Home » فکری بے اعتدالی اور اسکے بنیادی اسباب
سماجیات / فنون وثقافت

فکری بے اعتدالی اور اسکے بنیادی اسباب

اسلامی فکری حلقوں کا ایک اہم مسئلہ فکر ونظر میں اعتدال وتوازن کی کمی ہے۔ایک بڑی تعداد دومتوازی انتہاؤوں میں سے کسی ایک پرنظر آتی ہے۔ میری نظر میں اس کے متعدد اسباب ہیں:

1۔سب سے بڑا سبب حدسے زیادہ بڑھی ہوئی      self-righteousness     کی نفسیات ہے۔یہ چیز ایک درجے میں علم اور اس سے بڑھ کر تواضع کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔اس کے تحت آدمی سمجھتا ہے کہ اس کا علم اتنا پختہ اور فکر اتنی بے خطا ہے کہ دوسروں کے لیےاس کو تسلیم کرلینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

2۔دوسرا بڑا سبب خود انحصاریت یا خود اپنے اندرسکڑے سمٹے رہنے کا مزاج ہے۔صرف مخصوص افرادسے انٹرکشن،اپنے مخصوص حلقوں سے تعلق و تعامل۔ صرف اپنے ہم خیال افراد کے افکاروکتب سے استفادے کی کوشش وغیرہ۔ یہ وہ رویے ہیں جو ایک شخص کی فکر کو پنپنے نہیں دیتے۔
ایسے حضرات سماجی آلائشوں سے دامن بچاکر اپنے احساس کے تحت متقی تو ضرور بن جاتے ہیں لیکن جہاں تک فکر کے نمو اور ارتقا کامعاملہ ہے توحقیقت یہ ہے کہ ان کی فکر اسی طرح ابتدائی مرحلے میں ہی مرجھا جاتی ہے جیسے بغیر پانی اور کھاد کے پودا مرجھا جاتا ہے۔اور اس کی قوت نموکم یا ختم ہوجاتی ہے۔وہ کسی اوپن پلیٹ فارم پر اپنی بات نہیں رکھ سکتے، کھلے مباحثے میں شریک نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ ان کی بات مسترد کردی جائے گی جس کا تحمل کرپانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
ایک متوازن اور نموپذیر فکر کی تشکیل وافزائش کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مختلف مزاج ونفسیات، حلقہ ہائے فکر ونظر اور مسالک ومذاہب کے لوگوں کے افکارکاسنجیدگی اور طالب علمانہ نفسیات کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔ آزاد فکری کے ماحول میں ان سے تبادلہ خیال کیا جائے۔

ہمارے اسلاف میں اس کی روشن مثالیں پائی جاتی ہیں کہ کس طرح مختلف حلقہ ہائے فکر سے استفادے میں وہ کوئی تامل محسوس نہیں کرتے تھے۔ غزالی،ابن عربی اور شاہ ولی اللہ رح وغیرہ کوجس نے تھوڑا بھی پڑھا ہے وہ ا س حقیقت سے واقف ہے کہ کس طرح پوری فکری آزادی کے ساتھ انہوں نے گمراہ فرقوں کی کتب وافکار کا بھی پورے اخلاص کے ساتھ مطالعہ کیا اور بہت سی مفید چیزوں کو ان سے بھی اخذ کرنے اور اپنی فکر کا جز بنانے میں کوئ تامل نہیں کیا۔ جو باتیں قابل اخذ تھیں انہیں اس لیے ترک نہیں کردیا کہ وہ فلاں اور فلاں گمراہ فرقوں سے انتساب رکھتی ہیں۔

3۔تیسرا بڑا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں دوسرے لوگ دین کے لیے مخلص نہیں ہیں۔ دین و ملت کا جو درد اور جذبہ ان کے اپنے اندر پایا جاتا ہے، دوسروں کے فاسد دل اس سے خالی ہیں۔ اس سوچ کی ترجمانی حماسہ کے اس شعر سے ہوتی ہے:

کأن ربک لم یخلق لخشیتہ سواھم من جمیع الناس إنسانا
’’ایسا لگتا ہے کہ تمہارے رب نے ایسے لوگوں کے علاوہ دوسرے کسی انسان کوپیدا ہی نہیں کیا کہ وہ اس سے خوف وخشیت رکھنے والے ہوں‘‘۔

ڈاکٹر وارث مظہری

وارث مظہری ہمدرد یونی ورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیتے ہیں اور دار العلوم دیوبند کے فضلا کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے مجلے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔
w.mazhari@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں