محترم عمار خان ناصر صاحب نے ۲۷/ دسمبر کو اپنی فیس بک پوسٹ کے ذریعے اپنے والد گرامی سے ”فکری علیحدگی“ کی خبر مشتہر کی ہے۔ انہوں نے اس علیحدگی کو ”درست سمت میں پیشرفت“ قرار دیا ہے۔ ہر باپ اور بیٹے کے معاملات نجی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اگر ان معاملات پر ”فکر“ مستزاد ہو تو وہ نجی نہیں رہتے اور علم کی اجتماعی سرگرمی سے متعلق ہو جاتے ہیں اور علمی امور میں دلچسپی کے حامل احباب ان پر اپنی رائے اور موقف کا اظہار کر سکتے ہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے عمار خان ناصر صاحب نے ان معاملات کو مشتہر کیا ہے۔ عمار خان ناصر صاحب کا موقف ہے کہ ان کی ”فکری پوزیشن“ شروع سے واضح رہی ہے اور اس مسئلے کے حل میں تاخیر ”الشریعہ“ کی طرف سے ہوئی ہے۔
پوسٹ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی موقف کی بجائے گروہی معاملات زیربحث ہیں۔ ان کے والد گرامی جس ”مذہبی گروہ“ سے روایتاً تعلق رکھتے ہیں عمار خان ناصر صاحب فکری کروٹیں بدلتے بدلتے اس سے مختلف گروہ میں شامل ہو گئے۔ اس طرح سے یہ پوسٹ ہمارے معاشرے میں علمی سیاست (knowledge politics) کی حرکیات کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ عمار خان ناصر صاحب کی شناخت ایک دینی عالم کی ہے، اور وہ دیوبند کے مکتبِ فکر کو ”اندر“ سے جانتے ہیں۔ ان کا مکتبِ دیوبند سے الگ ہو کر المورد سے وابستہ ہو جانا ایک اہم واقعہ ہے، اور دیوبند کے لیے ایک بڑا دھچکا۔ ماضی میں متجددانہ فکر، روایت سے جڑے بہت سے اہل علم کے لیے کشش کی حامل رہی ہے اور وہ ایک ایک کر کے نئے کاروانوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی فکر بھی کبھی دیوبند کے ذہین افراد کے لیے ایک لبھاؤ رکھتی تھی، اور اب یہ حیثیت محترم غامدی صاحب کی فکر کو حاصل ہے۔ عمار خان ناصر صاحب نے اپنے فیصلے سے ایک مثال قائم کر دی ہے اور ذہین دیوبندی نوجوان اس کی پیروی کرنے کی طرف مائل ہوں گے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی ”دلکشی“ اس پر مستزاد ہے اور بہت سے دیوبندی نوجوان اس میں پہلے ہی شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ عمار خان ناصر صاحب کا فیصلہ مکتب دیوبند پر ایک تبصرہ بھی ہے کہ اکابرانہ گرفت کمزور پڑ گئی ہے اور ذہین مذہبی افراد کو اس کی ”فکر“ کے بانجھ پن کا احساس ہو چلا ہے۔
اس پوسٹ میں ان مواقف کا صراحتاً ذکر نہیں کیا گیا جو راستوں کے الگ ہونے کا باعث بنے لیکن وہ معروف ہیں اور ان کے بارے میں فیصلہ قاری کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ میری عرض ہے کہ عمار خان ناصر صاحب اور ان کے والد گرامی میں اختلاف کا بنیادی سبب ”مذہبی تجدد“ ہے۔ محترم ابوعمار زاہد الراشدی صاحب خود کو ”روایتی“ (جیسا کہ اہل دیوبند کا اپنے بارے میں موقف ہے۔) مذہبی طبقے میں شامل سمجھتے ہیں جبکہ ان کا اپنے فرزندِ رشید کے بارے میں خیال ہے کہ اس نے المورد میں شامل ہو کر اس ”روایت“ سے بنیادی اختلاف کیا ہے اور جس کی وجہ سے ان کا ساتھ چلنا ممکن نہیں رہا۔ دوسری طرف المورد اور محترم جاوید احمد غامدی صاحب برصغیر میں مذہبی تجدد کی ’طاقتور‘ روایت کے ہم عصر اور بڑے نمائندے ہیں۔ اہلِ علم کے حلقوں میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ تجدد اور روایت میں بہت ہی بنیادی نوعیت کے فروق ہیں اور یہ دونوں دین کو دیکھنے اور سمجھنے کے نہ صرف دو بالکل مختلف تناظر ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
مسلم معاشروں میں تجدد اور روایت کا تنازع ابھی تک لاینحل ہے یعنی یہ امر کہ تجدد کیوں غلط ہے اور روایت کیوں صحیح ہے ابھی تک علمی توسیط سے محروم ہے، اور صحیح غلط ہونے کا زیادہ تر انحصار ثقافتی پسند و ناپسند اور ”صوابدیدی“ فتاویٰ پر منحصر ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اس سوال کا براہ راست جواب دینے کے قابل نہیں ہو جاتے کہ ”علم کیا ہے؟“ اور ”انسانی علم کی وحی سے کیا نسبتیں ممکنہ طور قائم کی جا سکتی ہیں؟“ یہاں علم سے مراد جدید علم ہے کیونکہ تجدد ایک دینی تعبیر اور موقف کے طور پر استعماری اور استشراقی آمد کے بعد سامنے آیا اور یہ اپنی فہم میں جدید علوم کے روبرو ایک مستجاب (response) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مذہبی تجدد کے سب سے بڑے اور ریڈیکل نمائندے آقائے سرسید ہیں، اور ان کی ”فکر“ میں مذہبی تجدد اپنے اولین قضایا اور genetic make-up کے ساتھ موجود ہے۔ اگرچہ آقائے سرسید کے ریڈیکل مواقف وقت کے ساتھ ہمارے علمی اور تعلیمی کلچر سے غیرمتعلق ہو گئے لیکن ان کا متجددانہ علمی اور تہذیبی تناظر پوری قوت کے ساتھ باقی رہا اور بہت زیادہ ثمر آور ہوا۔ اس تناظر کے تحت سامنے آنے والی علمی اور فکری سرگرمیوں نے مذہب کو ایک چیستاں بنا دیا اور عصر حاضر میں مذہب اپنے وجودی اور تہذیبی مواقف میں منصۂ تاریخ سے اوجھل ہو گیا، اور علمی مباحث مذہب کے رسومیاتی اور قانونی پہلوؤں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اہل روایت بچارے ”نئے فتنوں“ کو غلط، غلط کہنے میں ایسے مگن ہوئے کہ نہ تجدد کی خبر رہی اور نہ ہدایت کو تہذیبی شان کے ساتھ نبھایا جا سکا۔ اہل روایت کے فہمِ مذہب میں بدعت کو مرکزیت حاصل ہو گئی یا رسومیات کو ہی مذہب سمجھ لیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دین کے وجودی اور تہذیبی وسائل کو جدیدیت کے خلاف صف آرا کرنے کی کوئی استعداد پیدا نہ کر سکے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اصل مسئلہ علم کا ہے۔ تاریخی عوامل علم اور اس کے تعینات پر گہرے طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ علم لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہونے کا میلان رکھتا ہے۔ اگر انسان خود کو کائنات اور دنیا سے منفک کر کے ایک آزاد فاعل کی حیثیت سے ان پر غور و فکر کی کوشش کرے تو ”معروضی“ یعنی جدید سائنس جیسے علوم میں پیشرفت ہوتی ہے، اور ایسے علوم آغاز ہی سے کسری ہوتے ہیں اور کسی بڑے نتیجے پر نہیں پہنچاتے کیونکہ انسان ان میں سے خارج ہوتا ہے اور وہ کائنات اور دنیا کو ایک ”کل“ کے طور پر نہیں دیکھ پاتے۔ ایسے علوم مادیات سے آگے سفر نہیں کر سکتے۔ اگر انسان خود کو کائنات اور دنیا میں شامل کر کے ان پر ایک ”کل“ کے طور پر غور و فکر کرے تو ”تعبیر“ سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ تعبیری علوم بھی آخری تجزیے میں کسری ہی ہوتے ہیں کیونکہ کائنات اور انسان سے بننے والا ”کل“ انسان کی عقل اور تجربے کی سمائی سے زیادہ اور ناقابل فہم ہے۔ معروضی علوم حقائقِ اشیا تک رسائی نہیں پا سکتے اور تعبیری علوم اقدار کا مسئلہ سلجھانے میں قطعی ناکام رہتے ہیں۔ جدید علوم کی دونوں بڑی جہتوں سے عدم واقفیت ہمارے تہذیبی بحران کی اصل بنیاد ہے۔ ہمارے ہاں سائنسی علوم کی بنیاد گزار معروضی فکر کا تو کوئی نشان نہیں ملتا اور صوابدیدی تعبیری علوم کا مکمل غلبہ ہے اور ان کا نتیجہ بھی محض انتشار کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم بین ہونے کی وجہ سے مخاطبین کی معلومیت اور بجا آوری کے لیے کافی تھا۔ لیکن مخاطبین کو امتثالِ امر کے بجائے الوہی حکم کی فہمی توضیحات و تصریحات میں زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ الوہی حکم تنزیہہ کا دنیا میں نزول و ورود ہے۔ ملکۂ وقوف سے پیدا ہونے والی تفہیم وہ اول حرکت ہے جو تنزیہہ کو تشبیہ بناتی ہے۔ فہم اور تفہیم کا موضوع یہ دنیا اور کائنات ہے، ہدایت نہیں ہے۔ اگر گائے کے بارے میں بنی اسرائیل کے اٹھائے گئے سوالات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بظاہر کوئی برائی نظر نہیں آتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سوالات پر کوششِ انکار کی ہی ججمنٹ دی ہے، اور جو محلِ غور ہے۔ بنی اسرائیل نے جو سوالات اٹھائے وہ تفہیمی نوعیت کے تھے اور ان کی حیثیت شریعت سے چھٹکارے کی تزویرات سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں تجدد میں بھی یہی امر غالب آ گیا۔ مذہبی فکر کے شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں کارفرما دماغ امیبا (amoeba) سے شاید تھوڑا سا زیادہ ہو، لیکن اس دماغ کا اپنی فہم و تفہیم پر ناز اور اعتماد افلاطونی ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں جو مذہبی اور متجددانہ فکر سامنے آئی ہے وہ بنی اسرائیل کے جیسے سوالات اٹھانے اور ان کے تعبیری جوابات تلاش کرنے سے پیدا ہوئی ہے۔
جدیدیت یعنی تہذیب مغرب، استعمار اور استشراق نے علم اور عمل کی بالکل ہی نئی اوضاع متعارف کرائیں اور جو غیر مغربی تہذیبوں کے لیے آج تک قابلِ فہم نہیں ہیں۔ خاص طور پر مسلم تہذیب شعور اور ارادے میں جس شکستِ فاش اور انہدام سے دوچار ہوئی اس کا بنیادی سبب ہی عصر حاضر میں ”علم کیا ہے؟“ کے سوال کا جواب نہ دے سکنا ہے۔ علم کا بنیادی فریضہ ”دنیا“ کو کسی نہ کسی تہذیبی تناظر میں قابل فہم بنانا ہے۔ ہمارے ہاں علم کی تعبیراتی (ہرمانیوٹیکل) جہت کو بروئے کار لایا گیا جبکہ علم کی علمیاتی (epistemological) اساس سے مکمل بےخبری چلی آتی ہے۔ اس میں متجددین اور اہلِ روایت ایک ہی جگہ کھڑے ہیں، کیونکہ ان کے ہاں ”اصول“ کے مباحث مکمل طور پر ختم ہو گئے ہیں۔ تجدد اور روایت نے جتنے بھی مفکرینِ اسلام پیدا کیے ہیں ان سب کا مقصد احیا لیکن ثمر انہدام رہا ہے۔ نام نہاد ہم عصر ”فکر اسلامی“ تمام کی تمام شریعت سے چھٹکارے کی تزویرات ہیں۔ فکر (thought) کا الوہی ہدایت سے کوئی براہ راست تعلق نہیں، بالواسطہ ضرور ہے۔ فکر انسانی اصلاً دنیا کی تفہیم کا ایک فلسفیانہ طریقۂ کار ہے اور الوہی ہدایت کے سامنے فکر بگھارنا اس کا انکار ہی ہے۔
اس بات کی کچھ تفصیل ضروری ہے۔ مغرب کے ہر انفرادی اور اجتماعی عمل اور ادارے کے پیچھے جدیدیت کی پیدا کردہ کوئی فکر کام رہی ہے۔ اپنے اولین قضایا (first postulates) سے آگے یہ فکر عقلی تشکیلات میں سامنے آتی ہے۔ یہ فکر بھلے سماجی اور سیاسی ہو، بھلے سائنسی اور ریاضیاتی ہو، یہ اپنے ہر ہر پہلو میں مادی ہے اور کسی بھی ماورائی ’چیز‘ کے لیے کوئی ذرہ بھر گنجائش نہیں رکھتی۔ دوسری طرف مسلم معاشروں میں ہر انفرادی اور اجتماعی عمل اور ’ادارہ‘ حکمِ الہی کی پاسداری سے وجود میں آیا ہے۔ مثلاً عبادات، معاشرت، افتا اور قضا کا نظام، زکٰوۃ، جہاد، مسجد، مدرسہ، وقف وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ہاں ”مفکرین اسلام“ کی فوج در فوج جدیدیت اور مغرب کے اسی تتبع میں پیدا ہوئی ہے تاکہ وہ مغرب کی ریس کرتے ہوئے نام نہاد فکر اسلامی سے اپنے ہاں اداروں کا قیام سامنے لا سکیں۔ فکر اسلامی دراصل شریعت سے نجات حاصل کرنے کے راستے بنانے کا نام ہے، اور ہمارے مذہبی مفکرین نے اصل کمال اسی میں حاصل کیا ہے، اور اس کمال میں اہل تجدد اور اہل روایت برابر کی دوڑ میں ہیں۔ جدید فکر اسلامی کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی تو دور کی بات ہے، کوئی سماجی ادارہ بھی نہیں بنایا جا سکا۔ کچھ لوگوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ ایسا نہیں ہے اور مثال کے طور پر کچھ اداروں کو پیش کرتے ہیں۔ اگر جدید فکر اور جدید اداروں سے کوئی واقفیت ہو تو فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ چربے سے بھی بدتر کوئی چیز ہے۔ ہم صرف یہ کرتے ہیں کہ سابقہ ”اسلامی“ کا لگا دیتے ہیں، مثلاً اسلامی بینکاری وغیرہ۔
جدیدیت اپنے فکر اور عمل میں اس قدر ہمہ گیر اور ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے کہ اس سے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا ہے کہ جو چیزیں بظاہر اس کے خلاف نظر آتی ہیں وہ بھی اسی کی پیدا کردہ ہیں، مثلاً روایت اور اس کے تمام جدید تصورات جدیدیت ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ جب ہم روایت یا روایتی یا اہل روایت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے کچھ خاص مراد نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق اس کا معنی سمجھتا ہے۔ ہمارے ہاں تجدد اور روایت علم کے جدید پیداواری ذرائع اور وسائل سے مطلق بے خبر چلے آتے ہیں اس لیے ان کے نفوذ سے خالی نہیں ہیں۔ ان دونوں کے ہاں ہرمانیوٹیکل یا تعبیری وسائل کو صوابدیدی طور پر بروئے کار لایا جاتا ہے اور ان کے مواقف اور اختلافات کی اہمیت مجھے ہمیشہ ایک جیسی ہی نظر آتی ہے۔
عمار خان ناصر صاحب کے فیصلے سے مکتب دیوبند کو ضرر کا اندیشہ ضرور ہے لیکن اپنے والد گرامی سے ان کا اختلاف کوئی بڑی فکری معنویت نہیں رکھتا۔ یہ کوٹ پینٹ اور شلوار قمیض کے جیسا اختلاف ہے، اور اگر مذہبی فتاویٰ سے یہ ثابت بھی کر دیا جائے کہ شلوار قمیض عین شرعی اور کوٹ پینٹ غیرشرعی ہے تو بھی ان نتائج سے ہمیں کوئی تہذیبی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ ہاں زیب داستاں کے لیے مسالہ ضرور ملتا رہے گا۔
کمنت کیجے