ڈاکٹر محمد رحمان
پچھلی قسط میں ہم نے مذہب اور سائنس کے باہمی تصادم پر تفصیلی گفتگو کی تھی۔ اس قسط میں ہم دیکھیں گے کہ مذہب اور سائنس کے تعلق کے دوسرے زاویے کیا ہو سکتے ہیں ۔
لا تعلقی
ہر وہ معاملہ جہاں سائنس اور مذہب آپس میں برسر پیکار نظر آئیں وہاں باریک بینی سے غور کرنے پر یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی کہ زیادہ تر معاملات مذہب یا سائنس کی غلط تشریح کی وجہ سے ہیں ۔ ان معاملات کے علاوہ سائنس اور مذہب ریل گاڑی کی دو پٹریوں کی طرح ایک دوسرے کو چھوئے بغیر ایک دوسرے کے متوازی آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اس بات سے کس کو انکار ہے کہ مذہب کا بنیادی مقصد اخلاقیات اور زندگی گزارنے کے اصول وضع کرنا ہے جبکہ سائنس اپنی سرشت میں اخلاقیات پر بات نہیں کر سکتی۔ اسی طرح مذہب اس لیے نہیں آیا کہ وہ ایٹم کی ساخت یا کائنات کی تخلیق پر لب کشائی کرے۔ سائنس اور مذہب کا ایک دوسرے کو چھوئے بغیر لاتعلقی کا پہلو مذہب پسند سائنس دانوں اور مذہب کا مطالعہ کرنے والے احباب دونوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ اس ایپرووچ کی وجہ سے ایک سائنس دان نہ صرف اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکتا ہے بلکہ اپنے شعبے میں بغیر کسی پریشانی سے کام کر سکتا ہے
1981 کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی پالیسی سٹیٹمنٹ اسی موضوع پر دلالت کرتی نظر آتی ہے ۔ انکے مطابق سائنس اور مذہب انسانی سوچ کے دو الگ الگ حلقے ہیں جنکی تعلیمات کی تشریح ایک ہی سیاق و سباق میں کرنا دونوں کی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمی کا باعث بن سکتا ہے ۔سٹیفن جے گولڈ اس نکتہ نظر کو Non over lapping magisteria کی شکل میں پیش کرتا ہے ۔
مذہب اور سائنس چونکہ انسانی سوچ کے دو الگ الگ پہلو ہیں اور دونوں اپنے اپنے اصول و ضوابط کے تحت کام کرتے ہیں۔سائنس کی اگر بات کی جائے تو ابھی تک کوئی ایسا طریقہ کار وضع نہیں کیا جا سکا جو سائنس کے تمام شعبوں کے لیے یکساں مفید ہو لیکن سائنٹزم کے شکار افراد ، مذہبی تعلیمات کے لیے بھی یہ مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ تعلیمات سائنسی طریقہ کار پر پورا اتریں ۔ یہ افراد یہ مطالبہ کرنا حق بجانب سمجھتے ہیں کہ خدا کا وجود بھی اسی طرح ثابت کیا جائے جس طرح تجربہ گاہ میں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ پانی ہائڈروجن اور آکسیجن کے ایٹموں سے مل کر بنا ہے لیکن دوسری طرف ان افراد کے لیے بگ بینگ تھیوری ، نظریہ ارتقاء اور باقی نظریات کو بلواسطہ شواھد کی وجہ سے ماننے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
باہم محوِ گفتگو اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے
مذہب اور سائنس دونوں حقیقت کی تلاش کا ایک ذریعہ ہیں اور اس تلاش میں کسی نہ کسی موقع پر دونوں ایک ہی چیز پر بات کرتے نظر آتے ہیں ۔ سائنسی طریقہ کار کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ طریقہ کار ایک خاص حد تک ہی قابل عمل ہے۔ جو سوالات اس طریقہ کار کی حدود میں آتے ہیں وہاں سائنس بہترین جواب دینے کے قابل ہے لیکن جیسا کہ سن اٹھارہ سو بہتر میں فریڈرک نطشے نے برتھ آف ٹریجڈی میں پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ سائنس دان ناقابل فیصلہ سوالات کی کھوج شروع کر دیں گے یہ چیز ایسی الجھنوں کا باعث بنے گی جن کے حل کی صلاحیت سائنسی طریقہ کار کے بس کی بات نہیں ۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے Robert Jastrow کہتے ہیں کہ ماڈرن سائنس آج عین وہی سوالات پوچھ رہی ہے جو صدیوں پہلے مذہبی دانشوروں کے زیرِ بحث تھے۔
سائنس دانوں اور مذہبی حلقوں میں اس بات کا احساس کا دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں ۔ سائنس مذہب کو دقیانوسی تصورات سے پاک کرنے میں مدد دے سکتی ہے اسی طرح مذہب سائنسی شعبے کی اخلاقی اقدار وضع کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ سائنٹزم کے شکار افراد ہر سوال کے حل کے لیے سائنس کی طرف دیکھتے ہیں لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، کچھ سوالات ایسے جن کے جواب دینا سائنس کے بس کی بات نہیں۔جدید دور میں سائنس کے کچھ بڑے نام ان سوالات پر اپنی توانائیاں ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جنکے جواب سائنس کبھی نہیں دے سکتی۔ مذہب ایک چھلنی کا کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف سائنس کو سائنٹزم کے دعوؤں اورسائنس دانوں کے ذاتی خیالات سے الگ کرنے میں مدد دے سکتا ہے بلکہ سائنس کے لیے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد دے سکتا ہے جہاں سائنس دان اپنی توانائیاں صحیح سمت میں مرکوز کریں۔
اگرچہ ایک خاص طبقے کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مذہبی عقائد سائنسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث ہیں لیکن اگر سائنس اور مذہب اپنی شناخت کھوئے بغیر ساتھ ساتھ چلتے رہیں تو ایک سائنس دان ، سائنس کی مدد سے دقیانوسی عقائد سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مذہب کی مدد سے سائنٹزم کے کھوکھلے دعووں پر اپنی توانائیاں صرف کرنے سے بچ سکتا ہے۔ اس طرح سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کا یہ پہلو پیچھے بیان کیے گئے دونوں پہلوؤں سے زیادہ فائدہ مند ہے ۔
یکجائیت
مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق کا یہ پہلو سب سے دلچسپ ہے۔ مذہب اور سائنس دونوں میں کچھ چیزیں مشترک ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں کچھ بنیادی باتوں پر یقین رکھتے ہیں جیساکہ یہ کائنات منظم اور مربوط ہے اور یہ کہ عقل وشعور حقیقت تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اگرچہ دونوں شعبوں کے طریقہ کار الگ الگ ہیں لیکن دونوں شعبے منطقی استدلال، تجربات اور مشاہدات کے ذریعے اپنی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
مذہب اور سائنس میں ایک اور مشترک چیز ماڈلز کا استعمال ہے۔ایسے معاملات جن کا براہِ راست مشاہدہ ممکن نہیں وہاں سائنس اور مذہب ماڈلز کا سہارا لے کر صورتحال واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ماڈلز کے وضع کرنے میں غیر ضروری معلومات سے چھٹکارا حاصل کر کے ایسی زبان اور تصورات کا سہارا لیا جاتا ہے جو آسانی سے سمجھ آ سکیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ماڈلز کے ذریعے جس چیز کو بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ حقیقتاً ہوبہو ویسی ہی ہو جیسی اس ماڈل میں بیان کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر رتھرفورڈ نے ایٹم کی ساخت بیان کرنے کے لیے جو ماڈل پیش کیا اسکے مطابق الیکٹران ایٹم کے مرکزے کے گرد اسی طرح گردش کرتے ہیں جس طرح سیارے سورج کے گرد ۔ کوانٹم میکانیات میں ہونے والی پیشرفت کی بنا پر ہم جانتے ہیں کہ یہ ماڈل حقیقت کو مکمل طور پر بیان نہیں کر رہا لیکن اس کے باوجود اس ماڈل نے ایٹم کی ساخت کو سمجھنے میں خاطر خواہ کردار ادا کیا ۔
بادی النظر میں سائنس تجربات پر زور دیتی نظر آتی ہے لیکن سائنس کے بہت سے شعبہ جات ایسے ہیں جہاں براہِ راست تجربات ممکن نہیں۔ فزکس اور کیمسٹری جیسے شعبہ جات میں تجربات کا سہارا لیا جا سکتا ہے لیکن دوسرے شعبوں میں بلواسطہ شواھد پر انحصار بہت زیادہ ہے ۔ اس طرح کی صورتحال میں سائنس inference to the best explanation کا سہارا لیتی نظر آتی ہے جسکے مطابق شواھد کی بہترین وضاحت کرنے والا نظریہ ہی سب سے بہترین نظریہ ہے ۔ مثال کے طور پر ڈارون اپنے نظریے کے تجرباتی ثبوت میسر نہ ہونے کے بعد اپنے نظریے کی حمایت میں رقم طراز ہیں کہ ایک غلط نظریہ چیزوں کی اتنی تسلی بخش وضاحت نہیں کر سکتا جس طرح قدرتی چناو کا نظریہ کرتا ہے اور انکے مطابق انکےنظریے کے ٹھیک ہونے کے لیے یہ دلیل ہی کافی ہے کیونکہ یہی وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ہم روز مرہ معاملات زندگی طے کرتے ہیں ۔ ڈارون کے مطابق انکے قدرتی چناؤ کے نظریہ میں شواھد کی وضاحت کی صلاحیت ہی اس نظریہ کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ inference to the best explanation کی دلیل صرف ڈارون کے نظریہ کے لیے ہی استعمال نہیں کی گئی بلکہ فلاسفی آف سائنس میں اس دلیل پر خاطر خواہ کام جاری ہے ۔ ایسے پیمانے وضع کیے جا رہے ہیں جس سے یہ طے کیا جا سکے کہ کونسا نظریہ بہترین وضاحت کے قابل ہے اور کس چیز کو بہترین وضاحت کہا جا سکتا ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ خدا کا مشاہدہ براہِ راست نہیں کیا جا سکتا نہ ہی جنت دوزخ فرشتے براہِ راست مشاہدے کی پہنچ میں ہیں اسکے باوجود مذہب زمین پر ہمارے وجود اور اس سے منسلک تمام سوالات کی تسلی بخش اور بہترین وضاحت کرتا ہے۔اگر حقیقت تک پہنچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ ایک نظریہ منظم اور باہم مربوط ہو، مجموعی انسانی عقل وشعور کے خلاف نہ ہو، اور شواھد کی بہترین وضاحت کرتا ہو تو یہ وہ جگہ ہے جہاں مذہب اور سائنس ایک اصول پر متفق ہو سکتے ہیں۔ انفرادی طور پر مذہب اور سائنس دونوں میں ضمنی تفصیلات کے فرق کے علاوہ یہی پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مذہب اور سائنس کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے یہی چاہتے ہیں کہ مذہب اور سائنس باہم برسر پیکار نظر آئیں لیکن اس سلسلہ میں کی گئی گفتگو سے آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ سائنس اور مذہب کے تصادم کا تصور بے بنیاد اور کھوکھلا ہے۔ مذہب اور سائنس کے تصادم کی زیادہ تر مثالیں جھوٹےپروپیگنڈا پر مشتمل ہیں۔ مذہبی اور سائنسی حلقوں میں کچھ مقامات پر باہم گفتگو کا آغاز کیا جا چکا ہے ایک وقت آئے گا جب سب جگہوں پر اس گفتگو کی افادیت واضح ہو جائے گی تب مذہب اور سائنس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی بجائے (جیسا کہ کچھ مذہبی اور سائنس پسند حلقے کر رہے ہیں) ایک دوسرے کی تکمیل کرتے نظر آئیں گے۔ تجرباتی علم پر اصرار کے باوجود سائنس شواھد کی بہترین وضاحت کے میعار پر قناعت کرتی نظر آتی ہے مذہب اس پیمانے پر پہلے ہی متفق ہے چنانچہ ایک وقت آئے گا کہ سائنس اور مذہب میں بظاہر نظر آنے والی خلیج ختم ہو جائے گی ۔انفرادی طور پر آپ کو اس خلیج کے ختم ہونے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اس راہ پر آج سے ہی سفر شروع کر سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد رحمان نے یونیورسٹی آف کانٹیبریا ، سپین سے پارٹیکل فزکس میں پی ایچ ڈی کی ہے اور کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر علمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے