Home » کیا کلام متکلم پر سبقت رکھتا ہے؟
اسلامی فکری روایت زبان وادب فلسفہ

کیا کلام متکلم پر سبقت رکھتا ہے؟

جہانگیر حنیف

منشائے متکلم کلام پر سبقت رکھتا ہے۔ روایتی فکر اس مقولہ پر یقین رکھتی ہے۔ متن یعنی ملفوظ کلام منشائے متکلم کا محمل (vehicle) ہے۔ متکلم کلام سے پہلے ہے، لہذا متکلم کا منشاء بھی قبل از کلام ہے۔ کلام متکلم کے منشاء کی ادائیگی کا ذریعہ ہے۔ متکلم نے کس وقت کلام کیا، کیوں کلام کیا، اور اس کے مقاصدِ کلام کیا تھے، یہ بالعموم خارج از کلام ہوتے ہیں۔ بسا اوقات کلام کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔ لیکن کلام کی یہ کبھی بھی شرط نہیں رہی کہ متکلم نے کہاں کلام کیا، وجہ کیا تھی اور مقصد کیا تھا، ان سب امور کو کلام کا حصہ بنایا جائے۔ اگر کلام کی یہ شرط رکھی جائے، تو کلام کرنا ہی نا ممکن ہو جائے گا۔ لہذا منشائے متکلم کو متن فہمی کا مقصود بنانے والے ہر مکتبِ فکر کے نزدیک متکلم کے بارے میں تمام اخبار قابلِ اعتناء ہوتی ہے۔ اور انھیں ان کی صحت پر اطمینان کے بعد متن فہمی میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ محض متن کے لفظوں پر اصرار بلا جواز ہے۔ یعنی یہ موقف اختیار کرنا کہ متکلم نے کیوں کلام کیا اور کس وجہ سے کیا، اسے بھی کلام ہی سے اخذ کیا جائے گا۔ یہ متکلم/کلام کے لیے گویا تکلیف ما لا یطاق ہے۔ متکلم توجیہِ کلام، مقصدِ کلام اور سیاقِ کلام کو بھی کلام میں سمو دے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ متکلم اگر خدا ہے، تو اس کے لیے یہ سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن وہ کلام انسانوں کے لیے قابلِ فہم کیسے ہوگا۔ انسان جس نوعیت کے کلام سے تعرض کرتے ہیں، وہ اس طرح کے لوڈ کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس طرح کے لوڈڈ کلام کو سمجھنے کی صلاحیت انسان میں بھی پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن تجربہ شاہد ہے کہ وہ اُس نے ایسا کرنا چاہا اور نہ کیا۔ اُس کا کلام تمام انسانوں کو مخاطب بناتا ہے اور انسانی استعداد کے مطابق بناتا ہے۔

تاویلِ واحد کا مکتبۂ فکر کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنے کا موقف رکھتا ہے۔ ان کے مطابق منشائے متکلم محض وہ ہے، جو لفظوں سے سمجھ آئے۔ اس کا ایک نتیجہ متکلم کی نفی ہے۔ بھئی متکلم نے کس وجہ سے کلام کیا اور کس غرض سے کلام کیا، اسے کلام ہی سے کشید کرنے کی شرط کی کیا توجیہ ہے۔ اس کا مطلب متکلم کی نفی کے سوا کچھ نہیں۔ کلام پر تکیہ کرو اور متکلم کو بھول جاؤ۔ متکلم کو نظر انداز کرنے سے آپ کلام کا فہم حاصل کرلیں گے اور وہ فہم شاید متن کا انتہائی درست مفہوم بھی ہوگا، لیکن وہ متکلم کا منشاء ہے، یہ کیسے معلوم ہوگا۔ آپ نے فکر کی سطح پر متکلم کی نفی کردی ہے، جس کے نتیجہ میں آپ نے متکلم تک رسائی کے تمام راستے مسدود کردیئے۔ متکلم کے بارے میں آپ کو سوچنے کی ضرورت کی نہیں، تو آپ متعلقہ معلومات تک رسائی اور ان کی چھان پھٹک کی کوشش کیوں فرمائیں گے۔ کسی بھی طالب علم کو جو متن کو محض اس کے لفظوں کے نظم سے سمجھنے کا موقف رکھتا ہے، وہ مولانا اصلاحی صاحب کی طرح ایک ایک آیت پر تکیہ کرے گا، لیکن احادیث مبارکہ سے استفادہ کرنے کا ہرگز نہیں سوچے گا۔ تدبر قرآن ہو یا البیان ان کے مصنفین نے تصور کی سطح پر متکلم کو کلام سے جاننے کی ٹھانی ہے۔ یہ reverse        engineering ہے۔ یہ حضرات کلام سے متکلم کو جانتے ہیں۔ متکلم سے کلام کو سمجھنے کا عمل نہیں کرتے۔ گویا کلام پہلے اور متکلم بعد میں ہے۔ کلام متکلم پر سبقت رکھتا ہے۔ تاریخی سبقت متکلم کو حاصل ہے، لیکن تفھیمی سبقت کلام کو میسر ہے۔ متکلم کو کلام سے recreate کیا جاتا ہے۔ وہ جتنا ٹوٹا پھوٹا recreate ہوجائے، اسی پر اکتفا کیا جائے گا۔ یہی اس مکتبِ فکر کی غلطی ہے۔ ان کے نزدیک بنیادی کارنامہ ہی یہ ہے کہ انھوں نے احادیث سے متاثر ہوئے بغیر قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے۔ لہذا بیان واقعہ میں ہم اور وہ مختلف نہیں۔ ان کے نزدیک یہ فخر کی بات ہے اور ہمارے نزدیک یہ فکر کی۔