی جدت آ رہی ہے۔ ان جدید ہتھیاروں کے استعمال کے کیا کیا نقصانات ہوں گے؟ ان سب مسائل کا حل کیا ہو گا، اس پر مزید بحث کی گنجائش ہے اور حراری خود بھی کئی سوالوں کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔
حراری کہتے ہیں کہ موت کی بنیادی وجوہات میں سے دو بیماری اور بڑھاپے کے اثرات کو ختم کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ اس میں کچھ جزوی کامیابیاں بھی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ نے لمبے عرصے تک جان لیوا بیماریوں سے جنگ کی ہے ایسے ہی ایسی ادویہ بھی موجود ہیں جو بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرتی ہیں مگر تاحال موت سے فرار ممکن نہیں اور اس دنیا میں رہتے ہوئے یہ ممکن ہوتا نظر بھی نہیں آ رہا۔ البتہ مذہب موت کے بغیر زندگی کا ایک تصور ضرور پیش کرتا ہے مگر اس کے لیے پہلے اس زندگی کو مکمل ہو کر موت سے گزرنا پڑے گا۔ جس میں اس زندگی کے اعمال کی بنیاد پر اگلی زندگی کا ٹھکانہ طے ہونا ہے۔ یہ دائمی زندگی جس کا مذہب نے تصور دیا اس کا حراری نے بھی ذکر کیا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ دائمی زندگی اس دنیا میں حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں مشکلات نہ ہوں۔ مطلب وہ زمین پر ہی جنت قائم کرنے کے خواہشمند ہیں

حراری نے بائیو ٹیکنالوجی کے کچھ اور اہداف پر بھی بات کی ہے۔ جس میں سے ایک مستقبل کے انسان کی حیاتیاتی ساخت میں تبدیلی بھی ہے۔ یعنی کہ سپر ہومین جس میں انسانوں کے علاوہ وہ صلاحیتیں بھی پائی جائیں جو کہ موجودہ انسان میں نہ پائی جاتی ہوں مثلاً اس کے حواس خمسہ کی طاقت میں تبدیلی ہو۔ جیسے کہ کسی نے تصور دیا کہ انسان کی نظر عقاب کی طرح ہو جائے اور اس کی سونگھنے کی صلاحیت دیگر جانور جیسے کہ سانپ یا کتے جیسے ہو جائے اور اس کے سننے کی فریکوئنسی بڑھ جائے۔ ان سب کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے انسان کیا انسان ہی ہوں گے یا پھر انسانوں سے ماوراء کوئی اور لوگ۔یہ بات تصور کی حد تو کافی دلچسپ معلوم ہوتی ہے لیکن بائیو ٹیکنالوجی اگر اس معاملے میں کچھ کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر دیگر انسانوں سے ایسے سپر ہیومنز کا رویہ کیا ہو گا۔ حراری نے ایک اور بات بھی کی ہے کہ یہ سب تصورات ہیں اس کا نتیجہ ممکن ہے وہ نکلے جو سوچا جا رہا ہو۔ یہ تو عام زندگی میں بھی انسان کوئی پلاننگ کرتا ہے لیکن جب اس پلان پر عمل کرتا ہے تو بہت سی چیزیں میدان عمل میں مختلف نتائج لاتی ہیں جو کہ انسان نے سوچا ہوتا ہے۔ ایسے ہی مستقبل کے انسان کی صلاحیتوں میں اضافے کے حوالے سے ممکن ہے کہ بائیو ٹیکنالوجسٹ کچھ اور سوچ رہے ہوں مگر عملی نتیجہ کچھ اور نکلے۔
دوسرا بائیو ٹیکنالوجی کا یہ استعمال ایک محدود سے ایلیٹ کے لیے ہی ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ نئی ٹیکنالوجی سے سب سے پہلے مستفید اپر کلاس ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے اس ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی جاتی ہے وہ سستی ہوتی جاتی ہے اور نچلے طبقے کے لوگ بھی اس سے مستفید ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایلیٹ کلاس کا اس کو پہلے استعمال میں لانے کے بعد امیر اور غریب کا جو فرق پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد وہ فرق مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ایک طرح سے ایک نیا عدم توازن بھی ساتھ لائے گا مگر جیسے ہی اس کے فوائد نیچے جائیں گے تو یہ بے چینی کم ہو جائے گی حالانکہ اس عرصے کے درمیان جو فرق پیدا ہو چکا ہو گا وہ بہت زیادہ ہو چکا ہوگا۔
حراری نے کہا ہے کہ ایسا نہیں کہ سب انسان ہی موت اور بھوک کو شکست دے دیں گے۔ ممکن ہے فقط چند لوگ ہی یہ کام کر پائیں اور انسانوں کی ایک بڑی اکثریت بھوک اور غربت کا شکار ہو۔ اس پر کوئی سوال اٹھا سکتا ہے کہ کیا یہ اخلاقی طور پر درست ہے کہ جب لوگ بھوک سے مر رہے ہوں تو چند امراء اپنی دولت اس پر بھاری خرچ کریں کہ وہ موت سے نجات کیسے پا سکیں۔ اس پر حراری کہتے ہیں کہ گو کہ یہ بات ہمیں پسند نہ آئے مگر تاریخ ایسے ہی چلتی ہے وہاں لوگ کسی کا انتظار نہیں کرتے، یہاں بھی ایسا ہی ہو گا۔ کوئی شخص اس روش کو غلط کہہ سکتا ہے مگر تاریخ بہت سے غلط فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔

حراری نے اعتراف کیا ہے کہ سائنسی انقلاب کے بعد جو صنعتی ترقی ہوئی ہے اس نے ان ممالک کی مجموعی دولت میں تو اضافہ کیا ہے مگر اس کے ساتھ وہاں جا ماحولیاتی توازن ہے وہ بھی بگڑا ہے۔ ان ممالک کو اپنی ترقی کے لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کی یہ قربانی دینی پڑی ۔ یہ حراری نے خالص سرمایہ دارانہ سوچ کی عکاسی کی ہے جس میں سرمایہ دار اپنے ذاتی فائدے کے لیے اجتماعی نقصان کی ذرا پروا نہیں کرتا۔ صنعتی ترقی کے فوائد سے انکار نہیں مگر اس کے بے دریغ پھیلاؤ نے جس ماحولیاتی آلودگی پیدا کی ہے اس کو گوارہ نہیں کیا جاسکتا۔
حراری نے ایک اور بہت اہم بات کی کہ کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کو جانچنے کے لیے ہمارے پاس جی ڈی پی کا پیمانہ بہت عام ہے لیکن اس کے GDH یعنی کہ Gross Domestic Happiness والا پیمانہ زیادہ معتبر ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد ممالک کی مجموعی دولت میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کے پاس دولت بھی پہلے سے زیادہ ہے مگر وہاں پر لوگوں کی خوشی و اطمینان کے عالم میں بڑھتوی نہیں ہو رہی حالانکہ زیادہ وسائل اور دولت کے نتیجے میں لوگوں کو خوش ہونا چاہیے مگر خوشی کا پیمانہ پہلے سے کم ہی ہو رہا ہے۔ حراری کا یہ اعتراف بتا رہا ہے کہ خوشی کو فقط مادی وسائل اور ترقی پر نہیں جانچا جا سکتا بلکہ انسان کا ایک روحانی وجود بھی ہے اور اس کے اپنے تقاضے اور ضروریات ہیں۔ گوکہ حراری تو روح کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ انسان کا ڈی این اے ہی اس کی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ روح کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں لہذا وہ اس کو نہیں مانتا۔ اس پر اتنا ہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی سب ضروریات اور اس کی زندگی سائنس اور ٹیکنالوجی سے نہیں جڑی۔ اس کے داخلی وجود میں بھی ایک دنیا آباد ہے جس کو سائنسی پیمانے میں نہیں جانچا جا سکتا۔ اس کی زندگی میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں جو بظاہر نظر نہ آنے کے باعث ہم جان نہیں سکتے لیکن یہ اس کے اندر کیا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں اور انسان کے فکر و عمل پر وہ مسلسل اثر انداز بھی ہو رہے ہوتے ہیں مگر ہم ان کا ادراک نہیں کر سکتے۔

حراری کہتے ہیں کہ ہر انسان ہر فیلڈ میں ماہر نہیں ہوتا لہذا انسان کا یوں ترقی کرنا اور اپنے مسائل پر قابو پانا ایک ٹیم ورک کا نتیجہ ہے جس میں مختلف ماہرین اپنی اپنی مہارت کے مطابق اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ یہ کوششیں ملکر اس مسئلہ کا حل نکالتی ہیں۔ پھر کوئی کسی دوسرے کے تجربے سے بھی اپنے لیے کچھ نئی چیز نکال لیتا ہے۔ حراری نے کچھ ادویہ کا ذکر کیا ہے جو بنائی کسی اور مقصد سے تھیں مگر اب ان کا استعمال اور جگہ بھی ہوتا ہے۔

حراری نے کتاب کے پہلے حصے میں انسانوں کی باقی مخلوقات پر برتری حاصل کرنی کی وجوہات پر بحث کی ہے۔ اس حصے میں بنیادی طور پر بیشتر مباحث وہ ہی ہیں جو اس سے پہلے وہ اپنی کتاب The Sapiens میں کر چکے ہیں بس اس کی تفصیلات میں کچھ فرق ہے۔ اس میں تین ادوار زرعی دور سے پہلے جب انسان غاروں میں رہتا اور شکار کرتا تھا، دوسرا زرعی دور اور پھر صنعتی دور کے اندر انسان کے طرزِ زندگی میں جو جو فرق آئے ان کو ذکر کیا ہے جیسے کہ اپنی پہلی کتاب میں زیادہ تفصیل سے انسان کی تاریخ کو بیان کیا ہے۔انسان جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا اس کا باقی مخلوقات پر کنٹرول بڑھتا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی ذہانت نہیں بلکہ اس کا ملکر کام کرنے کا جذبہ تھا۔ پھر انسان نے کچھ فرضی حقائق بھی وضع کیے جیسے کہ ریاست ، مذہب ، قانون وغیرہ ان کے اثرات انسانوں کے قبضے کو قائم کرنے میں بہت معاون ثابت ہوئے۔ زرعی دور میں انسان نے جانوروں کو قابو میں رکھنا شروع کیا۔ حراری بتاتے ہیں کہ Mammals کے لیے ماں کی محبت ان کی خوراک کی طرح ضروری ہوتی ہے۔ گو کہ دیکھا جائے تو والدین اور بچوں کا رشتہ مفادات پر مبنی ہوتا ہے لیکن ممالیہ جانوروں کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ ان کی ضروریات فقط خوراک سے پوری نہیں ہوتیں ان کو ماں کی محبت بھی درکار ہوتا ہے مگر انسان نے جانوروں کو پالتو بنانے کے لیے اس کی فطرت کو تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی۔ انسان کو جب ضرورت پڑے گائے سے اس کا بچھڑا جدا کر دیتا ہے حالانکہ کچھ سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ ایسے جانور جو جلد ماں سے جدا کر لیے جائیں ان کے اندر ایک کمی پائی جاتی ہے کو بظاہر تو نظر نہیں آتی لیکن ماہرین اس کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اس سے حراری نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان کا اپنے آپ کو جانوروں سے اس لیے بہتر سمجھنا کہ وہ شعور رکھتا ہے درست نہیں۔ جانور بھی کچھ تھوڑا سہی مگر شعور رکھتے ہیں۔ ان کے بھی جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔
دوسرا انسان کا جانوروں پر برتری کا دعویٰ روح کو لیکر ہے انسان سمجھتا ہے کہ اس کے جسم میں روح ہے لہذا وہ جانوروں سے برتر ہے۔ حراری کہتے ہیں کہ روح ابھی تک سائنسی تصدیق کی محتاج ہے۔ یہ درحقیقت ایک خیالی تصور ہے۔ اصل چیز جو انسان کو زندہ رکھتی ہے وہ ڈی این اے ہے اور جانوروں میں بھی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔
روح کی حقیقت کے بارے میں انسان کا علم بہت ہی محدود ہے اس لیے سائنس اس کی تصدیق نہ کرے تو اس کے ساتھ سائنس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں جس سے وہ انکار کرے۔ روح، اللہ کا امر ہے اس لیے انسان اس کی لطافت اور اس کی نزاکت کو مکمل طور پر نہیں جان سکتا۔ حراری کے پاس بھی روح کے انکار پر کوئی خاص دلائل موجود نہیں ماسوائے اس کے اس کی سائنسی طور پر تصدیق نہیں ہوسکتی۔دوسرا حراری کا استدلال نظریہ ارتقاء کی بنیاد پر ہے کیونکہ نظریہ ارتقاء روح کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ حراری کے یہ دونوں دلائل کوئی خاص وزن نہیں رکھتے پھر نظریہ ارتقاء کا بھی تصدیق شدہ سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ سب مفروضات ہیں جن میں سے کچھ مفروضات کو کچھ سائنسی دلائل اہمیت دیتے ہیں ورنہ تو جیسے روح کی سائنس نے تصدیق نہیں کی نظریہ ارتقاء کا معاملہ اس سے بھی کمزور ہے کہ اس پر بغیر کسی شک کے یقین رکھا جائے جیسا کہ حراری کے ہاں نظر آتا۔
انسانوں کا جانوروں سے برتری میں ایک دعویٰ ذہانت کا بھی ہے کہ یہ چیز اس کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے تو حراری نے بتایا ہے کہ جانوروں میں بھی ذہانت پائی جاتی ہے بھلے وہ انسانوں جتنے ذہین نہ ہوں مگر مختلف تجربات جن میں سے کچھ حراری نے ذکر بھی کیے کے مطابق جانوروں میں بھی ذہانت پائی جاتی ہے۔
حراری کہتے ہیں کہ انسان میں ایک خوبی یعنی ملکر کام کرنی کے ایک ایسی چیز ہے جس سے اس نے دیگر جانوروں کو شکست دے دی۔ بلکہ صرف جانوروں کو نہیں بلکہ انسانوں کے اس اتحاد اور یکسوئی نے صرف زور آور جانوروں کو قابو نہیں کیا بلکہ طاقتور حکمرانوں کا تختہ بھی پلٹ دیا۔ حراری نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشسکو (Ceausescu) کی آخری تقریر جو اس نے بطور حکمران کی۔ جب اسی ہزار کے مجمعے سے خطاب کے دوران ہی اس مجعے کو یقین ہو گیا کہ وہ سٹیج پر کھڑے ڈکٹیٹر سے زیادہ طاقتور ہیں انہوں نے اپنی طاقت کا اظہار کیا اور یوں رومانیہ سے چاؤشسکو کے بائیس سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ سب انسانوں کے اتحاد اور تعاون کی کامیابی تھی جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔ آج بھی سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی بھی سائنسدانوں کے باہمی تعاون کا نتیجہ ہے جہاں پر اپنے میدان کے ماہرین اپنی تحقیقات سے دوسروں کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔
حراری نے انسانوں کے باہمی تعاون Objective Reality, Subjective Reality اور پھر Intersubjective Reality کے بارے میں کافی دلچسپ گفتگو کی ہے۔ اس پر وہ The Sapiens پر گفتگو کر چکے ہیں. The Sapiens میں انہوں نے جو Imagined Reality پر بات کی اس سے ملتی جلتی بات Intersubjective Reality پر کی ہے کیونکہ دونوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ وہ تصور ہے جو انسانوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور ان کو ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر راضی کرتا ہے اور اس ہی کے نتیجے میں انسانوں نے جانوروں پر برتری حاصل کی ہے۔

اس Intersubjective Reality کے ساتھ ایک اور چیز جس نے انسانوں میں بڑی جوہری تبدیلی لائی وہ لکھنے کا فن تھا۔ انسان شروع سے ہی کہانی گو رہا ہے اور یہ کہانیوں کو سننا پسند کرتا ہے۔ ان کہانیوں میں انسانوں کے مختلف تجربات کا نچوڑ بھی شامل ہوتا تھا۔ جب انسان نے لکھنا نہیں سیکھا تھا تو ان کہانیوں اور ان کے اندر تجربات اور حکمت آموز اسباق کا اثر بہت محدود ہوتا تھا مگر جب انسان نے لکھنا سیکھ لیا تو انسان نے اپنے زمانے کے ساتھ اپنے سے پہلے کے زمانے کے انسانوں کے تجربات سے بھی سیکھا۔
کسی کے لکھے کے اثرات بہت دور رس ہوتے ہیں اگر کسی طاقتور کا لکھا معروضی حقائق سے میل نہ کھاتا ہو اور اس نے اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہو تو وہ ایسی صورتحال کھڑی کر دیتا ہے جو معروضی حقائق کو ہی بدل دیتی ہیں یوں اس کی لکھی بات زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ بیوروکریسی میں بہت سی فائلز کا یہی حال ہوتی ہے جو کہ معروضی حقائق کے خلاف ہونے کے باوجود اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے لیے بضد ہوتے ہیں۔ یوں اس لکھے ہوئے سے فقط سچائی سامنے نہیں آئی بلکہ بہت سے معروضی حقائق کو بھی انہوں نے بدل ڈالا ہے۔اس کی ایک مثال حراری نے چین کی دی ہے جب موزے تنگ نے چین کو سپر پاور بنانے کا فیصلہ کیا ۔ جس کے نتیجے میں وافر گندم کے بدلے کئی صنعتی اور ملٹری پراجیکٹس لگانے تھے۔موزے تنگ نے جو فصلوں کے اہداف رکھے تھے ان کا حاصل کرنا ناممکن تھا تو چینی بیوروکریسی نے فصلوں کے سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کرکے موزے تنگ کو غلط اعداد و شمار پیش کیے جس میں اصل پیداوار سے مزید پچاس فیصد زائد بڑھا کر بتایا گیا۔ جس کے نتیجے میں چینی حکومت نے لاکھوں ٹن کے لحاظ سے چاول اور غذائی اجناس دوسرے ممالک کو بیچ کر ان سے اسلحہ خریدا۔ لیکن بیوروکریسی کے غلط اعداد و شمار کے باعث چین کو بدترین قحط کا سامنا کرنا پڑا جس میں لاکھوں افراد بھوک سے مر گئے۔
حراری نے ایک اور مثال افریقی ممالک کی دی ہے جن کو سامراجی طاقتوں نے آپس میں بانٹا تو ان کی لسانی اور قبائلی شناختوں کو نظر انداز کیا جس میں کئی قبائل منقسم ہوئے اور دشمن قبائل ایک جگہ اکٹھے ہو گئے لیکن سامراجی قوتوں نے اپنی بندر بانٹ پر نظر ثانی نہیں کی۔ یہ مسائل اب بھی موجود ہیں لیکن ان دستاویز جن سے سرحدوں کا تعین ہوا نے معروضی حقائق کو ہی بدل ڈالا۔
ایک اور مثال سکولوں کی دی ہے کہ جو کہ اس لیے قائم ہوئے کہ لوگوں کو تعلیم دے سکیں مگر اب ان کے درمیان زیادہ نمبر لینے کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں اصل مقصد کو نظر انداز کر کے زیادہ نمبروں پر زور دیکر دوسرے ادارے ہر اپنی برتری قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ان مثالوں کے بعد حراری نے دعویٰ کیا کہ مذہبی مقدس دستاویزات کی بھی یہ ہی حیثیت ہے۔ اس میں بھی جہاں عقائد و نظریات معروضی حقائق سے ٹکراتے ہیں تو یہ بھی معروضی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل حراری کے اس دعویٰ کی بنیاد اس کا الحادی نظریہ بھی ہے جس میں وہ کسی برتر ہستی کے وجود کا قائل نہیں۔ اس کے مطابق جتنے بھی مذہبی صحائف ہیں وہ لوگوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ کتب سماوی کے بارے میں اس کی بات تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ ہاں قرآن مجید سے قبل کے صحائف میں کچھ رد و بدل ضرور ہوا ہے جس میں کچھ باتیں حقیقت کے خلاف ہیں لیکن قرآن مجید ایسی کسی آمیزش سے پاک ہے اور اس کی تعلیمات میں تضاد ہیں نہ ہی یہ حقائق کو جھٹلاتی ہیں۔

ویسے مذہب کے حوالے سے حراری کہتے ہیں کہ یہ زرعی دور کی دین ہے کیونکہ اس وقت بارشوں اور فصلوں کی پیداوار کے حوالے سے انسان کے پاس کچھ سوالات کے جوابات نہیں تھے تو اس نے ان کا حل خدا کی مرضی کو جانا۔ مگر جب انسان صنعتی دور میں داخل ہوا تو مذہب کے حوالے سے اس کا رویہ بھی بدل گیا۔ صنعتی انقلاب نے مذہب کی گرفت کو کمزور کر دیا۔ بالآخر اب یہ انسان کا انتہائی ذاتی معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔ حراری کا دعویٰ ہے کہ سائنسی انقلاب کے انسان کائنات میں امور کی تشریح کے لیے خدا کا محتاج نہیں رہا۔ اس کو معلوم ہو گیا ہے کہ بارش کیوں نہیں ہو رہی، بھوک اور غربت کی کیا وجوہات ہیں اور ان کو کیسے دور کرنا ہے۔لیکن حراری تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں نے بہت سے اہداف حاصل کیے۔ ایسے ہی بہت سی جنگیں بھی مذہب کی خاطر لڑی گئیں جس میں خدا کی خوشنودی لوگوں کا خون بہانے میں تلاش کی جانے لگی۔ حراری نے صلیبی جنگوں کی مثال دی ہے جس میں مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کو قتل کر رہے تھے اور دونوں یہ قتل خدا کو راضی کرنے پر کر رہے تھے. اس حد تک تو حراری کی بات درست ہے کہ دونوں گروہ اپنے اپنے مذہب کی حقانیت کو سامنے رکھ کر اپنی جان خدا کو سپرد کر رہے تھے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ سوال یہ جنم لیتا ہے کہ خدا کے ساتھ تعلق کس کا قریبی ہے۔ کون ہے جو خدا کے پیغام کو درست طور پر آگے پہنچا رہا ہے۔ انسان کی سوچ ایک حد تک جا کر ختم ہو جاتی ہے لیکن خدا کے ہاں معاملات مختلف ہیں۔
حراری کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کے بعد روایتی مذاہب کی جگہ ہومینزم یعنی کی انسان پرستی نے لے لی جس کو حراری ایک نیا مذہب کہتے ہیں۔ اس ہومینزم کی تین شاخیں کمیونزم ، لبرلزم اور ارتقائی ہومینزم تھی۔ جس طرح دیگر مذاہب کے فرقوں نے آپس میں لڑائی لڑ ایک دوسرے کو مارا ایسا ہی کچھ معاملہ ہومینزم کے ساتھ بھی ہوا۔ دوسری جنگ عظیم میں لبرلزم جس کا مرکز امریکہ تھا اور کمیونزم جس کا مرکز روس تھا نے ملکر ارتقائی ہومینزم جس کا مرکز جرمنی تھا کو شکست دی۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونزم سب سے مقبول ترین مذہب تھا لیکن بالآخر سرد جنگ کے نتیجے میں لبرلزم نے کمیونزم کو پچھاڑ دیا۔ اس کے بعد سے اب تک لبرلزم سب سے مقبول مذہب ہے جس کا کوئی بڑا حریف نہیں ہے۔
حراری کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ لبرلزم کو کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی جو کہ بظاہر کسی مذہب کے حریف نہیں ہیں نے جس طرح ماضی کے روایتی مذاہب کے ماننے والوں کی سوچ کو بدلا اور یہ مذاہب اس کے آگے نہیں ٹھہر سکے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آگے لبرلزم کو پیش آنے والا ہے۔ لبرلزم جس کی رو سے ہر شخص آزاد ہے کہ وہ کس چیز کو خریدے ، کس کو ووٹ دے یا کسی چیز کو وہ خوبصورت قرار دے یہ سب اس کا ذاتی حق ہے جس میں کسی کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں۔ اس کے تحت اگر کسی کے نزدیک خدا وجود برحق ہے تو یہ اس کا حق کے وہ یہ اعتقاد رکھے۔ اگر کوئی دوسرا خدا کے وجود کا قائل نہیں تو اس کا بھی برابر کا حق ہے۔ یہ بات اب کٹر مذہبی عناصر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لبرلزم میں کسی کا ہم جنس پرست ہونا یا کسی کا extra marital affair یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہے جس میں کسی کو اس کی مرضی میں مداخلت کا حق نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص Extra marital affairs میں جانے کا فیصلہ کا کرتا ہے اور اس کی بیوی اس پر راضی نہیں تو کیا وہاں پر بھی اس کی مرضی چلے گی اور یہ معاملہ اس کا ذاتی نہیں رہے گا۔
حراری نے ایک مثال اسرائیل کی دی ہے جہاں پر ہم جنس پرستی کے خلاف وہاں کے یہودیوں نے احتجاج کیا۔وہاں پر ہم جنس پرستوں کی پریڈ ہوتی تھی۔ اس پریڈ کے خلاف احتجاج میں وہاں کے مذہبی طبقہ نے یہ دلیل پیش کی یہ یروشلم کے شہر میں ہم جنس پرستوں کی اس پریڈ سے اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ انہوں نے یہ دلیل پیش نہیں کی کہ ہم جنس پرستی کو خدا نے حرام قرار دیا ہے۔
ایسے ہی کسی نے مسلمانوں کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ عراق ، افغانستان ، فلسطین میں ہوئے مظالم کو مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانوں کے قتل عام کا مسئلہ اگر بنا کر پیش کریں تو ان کو بہت سی طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔
حراری کہتے ہیں کہ جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے انسان کی وہ آزادی جو اس کو لبرلزم نے فراہم کی ہے وہ بتدریج محدود ہوتی جائے گی کیونکہ اب ہمارے واقعات کو ایک ریکارڈ پر لایا جائے گا جس میں فیصلہ کرتے وقت اصل اہمیت انسان کی مرضی کی نہیں بلکہ اس ڈیٹا کی ہوگی جو جمع ہوگا۔ کسی انسان کے لیے اس کے خلاف جانا ناممکن ہوگا۔ جس طرح ہم اب بہت سی معلومات کے لیے گوگل یا دیگر سرچ انجنز پر انحصار کرتے ہیں۔ پھر ہم نے اپنے وقت کا بہت سا حصہ موبائل گیجٹس کو دے دیا ہے۔ یہ بھی ہماری پرائیویسی میں ٹیکنالوجی کی مداخلت ہے جو کہ لبرلزم کے خلاف ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ مستقبل میں انسان کی یاداشت کو کسی سسٹم سے منسلک کیا جائے۔ اس کے ساتھ اس کے ڈی این اے اور اس کے آباؤ اجداد کے ڈی این اے کی بھی ہسٹری لیکر اس کو سسٹم سے منسلک کیا جائے جس کے تحت ایک الگورتھم سامنے آئے گا جو اس شخص کے بارے میں ہمیں ایسی معلومات بھی فراہم کرے گا جو انسان خود بھول چکا ہے یہ الگورتھم ہی اس کو تجویز دے گا کہ کون سی چیز اس کے لیے بہتر ہے اور کس سے اس کو بچنا ہے۔ حتی کہ اس کے لیے کون سا شخص شریک زندگی بننے کے زیادہ لائق ہوگا۔اس کا بھی فیصلہ اس الگورتھم کی روشنی میں کیا جائے گا جو انسان اور اس کے والدین کے ڈی این اے کے ڈیٹا سے وجود میں آیا ہے۔یوں انسان کی ذاتی پسند و نا پسند کا اختیار سلب ہوتا جائے گا اور وہ سسٹم کے سامنے بغاوت کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ لہذا جیسے روایتی مذاہب سائنس وٹیکنالوجی کے سامنے نہیں ٹھہر سکے لبرلزم کا نظریہ بھی نہیں ٹھہر سکے گا۔
حراری ایک بات واضح کرتے ہیں کہ لبرلزم کا یوں سائنس کے سامنے بے بس ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا سے لبرلزم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جیسے اب بھی دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ روایتی مذاہب پر یقین رکھتے ہیں ایسے ہی لبرلزم کے ماننے والے بھی موجود ہوں گے جو ذاتی پسند و نا پسند کے انسانی اختیار کے حق میں آوازیں بھی اٹھائیں گے لیکن جیسے دیگر مذاہب کا اثر محدود ہوا ایسے ہی لبرلزم کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کی بھی کوئی خاص وقعت نہیں ہو گی۔
حراری نے لبرلزم کے ایک اور بنیادی نظریہ Free Will پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ فری ول نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ انسان کے اندر کی جینیات جس کی تاریخ بہت پرانی ہے اور انسان اپنے آباؤ اجداد سے لیکر چل رہا ہوتا ہے وہ ہی اس کی فیصلہ سازی میں کردار ادا کرتی ہیں۔ فری ول کا تصور فریب ہے، انسان کبھی اپنی جینز کے خلاف نہیں جاتا اگر کبھی فیصلہ کر بھی لے تو وہ ٹھہر نہیں سکتا۔

حراری نے مذہب اور سائنس کے تعلق پر بھی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں۔ سائنس مذہب کے ان امور میں مداخلت نہیں کرتے جو اس کے اخلاقی نظریہ حیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسے کہ اگر مذہب کہتا ہے کہ ہم جنس پرستی گناہ ہے، ایسے ہی میاں بیوی کے علاوہ کسی اور کا جنسی تعلق گناہ ہے۔ سائنس اس کے گناہ پر تو بات نہیں کرے گی لیکن ایسے تعلقات کے میڈیکلی کیا اثرات ہو سکتے ہیں اس پر بات کرے گی اور وہ بھی انفرادی کیس میں اس کی بات الگ ہو سکتی ہے۔ لیکن جب مذہب یہ دعویٰ کریں کہ بائبل خدا کی تصنیف ہے تو سائنس اس پر کہے گی کہ خدا کا وجود پہلے ثابت کرنا ہو گا گو کہ سائنس خدا کا انکار بھی نہیں کرتی مگر اس نے اب تک خدا کے وجود کو ثابت بھی نہیں کیا۔ پھر اگر خدا کا وجود سائنس تسلیم کرتی ہے تو پھر دوسرا سوال یہ اٹھے گا کہ کیا خدا نے بھی کوئی کتاب لکھی ہے۔ لہذا مذہب کے ایسے دعویٰ پر سائنس اپنا نکتہ چھوڑ کر آگے نکل جائے گی۔ حراری کہتے ہیں کہ سائنس نے جس طرح سے نئی ایجادات کی ہیں جو کہ براہ راست انسان کے اوپر اثر انداز ہوتی ہیں تو کسی اخلاقی نظام کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان ایجادات کے بارے میں کوئی اصول وضع کیے جا سکیں کیونکہ سائنس اس کے اخلاقی اصولوں پر کوئی بات نہیں کرتی۔ حراری نے مغرب میں مذہب اور سائنس کے تعلق سے زیادہ تر گفتگو کی ہے وہاں پر کلیسا کا ایک تسلط قائم تھا پھر بائبل کو منبع علم قرار دیا گیا تھا جبکہ سائنس نے آ کر ان کے تصور علم کو بدل دیا۔ مغرب میں کلیسا کی شکست کو کچھ لوگ مذہب کی شکست بھی نہیں مانتے وہ ایک بگڑے ہوئے تصور جس کے حاکم مذہبی تھے کی شکست تھی۔ وہ مذہب کی تعلیمات کی عملی صورتیں نہیں تھیں

ایک سوال جو سائنسی انقلاب کے شروع سے ہی اٹھایا جا رہا ہے اور اب بھی اس پر بات چیت ہوتی ہے وہ ہے مشین کا انسان کو replace کرنا۔ ہم پچھلے دس پندرہ سالوں میں دیکھ چکے ہیں کہ بہت سی جگہ پر مشین نے انسان کی جگہ لی لی ہے۔ جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے مزید بہت سی جگہوں پر انسان کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایک مثال ڈرون طیاروں کی لے لیں جس نے فوج کی ضروریات کے حوالے سے صورتحال تبدیل کر دی ہے۔ ایسے ہی روبوٹس کے ذریعے سے زمینی فوج کی بھی ضرورت کم ہو چکی ہے۔ حراری نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جیسے جیسے مشین انسان کی جگہ لیتی جائے گی اس کے نتیجے میں دنیا کی مجموعی دولت میں تو اضافہ ہو گا لیکن ساتھ ہی بے روزگاری کا ایک بہت بڑا بحران جنم لے گا۔ گو کہ اس ٹیکنالوجی سے اتنی دولت آ جائے گی کہ ملک اپنے بے روزگار لوگوں کو بھی کھانا فراہم کرنے کے قابل ہوں گے لیکن بے روزگاری ایک بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔
ایسے سماجی سطح پر بھی ٹیکنالوجی سے بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پچھلے بیس پچیس سالوں میں خطوط جو کہ ایک قدیم ذریعہ ابلاغ تھا ختم ہو چکے اب محض کچھ سرکاری اداروں میں فارمیلٹی کے پیش نظر ان کا کچھ وجود ہے۔ پرسنل ڈائری لکھنے کے لیے اب کمپوٹر کا ایک فورم موجود ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ اس دور میں کوئی پرسنل ڈائری صرف وہ ہی لکھتا ہے جس کے لیے یہ ایک شوق ہو اور اس کے پاس وافر وقت ہو۔ ورنہ کمپوٹر میں میل کے ذریعے لوگ اپنا روزنامچہ لکھ کر محفوظ کرتے ہیں جس کے خراب ہونے ، پھٹنے یا گم ہونے کا بھی کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔ یوں ہی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ٹیکنالوجی کی بدولت بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور مزید ہو رہی ہیں۔ پھر سائنسی انقلاب کے بعد جس جلدی سے یہ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کوئی بھی مستقبل قریب کا درست اندازہ نہیں لگ سکتا۔ جبکہ ہم پچھلے ادوار میں چلے جائیں تو دسویں صدی کا شخص گیارہویں صدی کے بارے میں کوئی پیش گوئی بآسانی کر سکتا تھا مگر آج کا شخص اگلے پانچ سال کے بارے میں پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ یہ وہ انقلاب ہے جس کا انسانیت نے پہلے مشاہدہ نہیں کیا۔
حراری کہتے ہیں کہ میڈیکل سائنس میں اس بارے میں کام ہو رہا ہے کہ ایک انسان کو ڈاکٹر کی ضرورت نہ رہے۔ اس کا ڈی این اے ڈیٹا لیکر ایک سسٹم سے منسلک کردیا جائے گا جہاں خودکار ڈاکٹر غالباً اے آئی کے ذریعے اس کے مرض کی تشخیص کرکے اس کو ادوایہ تجویز کرے گا اور پھر فارماسسٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ اس کا ڈیٹا فارمیسی سے بھی منسلک ہوگا تو وہ خود ہی اپنی دوائی لے لے گا۔ اس حوالے سے امریکہ میں کچھ تجربات پر حراری نے گفتگو بھی کی ہے۔
حراری یہ بھی کہتے ہیں کہ ۲۰۷۰ میں اس وقت کا غریب آج سے کئی گنا زیادہ بہتر طبی سہولیات کا فائدہ اٹھا رہا ہوگا لیکن اس کے اور امیر کے درمیان فاصلہ بھی بہت بڑھ چکا ہوگا۔ اس بات کا تو اب بھی قیاس کیا جا سکتا ہے آج سے پندرہ بیس سال پہلے جو طبی سہولیات غریبوں کو میسر تھیں وہ آج کئی زیادہ بہتر ہیں مگر جو امیر لوگوں نے اس وقت انجوائے کیں وہ اب بھی زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بینکنگ سیکٹر میں جدت کے آنے کے بعد وہاں پر کئی لوگوں کی ضرورت نہیں رہی۔ ایسے ہی ماضی میں انسان کا وجود عسکری اور معاشی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا تھا مگر اب انسان اپنی عسکری اور معاشی قدر کو کھو رہا ہے جیسے جیسے ٹیکنالوجی مزید ترقی کرے گی اس کی قدر مزید کم ہوتی جائے گی۔
حراری کہتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے آنے سے جو بے روزگاری رونما ہو گی اور انسانوں کی زندگی بدلے گی اور اس جڑے دیگر سوالات کا مذہب کوئی حل نہیں دیتا۔ یہ انسان ہی ہے جس نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے اس بحران سے کیسے نمٹنا ہے۔ اس کے لیے اسے کسی پادری یا مفتی کی ہدایت کی ضرورت نہیں۔ حراری کا یہ سوال البتہ قابل غور ہے کہ دنیا کے بدلتے ان حالات میں مذہب کا نکتہ نظر کیا ہے؟ لیکن اس کے لیے یہ طے کرنا ہو گا کہ کیا مذہب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ اب تو وحی کا سلسلہ بند ہو چکا اس لیے نئی ہدایات بھی نہیں آ سکتی لیکن انسان کے ذہن میں کوئی حل خدا ہی ڈالتا ہے۔ یہ خدا ہی ہے جو انسان کو روشنی دکھاتا ہے اور پھر اس کو وہ منزل تک پہینچاتا ہے۔ پھر حراری کی یہ سب باتیں گو کہ قابلِ غور ہیں مگر پھر بھی ان کا عملی ظہور جب تک نہیں ہوتا تو اس وقت تک مذہب کا اس پر خاموش رہنا درست بھی ہے اور قابلِ فہم بھی۔

حراری کہتے ہیں کہ جدید دور میں انسان نے اپنی آزادی میں سے کچھ حصہ ٹیکنالوجی کو دیا تو ٹیکنالوجی نے اس کو نئی معلومات دیں۔ یہ جدیدیت کا ایک معاہدہ ہے جہاں انسان جتنی زیادہ قربانی دے گا بدلے میں اس کو معلومات کا خزانہ ملے گا۔ ایسے ہی ماحولیات کی قربانی سے اس کی معاشی ترقی ہو گی۔ کیونکہ معاشی ترقی کے بغیر کسی معاشرے کا آگے چلنا ممکن نہیں۔ سو دنیا کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو برداشت کرتا ہے۔ یہ بھی بالکل ایسی ہی صورتحال ہے جہاں انسان نے اپنی آزادی معلومات کے بدلے میں ٹیکنالوجی کو دی۔

حراری کے مطابق مستقبل میں انسان اپنی انفرادی قدر کھو دے گا۔ اس کی اجتماعی حیثیت کی کچھ قدر ہوگی وہ بھی جو الگورتھم کے ذریعے ایک ڈیٹا سے منسلک ہو یا پھر ایک اور ممکنہ صورتحال یہ ہے کہ انسان کی جگہ سپر ہومین لے لیں گے وہ ہی دنیا کے فیصلے کریں گے کیونکہ وہ موجودہ انسانوں سے زیادہ معلومات رکھتے ہوں گے اور ان کی صلاحیت بھی انسانوں سے زیادہ ہو گی پھر اگر انہوں نے موت کو شکست دے دی تو ان کی عمریں بھی زیادہ ہوں گی لہٰذا ان کے فیصلوں کا اثر بھی زیادہ دیر پا ہوگا۔

حراری کہتے ہیں کہ مستقبل کا مذہب Dataism ہوگا جہاں پر ہر وہ معلومات قابل قبول ہو گی جو ڈیٹا سے منسلک ہو گی۔ پھر یہ ڈیٹا ہی ہماری طرزِ حیات کو طے کرنے میں ہمیں ہدایات دے گا ہمیں کسی پادری کی یا کسی صحیفہ کی راہنمائی سے زیادہ ڈیٹا سے حاصل شدہ معلومات پر اعتماد کرنا ہوگا۔ لبرلزم میں کسی کے ذاتی تجربات کی قدر کی جاتی تھی مگر Dataism کے اس نئے مذہب کے صرف وہ تجربات پی قابل قدر ہوں گے جن کو ڈیٹا کا حصہ بنایا گیا ہو۔ کسی شخص کے وہ ذاتی تجربات جو اس ڈیٹا میں نہ آئے وہ کوئی اہمیت نہیں رکھیں گے۔ حراری کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ شروع میں انسان کچھ غلطیاں کرے لیکن جیسے ہی زیادہ سے زیادہ لوگ ڈیٹا سے منسلک ہوتے جائیں گے ان کی غلطیوں کا امکان کم ہوتا جائے گا کیونکہ اب معلومات کا ایک سیلاب کھڑا ہو گا جس کے بعد غلطی کی گنجائش کم ہوتی جائے گی۔ حراری کہتے ہیں مستقبل میں کامیابی بنیاد معلومات سے وابستگی پر ہے۔ بلکہ حراری کے نزدیک کمیونزم نے لبرلزم سے اس لیے شکست کھائی کیونکہ یہاں معلومات کا تبادلہ اور زیادہ بہتر تھا۔ یہ لبرلزم کی جیت نہیں بلکہ حقیقتاً ڈیٹاازم کی جیت تھی۔ کیونکہ کمیونزم میں معلومات ایک مرکز میں جمع ہوتی تھی جبکہ یہاں انفرادی طور پر لوگ اپنی معلومات پر فیصلہ کر لیتے تھے جس کی وجہ سے یہ کامیاب ہوئے۔
حراری بتاتے ہیں کہ سائنس جیسے ابتداء میں مذہب کی حریف نہیں تھی ایسے ہی ڈیٹا ازم بھی مذہب کا حریف نہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا ایک نظام اخلاق بن جائے گا۔ جس کے مطابق پرائیویسی نام کی کوئی چیز وجود میں نہیں رکھتی۔ یوں ہی کسی تحریر پر پابندی کو بھی یہ تسلیم نہیں کرتا۔ یہاں کاپی رائٹس کے اصول اتنی اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے مطابق معلومات کی فراہمی زیادہ اہم ہے نہ کہ اس کا ذریعہ کے وہ قانونی طریقے سے آئی ہے کہ غیر قانونی طریقے سے۔ حراری نے وضاحت کی ہے کہ ڈیٹاازم کے انفارمیشن فلو کو لبرل قدر آزادی اظہار کے ساتھ نہ ملا کر دیکھا جائے وہاں آزادی اظہار انسانوں کو دی گئی تھی کہ ان کا حق ہے وہ کوئی بات کہیں جبکہ یہاں اصل اہمیت انفارمیشن کو ہے۔
اس ہی ڈیٹا ازم کے تحت انسانوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی پر بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور شاید دنیا کو ایک نیا نظام اخلاق بنانا پڑے۔ ڈیٹا ازم کا دعویٰ ہے کہ اس نے انسان کی آزادی سلب کرکے اس کو مضبوط معیشت ، آسان زندگی اور بہترین معلومات کی شکل میں قیمت چکائی ہے۔ اور انسان بھی بخوشی ان چیزوں کے بدلے اپنی آزادی ڈیٹاازم کے حوالے کر رہا ہے۔

حراری کی یہ کتاب کافی دلچسپ ہے اور جو مستقبل کا نقشہ انہوں نے کھینچا وہ کافی دلچسپ بھی اور پریشان کن بھی ہے۔ حراری کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ جو تصویر اس نے پیش کی ہے وہ حقیقت سے مختلف ہو۔ لیکن جس طرح سے ٹیکنالوجی نے دنیا کو بدلہ ہے اور اس کے مستقبل کے اہداف ہیں ان سب امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر حراری ایک اچھے قصہ گو بھی ہیں تو ان کا انداز بیان بھی کافی سہل ہے جس سے وہ منظر ذہن میں لانا مشکل نہیں جس کو وہ پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔ حراری کے اوپر کچھ ٹھوس علمی نقد بھی ہوئے ہیں بالخصوص ان کے populist approach پر کافی سوال اٹھائے گئے ہیں یہاں بھی حراری پاپولر بیانیے کو لیکر چلی چلیں ہیں مگر ان باتوں کو میرے خیال سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے موضوعات پر بات کرنے اور ان کو موضوع بحث بنانے کا کوئی کلچر نہیں۔ پھر یہ سب ہمارے جیسے پسماندہ ملک کے مسائل معلوم ہی نہیں ہوتے مگر سوچنے کی بات ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے ہمیں بھی اور ہمارے سماج کو بھی متاثر کیا ہے اور مستقبل میں ہونے والی مزید ایجادات کے بعد بھی ہم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
حراری کی اس کتاب میں ایک godless world کا تصور بھی ہے جس کو ہم اس کی سب سے بڑی خامی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے مقابل وہ دنیا جہاں خدا کا ارادہ و فعل موجود ہے کی تصویر کشی بھی ضروری ہے جس میں ایسی تبدیلیاں جو ٹیکنالوجی کے باعث رونما ہو رہی ہیں کو مد نظر رکھ کر اس پر بات کی جائے۔
حراری کی یہ کتاب کئی سوالات ضرور اٹھاتی ہے مگر اس کتاب کا ان کی پہلی کتاب سے موازنہ کیا جائے تو وہ فائق ہے البتہ یہ اس کتاب کا ایک تسلسل ضرور ہے۔ وہاں انسان کا ماضی زیادہ زیر بحث تھا یہاں ماضی سے بات ہوئی کچھ حال پر ہوئی اور پھر اس کی بنیاد پر مستقبل کا نقشہ کھینچا گیا ہے

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں