اسد اللہ خان پشاوری
رابن یاسین کساب، ملک شام اور مشرق وسطی کے امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں،شام کے موجودہ صورت حال کے بارے میں ان کا ایک انٹرویو یوٹیوب پر دی تھنکنگ مسلم پر آیا ہے، انٹرویو انگریزی زبان میں ، افادہ کے لیے اس کا اردو تر جمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
محمدجلال:
شام آخر کار 13 سال کی جدوجہد کے بعد آزاد ہو چکا ہے، اس دوران جتنی جانوں کا نقصان ہوا ہے اس پر ہم افسوس کرتے ہیں، اور اس خوشی پر پوری دنیا کے شامیوں کے ساتھ جشن مناتے ہیں، لیکن بشار الاسد کی جیلوں کے خوفناک حالات اب دنیا کے سامنے آ رہے ہیں، اس کے مذبح خانہ کے مناظر نے ہم میں سے بہت سے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان مظالم پر غور کرتے ہوئے اور آج شام کو درپیش کچھ چیلنجز کو دیکھتے ہوئے، میں آج ایک شامی شخصیت کو خوش آمدید کہنے پر فخر محسوس کر رہا ہوں، جو اس جدوجہد کا حصہ رہے ہیں۔ روبن یاسین کساب “دی روڈ فرام دمشق” نامی ناول کے مصنف ہیں۔ وہ لیلی الشامی کے ساتھ ” burning country: Syrians in revolution and war “(جلتا ہوا ملک شام جنگ اور انقلاب میں) نامی کتاب کے شریک مصنف بھی ہیں، جو رافیل بون فولیو پرائز کے لیے نامزد ہوئی تھی۔ وہ(ISIS) کے جیلوں کے میوزیم کے چیف انگلش ایڈیٹر بھی ہیں، جو ان شاءاللہ جلد شام جیل میوزیم میں تبدیل ہو جائے گا۔ روبن یاسین کساب!تھنکنگ مسلم میں خوش آمدید ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
رابن یاسین کساب:
آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے مدعو کیا۔ میں سب سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب آپ میرے شام کی جدوجہد میں شامل ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو میں تھوڑا سا شرمندہ ہوتا ہوں، جب میں خود کا موازنہ ان تمام شہیدوں اور انقلابیوں سے کرتا ہوں جو میدان میں موجود تھے اور جنہوں نے سب کچھ قربان کرنے کی ہمت کی، کیونکہ میں نے شام کے انقلاب کے دوران زیادہ تر وقت اسکاٹ لینڈ میں کافی آرام دہ زندگی گزاری، میں نے صرف چند مرتبہ ادلب کا مختصر دورہ کیا ہے اور لوگوں سے رابطے میں رہا ہوں اور اس پر لکھا ہے، لیکن میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ میں جدوجہد کے مرکز میں رہا ہوں، اس جدوجہد کے اصل جگہ میں شامل بہت سے لوگ اب شہید ہو چکے ہیں، اور ان شاءاللہ وہ آج کی فتح سے آگاہ ہوں گے۔
محمد جلال:
چلیں ہم شام کی اس آزادی کے چند ہفتوں سے قبل کے احوال سے شروع کرتے ہیں، پچھلے چند دنوں میں جو کچھ آپ دیکھ چکے ہیں اس پر آپ کے کیا خیالات ہیں؟
رابن یاسین کساب:
میں واقعی نہیں جانتا کہ بات کہاں سے شروع کروں! کیونکہ یہ ناقابل یقین اور حیرت انگیز ہے، دو ہفتے پہلے مجھے اس طرح کی کسی بات کی توقع نہیں تھی، میں نے خود کو یہ ماننے پر آمادہ کر لیا تھا کہ میں کبھی دوبارہ شام، خاص طور پر دمشق یا لاذقیہ نہیں دیکھ سکوں گا، جہاں سے میرا خاندان تعلق رکھتا ہے، میں نے آپ سے فون پر کہا تھا کہ میرے خاندان کے بارے میں بات نہ کریں، نہ پوچھیں کہ میرا خاندان کہاں سے تعلق رکھتا ہے، کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ لاذقیہ حکومت کی آخری پناہ گاہ ہوگی، اور وہاں کے غیر وفادار کمیونٹیز یا سنی مسلمانوں کے لیے حالات بہت خراب ہوں گے، لیکن الحمدللہ، لاذقیہ آزاد ہو چکا ہے، طرطوس آزاد ہو چکا ہے، حتیٰ کہ بشار الاسد کا آبائی گاؤں بھی آزاد ہو چکا ہے۔ حافظ الاسد کے مجسمے کو گرا دیا گیا ہے۔ یہ حیرت انگیز دن ہیں، تاریخی دن ہیں، اور یہ واقعات کا خوش کن امتزاج ہے۔
اسد حکومت برسوں پہلے اپنی اصل شکل میں شکست کھا چکی تھی، 2013 تک یہ حکومت شکست خوردہ تھی، لیکن پھر حزب اللہ اور دنیا بھر سے ایرانی ملیشیاؤں کو اس کی مدد کے لیے بلایا گیا، 2015 کے آخر تک یہ حکمت عملی بھی ناکام ہو گئی، اور قاسم سلیمانی کو روس جانا پڑا تاکہ ماسکو میں پیوٹن سے مداخلت کی درخواست کریں، اس کے بعد روس کی سپر پاور ایئر فورس نے مداخلت کی اور اسد کی فضائیہ کی طرح کام کرتے ہوئے شامی شہروں اور عام شہریوں پر بمباری کی، اس موقع پر یہ کہا گیا کہ یہ مداخلت آئی ایس آئی ایس (Islamic State of Iraq and Syria) کے خلاف تھی، لیکن 80 فیصد سے زیادہ بمباری ان علاقوں میں کی گئی جہاں آئی ایس آئی ایس کا کوئی وجود نہیں تھا، اس طرح انقلاب کو کچل دیا گیا اور اسد کو اقتدار میں رکھا گیا، انقلابیوں سے وہ زمین چھین لی جو انہوں نے بڑی قربانیوں کے ساتھ آزاد کرائی تھی، اسد حکومت کو روس، ایران اور دیگر طاقتوں کے ذریعے برقرار رکھا گیا، وقت کے ساتھ، یہ تمام عناصر سخت دھچکوں کے شکار ہوئے، لیکن آخر کار زیادہ تر امریکہ کی کارروائیوں کے نتیجے میں آئی ایس آئی ایس کو شکست ہوئی، حالانکہ طویل عرصے تک خطے کی اور بین الاقوامی طاقتوں کو آئی ایس آئی ایس کی موجودگی سے فائدہ ہوا اور انہوں نے اسے بڑھنے دیا، لیکن آخر کار امریکہ نے اسے ختم کر دیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ شامی انقلاب کی حمایت کر رہا تھا۔
روس، جو شام میں ایک اہم کردار ادا کر رہا تھا، اب یوکرین میں مصروف ہے، وہ شامی انقلاب سے غیر متعلق ہے، کیونکہ روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور ایران، خاص طور پر ایرانی ملیشیا کا نظام، جو عرب دنیا اور خاص طور پر سنی عرب دنیا پر قبضہ اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، اس کا اصل مقصد اسرائیل کے خلاف جنگ نہیں تھا، بلکہ اس کو ایک پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ تاہم، مختلف وجوہات کی بنا پر، جو شامیوں سے متعلق نہیں تھیں، اسے بھی زبردست دھچکے لگے۔ نتیجتاً، اسد حکومت کی بنیادی ناپائیداری واضح ہو گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ، HTS (ہیئت تحریر الشام) کی قیادت میں اتحاد نے غیر معمولی نظم و ضبط اور حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔ جب وہ حلب میں داخل ہوئے تو پہلے دن مغربی حلب کے باشندے، خاص طور پر وہ جو حکومت کے حامی تھے یا اقلیتوں جیسے عیسائیوں اور آرمینیائیوں سے تعلق رکھتے تھے، خوفزدہ تھے۔ لیکن دوسرے دن تک وہ مطمئن ہو گئے، اور تیسرے دن تک انہوں نے ایک طرح کی راحت محسوس کی، جو واقعی حیرت انگیز بات ہے۔
ایک واقعے میں ایک انقلابی نے کرسمس ٹری گرا دیا، جس کی تصویر وائرل ہو گئی ، لوگوں نے کہا کہ دیکھیں کتنا خوفناک جہادی ظلم حلب پر مسلط ہو گیا ہے، لیکن اس شخص کو گرفتار کیا گیا، اس کے خلاف کارروائی کی گئی، اور کرسمس ٹری کو دوبارہ اپنی جگہ پر لگا دیا گیا۔
عیسائیوں کو یقین دلایا گیا کہ چرچ کھلے رہیں گے، ہر کسی کو یقین دلایا گیا کہ وہ جو چاہیں پہن سکتے ہیں اور کوئی سخت گیر پولیس فورس ان پر یہ پابندیاں عائد نہیں کرے گی کہ وہ کس طرح کا رویہ اختیار کریں، جب ملک کے دیگر حصوں میں لوگوں نے یہ دیکھا تو میرا خیال ہے کہ یہی وہ بنیادی اور آخری عنصر تھا جس نے باقی تمام عوامل کو متحرک کر دیا اور ایک کے بعد ایک ڈومینو گرنے لگے۔
اگلے دنوں میں، ہزاروں وفادار فوجی، جو پہلے حکومت کے حامی تھے، اپنی یونیفارم اتار کر، اپنے ہتھیار ڈال دیے اور اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، ان وفادار کمیونٹیز، جنہیں ہم وفادار سمجھتے تھے اور بعض صورتوں میں وہ واقعی تھیں، لیکن اکثر ایسا نہیں تھا، ان میں سے کچھ نے پہلے پروپیگنڈے پر یقین کر لیا تھا، یا شاید ابتدائی مراحل میں یہ پروپیگنڈا نہیں تھا، کہ جب حکومت گرے گی تو انتقامی کاروائیاں ہوں گی، جن لوگوں نے بشار الاسد کے لیے حملے کیے تھے ان کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ایسا ضروری نہیں ہوگا، بلکہ صرف اعلیٰ سطح کے مجرموں کو ہی جوابدہ ٹھہرایا جائے گا، تو پھر وہ پیچھے ہٹ گئے اور شہروں اور دیہاتوں نے انقلابیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ یہ سب بہت تیزی سے ہوا۔
محمد جلال:
یہ واقعی ایک دلچسپ بات ہے، اور میں ان نکات پر مزید بات کرنا چاہوں گا، کیونکہ ظاہر ہے کہ انٹرنیٹ پر سازشی نظریات کی بھرمار ہے اور ایسے لوگ موجود ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ شامی انقلاب ایک غلط قدم تھا، یا اس کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں، یہ سب ہم جانتے ہیں کہ اکثر سامراج مخالف بائیں بازو والے اور ایرانیوں اور روسیوں کی طرف سے پروان چڑھایا جاتا ہے۔
کئی لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب بھی کسی ملک میں عسکری گروہوں کے ذریعے عبوری دور آتا ہے تو اس میں طاقت کا دور ہوتا ہے، آپ نے یہ بات اکثر سوشل میڈیا پر سنی ہوگی کہ شام کا انجام ، عراق یا لیبیا جیسا ہوگا، آپ کے خیال میں کیا ایسا منظرنامہ ممکن ہے؟ یا آپ زیادہ پر امید ہیں؟
رابن یاسین کساب:
میں بہت زیادہ محتاط ہوں، لیکن آئیے ان خیالات پر واپس چلتے ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ شام ایک اور لیبیا بن جائے گا، یہ بہت شرم کی بات ہے، لیبیا کی صورتحال پر غور کریں، یہ لیبیا کے انقلاب کے بعد ایک حقیقی انقلاب تھا اور محض نیٹو کی مداخلت نہیں تھی، جس میں برطانیہ اور فرانس کے آنے سے پہلے فوج تقسیم ہوگئی تھی، اب تک لیبیا خوفناک حالت میں ہے، ملک بدستور عدم استحکام کا شکار ہے، لیبیا میں اب بھی کم از کم دو حکومتیں ہیں، وار لارڈز ہیں، ملیشیا ہیں، اور ملک افراتفری کا شکار ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پچھلے چند سالوں میں لیبیا شام کے مقابلے میں جنت کی مانند رہا ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ شاید شام لیبیا بن جائے، وہ واضح طور پر دونوں ممالک کی صورتحال سے ناواقف ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ شام میں گزشتہ سالوں میں 650,000 افراد کو قتل کیا گیا ہے، جن میں سے 90% سے زیادہ افراد بشار الاسد اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ 13 ملین افراد، یعنی نصف سے زیادہ آبادی، اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔ لاکھوں لوگ کل تک خیموں میں زندگی گزار رہے تھے۔ سینکڑوں ہزاروں افراد بشارالاسد کے عسکری کیمپوں میں غائب ہو چکے ہیں، جو درحقیقت موت کے کیمپ ہیں، شام کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، کوئی معیشت باقی نہیں رہی، شہری انفراسٹرکچر مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، اور تمام شہر سوائے ایک کے، مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں “شام لیبیا بن جائے گا” کہنا حقیقت سے بہت دور ہے، شامی مہاجرین اب لیبیا میں رہ رہے ہیں کیونکہ شام کی صورتحال اتنی بدتر ہے کہ وہ افراتفری کے باوجود لیبیا کو ترجیح دیتے ہیں۔
جہاں تک عراق کی بات ہے، تو عراق پر ایک غیر ملکی حملہ تھا، امریکیوں نے عراق پر قبضہ کیا، وہاں بھی ایک ظالم حکمران، صدام حسین، موجود تھا جو اپنی قوم کے بیشتر لوگوں میں غیر مقبول تھا، عراق پر غیر ملکی حملہ تھا اور یہ کسی انقلاب کی حمایت کے لیے نہیں تھا، یہ اس وقت نہیں ہوا جب کوئی بغاوت چل رہی تھی، جب 1991 میں کویت جنگ کے بعد شیعہ جنوب اور کرد شمال میں بغاوت ہوئی تھی، اگر اس وقت وہ صدام حسین سے جان چھڑانا چاہتے تو آسانی سے اور بغیر زیادہ نقصان کے ایسا کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے صدام حسین کو اجازت دی کہ وہ ہیلی کاپٹر گن شپ استعمال کر کے لوگوں کو مار ڈالے اور بغاوت کو کچل دے، انہوں نے اسے مزید 12 سال اقتدار میں رکھا اور سخت پابندیاں لگا دیں، جس سے ملک کی معاشرتی ساخت تباہ ہو گئی، پھر انہوں نے حملہ کیا اور ایک خوفناک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
جبکہ شام کی صورتحال بالکل مختلف ہے، شام میں ایک عوامی انقلاب ہوا، جو بائیں بازو کے نظریات کے مطابق پسندیدہ ہونا چاہیے تھا، لیکن جب بات عرب اور مسلم ممالک کی آتی ہے تو بائیں بازو کے لوگ عام طور پر انقلابات کو پسند نہیں کرتے۔
ان سب باتوں کے باوجود، موجودہ حالات میں میں نسبتاً پرامید ہوں کیونکہ انقلابی گروہوں اور دیگر باغی گروہوں کی ذہانت اور نظم و ضبط نظر آ رہی ہے اور اقلیتیں بھی اس وقت ان کا استقبال کر رہی ہیں، کوئی انتقامی کارروائیاں نہیں ہوئیں، اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا، لاذقیہ آزاد ہو چکا ہے، اور بشار الاسد کے لیے اس حوالے سے کوئی آخری محاذ باقی نہیں رہا۔
تاہم، یہ ایک خطرناک لمحہ ضرور ہے، ملک افراتفری کا شکار ہے، شامی ایک نئی حکومت تشکیل دینے، ایک نیا نظام تیار کرنے، اور ایک ساتھ آگے بڑھنے کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن بہت کچھ غلط ہو سکتا ہے، مشرقی شام کے زیادہ تر حصے اب بھی SDF (شامی جمہوری فورسز) کے کنٹرول میں ہیں، جن میں غالب عنصر PKK ہے، یہ ایک ترک کرد مارکسسٹ لیننسٹ تنظیم ہے، جس میں قیادت کے گرد شخصیت پرستی کی جاتی ہے، SDF کے زیادہ تر سپاہی عرب ہیں نہ کہ کرد۔ ہزاروں کرد عراقی کردستان میں چلے گئے ہیں تاکہ شامی کردستان میں PKK (Kurdistan Workers’ Party)سے بچ سکیں۔ اس کے برعکس، شامی نیشنل آرمی، جو اب ترکی کے کنٹرول میں ہے، کئی کیسز میں غیر منظم ثابت ہوئی ہے اور ان پر کردوں کے خلاف زیادتیوں، لوٹ مار، اور بدسلوکی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ SDF اور شامی نیشنل آرمی شمال اور شمال مشرقی حصوں میں لڑائی کر رہے ہیں، اس لیے بہت کچھ غلط ہو سکتا ہے۔
جولانی، یا جیسا کہ اب وہ اپنے اصلی نام احمد الجولانی سے جانے جاتے ہیں، کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مغربی ممالک کی دہشت گردوں کی فہرست سے اپنا نام ہٹوانے کے لیے مہذب رویہ اپنا رہے ہیں، اور بعد میں آمریت قائم کریں گے، یہ ممکن ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ صرف ایک چال ہے، HTS (ہیئت تحریر الشام)کی ارتقا زیادہ گہرائی اور دیرپا نظر آتی ہے۔ تاہم، ہم نہیں جانتے کہ آگے کیا ہو سکتا ہے، بیرونی طاقتیں شام کو کمزور کرنے اور جتنا ممکن ہو انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ عرب اور مسلم دنیا میں، خاص طور پر اسرائیل کے قریب اس خطے میں، جمہوریت نہیں چاہتے۔
محمد جلال:
میں اسرائیل، ہیئۃ تحریر الشام( HTS)، اور ان کی حالیہ تبدیلیوں پر بات کرنا چاہتا ہوں، لیکن میں نے آپ کو خاص طور پر شام کے قیدیوں اور صیدایا جیل کے بارے میں بات کرنے کے لیے اپنے پوڈکاسٹ پر مدعو کیا ہے۔ صیدایا جیل سے متعلق جو خبریں سامنے آئی ہیں وہ بہت خوفناک ہیں، آپ نےISIS جیل میوزیم پر کام کیا ہے اورآپ نے یہ کہا ہے کہ آپ اس منصوبے کو تمام جیلوں، خاص طور پر بشار الاسد کے جیلوں میں ہونے والے مظالم کا پتہ لگانے کے لیے وسعت دینا چاہتے ہیں۔ آپ اس پر روشنی ڈالیں کہ بشار الاسد نے اپنے عوام کو کس حد تک قید میں اذیت دی۔
رابن یاسین کساب:
یہ ایک تشدد پر مبنی ریاست تھی، یہ جیلیں بشار الاسد حکومت کے اقتدار کے مرکز میں تھیں، جیسا کہ ISISکے لیے بھی تھیں۔ ISIS کے بارے میں میں کہوں گا، کہ یہ القاعدہ ٹائپ کے نظریات اور بعث پارٹی کی آمریت کا ایک امتزاج ہے، ISIS نے اسد اور صدام حسین کی حکومتوں سے بہت کچھ سیکھا۔
ان تمام حکومتوں کا بنیادی مقصد دہشت کے ذریعے حکمرانی کرنا تھا، بشار الاسد نے پورے شام کو ایک جیل بنا دیا تھا، جیلوں میں جو ہوتا تھا لوگ سرگوشیوں میں بات کرتے تھے، لوگ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے حکومت کی مخالفت کی، یا یہاں تک کہ کسی قسم کی بھی پہل کی، تو انہیں گرفتار کر کے ان اذیت خانوں میں ڈال دیا جائے گا،یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ صرف اپنی گلی صاف کرنے کے لیے اکھٹے ہو جاتے تھے تو ان کو بھی پکڑ کر اذیت ناک قیدخانوں میں لے جایا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق کم از کم 130,000 افراد بشار الاسد کی جیلوں میں تھے، کل شام انسانی حقوق کے نیٹ ورک کے فضل عبدالغنی ایک انٹرویو کے دوران رو پڑے اور کہا کہ ہمیں اب یقین ہے کہ ان میں سے بیشتر افراد مر چکے ہیں، مجھے افسوس ہے لیکن ہمیں ان کی فیملی کو بتانا ہے کہ ان کی اکثریت مرچکی ہے۔ یہ حالات واقعی دل دہلا دینے والے ہیں، ہم سب مرنے کے بعد ان شہدا کے ساتھ ملیں گے، وہ ہمیں ظلم کے بارے میں بتائیں گے، ان لوگوں کو خوفناک حالات میں قتل کیا گیا، گندگیوں میں اذیت دے کر ان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
ہم نے کل لاشوں کی تصویریں دیکھی ہیں کہ ہرستہ ملٹری ہسپتال کے ایک کمرے میں لاشوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے جو صیدایا سے لائی گئی تھیں،انہیں ایک اجتماعی قبر ملی تھی جس میں تیزاب میں تحلیل شدہ لاشیں تھیں، جن کو پریس کرکے ایک پتلی چادر کی طرح بنایا گیا تھا، پھانسیوں سے بھرا ہوا کمرہ تھا، جس میں لوگوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔
میں نے کل ایک ایسے شخص کی ویڈیو دیکھی جو کہہ رہا تھا کہ صیدایا میں ہر روز لوگوں کو پکڑ کر قتل کیا جاتا تھا، پھر ان ناموں کو یاد کرنے لگا جو انہیں یا دتھے، ان کے والدین کے نام، ان کی جائے پیدائش بتا رہا تھا، جس نے فتح کی خوشی کودھندلا کر دیا۔ ہم جب بچھے ہوئے لوگوں کو دیکھتے ہیں تم ہمیں یقین آ جاتا ہے وہ اپنا ہوش کھو چکے ہیں، وہ کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، ان کا نام کیا ہے، وہ لوگ جو صرف کانپ رہے ہوتے ہیں، ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ حافظ الاسد کا انتقال ہوا ہے اور ۱۹۷۰ کے بعد اب تک بشار الاسد کی حکومت ہے، وہ اب تک یہی سمجھ رہے تھے کہ حافظ الاسد زندہ ہے، یہ لوگ چالیس پچاس سال سے زیادہ سے جیل میں تھے، انہوں نے سورج کو نہیں دیکھا تھا، چھوٹے بچوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کو وہاں لے جایا گیا تھا ، اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، اور وہ بچے جن کی ماؤں کے ساتھ عصمت دری کی گئی تھی، وہ کبھی باہر نہیں گئے تھے۔ الغرض یہ بہت بڑے پیمانہ پر خوفناک کام تھا، یہ تاریخ کی بدترین اذیت ناک ریاستوں میں سے ایک تھی۔ وہاں پر موجود سامراج مخالف بائیں بازو کے لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا ، جو اب بھی بہانہ کر رہے ہیں، انہیں اس بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ یہ اب صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ اخلاقی مسئلہ ہے، انسانی مسئلہ ہے، یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے، اس میں انسان کی عزت کی مکمل بے احترامی کی گئی ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کو مزید سیاسی طور پر گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں، میں تجویز کرتا ہوں کہ لوگ یہ کتاب (Syrian Gulag: Inside Assad’s Prison System) پڑھے جو حال ہی میں سامنے آئی ہے، یہ بشار الاسد کے جیلوں کے احوال کے بارے میں ایک جامع کتاب ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ لوگ ISIS کی جیلوں کے میوزم کے بارے میں آن لائن سرچ کریں گے۔ اب ہمیں ISIS کے جیلوں کے میوزم تک رسائی مل گئی تھی کیونکہ آئی ایس آئی ایس کو شکست ہو گئی تھی اور وہ بھاگ گئے تھے اور ان کی عمارتوں کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا تھا، اسی طرح عام لوگ شام وعراق کے جو ان کی عمارتوں میں آئے تو انہوں نے دیواروں پر کھرچے ہوئے ناموں کو دیکھا جو ہزاروں میں تھے، یہ ان کی اذیتوں کا پتہ دیتی ہے، اسی طرح وہاں گوانتانامو کے طرز کے نارنجی پھانسی کے سوٹ ملے جو وہ لوگوں کو پہناتے تھے، سینکڑوں لوگوں کا انٹرویو لیا گیا جو ان جیلوں سے ہو کر گزرے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ تفصیل حاصل کی جا سکے، آپ آن لائن ان جیلوں کی تری ڈی ویڈیو کو دیکھ سکتے ہیں، اور تحقیقات کو پڑھ سکتے ہیں۔ دمشق ،حماۃ، حمص، حلب اور شام کی سرزمین پر لوگ موجود ہیں جاکر ان سے ان جرائم کی توثیق کی جا سکتی ہے۔
کمنت کیجے