Home » نخیلِ بے رُطَب
تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار فلسفہ

نخیلِ بے رُطَب

ابو الحسین آزاد

انسان کو زندگی اور وجود کے معنی کی تلاش ہے۔ اُسے اس سوال کا جواب درکار ہے کہ           Why       there       is       something        rather        than nothing?،سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟ اور نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا؟ فلسفہ اور مذہب دونوں اس سوال کا جواب دینے کے مدعی ہیں لیکن فلسفے کا حال یہ ہے کہ وہ جواب دینے کی بجائے اپنے ناخنِ تشکیک سےپہلے سے دیے گئے جوابوں کے بھی بخیے ادھیڑنے میں لگا ہے۔رسل نے کہا تھا کہ فلسفہ دراصل کسی مشکل کا حل تلاش کر ہی نہیں سکتا البتہ کم از کم وہ اتنا کرسکتا ہے کہ اُس مشکل کی نشان دہی کردے۔ رسل نے مزید یہ بھی کہا کہ فلسفہ مسئلے کو پیستے پیستے اُس اکائی تک لے آتا ہے جہاں وہ حل کے قابل ہو جاتا ہے۔ پھر اُسے سائنس کے حوالے کر دیتا ہے جو اسے ایک وجودی اور علمی حل عطا کرتی ہے۔
لیکن مصیبت یہ ہے کہ وہ بڑے سوالات جو سائنس کی چار دیواری میں سما ہی نہیں سکتے وہ جوں کے توں فلسفے کے حمام میں بے لباس ہی پڑے رہتے ہیں۔ فلسفے اور سائنس کے پاس اُن کی برہنگی کو ڈھانپنے کے لیے کوئی قبا موجود نہیں ۔ حالاں کہ یہ انسانی شعور کے بہت ہی بنیادی سوالات ہیں۔ اگر انھیں جواب مہیا نہ کیا جائے تو سرے سے زندگی کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا۔معنی اور مقصد کی تلاش کا سفر اگر کسی منزل تک نہ پہنچے تو لامتناہی مسافتوں کو قطع کرتے کرتے شعور کے تلوے پھٹ جاتے ہیں، سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں اور بدن ادھڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ فلسفے کے پاس محض تشکیک کا نشتر ہے جسے چبھو چبھو کر وہ سوال کے زخم کو مزید گہرا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا ۔اُس کے پاس ایسی کوئی دیوار موجود نہیں ہے جو کسی دُکھتی ہوئی کمر کو سہارا دے سکے۔
ایسے موقع پر مذہب آگے بڑھتا ہے اور بنیادی سوالات کو جواب عطا کرتا ہے، زندگی کو معنی سے نوازتا ہے اور مقصد کے معمے کی گرہ کھولتا ہے۔مذہب کا معاملہ بڑا ہی عجیب ہے، آپ اس کے بنیادی مقدمے کو فلسفے کی عدالت میں لے جائیں اور اس کے دعووں کو منطق کی میزان میں تولنا شروع کر دیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ مذہب اور الحاد کے پلڑے برابر ہو جائیں اور فیصلہ مساوی طور پر دونوں کے حق میں چلا جائے لیکن ایسا کرتے ہوئے شاید آپ درست چیز کو غلط پیمانے میں ماپ رہے ہوں گے۔
مذہب عقلی تشفی سے زیادہ داخلی تشنگی کی سیرابی کا نام ہے۔ دراصل زندگی کے معنی اور وجود کے مقصد کا سوال غالبا عقلی ہے ہی نہیں۔ یہ ایک پیاس ہے جسے صاف ستھرے پانی کے چند گھونٹ درکار ہیں، خواہ وہ کسی مشک سے ملیں یا کنویں سے، یا آسمان سے بوندیں ٹپک پڑیں۔ کچھ بھی ہو بہرحال اسے اپنی ندا کے جواب میں حلق ترکرنے والا پانی چائیے نہ کہ فلسفیانہ موشگافیوں کی ریت۔”اسلام قلوب میں اُس قسم کا زندہ اور پرجوش ایمان پیدا کردیتا ہے کہ پھر اُس میں مطلقا شک اور تذبذب کی گنجائش نہیں رہتی“ (گستاؤ لیبان: تمدن عرب، 121)(اس جملے کا ماقبل تحریر سے گہرا ربط ہے۔)
الغرض زندگی ایک صحرا ہے، معنی و مقصد کی تلاش پیاس ہے اور ایمان وہ چشمۂ حیَوان ہے جو انسان کی رگِ حیات کو تر کر سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فلسفے کی تشکیکی ریت نے پورے صحرا کو ڈھانپ رکھا ہے۔ انسان لاکھ منہ لپیٹے لیکن جب کبھی آندھی چلے گی تو یہ ریت اُسے شدت سے چبھنے لگے گی۔ فلسفہ اپنے سوال اٹھانے سے باز نہیں آئے گا اور انسان اُن سوالوں کی تاثر پذیری سے بھی بمشکل بچے گا۔
سقراط کے سامنے یوتھائفرو نے بہت اعتماد سے یہ دعوی کیا کہ:”میں خیر اور دین داری پر عمل پیرا ہوں۔“ سقراط نے سوال کیا : خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟ یوتھائفرو نے کہا: خیر وہ ہے جسے دیوتا پسند کریں اور شر وہ ہے جسے دیوتا ناپسند کریں۔ سقراط نے پھر سوال داغا: کیاخیر اس وجہ سے خیر ہے کہ دیوتاؤں نے اُسے پسند کیا ہے یا دیوتاؤں نے اُسے اس وجہ سے پسند کیا ہے کہ وہ خیر ہے؟ یوتھائفرو نے بات کو بہت گھمایا اور سقراط نے مزید الجھایا یہاں تک کہ جب بہت تکرار اور حیل حجت کے بعد بھی یوتھائفرو سے بات نہ بن سکی اور گھوم پھر کر سقراط کے سوال پر آکر اٹک گئی تو یوتھائفرو نے جھلّا کر کہا: ”پھر کبھی سقراط، اب تو میں بہت جلدی میں ہوں ٹھہر نہیں سکتا۔“ سقراط نے اُس پر پھبتی کستے ہوئے کہا: ”افسوس! تم مجھے مایوس چھوڑ کر جارہے ہو حالاں کہ مجھے تم سے توقع تھی کہ تم مجھے خیر اور شر کی حقیقت سمجھاؤ گے؟“ سقراط کےتیرہ سو سال بعد یہی معرکہ بغداد کے گلی کوچوں میں بھی برپاہوا۔ اب کی بار یوتھائفرو کی جگہ اشاعرہ کھڑے تھے،سقراط کا کردار معتزلہ ادا کر رہے تھے اور بحث کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ ”اشیاء کا حسن و قبح عقلی ہے یا شرعی؟“مزید ایک ہزار سال گزرنے کے بعد جرمنی اور فرانس کے دانش کدوں میں بھی یہی مباحثہ دہرایا گیا کہ ” اخلاقیات کی کوئی مابعد الطبیعیاتی (Metaphysical)بنیاد ہے یا یہ افادیت(Utility) کے اصول پر قائم ہیں؟“ بلکہ حق تو یہ ہےکہ آغازِ آفرینش میں خدا اور فرشتوں کے درمیان بھی کچھ ایسا ہی مکالمہ ہوا تھا۔فرشتوں کے أتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء؟ والے سوال کو ایک ہی جواب ملا تھا: إني أعلم ما لاتعلمون.اب بعد میں آنے والوں کے لیے کہنے اور پوچھنے کو کیا بچا تھا!
عقل اور عشق یا فلسفے اور مذہب کی کسی ایسی ہی رزم گاہ میں معرکہ آرائی کرتے ہوئے ایک مسیحی متکلم نے اپنی کتاب میں ایک جملہ لکھ کر اُسے تاریخ کے دریا میں پھینک دیا۔ وقت کی لہروں پہ بہتا بہتا یہ جملہ کئی صدیوں بعد ایک برطانوی مؤرخ کے ہاتھ لگا۔ اُس نے ”مطالعۂ تاریخ“ (A Study of History)کے نام سے دس جلدوں کی ایک کتاب لکھی۔ جب وہ سائنس اور مذہب کے معرکے کی بحث پہ پہنچا تو اُس نے کہا مذہب اور سائنس کے درمیان مطلق مفاہمت کی راہیں تلاش کرنے والے اُس فقرے کو بھول چکے ہیں جسے بائبل کے نغمے میں ٹیپ کے بند(Chorus) کی حیثیت حاصل ہےکہ: ”خدا نے نہ چاہا کہ اپنے بندوں سے فلسفے اور منطق کی زبان میں کلام کرے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابو الحسین آزاد جامعہ دار العلوم کراچی کے فاضل ہیں اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور سے اسلامی علوم میں ایم فل کر رہے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں