Home » بانڈہ آچیہ ، میں کچھ روز
تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

بانڈہ آچیہ ، میں کچھ روز

بانڈہ آچیه انڈونیشیا کے سماترا آئر لینڈ میں واقع ہے، جکارتہ سے سماترا تک تقریبا تین  گھنٹے کی فلائٹ ہے، اسے انڈونیشیا کے ایک گاؤں کی طرح بھی تصور کیا جاسکتا ہے ، علماء کونسل نے اس بار 21 ممالک سے مذہبی نمائندوں کو مدعو کیا تھا ، جن میں پاکستان سے اس ناچیز کو یہ موقع ایک بارپھر مل گیا ۔

یہ انڈونیشیا کا سب سے زیادہ مذہبی  صوبہ کہلاتا ہے، ان کے بقول اس صوبے میں شریعت کا عملی نفاذ موجود ہے ، یہاں شرعی کورٹ موجود ہے اور شرعی سزائیں نافذ کی جاتی ہیں ،  یہ وہ اکلوتا صوبہ ہے جہاں بی ایس آئی کے نام سے اسلامی بنک موجود ہے، یہاں کے تمام تعلیمی اداروں میں شریعہ ڈیپارٹمنٹ موجود ہے ، فقہ  اور اس کے جاننے والوں کو اس شہر میں خاص اہمیت اصل ہے، یہاں مفتی اعظم بی موجود ہیں ۔

میں جکارتہ سے بانڈہ آچے جمعے کی صبح پہنچی سڑکوں ، دکانوں پر اونچی آواز سے تلاوت سنائی دی ، یہاں سڑکوں پر صلوة و سلام کے بڑے بینر آویزاں نظر آئے ، اہم یہ کہ  اذان اور نماز کے وقت میں پورے صوبے میں عمومی سرگرمیاں روک دی جاتی ہیں ۔

مذہبی صوبہ ہونے کی وجہ سے یہاں دو مذہبی جماعتیں بہت سرگرم ہیں ، جن میں ایک محمدیہ اور دوسری نہضة العلماء ہے ان دونوں جماعتوں کے بارے میں اپنے سابقہ سفر کی تفصیلات میں لکھ چکی ہوں ۔

ہوٹل کے راستے میں فلسطین کے لئے اظہار یک جہتی کے طور پر  سیاہ وسفید علم اٹھائے لوگوں کو کھڑے  دیکھا ۔

یہ صوبہ سنہ 2004 میں ہولناک سونامی کے بہت بڑے حادثے سے گزرا ہے  تین سو میٹر تک بلند سونامی نے اس صوبے کو مکمل طور پر تباہ و برباد کردیا تھا، جبکہ اگلے پانچ سالوں میں انڈونیشا کی عوام نے اس صوبے کو ازسر نو مکمل تعمیر کر لیا تھا ۔

یہاں سونامی  کے نام سے  ایک میوزیم بنادیا گیا ہے اور اس صوبے کا ہر بچہ بچہ 2004 کے سونامی سے واقف ہے ۔

اگلے روز ہمیں سونامی میوزیم لے جایا گیا، یہ تیزبارش کا دن تھا، لیکن چونکہ طے تھا تو ہمیں جانا بہرحال تھا، یہ میوزیم  میرے لئے حیرت انگیز تھا اس کا داخلی راستہ ایسا بنایا گیا ہے کہ 300 میٹر کی بلندی سے اس کے کناروں پر پانی گر رہا تھا ، راستہ کافی پھسلن اور اندھیرے والا تھا اس سے گزرتے ہوئے محسوس ہورہا تھا جیسے حقیقی طوفان آرہا ہے

میوزیم کے مختلف کمروں میں سونامی سے ہونے والی تباہی کی تصاویر ، نمونے اور مشکلات مختلف شکلوں میں آویزاں کئے گئے ہیں  ، کئی جگہوں پر سونامی سے تباہ ہونے والی کچھ چیزیں بھی رکھی ہوئی ہیں ۔

میوزیم کے ایک ہال میں دیوار پر تیس ہزار چھ سو سے زائد نام کندہ ہیں ،یہ ان لوگوں کے نام ہیں جو اس سونامی میں شہید ہوگئے تھے ، اس کمرے کی بلندی بھی سونامی کی بلندی جتنی ہے اور بلندی کے آخری کنارے پر لفظ جلالہ یعنی اللہ لکھا ہوا چمکتا نظر آتا ہے ، اس کمرے میں مستقل قرآن کریم کی تلاوت گونجتی ہے ۔یہاں رک کر سب تلاوت سنتے ہیں اور مرحومین کے لئے دعا کرتے ہیں ،

میوزیم کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے اونچی آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد کیا جاتا ہے۔

بتایا گیا کہ اس میوزیم کے قیام کا مقصد لوگوں کے دلوں میں اس  بات کو راسخ کرنا ہے کہ اللہ رب العزت قادر ہے ، اس کی طاقت حاوی ہے اور وہی سب کچھ کرنے والا ہے ، اس کے امر کے سامنے کسی کی کوشش نہیں چلتی ۔

یہ میوزیم نیم تاریک ،اور خوفناکی سموئے ہوئے تھا بالخصوص جب یہ تصور کر لیا جائے کہ یہ ناگہانی آفت کی جگہ ہے تو خوف بڑھ جاتا ہے ۔

میوزیم کے سامنے بہت بڑا قبرستان واقع ہے ،جہاں کئی قبریں موجود ہیں۔

میوزیم سے کچھ فاصلے پر ایک بحری جہاز نصب ہے ، سونامی کی موجیں اس جہاز کو سمندر سے 5 کلو میٹر دور اٹھا لائی تھیں ، یہ جہاز اسی جگہ کھڑا ہے جہاں سونامی نے اسے چھوڑا تھا ، یہ دیوہیکل بلند جہاز  دیکھنے کے لئے لوگ آتے ہیں ،  اس جہاز کے بہت سارے زینے ہیں سب سے اوپر پہنچ کر پورے شہر کو دیکھاجا سکتا ہے ۔

اس کے کچھ فاصلے پر سونامی اجتماعی قبرستان ہے ، ہمیں وہاں لے جایا گیا ، قبرستان کیا تھا، د ونوں طرف میدان اور اس میں سرخ رنگ کے کچھ بڑے پتھر رکھے ہوئے ہیں جو اجتماعی قبروں کی علامت ہے ، قبرستان کی درمیان کھڑے ہوکر تمام اہل قبور کے لئے دعا مانگی گئی ، بارش برس رہی تھی لیکن یہ لوگ اس سے مکمل طور پر بے نیاز تھے ،  اس میدان میں اجتماعی قبریں ہیں جہاں سونامی سے ختم ہوجانے والے کئی ہزار لوگ اکٹھے دفن کردیے گئے تھے ۔

اس علاقے کے لوگوں کی اپنی قوم کے ساتھ وفاداری ، حادثات سے سبق سیکھنا اور پھر انہیں یاد رکھنا بہت ہی حیران کن تھا ۔

سونامی کے حادثے کے بعد اس صوبے کی نئی تعمیر میں تمام گھر اور جگہیں اس طور پر تعمیر کی گئی ہیں وہ زلزلوں اور طوفانوں سے مزید  محفوظ رہ سکیں ، یہ لوگ جانتے ہیں  کہ آئندہ کوئی زلزلہ یا طوفان اگر آجائے تو خود کو کیسے بچایا جائے گا ، ان کے ہر فرد کو ہنگامی حالات کی مکمل تربیت حاصل ہے ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیں وہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے بتایا کہ اگر زلزلہ جائے تو کمرے کے کس حصے میں کھڑے ہونا ہے اور کیا کرنا ہے ، پہلے لمحے مجھے خوف سا محسوس ہوا اور میں نے پوچھا کہ کیا یہاں کسی بھی وقت زلزلہ یا طوفان آ سکتا ہے؟

تو جواب ملا کہ زلزلہ اور طوفان 2004 میں آیا تھا اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ ایسا نقصان کبھی نہ ہو ۔

اپنے حادثات سے سبق سیکھنے والا یہ مثال صوبہ ہے ۔

مسجد بیت الرحمٰن 

انڈونیشیا کے شہر آچیہ میں واقع ایک  خوبصورت مسجد “بیت الرحمٰن” کے نام سے موسوم ہے ، یہ مسجد سیاحوں سمیت اس ملک کے ہر باشندے کے دل میں بستی ہے

سولہ سو بارہ میں سلطان اسکندر مدا نے اسے سلطنت مغلیہ کے طرز پر تعمیر کیا تھا ، اس مسجد کی ظاہری بناوٹ میں تاج محل کا عکس نمایاں ہے اور اس کے صحن میں مسجد نبوی کی جھلک نمایاں ہے ۔

اس مسجد کے بارے میں اس قدر سنا تھا کہ اسے دیکھے بنا واپس جانے کا تصور نہیں کرسکتی تھی، دو روز سے شہر میں مسلسل تیز بارش کی وجہ سے جانے کی سبیل نہیں بن پائی، آخری روز میں نے یونیورسٹی کی کچھ طالبات سے کہا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسجد لے جائیں ۔ مغرب کی نماز سے پہلے کا وقفہ تھا اور ہم کچھ لوگ مسجد پہنچے اگرچہ اس وقت بھی بارش شروع ہوچکی تھی ،لیکن مسجد کی زیارت بہر حال ضروری تھی ۔

یہ مسجد یہاں کے لوگوں کے لئے خاص عقیدت کا مقام رکھتی ہے ، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ 2004 کے ہولناک سونامی میں جب پورا شہر تباہ ہوگیا تھا تو طوفان اس مسجد کو صرف چھو کر گزر گیا تھا اور یہ مسجد ایک خوفناک طوفان میں لوگوں کے لئے پناہ بنی ہوئی تھی ۔

سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ 24 گھنٹے مسلسل اس مسجد میں آمد و رفت کے باجود یہاں ادب و احترام مکمل طور پر دیکھا جا سکتا تھا ، کسی سیاح کو ادھورے لباس میں مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، دیگر مساجد کی طرح یہاں بھی مرد و خواتین کی صفوں کے درمیان کوئی حائل نہیں تھا البتہ فاصلہ ضرور تھا ۔ یہاں ایک دلچسپ معاملہ یہ پیش آیا کہ ہمارے ہمراہ انڈیا سے ایک بہن بھی موجود تھیں  ، جنہوں نے روایتی قمیض شلوار زیب تن کر رکھا تھا ،  مسجد کے داخلی دروازے پر انہیں روک دیا  گیا اوران کے لباس کو ناقص کہا گیا ، ہر چند ان سے کہا کہ یہ مکمل لباس ہے ، لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ قمیض  گھٹنوں تک ہونا ناقص ہے ، عورت کے لئے قمیض اتنی لمبی ہونی چاہئے جو ٹخنوں تک ہو ، بہر کیف اس وجہ سے وہ انڈین مہمان مسجد میں داخل نہ ہوسکیں ،  جس پر ہمیں افسوس ہوا اور یہ  تاثر بھی ملا کہ  شرعی صوبہ ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں رائج لباس ہی شرعی کہلاتا ہے ۔

مسجد میں صبح و شام درس قرآن کے حلقوں سمیت خواتین کے لیے باقاعدہ نماز کا انتظام موجود ہے ،جب میں وہاں موجود تھی تو مغرب کی نمازکے فورا بعد وہاں اونچی آواز سے صلوة و سلام پیش کیا گیا اور پھر  درس شروع ہوا ، میرے ساتھ موجود طالبہ نے اس کا ترجمہ کیا تو واضح ہوا کہ درس میں میراث کے اصول اور قوانین سمجھائے جارہے ہیں ، یہ کافی حیران کن تھا کہ عوام الناس کے ہجوم کہ جگہوں پر کس قدر اہم گفتگو کی جا رہی ہے ۔

مسلمان اس مسجد کو محبت اور عقیدت سے دیکھ رہے تھے اور غیر مسلم مہمان اس کے بقاء کی وجہ اس کے بہترین تعمیر اور ساخت قرار دے رہے تھے ۔

اور میں اس بھیگتی شام میں اس مسجد کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ جس رب نے اس مسجد کو ایک خوفناک طوفان میں محفوظ رکھا وہ  مسجد اقصی اور وہاں کے رہنے والوں کو بھی اس ہولناک لمحے میں محفوظ رکھنے پر قادر ہے ۔۔۔بس یقین کی ضرورت ہے ۔

شریعہ فیسٹیول

انڈونیشیا میں اسلام کی تفہیم سے اگرچہ اب واقفیت تھی لیکن چونکہ اس بار ایک نئے شہر آنا ہوا تھا جو کہ خالصتا اسلامی قوانین کے نفاذ کا شہر مانا جاتا ہے تو یہاں اسلام کی تفہیم کے حوالے سے جاننے کی مزید جستجو تھی۔

ایک شام کی مجلس میں وہاں کے کچھ مقامی علماء بیٹھے ہوئے تھے میرے استفسار پر گفتگو کا سلسلہ ہوا ، ان حضرات کے نزدیک شافعی اور شافعیہ دو الگ چیزیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کہیں گے کہ ہم شافعی یا حنفی ہیں تو یہ شدت کہلائے گی نیز اس سے تجدید کی راہ کو وسعت نہیں مل سکے گی، جبکہ شافعیہ کہلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم وقت کے تقاضوں کے مطابق تجدید کی راہ ہموار کرتے رہیں۔

ان کے نزدیک فقہ کے کچھ اصولی قواعد ہیں جنہیں ملحوظ رکھا جاتا ہے ،جیسے العادة محكمة ، اور لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام وغیرہ ۔

وہ بتا رہے تھے کہ ان کے ہاں دین کی موجودہ تفہیم میں چونکہ کسی کو ضرر نہیں پہنچتا اس لئے اسے جائز سمجھا جاتا ہے ،ہاں ہر وہ کام حرام ہوگا جس میں کسی کو ضرر پہنچے ۔

ہمیں آچے کے گورنر ہاؤس میں عشائیہ کے لئے بلایا گیا تھا ، ہم وہاں جس مجلس میں بھی گئے وہاں ثقافتی رقص کے ساتھ ہمارا استقبال کیا گیا ،جس میں اللھم ، الحمد للہ ، سبحان اللہ جیسے کلمات شامل تھے ،

دوپہر میں ہمیں ایک اشتہار ملا تھا جس پر لکھا تھا “شریعہ فیسٹیول” اور ساتھ ہی ڈھول باجوں کی تصاویر تھیں ۔

اس فیسٹیول کا وقت رات 8 سے 10 تک تھا یہ تین دن کا فیسٹیول تھا اور ہماری قیام گاہ سے کچھ فاصلے پر بھی تھا، بہت کوشش کے بعد آخری روز پہنچ ہی گئی، مجھے بہت جستجو تھی یہ جاننے میں کہ شریعہ فیسٹیول میں آخر کار کیا ہوگا ۔

فیسٹیول کا آغاز تلاوت کلام پاک اور پھر فلسطین  کے لئے پرسوز دعا کے ذریعے سے ہوا ۔

بھاشا زبان میں گانے اور نغمے گائے گئے اور ساتھ ہی ثقافتی طرز  پر کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا

ان کی یہ اسلامی ثقافتی طرز کے گانے کہیں نہ کہیں برصغیر میں کیے جانے والے روایتی ماتم کا طرز اپنے اندر سموئے ہوئے تھے ۔

یہاں قرآن پڑھنے والے اور ثقافتی گیت گانے والے کوئی دو الگ دنیاؤں کے لوگ نہیں سمجھے جاتے بلکہ ہر خوش الحان شخص جو گا سکتا ہے وہ تلاوت بھی کر سکتا ہے اور امام بھی ہوسکتا ہے ۔

امن کانفرنس میں گفتگو

اصل مقصد امن کانفرنس میں اپنا مدعا رکھنا تھا، یہ دن میرے لیے مصروف ترین دن رہا مجھے کانفرنس ہال میں پاکستان میں عالمات اور بالخصوص مرکز الحریم کے سفر کو بیان کرنا تھا اور انفرادی سیشن میں مذہبی انتہا پسندی اور اہل مذہب خواتین کے کردار کو واضح کرنا تھا ۔

ڈسکشن پینل میں میرے ساتھ انڈیا اور سری لنکا کی نمائندہ خواتین موجود تھیں، جنہوں نے نہایت تفصیل سے سری لنکا اور انڈیا میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی ، کیونکہ دونوں خواتین غیر اسلامی ممالک سے تھیں اس لیے انہیں بحیثیت مسلمان مختلف قسم کے مسائل کا سامنا واضح تھا ۔

اس کے بعد میری باری تھی کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے گفتگو کروں، بے شمار مسائل کے باوجود میرا خیال تھا کہ ہمارے مسئلے اپنے گھر کے ہیں انہیں اپنے گھر میں ہی سلجھانا بہتر ہے، ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اپنے رونے سے بہتر ہے کہ مثبت تصویر کو اجاگر کیا جائے اور اپنے تشخص کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے ۔

سو میں نے پاکستان میں امن و سلامتی کی کافی صورتوں کی مثالیں دیں اور اس کے بگڑتے تشخص کا ذمہ دار عالمی میڈیا یا پھر چند سیاسی مقاصد کو قرار دیا جس نے ہمارے مذہبی حلقوں کا تاثر اچھا رہنے نہ دیا ۔

اگلا مرحلہ سوال و جواب کا تھا جس میں میرے گمان کے برعکس سب سوالات کی توپیں میری طرف ہی رہیں، یہ مرحلہ کچھ دشوار ضرور تھا  کیونکہ میں نے پاکستان کی نہایت مثبت تصویر رکھنے کی کوشش کی تھی جو   ایک طر ح سے آ بیل مجھے مار کے مترادف ہوگیا تھا ۔

سامعین کی سابقہ معلومات پاکستانی اہلیان مذہب کے بارے میں ذرا بھی مثبت نہ تھیں ، ان کے سوالات کچھ ان سوالات سے ملتے جلتے تھے جن کا سامنا مجھے گزشتہ سال کے سفر میں ایک دوسرے صوبے جوگجہ میں ہوا تھا ۔

ان میں سے کچھ سوال ملالہ کے بارے میں تھے ، پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر ہونے والے کئی قتل  اور دیگر مذاہب کے عبادت خانے جلائے جانے کے بارے میں تھے ۔

ایک سوال عمران خان کے بارے میں بھی تھا اور انہیں خان صاحب سے مکمل ہمدردی تھی ، ایک سوال پاکستان میں قادیانیت کو آزادی نہ ہونے کے بارے میں بھی تھا ،  ان کے سوالات میں ظاہرا پاکستان کا نقشہ گوانتانامو  سے کم نہ تھا ۔

ہاں کچھ لوگوں نے  پاکستان کی تعریف بھی کی اور کچھ شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی اور وہاں کے قدرتی وسائل کی تعریف کی ۔

اس سے اگلی نشست کانفرنس ہال میں تھی جہاں پاکستانی عالمات کے معاشرتی کردار کے حوالے سے گفتگو ہوئی، اس نشست کے بعد  کے سوالات  عالمات کے معاشرتی کردار کے حوالے سے کچھ یوں تھے کہ :

آپ کی عالمات  کسی مسجد میں خواتین کی راہ نمائی کیوں نہیں کرسکتیں ؟

مذہبی خواتین کا سیاست میں کس قدر حصہ ہے؟ کیونکہ ان کے صوبے آچیہ میں تیس فیصد مذہبی خواتین پارلیمنٹ کا حصہ ہیں ۔

وہ یہ بھی پوچھ رہے تھے کہ مذہبی خواتین کا میڈیا پر کیا کردار ہے؟

نیز  دینی مدارس کے نصاب میں خواتین کیا پڑھتی ہیں ؟

پاکستان کا قومی لباس قمیص شلوار ہے تو یہ سیاہ عبایہ اوڑھنا چہ معنی دارد؟

تقریب کے آخر میں فریم میں ایک چاقو پیش کیا گیا، یہ چاقو بھی خواتین کے حوالے سے پوری تاریخ رکھتا ہے، جس بارے میں اگلی سطور میں آپ جان سکے گے ۔

بہت سے دلچسپ مراحل کے  ساتھ  یہ نشست برخاست ہوئی، یہ ضرور تھا کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے باشندوں کے درمیان ایک خلیج سے محسوس ہوا باوجود اس کے انڈونیشیا سے کئی طلباء و طالبات پاکستانی جامعات میں پڑھ رہے ہیں، پھر بھی پاکستان کے بارے میں کچھ مثبت حقائق وہاں کیوں نہیں پہنچ رہے؟

امام باجنگ

امام باجنگ کی اسلامیہ یونیورسٹی کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا کہ وہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی کوششوں کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں ۔

سامعین میں یونیورسٹی کے 80 سے 100 کے لگ بھگ تعداد میں افراد موجود تھے ،جو نہایت دلچسپی سے سن رہے تھے ، نفاذ شریعت کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے کردار کے حوالے سے  کچھ گفتگو ہوئی اور آخر میں دو گھنٹے تک باہم مکالمہ اور سوال جواب ہوتے رہیں ،

جن میں پوچھا گیا کہ : اسلامی نظریاتی کونسل میں خواتین کی کس قدر تعداد موجود ہے؟

فیملی لاء ، بالخصوص خواتین سے متعلق کوئی بھی فیصلہ سازی کرتے ہوئے ان سے کس قدر رائے لی جاتی ہے؟

مذہبی سیاسی قیادتوں کا کس قدر اثر و رسوخ ہے ؟

اور پاکستان کی مذہبی قیادت موجودہ  فلسطین کے تنازعے پر کیا اقدامات کر رہی ہے ۔

ساڑھے تین گھنٹے تک مسلسل باہمی گفتگو ہوتی رہی جس میں نشست میں موجود ہر فرد حصہ ڈال رہا تھا ، سامعین میں پروفیسرز، استاد ، طلباء و طالبات سب ہی شامل تھے اور ان سب کے پاس کہنے کو کچھ نہ کچھ موجود ہی تھا ۔

چٹ نیاک دھائین

چٹ نیاک ایک خاتون کا نام ہے ،جن کے نام پر بانڈہ میں ایک میوزیم ہے جو دراصل ان کا اپنا گھر ہی ہے ، اس گھر میں ان کا سازو سامان باقاعدہ طور پر محفوظ رکھا گیا ہے ۔

ہم اس جگہ پہنچے تو بارش بہت تیز ہو چکی تھی، مہمان سوچ رہے تھے کہ وہ بس سے نیچے کیسے اتریں گے؟ کیونکہ باہر جمع شدہ  پانی ٹخنوں تک کو بھگو رہا تھا اور خواتین اس معاملے میں یقینا حساس ہوتی ہیں کہ جوتے اور پاؤں بھیگ جانا  بقیہ دن کے سفر کے لیے مشکل کا باعث تھا ، ابھی یہی سوچ و بچار جاری تھی کہ ہم نے دیکھا انڈونیشیا کے تمام مرد و خواتین اساتذہ اپنے جوتے بس میں اتار کر سیٹ کے نیچے رکھ رہے ہیں اور پائنجے اوپر کئے اگلے لمحے وہ سڑک پر کھڑے پانی میں قدم رکھ چکے ہیں اور نہایت اطمینان سے سامنے موجود عمارت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔

چٹ نیاک دھائین بانڈہ آچے کی قومی ہیرو خاتون کہلاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے شوہر عمر فوجی کرنل تھے ، شوہر کی وفات کے بعد فورسز کی قیادت کا بیڑہ ان کی بیوی نے اٹھا لیا اور پھر انہوں نے اپنی تربیت اور نگرانی میں نا صرف مردوں کی قیادت کی بلکہ خواتین فورسز کی جماعت تیار کی اور  25 سال تک مہارت سے عسکری مہمات کا حصہ بنی ، اور آچین کی ڈچ آرمی کے ساتھ ہونے والی جنگ کو انہوں نے جیتا اور آچے کو خطرات سے محفوظ بنایا ۔

یہ انتہائی حیران کن تھا ، ان کے اس گھر میں دیواروں پر مختلف قسم کے خنجر ، چاقو تلواریں اور اسلحے موجود تھے ، کچھ خطوط بھی موجود تھے جو انہوں نے جنگی مہمات کے دوران وصول کیے تھے ،  ایک خاتون کا اس طریقے سے قومی ہیرو ہونا بہت ہی دلچسپ تھا ، انہوں نے آچیہ میں  چاقو کی مدد سے اپنا تحفظ کرنا ہر عورت کو سکھا رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ ننھا سا چاقو وہاں کی ہر عورت اپنی جیب میں رکھتی تھی اور یہی چاقو ہمیں بھی بطور اعزاز کے پیش کیا گیا تھا ۔

خواتین کی امپاورمنٹ کے نعرے دنیا میں کئی طرف سنائی دے رہے ہیں لیکن موزے خود ڈھونڈنے کے نعروں کے بجائے خواتین کی ایسی عملی تربیت کہ وہ نا صرف جنگوں کا حصہ بنیں بلکہ انہوں نے مردوں کی عسکری مہمات کی قیادت بھی کی درحقیقت وومن ایمپاورمنٹ کا عکس تھا۔

06نومبر 1908 میں آچے کی یہ عظیم خاتون وفات پائیں اور ان کا گھر ان کی یادگار کے طور پر آج بھی موجود ہے ۔

گزشتہ سفر کی روئے داد میں راتو کلی نعمت کے بارے میں تحریر کر چکی ہوں، ان کا مقبرہ ایک دوسرے صوبے جے پارہ میں واقع ہے، انڈونیشیا کے مختلف صوبوں میں اس طرح کی بہت سی خواتین کے مقبرے اور میوزیم موجود ہیں جنہوں نے تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے اہم یہ ہے کہ یہاں خواتین کی مذہبی آزادی صرف مساجد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دیگر بہت سارے شعبوں میں ان کے لئے مساوات اور احترام کا تصور قائم ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے۔

حیا حریم

حیا حریم جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی سے دینی علوم کی فارغ التحصیل ہیں اور مرکز الحریم کی ڈائریکٹر کے طور پر تعلیمی وتربیتی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔

haya.hareem22@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں