Home » غلامی اور اسلام
انگریزی کتب تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات

غلامی اور اسلام

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ[ النحل: 90]

“بے شک اللہ تمھیں عدل اور احسان اور اقرباء کو مال دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، منکر اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے۔’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جوناتھن براون نے اپنی کتاب Slavery        and        Islam کے آخر میں درست طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انسانی تکریم کا اسلامی تصور اور جدید مغربی تصور، دو مختلف سانچے ہیں، چنانچہ غلامی سے متعلق اسلام کے نقطہ نظر کو کسی بھی استدلالی کھینچ تان سے کام لے کر مغربی ذہن کے لیے قابل فہم نہیں بنایا جا سکتا۔ انفرادی حریت اور مساوات جس مفہوم میں مغربی اخلاقیات میں قدر مانی جاتی ہے، اس مفہوم میں اسلام میں نہیں مانی جاتی، اور غلامی کے سوال کا براہ راست تعلق اسی خاص قدر سے ہے۔ اس نوعیت کے اختلاف کی ایک اور مثال جانوروں کو انسانی خوراک بنانے کا مسئلہ ہے، اور ہندی مذاہب کا تصور اہمسا جس اخلاقی اصول پر استوار ہے، اس کے لحاظ سے اسلام کے تصور ذبح وقربان کو قابل فہم بنانے کا کوئی بھی طریقہ یا استدلال کارآمد نہیں ہو سکتا۔

البتہ یہ سوال اہم ہے کہ جب غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب اور حکم اسلام میں بھی دیا گیا اور اس کے لیے بہت سے شرعی وقانونی اقدامات بھی عمل میں لائے گئے تو یہ غلامی کو اخلاقی برائی مانے بغیر کیونکر ممکن ہے؟ اور اگر یہ اخلاقی برائی تھی تو اس کا کسی بھی درجے میں قانونی جواز آخر کیوں تسلیم کیا گیا؟ خصوصاً‌ نبی علیہ السلام نے اپنی ذاتی زندگی میں اس کی گنجائش کیوں رکھی؟ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اسلام کا تصور اخلاق دو پہلووں پر مشتمل ہے، ایک ایجابی اور دوسرا سلبی۔ سورہ نحل کی مذکورہ آیت میں ایجابی اخلاقیات کا ذکر عدل واحسان اور ایتائے ذی القربیٰ سے ہوا ہے اور سلبی اخلاقیات کا فحشاء، منکر اور بغی کے عنوان سے۔

اگر حریت فرد اور مساوات کو مطلق اور باقی ہر اخلاقی قدر پر حاوی قدر مانا جائے تو کسی انسان کا غلام بننا، چاہے اس کے پیچھے جو بھی سماجی جواز موجود ہو، یہ ’’بغی’’ کے تحت آتا ہے۔ جدید مغربی تصور اخلاقی یہی پوزیشن رکھتا ہے، چنانچہ کسی بھی صورت میں اس کا جواز تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن اگر حریت اور مساوات over       riding        principle نہیں، بلکہ دیگر اخلاقی اصولوں اور سماجی ضرورتوں کو ساتھ رکھ کر ان کی قدر طے کی جائے گی، جیسا کہ اسلام کا زاویہ نظر ہے، تو پھر انسان کا کسی دوسرے انسان کی ملکیت بن جانا فی نفسہ ’’بغی’’ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں، ایجابی اخلاقیات میں سے ’’احسان’’ کے تحت اس کی ترغیب دی جا سکتی ہے کہ اس کو آزاد کر دیا جائے یا آزادی کے حصول میں اس کی مدد کی جائے۔

اسلام نے اس معاملے میں یہ طریقہ اختیار کیا کہ غلام بنانے کے بعض طریقوں (مثلاً‌ بردہ فروشی یا مالی واجبات کے عوض میں غلام بنانے) کو ناجائز قرار دے کر ’’بغی’’ میں شمار کیا اور ان پر پابندی لگا دی، جبکہ پہلے سے موجود غلاموں اور جنگ میں قیدی بننے والوں کو اس زمرے میں شمار نہیں کیا، بلکہ ’’احسان’’ کے اصول کے تحت ان کی آزادی کی ترغیب دی اور جب تک غلام، غلام رہیں، ان کے ساتھ برتاو کے حوالے سے اخلاقی وقانونی حدود مقرر کر دیں۔ مزید یہ کہ اپنی اخلاقی تعلیم سے اس کی بنیاد بھی مہیا کر دی کہ سماجی اور تمدنی حالات کی تبدیلی سے انسانوں کو غلام بنانے کی صورتیں بالکل ختم کرنا ممکن ہو اور انسانوں کے مابین غلامی کا برا ہونا ایک ’’معروف’’ کا درجہ اختیار کر لے تو مذہبی شعور بھی اس کو ایک مثبت پیش رفت سمجھ کر اس کی تائید میں کھڑا ہو جائے، جیسا کہ دور جدید کی اسلامی فکر مجموعی طور پر کھڑی ہے۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں