چند دن قبل گھرواپس لوٹتے ہوئے راستہ میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی سلام دعا کے بعد ان سے ان کے نومولود بچے کی خیریت دریافت کی تو کہنے لگے الحمدللہ عافیت سے ہے۔ اسی دوران میری نظر ان کی باٸیک کیkey Ring اور پیچھے والی لائٹ پر پڑی جس پر ان کے نومولود بیٹے کا نام لکھا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے ان سے کہا یار ابھی تو آپ کا مُنّھا بہت چھوٹا ہے آپ نے تو ابھی سے گاڑی بھی اس کے نام کر دی ۔ میری بات سن کر وہ مسکرایا ! اور پھر کہنے لگا صہیب بھائی نہ جانے جب سے میں باپ بنا ہوں میرے احساسات ہی بدل گئے ہیں۔ خود سے وابستہ ہر چیز اپنے بیٹے کے نام سے منسوب کرنے کو دل چاہتا ہے۔ باپ بننے کے بعداحساس ہواکہ اولاد کی محبت کیاچیز ہے ۔
اگر ہم غور کریں تو یہ احساسات صرف میرے اس دوست ہی کے نہیں بلکہ سب والدین کے اپنی اولاد کے لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد کو خداوندعالم نے آزمائش کہا ہے۔ اپنے گردوپیش اگر ہم نظر دوڑائیں تو والدین کی اولاد سے محبت کا یہ پہلو ہر طرف دکھائی دیتا ہے ۔ اگر کوئی بزنس مین ہے تووہ اپنی فیکٹری اور کارخانے کواپنی اولاد کے نام سے منسوب کرتا ہے یہاں تک کہ ایک غریب ریڑھی والا بھی اپنی اولاد ہی کے نام کو اپنی تشہیر کے لئے استعمال کرتا ہے ۔
کُنیّت (پہلی اولادکے نام سے خود کومنسوب کرنا) ہی کو دیکھ لیں۔ انسان کی اس فطری خواہش کا دین اسلام میں بھی کس قدر احترام کیا گیا ہے۔ کیسا خوبصورت سلسلہ ہے کہ اولادکے اس دنیا میں آتے ہی ماں باپ ان کے نام کو اپنے نام پر ترجیح دیتے ہیں وہ اپنی شناخت کو مٹا کر اپنے نونہالوں کی شناخت سے خود کو متعارف کروانے کے خواہاں بن جاتے ہیں ۔ خود ہمارے پیارے نبی آخرالزمان ﷺ نے اپنے شہزادے صاحبزادے حضرت قاسم کے نام سے اپنی کنیت ” ابوالقاسم “ رکھی اس طرح دیگرصحابہ ؓ اورآج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اور یہ کنیت بساوقات نام پر ایسی غالب آتی ہے کہ لوگ اصل نام تک بھول جاتے ہیں ماں باپ کی اولادسے غیرمتزلزل اور انوکھی محبت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اولاد کی پیدائش کے بعد ماں” عبداللہ کی اماں“ اورباپ” عبداللہ کا ابا“بن جاتاہے۔
وہ بیوی جو اپنے خاوند کو مختلف القابات سے پکارتی تھی یکلخت وہ ان سارے القابات کو ترک کر کے اپنے بیٹے کے نام سے خطاب کرتے ہوئے ”عبداللہ کے ابا“ کہتے ہوئے نہیں تھکتی۔ اب جس کو دیکھو عبداللہ ہی کے گُن گا رہاہے اس کے ابا کی کوٹھی بنگلہ ،کار، موٹرسائیکل دکان و کارخانہ سبھی پر عبداللہ ہی کا نام نظر آتا ہے اس کے مستقبل کومحفوظ بنانے کے لئے جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ گویا اولاد کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ ان کواپنی شناخت بنا لیتا ہے اس کے دل میں اولاد کی محبت ایسی رچ بس جاتی ہے کہ یہ ہر چیز پر انہی کے نام کو دیکھ کر راحت معلوم کرتا ہے۔ اپنی ہڈیاں پگھلا کر والدین اپنی اولاد کو اعلٰی سے اعلٰی تعلیم دلواتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لئے ہر لمحہ دعاگو ہوتے ہیں۔ ان کے ذاتی غم وخوشی ختم ہوچکے ہوتے ہیں وہ اپنی اولادکی خوشی سے جیتے اورپریشانی میں تڑپتے ہیں۔
ناموں کے انتقال کایہ سلسہ روزاول سے جاری ہے۔ ماں باپ اس دنیامیں اولاد کے آنے کا ذریعہ بنتے ہیں ان کے لئے مصائب وآلام جھیلتے ہیں اورجب وہ ان کے نام کوزندہ کرلیتے ہیں تو یہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اوراگلی نسل کویہ ذ مہ داری سپرد کر دیتے ہیں۔ گویا 60یا70سالہ زندگی صرف نام کی منتقلی کے لئے ہی کھپا دیتے ہیں۔ لیکن خوش بخت اولاداپنے والدین کے نام کوبھی ہمیشہ زندہ رکھتی ہے اولاد کا نام جتنا روشن اور اونچا ہوتا ہے تو والدین کا بھی اسی کے بقدر ہوتا ہے، کیونکہ یہ معاملہ جانبین سے ہے۔ کسی نے خوب کہا
”رنگ لاتی ہے حِنا پتھر پہ پِس جانے کے بعد“
ماں باپ اپنی شناخت کو اولاد پر قربان کر دیتے ہیں لیکن خداوندعالم ان کی اس قربانی کوضائع نہیں کرتا وہ ان کے نام کوکبھی مٹنے نہیں دیتا بلکہ بدلہ میں اولاد کو سبھی اس کے ماں باپ کے نام سے جانتے ہیں یہ ”عبدالرحمن کابیٹا“ہاجرہ کابیٹا“۔ اس سارے سلسلہ میں ماں باپ کی محبت کا پلڑا بھاری رہتا ہے کیونکہ وہ اپناسب کچھ اولاد پرنچھاور کر دیتے ہیں۔
ماں کی 9ماہ تک غیرمعمولی تکلیف باپ کی صبح تا شام مشقت بھری زندگی اور پھر اولاد کے سنبھلنے تک راتوں کی تھکاوٹ اور شب بیداری یہ وہ مصائب وآلام کا دریا ہے جس کووالدین خوشی سے عبورکرتے ہیں۔ سعادت مند اولاد اپنے محسنوں کے ان احسانات کے بدلہ میں ساری زندگی ان کی فرمان برداری اور دلجوئی میں صرف کر دیتی ہے اس لئے کہ انہیں پتہ ہے کہ ہمیں جو امانت وہ منتقل کر رہے ہیں ہمیں بھی آگے اس کو منتقل کرنا ہے ۔
کمنت کیجے