Home » تحریک ہجرت کے بھیانک نتائج
تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

تحریک ہجرت کے بھیانک نتائج

صاحبزادہ محمد امانت رسول

(مولانا ابو الکلام آزاد،مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی اور مولانا حسین احمد مدنی کی پشیمانی)

1919میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی۔جنگ کے بعد، جب برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے سلطنتِ عثمانیہ (ترکی) کو توڑنے اور خلافت کا ادارہ ختم کرنے کی کوشش کی تو ہندوستان میں مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
اسی دور میں بعض علماء اور قائدین نے یہ رائے دی کہ چونکہ انگریز حکومت مسلمانوں کی دینی آزادی کو سلب کر رہی ہے اور خلافت دشمن ہے، اس لیے ہندوستان اب دارالحرب بن چکا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہجرت کریں، یعنی اسلامی ملکوں (خصوصاً افغانستان) کی طرف منتقل ہو جائیں۔اس طرح تحریک ترک موالات کا نتیجہ تحریک ہجرت کی صورت میں نکلا۔
اس اپیل پر ہزاروں مسلمانوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر افغانستان کی طرف ہجرت شروع کر دی۔
مگر افغانستان نے اتنے مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
راستے میں بھوک، بیماری، اور تنگدستی سے ہزاروں لوگ مارے گئے۔
بہت سے مہاجرین واپس ہندوستان آنے پر مجبور ہو گئے، لیکن وہ اپنا سب کچھ لٹا چکے تھے۔

علامہ اقبال تحریک ہجرت کے مخالف تھے۔
اقبال نے بہت واضح الفاظ میں کہا
“میں مسلمانوں کے اس فیصلۂ ہجرت کو محض ایک جذباتی اقدام سمجھتا ہوں جو عقل اور حکمت کے خلاف ہے”۔
انہوں نے مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
“ہندوستان کے مسلمان ایک بڑی قوم ہیں۔ اگر وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تو ان کی طاقت اور حیثیت ختم ہو جائے گی۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے مقام پر جمے رہیں اور علمی، سیاسی اور اخلاقی میدان میں ترقی کریں۔”

مولانا محمد علی جوہر تحریک ہجرت کے حامی راہنما تھے۔ فرماتے ہیں۔
“جب تک ہم انگریزوں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع نہیں کریں گے، وہ ہمیں سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔ ترکِ موالات ہی ہمارے لیے آزادی کا واحد راستہ ہے۔”
(حوالہ: محمد علی جوہر کے مضامین، خلافت تحریک کے اجلاس دہلی 1920)

مولانا شوکت علی نے فرمایا
“ایک مسلمان جو ظالم حکومت سے تعاون کرتا ہے،وہ دین کے اصولوں سے غافل ہے۔انگریزوں کا ساتھ دینا اب گناہ ہے۔”
(حوالہ: خلافت تحریک کی تقریریں، 1921)

مولانا ابو الکلام آزاد نے فرمایا
“ہمیں دین اور دنیا کی کامیابی کے لیے انگریز حکومت سے مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ ترکِ موالات جہاد کی ایک قسم ہے۔”
(حوالہ: Azad’s speeches         in         Al-Hilal)

مولانا محمد علی جوہر کے مخالفین پہ تنقیدی حملے
“جو لوگ ترکِ موالات کے خلاف ہیں، وہ یا تو بزدل ہیں یا اپنے مفادات کے غلام۔ ملت اسلامیہ کا ہر سچا فرد اب انگریز حکومت کا بائیکاٹ کرے گا۔”
(حوالہ: خلافت تحریک کا خطبہ، 1920)

مولانا ابو الکلام آزاد کا مخالفین کو ملت کا دشمن قرار دینا
“جو لوگ ہمیں صبر و سکون کی تلقین کر رہے ہیں، وہ ملت کے دشمن ہیں۔ ملت کو اب صرف عمل کی ضرورت ہے،نہ کہ فلسفیانہ نصیحتوں کی۔”
(حوالہ: تقریر، خلافت کانفرنس دہلی، 1921)

مولانا شوکت علی کا تحریک کی مخالفت کرنے والوں کو غیرت سے خالی قرار دینا
“جو لوگ انگریز حکومت کے ساتھ تعلقات رکھنے کے حق میں ہیں، وہ دینی اور قومی غیرت سے خالی ہیں۔”
(حوالہ: خلافت تحریک دستاویزات، 1920) اس طرح
تحریک ترک موالات سے شروع ہونے والا سفر تحریک ہجرت، اس کے بھیانک نتائج اور قائدین کی پشیمانی پہ ختم ہوا۔۔

بعد میں جب ہجرت کے بھیانک نتائج سامنے آئے تو مولانا محمد علی جوہر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا:
“ہماری اپیل نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ میں ذاتی طور پر اس کا ذمہ دار محسوس کرتا ہوں اور اللہ سے معافی مانگتا ہوں۔”
(حوالہ: تحریکِ خلافت کی تاریخ، شبلی نعمانی، صفحہ 238)

مولانا شوکت علی نے بھی برملا کہا
“ہم نے مسلمانوں کو جو مشورہ دیا، وہ نیک نیتی پر مبنی تھا مگر اس کے نتائج ہمارے اندازے سے بدتر نکلے۔ یہ ایک تلخ سبق تھا۔”
(حوالہ: خلافت تحریک کی مکمل روداد، 1925)

مولانا آزاد نے بھی بالآخر اپنی کتاب “India        Wins        Freedom” میں لکھا:
“تحریک ہجرت کا فیصلہ جذبات میں آ کر کیا گیا۔ ہمیں پہلے زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہیے تھا۔ اگر ہم نے عقل سے کام لیا ہوتا تو مسلمانوں کو یہ نقصان نہ ہوتا۔”
(India        Wins        Freedom، صفحہ 35)

بہت سے علماء کرام نے بعد میں فتویٰ تبدیل کیا کہ ہندوستان “دارالحرب” نہیں ہے بلکہ “دارالاسلام” ہی ہے کیونکہ یہاں مسلمانوں کو اپنی عبادات کرنے کی آزادی حاصل ہے۔
تحریک ہجرت کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی، اس پر بڑے بڑے راہنما اور علماء بعد میں سراپا پشیمان ہوئے۔اِن علماء کرام میں مولانا حسین احمد مدنی بھی شامل ہیں۔۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ فیصلہ جذباتی تھا اور عقلی تدبر سے خالی تھا۔

اگر ہمارے راہنما موجودہ سیاسی مسائل کا تاریخ کے پس منظر میں جائزہ لیں تو ہم آج صحیح اور درست سمت پہ معاملات کو لے کر جاسکتے ہیں۔۔ہمارے فیصلے نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں
ورنہ
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں