اسد اللہ خان پشاوری
انٹرویو: رابن یاسین کساب، میزبان: محمد جلال(دی تھنکنگ مسلم)
ترجمہ وپیشکش: اسد اللہ خان پشاوری
محمد جلال:
ان جیلوں کے بارے میں جامع انداز سے معلومات کے لیے آپ اور آپ کی ٹیم کس طرح عملی طور پر رسائی حاصل کرسکتے ہیں؟
رابن یاسین کساب:
کئی موقعوں پر اس بارے میں توقع سے زیادہ نظم و ضبط دیکھا گیا ہے، مثال کے طور پر، آپ نے صیدایا کے بارے میں ویڈیو میں دیکھا ہوگا جس میں بے تاب لوگوں کو دکھایا گیا، جو افراتفری اور بےچینی میں لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے، وہاں صحافیوں کی بھی بڑی تعداد تھی، لیکن اس سب کے باوجود، یہ بہت منظم نہیں ہے۔ البتہ وہاں کئی تنظیمیں تھیں، انقلابی، وائٹ ہیلمٹس پہنے ہوئے شہری دفاع کے لوگ، اور دیگر ماہرین، حتیٰ کہ مقامی اور شہری صحافیوں کو بھی دیکھا گیاہے ، وہ مستقل کہتے رہے کہ ہمیں ہر چیز کو دستاویزی شکل دینی چاہیے، کچھ بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے، لہذا وہ اس کا ادراک رکھتے ہیں ۔
اور یہ پہلے سے بہتر ہو گیا ہے، کیونکہ جب میں نے آئی سیس کو چھوڑا تو کوئی بھی جا کر جیلوں میں جو چاہے لے جا سکتا تھا، اس افراتفری میں ہمارے لوگوں نے بھی 70,000 سے زائد دستاویزات حاصل کیں، جو اب ہمارے آرکائیوز کا حصہ ہیں۔ لیکن جہاں تک اس موقع کی بات ہے تو حلب کی آزادی کے موقع پر ہماری ٹیم نے جیلوں کا رخ کیا، یہ سوچتے ہوئے کہ وہی صورتحال ہو گی، لیکن ایسا نہیں تھا، وہاں فوجی کھڑے تھے جو کسی کو بھی بغیر اجازت اندر جانے نہیں دے رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے رک جاؤ، پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ آپ کون ہیں؟ اور آپ کیا کر رہے ہیں؟ اگر آپ کے پاس کوئی معقول وجہ ہے، اگر قیادت قبول کرتی ہے، تو آپ اندر جاسکتے ہیں اور مواد کو دستاویزی شکل دے سکتے ہیں، یہ ایک مثبت پہلو ہے اور انقلابیوں کے عمومی اچھے رویے کا حصہ ہے، کوئی بھی شخص اندر جائے یہ نہیں ہوسکتا تھا، جس کی وجہ سے عوامی عمارتوں میں کم سے کم لوٹ مار ہوئی، یہاں ایسی صورت حال نہیں تھی جیسا کہ صدام حسین کے زوال کے بعد بغداد میں امریکی آئے تھے، وہاں مکمل افراتفری تھی، یہاں کم سے کم لوٹ مار ہوئی ہے، عوامی عمارتوں کی حفاظت کی جا رہی ہے، لوگ کو یقین آرہا تھا کہ یہ ان کی ملکیت ہے، ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی اس پر قبضہ کر رہا ہے۔
محمد جلال:
اچھی بات ہے ، میرا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے؟ یعنی اس ڈسپلن کے پیچھے کیا بات پوشیدہ ہے؟ جیسا کہ ہم HTS (ہیئت تحریر الشام) کا مشاہدہ کر رہے ہیں، کیونکہ بدقسمتی سے آپ جانتے ہیں کہ میری توجہ کچھ سالوں سے شام سے ہٹ گئی تھی، لیکن مجھے یاد ہے جب HTS (ہیئت تحریر الشام) جیسے گروپ اور دیگر نے کئی سال پہلے ادلب میں حکومت شروع کی تھی، اس وقت اس میں اتنا نظم وضبط نہیں تھا، وہاں ہم نے سنا تھا کہ من مانے طریقہ سے گرفتاریاں ہوتی تھیں، ایسی کہانیاں سنی تھیں، تو آپ کے خیال میں کیا تبدیلی آئی ہے جو قابل ذکر ہے۔
رابن یاسین کساب:
میں کچھ مثبت کہنے سے پہلے کچھ منفی کہوں گا، منفی بات یہ ہے کہ مکمل طور پر تبدیلی نہیں آئی ہے، کیونکہ اب بھی ادلب میں HTS (ہیئت تحریر الشام) کی جیلوں میں قیدی موجود ہیں، جو ان سے متفق نہیں تھے، جن پر تشدد کیا جا رہا ہے، صحافی بلال عبد الکریم جنہیں شاید آپ جانتے ہوں گے اور چند دوسروں نے اس بارے میں رپورٹیں لکھی ہیں، اور یقینی طور پر ادلب کے قصبوں میں اس جارحیت تک HTS (ہیئت تحریر الشام) کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے ، آپ جانتے ہیں یہ ایک اہم ایشو ہے ، ہم نے سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے اور قیدیوں کو سزا سے روکنا ہے، یہی کام تم بھی کر رہے ہو۔
لیکن جہاں تک مثبت بات ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ مظاہرے شام کے دیگر علاقوں میں ہوتے بلکہ صرف ایک مظاہرہ بھی ہوتا تو اس پر گولی چلائی جاتی، فائرنگ سے بچ جانے والوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، یہ اچھی بات ہے کہ انہوں نے مظاہروں کو برداشت کیا۔
اب میں مثبت کی طرف جا رہا ہوں، اگرچہ زیادہ مثبت ہونے کی ضرورت ہے، آپ کو معلوم ہے کہ HTS (ہیئت تحریر الشام) عراق میں شروع ہوا، یہ گروہ القاعدہ سے وابستہ تھا، لیکن بعد میں اس نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کی، آپ کو معلوم ہوگا کہ جولانی عراق میں القاعدہ میں شامل ہوئے تھے، تاکہ امریکہ اور شیعہ حکومت سے لڑے، پھر وہ شام کے انقلاب کے آغاز میں شام واپس آیا، اور شام میں 2013 میں اس نے نئی تنظیم بنائی، ایک طرف آئی سیس تنظیم تھی اور دوسری طرف این آر اے(جبہۃ النصرہ لاہل الشام) تنظیم تھی، دونوں کی آپس میں لڑائی شروع ہوئی،آئی سیس متشدد نظریات والے تھے، یہ کہتے تھے کہ دل ودماغ سے حکومت نہیں کرنی بلکہ خوف طاری کرکے حکومت کرنی ہے، جیساکہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ مکمل طور پر صدام حسین کے سابق فوجیوں اورریٹائرڈ سیکورٹی کے لوگوں سے بھرے ہوئے تھے، الغرض یہ دہشت گرد تنظیم تھی، اس کے بالمقابل جبہۃ النصرۃ اس کے الٹ تھے، میرا ایسا خیال ہے کہ انہوں نے بہت کچھ سیکھا، کیونکہ ان کو معلوم ہوا کہ آئی سیس کو نہ صرف امریکہ، ترکی اورپی کے کے ( Kurdish militant political) اور بشار الاسد نے شکست نہیں دی تھی، بلکہ عوام کی طرف سے بھی ان کو قبولیت نہیں ملی تھی، ان کے پاس کوئی قانون نہیں تھا، یہ نام نہاد مذہبی پولیس تھی جو لوگوں کو سگریٹ پینے، تنگ پتلون پہننے پر گرفتار کرتی اور انہیں کوڑے مارتی اور تشدد کا نشانہ بناتی۔ النصرہ نے اپنے ابتدائی دنوں میں ایسا کیا تھا، لیکن پھر انہوں نے کہا کہ نہیں ہم مسلم سوسائٹی کو چھوڑیں گے کہ وہ خود جس طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں گزاریں، ہم ایک چھتری اور فریم ورک فراہم کرنے کی کوشش کریں گے جس کے تحت اچھی حکمرانی ہو سکتی ہو، اور واقعی انہوں نے آہستہ آہستہ ترقی کی، ادلب میں پچھلے سالوں میں ایسا لگتا تھا کہ جیسا کچھ نہیں ہو رہا ہے، HTS (ہیئت تحریر الشام) کو ترکی کی زمین کی ایک تنگ پٹی میں دھکیل دیا گیا تھا، لیکن اس دوران وہ اپنے آپ کو منظم کر رہے تھے اور چیزوں پر دوبارہ غور کر رہے تھے، وہ نہ صرف آئی سیس کے ساتھ تقسیم ہوئے بلکہ القاعدہ کے ساتھ بھی بالکل الگ ہوگئے، پھر انہوں نے اپنی صفوں سے القاعدہ سے متاثر افراد کو نکال دیا۔ HTS نے سیاسی معاملات اور سفارتی تعلقات میں بھی مہارت حاصل کی ہے، ادلب میں اقلیت کمیونٹیز جیسے دروز اور مسیحیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا، اور میں ایسا سمجھتا ہوں کہ یہ سیکھنا کہ ڈپلومیسی کیسے کی جائے؟ اور سیاست کیسے کی جائے؟ اچھے سماجی تعلقات استوار کرنے کا طریقہ سیکھنا ہی وہ چیز ہے جس نے انہیں حلب میں ان کے طرز عمل کے لیے اتنا اچھا مقام دیا ہے، اور اب شام کے باقی حصوں میں ان شاء اللہ کریں گے ، جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ وہاں عارضی حکومت ہے، اس سے پہلے انقاذ سوریہ کی حکومت تھی، چھوٹا لڑکا محمد بشیر وزیراعظم تھا، وہ اب عبوری حکومت کے وزیراعظم مقرر ہوئے ہیں، یہ بڑی حد تک ہیئۃ تحریر الشام کے تحت ہے، یہ سویلین حکومت ہے جو زیادہ تر تکنیکی ماہرین پر مشتمل ہے، اور اگر یہ پورے شام میں اسی طرز پر کام کرے تو یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔
محمد جلال:
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شامی مہاجرین، شام کے اس قصہ میں کتنے اہم ہیں، ان کو واپسی کا انتظار ہوگا، اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ شام لوٹ رہے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ واپسی ملک کے سویلین کنٹری کے طور پر مستقبل کے لیے کتنا مثبت ہے؟
رابن یاسین کساب:
جہاں تک شامی مہاجرین کی واپسی کا تعلق ہے، یہ شام کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے، شامی عوام نے انقلاب کے دوران ایک منفرد جمہوری نظام تشکیل دیا، جو بیرونی مداخلت سے درآمد نہیں کیا گیا تھا، آپ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا کہ امریکی ٹینکوں کے ساتھ یہ آیا ہے، شام کے لوگوں نے اپنے طور پر ایسا کیا، جب انہیں ایسا کرنے کی ضرورت تھی۔ میں یہاں مقامی کونسلوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں، ایک موقع پر شام کی آزاد کردہ علاقوں میں 800 زیادہ مقامی کونسلیں تھیں، اور ان کو چلایا گیا، ان میں سے اکثر کو جمہوری قاضی اور بعض صورتوں میں مکمل طور پر جمہوری بنیادوں پر چلایا گیا، اور ہر کمیونٹی نے اپنی ضروریات اور خواہشات کے مطابق اسے قدرے مختلف انداز میں چلایا، کچھ جگہوں پر یہ ایسے انتخابات ہوئے، جس میں ہم دیکھ سکتے تھے کہ نمایندے کھڑے ہوتے تھے اور الیکشن کے ایک ہی دن ہر کوئی جاتا تھا اور نمائندہ منتخب کرتا تھا، اسی طرح دیگر جگہوں میں قبائل کے سربراہ یا خاندان کے سربراہ اکھٹے ہوتے اور میرٹ کی بنیاد پر ٹیکنوکریٹک صلاحیتیوں کی بنیاد پر لوگوں کو منتخب کرتے تھے، اور آپ کو معلوم ہے کہ اس نظام نے کامیابی سے کام کیا۔ حالانکہ ان کمیونٹیز پر بمباری جاری تھی، ان کی بجلی گھروں پر ، بیکری پر ، زرعی کھیتوں پر ، اسکولوں، اسپتالوں پر بمباری کی جا رہی تھی، پھر بھی ان میں سے کئی کمیونٹیز بچ جانے میں کامیاب ہوگئیں۔
یہ سب کچھ شامی عوام کی خود تنظیم سازی کی وجہ سے ممکن ہوا کہ باوجود تباہی، موت اور دہشت گردی کے یہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ شام میں 2011 سے لے کر اب تک ناقابل یقین سیاسی، ثقافتی اور سماجی کام ہوئے ہیں جو شامیوں نے کیے ہیں، جن میں سے بہت کچھ آمریت کے ہاتھوں کچل دیا گیا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب آئی سیس نے ان علاقہ پر قبضہ کیا تو انہوں نے مقامی کونسلوں کو ختم کردیا، اور ان لوگوں کو گرفتار کرکے قتل کردیا یا تشدد کا نشانہ بنا دیا جو کونسل کے ممبر تھے۔ بشار الاسد، روس اور ایران نے بھی ایسا کیا اور ان کی زمین پر قبضہ کیا۔
تو وہ لوگ آرہے ہیں ،اور بہت سارے لوگ واپس آرہے ہیں، اور جب یہ لوگ واپس آئیں گے تو وہ دوبارہ تعمیر کرسکیں گے اور سول سوسائٹی واپس آجائے گی۔اور یہ جولانی جیسے لوگوں کے احتساب کرنے کے قابل ہوجائیں گے اگر وہ ان کا احتساب کی ضرورت محسوس کریں ۔ تویہ بہت مثبت ہے، میں امید کر رہا ہوں کہ ان شاء اللہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا کہ لوگ تشدد کی طرف تیزی سے جائیں، تاکہ یہ لوگ واپس آسکے، اور شامی عوام کا ایک اہم حصہ مل کر مستقبل کو ترقی دے سکے۔
محمد جلال:
گزشتہ دنوں اسرائیلی افواج نے شام کے مختلف علاقوں پر بڑے پیمانے پر حملے کیے، جس میں دمشق کے ہوائی اڈے اور دیگر اہم فوجی مقامات شامل ہیں، اسرائیل ان مواقع کو شامی دفاعی نظام کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے، آپ کو یقین ہے کہ بیرونی خطرہ موجود ہے؟
رابن یاسین کساب:
میں ابھی تک نہیں جانتا کہ کتنا خطرہ موجود ہے لیکن یہ بہت سنجیدہ بات ہے اور بہت پریشان کن ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف اسلحہ کے ذخائر پر حملہ کی بات نہیں۔ اب آتے ہیں حالیہ حملوں کی طرف، اسرائیل نے ہمیشہ ایرانی ہتھیاروں یا حزب اللہ کے ذخائر کو نشانہ بنایا ہے، جو لبنان منتقل ہوتے ہیں، اور اسرائیل کے خلاف استعمال ہوتے ہیں، اسرائیل نے شامی فوج کے خلاف کارروائی نہیں کی نہ اسرائیل نے بشار الاسد کے ہتھیاروں کے ذخائر کو نشانہ بنایا تھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ شامی فوج عوام کے خلاف استعمال ہوتی ہے، اسرائیل کے خلاف نہیں، وہ تو یہ دلچسپ کھیل دیکھ کر خوش تھے، اس لیے ایران کے شام سے نکلنے کے بعد اسرائیلی حملوں میں اضافہ ہوا ہے، اب یہ حملے شامی فوج، بحریہ، اور دیگر دستاویزاتی مراکز پر ہو رہے ہیں، جن میں پاسپورٹ آفس اور کسٹمز آفس بھی شامل ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اسرائیل ان حملوں کے ذریعے ایسی دستاویزات کو ختم کر رہا ہے جو اس کی شامی حکومت کے ساتھ مبینہ سازباز کو ظاہر کرتی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی دنیا نے ان حملوں کی مذمت نہیں کی۔ شام، آزادی کی طرف بڑھ رہا ہے، اور ایسے وقت میں جب ملک تعمیر نو اور عوام کی بحالی کی کوشش کر رہا ہے، مغرب کی طرف سے یکجہتی کی توقع تھی، لیکن اس کے بجائے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیں، جو شامی دفاعی نظام کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
اور یہ آپ کو معلوم ہوگا، کہ کچھ عرصہ پہلے اسرائیل نے گولان کی طرف پیش قدمی شروع کی تھی اور بشار الاسد نے اپنے فوجیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا کہ ان کے راستے میں نہ آئیں، تو یہ پہلے سے ہو رہا تھا، اب زیادہ ہوگیا ہے۔ لیکن اس سب پر کوئی مذمت نہیں کی گئی، الٹا ان کے لیے جواز فراہم کیا گیا کہ ایسا اسرائیل اپنی دفاع کے لیے کر رہا ہے۔ فلسطین پر قبضہ، فلسطین کی نسل کشی اور لبنان کی تباہی اور اب شام کے آزادی کے پہلے دن ہی اس پر بمباری کیا یہ سب کچھ صہیونی ریاست کے دفاع کے لیے تھا؟ یہ سب اسرائیل کے لیے انتہائی بد صورت پیغام ہے، جس کی ہم اسرائیل سے توقع کرسکتے ہیں، بلکہ اسرائیل کے حمایتی ممالک امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا اور دیگر ممالک جو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں، ان سب کی طرف سے یہ غلط پیغام ہے۔
تو مغرب، ملک شام کی آزادی کے پہلے دن شام پر بمباری کر رہا ہے، جبکہ شام ابھی ترقی کی راہ پر آہستہ آہستہ چل رہا ہے، ملک شام فسطائیت سے نکل رہا ہے اور یہ مصالحت کی کوشش کر رہا ہے، وہ کھنڈرات کو آباد کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہم ایک مہذب دنیا میں رہتے ہیں، کچھ انسانی یکجہتی کی بنیاد پر سوچنا چاہیے، اس سے پہلے کہ ہم سیاسی طور پر اس کو دیکھیں، ہم ان کو یہ کہیں کہ تمہیں مبارک ہو، ہم تعمیر وترقی میں تمہاری مدد کریں گے، بشار الاسد کے بارے میں فیصلہ کرنے میں تمہاری مدد کریں گے وغیرہ، لیکن ایسا نہیں ہوا، نام نہاد لبرل ڈیموکریٹک دنیا ہتھیار فراہم کر رہی ہے اپنے اتحادی اسرائیل کو، اور اسرائیل شام پر بمباری کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے دفاع سے عاجز آجائے۔
کمنت کیجے