Home » “وجود خداوندی ” پر کانٹین سسٹم  کے اشکالات پر  امام غزالی کا تبصرہ
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

“وجود خداوندی ” پر کانٹین سسٹم  کے اشکالات پر  امام غزالی کا تبصرہ

 

وجود خداوندی پر دئیے جانے والے دلائل کے خلاف کانٹین  فلسفے سے متاثرین کے اعتراضات جس نوعیت کے ہیں، علم کلام  کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ سب نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق ہیں۔ اس تحریر میں امام غزالی کی کتاب “الاقتصاد فی الاعتقاد” میں بیان شدہ بعض مسائل کو بنیاد بنا کر  کانٹین فلسفے سے پیدا ہونے والے اعتراضات کی نوعیت ملاحظہ کرتے ہیں۔

کتاب “الاقتصاد” کے چار حصےہیں، خود امام غزالی کے الفاظ میں چار “قطب”  ہیں۔ پہلے قطب میں آپ ذات باری تعالی، دوسرے میں اس کی صفات، تیسرے میں افعال  اور چوتھے میں مباحث ایمان سے متعلق امور سے بحث کرتے ہیں (کتاب کی ابتدا میں چار مقدمات بھی شامل ہیں جن میں آپ علم کلام کے افادیت، ماخذات علم اور طرق استدلال پر بحث کرتے ہیں)۔ یہاں ہماری دلچسپی کا سامان  پہلا قطب ہے جس میں آپ دس دعوے ثابت کرتے ہیں (یہاں ان سب کے دلائل کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں):

1۔ وجود باری تعالی (اس میں “دلیل حدوث ”  کی تفصیلات ہیں جن پر ہم الگ سے گفتگو کرچکے ہیں)

2۔ وہ وجود قدیم ہے

3۔ وہ وجود ازل سے ابد تک ہے

4۔ وہ وجود جوھر نہیں (جوھر سے مراد وہ چھوٹی سے چھوٹی شے ہے جو “حیز ” یعنی مکان  یا سپیس میں پائی جاسکے)۔ اگر وہ  وجود جوھر ہے تو اس پر حرکت و سکون کی مقولات (یعنی کیٹیگریز ) کا اطلاق ہوگا  اور جس وجود پر حرکت و سکون کا اطلاق ہو وہ حادث ہوتا  ہے اور یہ بات پہلے دعوے میں ثابت ہوچکی کہ جو حادث ہو وہ اپنے ہونے و تعیین کے لئے محدث یعنی مرجح کا  محتاج ہوتا ہے

5۔ وہ وجود جسم نہیں (جسم جواہر کے مجموعے کو کہتے ہیں)، جس وجود پر جوھر کا اطلاق جائز نہیں اس پر جسم کا اطلاق قطعا جائز نہیں ہوسکتا ۔ پھر اگر وہ جسم ہو تو اس پر “مقدار” (کمی و زیادتی) کا تصور لاگو ہوگا اور کسی خاص مقدار کے ساتھ ملحق ہونے کے لئے وہ کسی مرجح کا محتاج ہوگا

6۔  وہ وجود عرض نہیں (عرض سے مراد وہ شے ہے جو اپنے وجود کے لئے جوہر کی محتاج   ہو جیسے کہ رنگ وغیرہ، متکلمین ایسی سات سے لے کر نو تک اعراض گنواتے ہیں)۔ پس اگر جوہر و جسم  حادث ہیں، تو جو شے انہیں لاحق ہو (یعنی اعراض) وہ بھی حادث ہے اور قدیم وجود کو حدوث  لاحق نہیں ہوتا

7۔ وہ وجود جہت میں نہیں (جہت سے مراد چھ جہات ہیں، یعنی اوپر نیچے، دائیں بائیں اور آگے پیچھے)۔ جہت کا تصور کسی ” جسم ” کے ساتھ متصل مکانی نسبت سے جنم لینا والا تعلق ہے ، یعنی سر وپیر کی نسبت سے اوپر و نیچے وغیرہ۔  پس جو وجود جوہر ہونے سے پاک ہے وہ جہت میں  ہونے سے بھی پاک ہے۔

یہاں اچھی طرح غور کیجئے کہ امام غزالی خدا کو “مکان” کی کیٹیگری سے ماوراء قرار دے رہے ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ ارسطوی تصور کائنات میں زمکان  کا مکان سے الگ کوئی آزاد تصور موجو دنہیں تھا کیونکہ زمانے کو حرکت کا پیمانہ (measure of moving bodies) سمجھا جاتا تھا، پس جب مکان ختم ہوگا تو ساتھ ہی زمان بھی ختم ہوجائے گا۔ نتیجتاً خدا زمان و مکان دونوں سے ماوراء ہے۔  یاد رہے کہ  یہاں ان سے “خارج ہونے” کی بات نہیں ہورہی بلکہ ماوراء ہونے کی بات ہورہی ہے۔ اس بات کا ذکر بھی مفید ہوگا کہ درج بالا تمام دعاوی کا ارسطوی تصورات فزکس پر انحصار نہیں، کائنات  نیز زمان و مکان کا جو بھی تصور قائم کرلیا جائے وہ لازماً حدوث سے عبارت ہوگا اور تمام دعووں کی بنیاد حدوث ہے نہ کہ طبعیاتی طور پر خاص طرح کا حدوث۔

اس مقام پر امام غزالی ایک خاص ترتیب کے ساتھ اپنے ناقد  کی جانب سے سوال اٹھاتے ہیں جو اہم  ہیں۔ ہم یہاں ان میں سے بعض سوالات کو لیتے ہیں۔

پہلا سوال: اگر میں یہ کہوں کہ خدا جسم تو ہے مگر وہ متحیز (spatial) جواہر کے مجموعے والا وہ جسم نہیں جو تم مراد لیتے ہو نیز یہ کہ خدا جہت میں ہے مگر جہت سے میری مراد وہ تصور جہت نہیں جو تم مراد لیتے ہو، تو اب تمہیں کیا اعتراض ہے؟

بم تنكرون على من يسميه جوهراً، ولا يعتقده متحيزاً؟ ۔۔۔ فإن سماه جسماً ولم يرد هذا المعنى ۔۔۔

مفہوم: تم اس کی تردید کیوں کرتے ہو جو خدا کو جوہر کہے مگر اس کے متحیز ہونے کا یہ اعتقاد نہ رکھے ؟  ۔۔۔ اگر وہ اسے جسم کہے مگر جسم سے یہ خاص معنی مراد نہ لے (جو تم لوگ لیتے ہیں، یعنی جواھر کا مجموعہ)  ۔۔۔

جواب: آپ کہتے ہیں کہ ایسے شخص کے دعوے پر ہم اس وقت تک کوئی نقد نہیں کریں گے جب تک وہ یہ واضح نہ کرے کہ “جسم ” اور “جہت ” کے الفاظ سے  اس کی مراد کیا ہے کیونکہ اس وقت تک عقلاً اس کی بات ہی قابل فہم نہیں   اور جس لفظ کا مطلب ہی معلوم نہ ہو اس پر  تنقید کیسے کی جائے؟

وإن أراد أمراً غير هذا فهو غير مفهوم فيكون الحق في إطلاق لفظه لم ينفك عن معنى غير مفهوم للغة والشرع لا العقل، فإن قال الخصم إنما أُريد بكونه بجهة معنى سوى هذا فلم ننكره۔ ونقول له: أما لفظك فإنما ننكره من حيث أنه يوهم المفهوم الظاهر منه وهو ما يعقل الجوهر والعرض وذلك كذب على الله تعالى. وأما مرادك منه فلست أنكره فإن ما لا أفهمه كيف أنكره!

مفہوم:  اگر اس نے ایسی بات مراد لی ہے (جو اوپر مذکور ہوئی) تو وہ ناقابل فہم ہے، ایسے ناقابل فہم الفاظ کے استعمال کا جواز و عدم جواز عقل نہیں بلکہ لغت و شریعت (فقہ) کا  مسئلہ ہے۔ اگر مخالف کہے کہ جہت سے میری مراد اس جہت کے تصور سے سوا کچھ اور ہے جو تم مراد لیتے ہو، تو اس بات کی نفی تم کیوں کرتے ہو؟  تو اسے کہا جائے گا ہم اس کے اس لفظ کے اس ظاہری مفہوم  کی نفی کرتے ہیں جو جوھر و عرض سے متعلق ہے  اور اللہ کی بارگاہ میں اس کا طلاق جھوٹ بات کہنا ہے۔ رہی تمہاری مراد، تو ہم اس بات کا انکار کیسے کر سکتے ہیں جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں؟

یعنی انکار اس شے کا کیا جاتا ہے جس کا مفہوم واضح ہو، تو جب تک تم ہمیں یہی نہیں بتاتے  کہ اس مکانی جہت سے ماوراء جس جہت کی تم بات کررہے ہو وہ کیا ہے، ہم اس کا انکار کیوں کرنے لگے؟  آپ کہتے ہیں کہ یہ انکار کرنا اس لئے بھی درست نہیں کیونکہ ممکن ہے کوئی شخص لفظ “جسم ” بول کر “وجود  ” یا “علم ” مراد لے تو یقیناً اس کے ساتھ ہمارا اختلاف نہیں ہوگا۔ البتہ ایسی مبہم گفتگو کے بعد اختلاف کی نوعیت عقلی نہیں بلکہ لغوی و فقہی نوعیت کی ہوگی، یعنی یہ دیکھنا باقی رہ جائے گا کہ کیا اہل لغت اس لفظ کو اس طرح بولتے ہیں جیسے یہ شخص بول رہا ہے یا کیا شریعت کی رو سے خدا کو “جسم” و “جوہر” جیسے غیر منصوص ناموں سے پکارنا جائز ہے؟ آپ  مزید کہتے ہیں کہ اگر الفاظ کو اس طرح ان کے لغوی تناظرات سے ہٹا کر کسی بھی معنی میں استعمال کرنا روا سمجھا جائے (کہ جسم سے وجود مراد لے لیا جائے) تو اس طرح  زبان کا کوئی اعتبار نہیں رہے گا۔

اس سے واضح ہوا کہ اگر کوئی یہ جملے بولے کہ “خدا کے لئے مکان ہے مگر اس کی شان کے لائق جس میں اس کا نزول ثابت ہے اور وہ مکان یہ مکان نہیں جو جوھر سے متعلق ہے”  تو یہی کہا جائے گا کہ اس نے ایسی بات  کہی جو قابل فہم نہیں کیونکہ لغت میں لفظ “نزول” جس مکان سے متعلق ہے، اس مکان سے ماوراء جس مکان کی بات کی جارہی ہے اس کے تناظر میں خدا کے نزول کا مفہوم سمجھ نہیں آسکتا اور یہ بات کہنے والا متکلمین کے مقدمے (یعنی تفویض معنی) پر “الفاظ بدون معنی” کے استعمال کے سوا کوئی اضافہ نہیں کررہا  اور متکلمین کو ایسے امور کے اثبات پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔

دوسرا سوال: جہت کا انکار کرنا ایک ناممکن و احمقانہ بات کرنا ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک ایسے وجود کا دعوی کرنا ہے جو نہ ان چھ جہات کے اندر ہو اور نہ اس سے باہر، نہ ان سے متصل ہو اور نہ الگ

نفي الجهة يؤدي إلى المحال، وهو إثبات موجود تخلو عنه الجهات الست ويكون لا داخل العالم ولا خارجه ولا متصلاً به، ولا منفصلاً عنه، وذلك محال

مفہوم: جہت کی نفی سے محال لازم آتا ہے،کیونکہ اس کا مطلب ایسے موجود کا اثبات  کرنا ہے جو چھ جہات سے ماوراء ہے اور جو نہ عالم میں داخل ہے اور نہ خارج، نہ اس سے متصل ہے اور نہ منفصل  اور یہ محال ہے

جواب: ایسا وجود جو “اتصال” کو قبول کرتا ہے، یقینا اس کے اعتبار سے یہ بات کہنا درست ہے کہ اس کا متصل و منفصل نیز اندرون  و بیرون دونوں سے ماوراء ہونا محال ہے۔ تاہم جو وجود “اتصال ” کی شرط ہی پر پورا نہ اترے، یعنی دلیل سے یہ معلوم ہوچکا ہو کہ وہ متصل نہیں ہوسکتا، تو اس کے لئے اتصال و انفصال نیز اندرون و بیرون دونوں سے ماوراء ہونا محال نہیں۔ ناقد کایہ  اعتراض اسی نوعیت کا ہے کہ کسی وجود کا قدرت و عجز دونوں سےماوراء ہونا محال ہے، یعنی کوئی شے یا قادر ہوگی اور یا عاجز، اسی طرح یا وہ عالم ہوگی اور یا جاھل۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ اعتراض غلط ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ جو شے دو متضاد میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھے اس کے بارے میں یہ ماننا ضروری ہے کہ وہ ان دو میں سے کسی ایک سے متصف ہو، لیکن جو دونوں سے متصف ہونے کی شرط ہی پوری نہ کرے اس پر دونوں  کا عدم اطلاق جائز ہوتا ہے۔مثلا جمادات پر علم و جہالت دونوں کا اطلاق درست نہیں، یعنی وہ دونوں سے ماوراء ہیں اس لئےکہ علم کی شرط حیات ہے۔ جو شے حیات سے متصف نہیں اس کے لئے علم و جہالت دونوں الفاظ کا استعمال نہ کرنا محال نہیں ہوگا (مثلا دیوار نہ عالم ہے اور نہ جاہل، اس لئے اسے عالم و جاہل دونوں نہ ماننا محال نہیں)۔ پس اسی طرح جس وجود کے لئے “اتصال ” کا تصور ہی ناممکن ہو اس کے لئے جہت سے ماوراء ہونا عقلاً قابل فہم ہے نہ کہ محال ۔

تیسرا سوال : جہات سے ماوراء ایسا وجود ہونا محال ہے  (فإن زعم الخصم أن ذلك محال وجوده)

جواب: دلیل حدوث میں قطعی طور پر ایسے وجود کو ثابت کیا جاچکا جو یہ کہتی ہے کہ ہر متحیز (spatial thing)حادث ہے اور حادث کے لئے محدث درکار ہے۔ پس ان دو مقدمات سے یہ ثابت ہوچکا کہ ایسا وجود ہونا عقلاً لازم ہے جو متحیز نہ ہو ، لہذا اس اعتراض کا کوئی مطلب نہیں کہ ایسا وجود محال ہے

چوتھا سوال:  جس وجود کو تم نے دلیل سے ثابت کیا ہے، وہ ناقابل فہم ہے

قال الخصم إن مثل هذا الموجود الذي ساق دليلكم إلى إثباته غير مفهوم

مفہوم: مخالف کا کہنا ہے کہ جس قسم کے موجود کو تم نے دلیل سابق سے ثابت کیا ہے وہ ناقابل فہم ہے

جواب: یہاں “ناقابل فہم” کے دو امکانی معنی ہیں۔ اگر مراد یہ ہےکہ اس ذات کا تصور و تخیل وھم میں نہیں آتا  تو یہ بات درست ہے (وھم متکلمین کی اصطلاح ہے جس سے مراد عقل کی وہ فیکلٹی ہے جو زمانی و مکانی تصورات سے متعلق ہے)  کیونکہ وھم میں  وہی شے متصور ہوسکتی ہے جو جسم ہو اور  رنگ و مقدار وغیرہ کی کیٹیگریز  سے متصف ہو ، جو شے ان سے متصف ہی نہ ہو اس کا خیال  ممکن نہیں    ہوتا۔ وھم میں کسی شے کا خیال و تصور حاسہ بصارت سے حاصل ہونے والے مشاہدے سے مانوسیت و ہم آہنگی لئے ہوتا ہے اور  کسی شے کا وھم میں یہ تصور کہ “وہ کیسی ہے” اس مشاہدے پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن اگر ناقد  “ناقابل فہم ” سے ایسی نا معقول    بات ہونا مراد لیتا ہے جو دلیل کی رو سے نامعلوم ہو ، تو یہ تحکم و لغو بات ہے کیونکہ اس کی دلیل دعوی اول میں دی جاچکی اور کسی شے کے معقول ہونے کا مطلب یہی ہے کہ عقلی دلیل  اسےقبول کرنے  کا تقاضا کرے اور اس کا انکار نہ کرسکے۔ آپ کی عبارت ملاحظہ ہو:

ما الذي أردت بقولك غير مفهوم؟ فإن أردت به أنه غير متخيل ولا متصور ولا داخل في الوهم فقد صدقت، فإنه لا يدخل في الوهم والتصور والخيال إلا جسم له لون وقدر، فالمنفك عن اللون والقدر لا يتصوره الخيال، فإن الخيال قد أنس بالمبصرات فلا يتوهم الشيء إلا على وفق مرآه  ۔۔ وإن أراد الخصم أنه ليس بمعقول، أي ليس بمعلوم بدليل العقل فهو محاذ إذا قدمنا الدليل على ثبوته ولا معنى للمعقول إلا ما اضطر العقل إلى الأذعان للتصديق به بموجب الدليل الذي لا يمكن مخالفته

مفہوم: غیر مفہوم سے تمہاری کیا مراد ہے؟ اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ خیال و تصور  اور وھم میں داخل نہیں تو تمہاری بات درست ہے کیونکہ وھم ، تصور و خیال میں وہی شے آتی ہے جو رنگ و مقدار و غیرہ سے متصف جسم ہو ، پس جو شے رنگ و مقدار سے ماوراء ہو وہ خیال میں متصور نہیں ہوا کرتا۔ خیال قابل دید اشیاء کی انسیت سے ہوتا ہے اور شے اسی طرح حاصل شدہ تصور سے متوھم ہوتی ہے ۔ ۔۔ اور اگر ناقد کی مراد یہ کہنا ہےکہ وہ وجود اس معنی میں نامعقول ہے کہ وہ دلیل عقلی سے معلوم بھی نہیں  ہوسکتا تو یہ لغو بات ہے کیونکہ اس کے اثبات کی دلیل ہم پیچھے پیش کرچکے ہیں اور کسی شے کے معقول ہونے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ عقل دلیل کی بنا پر اس کی تصدیق پر مجبور ہو اور اس کی مخالفت سے عاجز ہو۔

اچھی طرح غور کیجئے کہ امام غزالی اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ خدا کی ذات کا “تصور ” قائم کرنا ممکن نہیں ہے اور وہ ناقد کے اعتراض کا جواب اس عدم امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے دے رہے ہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ اگر مخالف کا دعوی یہ ہے کہ جس شے کا وھم میں “تصور ” قائم نہ ہوسکے وہ موجود بھی نہیں، تو ہم کہیں گے کہ خود تمہارے “تصور” کا  تصور بھی ممکن نہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ علم، قدرت، خوشبو و آواز ان میں سے بھی کسی شے کا “تصور” ممکن نہیں۔  اگر ہم میں سے کوئی شخص مثلا  “آواز” کا تصور قائم کرنا چاہے تو اس کے وھم میں مقدار و  رنگ کے تصورات در آئیں گے۔ یہی حال تمام انسانی جذبات جیسے کہ خوف، محبت ، خوشی، غم وغیرہ وغیرہ  کا ہے  کہ ان کا تصور قائم کرنے کی کوشش کرتے ہی ذہن رنگ و مقدار کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے مگر ہم ان سب اشیاء سے متعلق ان امور کی نفی کرنے کے باوجود  بھی ان کے وجود کے قائل ہیں۔ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ کسی شے کا وھم میں متصور ہوسکنا اس کے وجود کی لازمی شرط نہیں اور جن کا دعوی یہ ہے کہ ایسا وجود محال ہے ان کے پاس اس دعوے کی دلیل اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ وھم میں متصور نہیں  جبکہ یہ محال کی تعریف نہیں ۔ پس جو اس کے محال ہونے کا دعوی کررہے ہیں وہ کوئی ایسی عقلی دلیل پیش کریں جس کی رو سے ایسے وجود کے اثبات سے  عقلی استحالہ لازم آئے۔

اس مقام پر کانٹین فلسفے کا متاثر دلیل کے طور پر انٹینامیز کو پیش کرتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عقل جب زمان و مکان سے ماوراء وجود پر بحث کرتی ہے تو دو متضاد امور کی تصدیق و نفی کے مابین معلق ہوجاتی ہے ۔ مثلا عقل یہ بھی کہتی ہے کہ عالم کو قدیم ہونا  بھی چاہئے اور نہیں بھی، وہ یہ بھی کہتی ہے کہ عالم کو حادث ہونا بھی چاہئے اور نہیں بھی۔ تاہم اس انٹینامی کو ہم  اپنی ایک الگ تحریر میں موضوع بنا کر دکھا چکے ہیں کہ یہ کمزور بات ہے اور اس کے ذریعے کسی عقلی  استحالے کو ثابت کرنا ممکن نہیں۔

آخر کانٹین  فکر کا اٹھایا ہوا کونسا اہم سوال ہے جو اس گفتگو سے حل نہیں ہوتا؟  کیا اس گفتگو سے ایسا محسوس نہیں ہوتا جیسے غزالی کے سامنے کوئی کانٹین فلسفے کا متاثر  بیٹھا ہو اور آپ اسے جواب دے رہے ہیں؟

چند بچگانہ اعتراضات

بعض ملحدین اہل مذہب کے مقدمے پر طفلانہ قسم کے اعتراض بھی کرتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

  • اگر بغیر مشاہدے کے ایسے وجود کو ماننا ہے تو تم اہل مذہب یہ مان لو کہ کائنات گائے کے سینگ پر قائم ہے، یعنی تمہارا خدا گائے اور اس کا سینگ ہے
  • یا تم یہ بھی مان لو کہ کائنات میں جل پری بھی ہے یا جس خدا کی تم بات کرتے ہو وہ بھی کوئی جل پری نما شے ہے

اہل مذہب کا مقدمہ یہ نہیں ہے کہ ہر وہ شے جو عقلاً  ممکن ہے وہ موجود بھی ہے، ممکن کا وجود متحقق ہے یا نہیں اس کا فیصلہ متعلقہ اثباتی دلیل سے ہوگا۔ تاہم وجود باری تعالی عقلاً ممکن نہیں بلکہ واجب ہے ، لہذا دلیل حدوث کی بنا پر جب زمان و مکان سے ماوراء وجود  کا اقرار کیا جاتا ہے تو وہ اس وجوبی دلیل کی بنا  پر ہے نہ کہ محض امکان کی بنا پر۔ لہذا یہ کہنا کہ “تم یہ بھی مان لو کہ کائنات گائے کے سینگ پر قائم ہے ” ایک بچکانہ اعتراض ہے، اہل مذہب ہر ممکن کے وجود کے مدعی نہیں ہیں بلکہ واجب کے موجود  ہونے کے مدعی ہیں۔ اسی طرح یہ اعتراض کہ “تم  یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ خدا جل پری وغیرہ ہے” یہ بھی بچکانہ بات ہے کہ جسے ” جل پری” کہتے ہیں وہ جواہر کے مجموعے سے بننے والے دو جسمانی تصورات کے خیالی مجموعے کا نام ہے  جبکہ خدا نہ جسم ہے اور نہ جوہر،   پس عالم سے ماوراء اس موجود کو جل پری یاگائے نہیں مانا جاسکتا۔ رہی یہ بات کہ تم اہل مذھب جل پری یا اس قسم کی کسی بھی فرضی شے کے وجود کو مان لو، تو یہ بھی اسی غلط مفروضے پر مبنی بات ہے کہ “ہر ممکن موجود ہے” جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یعنی جل پری کا وجود اگرچہ ممکن ہے، تاہم وہ موجود ہے یا نہیں اس کا فیصلہ دلیل سے ہوگا۔

اس باب کے دیگر تین دعوے یہ ہیں:

8۔ اس وجود کی بارگاہ میں تشبیہی بیانات (ید، نزول، استوی وغیرہ) کے ظاہری معنی کا اقرار درست نہیں

9۔ اس وجود کا مشاہدہ ممکن ہے (اس معاملے میں اہل سنت کا معتزلہ کے ساتھ اختلاف ہے جن کے مطابق جو وجود جہت میں نہ ہو اسے دیکھا جانا بھی محال ہےلہذا آخرت میں بھی مشاہدہ نہ ہوگا)

10۔وہ وجود “واحد”  ہے  ۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں