عمران شاہد بھنڈر
چند روز قبل میں نے ایک مختصر تحریر بعنوان ”میں نے فلسفے سے کیا سیکھا ؟“ پیش کی تھی، جس میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ فلسفیانہ فکر میں ”مطلق سچ“ کچھ نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں ”مطلق سچ“ ایک مذہبی اصطلاح ہے، جسے مذہبی لوگ ان ”حقائق“ کے لیے استعمال کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہر قسم کے حالات میں “مطلق” طور پر سچ ہوتے ہیں۔ عینیت پسند فلسفوں میں بھی یہی ”اصطلاح“ رائج ہے۔ میں نے ”مطلق سچ“ سے وہی مفہوم لیا جو کہ مذہب اور فلسفے میں رائج ہے اور جسے فلسفی بروئے کار لاتے ہیں، یعنی ایسا سچ جو زمان و مکاں سے ماورا ہر عہد اور ہر طرح کے حالات میں سچ ہو۔ میری تحریر میں اس نوعیت کے ”مطلق سچ“ کی نفی کی گئی تھی۔ لیکن”مطلق سچ“ کی نفی’سچ‘ کی نفی نہیں ہوتی۔ ’سچ‘ بلاشبہ موجود ہے اور وہ میری تحریر سے بھی عیاں تھا۔ چند ”مابعد الطبیعاتی مادیت پسندوں“ نے اس تحریر سے غلط نتائج اخذ کر کے اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا کہ جیسے میں کہہ رہا ہوں کہ سچ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے، اور سچ مابعد جدید مفہوم میں فقط ”اضافی“ ہوتا ہے۔ حالانکہ میں لکھ چکا تھا کہ کانٹ اگر ایک وقت میں صحیح تھا تو وہ دوسرے وقت میں غلط تھا۔ ”مابعد الطبیعاتی مادیت پسندوں“ نے میری تحریر کو اس کے اندر سے غلط ثابت کرنے کی بجائے منطقی مغالطہ ”اپیل ٹو اتھارٹی“ کا ارتکاب کرتے ہوئے ولادیمیر لینن کا ایک اقتباس پیش کر دیا جس میں لینن ایک وقت میں ”مطلق سچ“ کی موجودگی کو تسلیم کرتا ہے۔ لینن کا موقف بالکل وہی ہے جو میرا ہے۔ یعنی لینن بھی یہ کہہ رہا ہے کہ ”مطلق سچ“ ایک وقت میں موجود ہوتا ہے، اور جدلیاتی مادیت کا تقاضا ہے کہ وہ ”مطلق سچ“ کسی دوسرے وقت میں غلط ہو، یعنی اضافی ہو جائے۔ لینن چونکہ فلسفے کا طالبِ علم نہیں تھا، اس لیے اس سے یہ غلطی ہوئی کہ اس کو جسے صرف ’سچ‘ کہنا چاہیے تھا، اسے اس نے ”مطلق سچ“ کہہ دیا، جب کہ ”مطلق سچ“ کسی ایک وقت کے لیے نہیں بلکہ ہر وقت کے لیے ہوتا ہے۔ ”مطلق سچ“ کے فلسفیانہ مفاہیم یہی ہیں جو بیان کر دیے گئے ہیں۔ آئیے اب ہم ’سچ‘ کے چند مفاہیم پر غور کرتے ہیں،
1۔ سچ کے اس مفہوم کے مطابق ایک مخصوص تناظر میں سچ موجود ہوتا ہے، اس سچ کو ایک”مخصوص سیاق“ میں ”قطعی“ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری پوزیشن ہے۔
2۔ سچ کے اس مفہوم سچ ”مطلق“ ہوتا ہے۔ اور ”مطلق سچ“ وہ ہوتا ہے جس پر حالات، سیاق اور تناظر وغیرہ اثر انداز نہیں ہوتے۔ ہم اس فکر کی نفی کرتے ہیں۔
3۔ سچ کسی ایک تناظر میں بھی موجود نہیں ہوتا۔بلکہ سچ ہمیشہ اضافی ہوتا ہے۔ یہ مابعد جدید فکر ہے۔ ہم اس کو رَد کرتے ہیں۔
واضح یہ ہوا کہ ہم سچ کا انکار نہیں کرتے، بلکہ ”مطلق سچ“ کے منکر ہیں اور “مطلق سچ” کی تعریف پیش کر دی گئی ہے۔ غلطی خواہ لینن کرے یا کوئی اور وہ غلطی ہی سمجھی جائے گی۔ لینن جب یہ کہتا ہے کہ کسی ایک وقت میں ”مطلق سچ“ موجود ہوتا ہے تو وہ فلسفیانہ اصطلاحات سے نابلد ہونے کا ثبوت دیتا ہے، کیونکہ لینن ہی کے مطابق کسی دوسرے وقت میں وہ ”مطلق سچ“ نہیں رہتا۔ فلسفیانہ مفاہیم میں مطلق سچ ایک ابدی سچ ہوتا ہے، اور ہم ایسے سچ کے قائل نہیں ہیں۔ لینن بھی”مطلق سچ“ کو کسی دوسرے وقت میں اضافی تسلیم کرتا ہے۔ اصل مسئلہ ”مطلق“ کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ لینن کہتا ہے،
”جدلیات، جیسا کہ ہیگل نے اپنے وقت میں وضاحت کی، ”میں اضافیت، نفی، اور تشکیک کا عنصر پایا جاتا ہے۔“ مارکس اور اینگلز کی مادی جدلیات میں یقیناََ اضافیت موجود ہے۔ لیکن یہ محض اضافیت تک محدود نہیں ہے۔ یعنی یہ ہمارے تمام تر علم کی اضافیت کا اقرار کرتی ہے۔ لیکن معروضی سچائی کا انکار نہیں کرتی بلکہ سچ کے ساتھ ہمارے علم کے لگ بھگ ہونے کی حدود کو تاریخی طور پر متعین سمجھتی ہے۔“
(مادیت اور تجربی انتقاد، ص، 156)۔
لینن نے یہاں ہیگل، مارکس اور اینگلز کی جدلیات کو صحیح پیرائے میں پیش کیا ہے۔ اس سے واضح یہ ہوا کہ سچ موجود ہے اور اسی سچ کی اضافیت بھی موجود ہے۔ یعنی اضافیت سچ کے باہر نہیں بلکہ سچ کے اندر ہوتی ہے۔ نفی بھی خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے اور تشکیک کا پہلو بھی موجود ہے۔ جب اضافیت ہو تو کوئی بھی سچ، سچ نہیں رہتا۔ یہی میں نے کہا تھا کہ جو صحیح ہے اسے غلط ہونا ہے، جو سچ ہے اسے اضافی ہونا ہے، اس کی نفی ہونی ہے۔ لینن مزید کہتا ہے کہ ”اینگلز کے لیے ”مطلق سچ“ اضافی سچائیوں سے عبارت ہے۔“۔ لینن اس نکتے کی مزید یوں تصدیق کرتا ہے،
”اینگلز اور ڈائٹزجن کے تمام بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جدلیاتی مادیت کے لیے اضافی اور مطلق سچ کے درمیان کوئی ناقابل عبور خلیج نہیں ہے۔ (مادیت اور تجربی انتقاد، ص، 155)۔
جب سچ اضافی ہو جائے تو وہ ’مطلق‘ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پہلے ’مطلق‘ تھا اور بعد ازاں اضافی ہو گیا۔ میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ مذہبی و فلسفیانہ مفہوم میں ’مطلق‘ کبھی اضافی نہیں ہوتا، اسی وجہ سے وہ ’مطلق کہلاتا ہے۔ ’سچ‘ اضافی میں بدلتا ہے اور جسے اضافی سمجھ لیا جاتا ہے، وہ سچ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اینگلز لکھتا ہے کہ “سچ غلط ہو جاتا ہے اور غلط سچ۔” اگر یہ کہا جائے کہ مابعد جدید مفکر جسے’اضافی‘ مانتے ہیں اس میں آفاقی ’سچ‘ کا عنصر موجود ہوتا ہے تو یہ غلط ہے۔
ہیگل کہتا ہے کہ نظری خیال اور عملی خیال کی وحدت ”مطلق خیال“ کہلاتی ہے۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ یہ بات بھی ایک سیاق میں ’سچ‘ ہے، اور جب سیاق تبدیل ہوجاتا ہے وہ وحدت (نظری اور عملی) جسے ہیگل ’مطلق‘ کہتا ہے وہ بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک نئی وحدت ’مطلق‘ کے تقاضے کے طور پر موجود رہتی ہے، لیکن جو شے اضافی ہوتی ہے وہ یہی ’وحدت‘ ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم یہ کہیں کہ انقلاب کا برپا ہونا عملی (انقلابی جدوجہد) اور نظری مارکسی نظریہ) کی ’وحدت‘ ہے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انقلاب کے بعد یہی وحدت اضافی ہوتی ہے، کیونکہ سچ خود کو ظاہر کر کے گزر چکا ہے۔
اس مضمون کا دوسرا نکتہ جس کا یہاں مختصر تجزیہ مقصود ہے اس کا تعلق کانٹ کے تصورِ ”شے فی الذات“ سے ہے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ لینن کانٹین فلسفے میں موجود ”شے فی الذات“ کے تصور کو سمجھنے میں چند بنیادی نوعیت کے اغلاط کا مرتکب ہوا ہے۔ لیکن ان اغلاط کی تصحیح اس وقت ہوئی جب لینن نے ”مادیت اور تجربی انتقاد“ کے آٹھ یا نو برس بعد ہیگل کے لاجک اور اس کی “فلسفہ تاریخ” کا مطالعہ کیا۔ ہمیں ان اغلاط میں سے صرف دو کا جائزہ لینا ہے، اگلی سطور میں یہی ہمارا موضوع ہو گا۔
لینن دعویٰ کرتا ہے کہ مادی دنیا ہماری حسیات، شعور، حتیٰ کہ انسان سے الگ موجود ہے اور ”مادیت پسند کے لیے حسیات حتمی(Ultimate) معروضی حقیقت کا تمثالی پیکر (Image) ہیں۔“ (تجربی انتقاد، ص، 147)۔ یعنی ہماری حسیات خارجی دنیا (فطرت) میں موجود ”مطلق سچ“ کو منعکس کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کی تکرار لینن کی مذکورہ بالا کتاب میں جگہ جگہ کی گئی ہے۔ کتاب کے آغاز میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ خارجی دنیا (فطرت) انسان سے باہر وجود رکھتی ہے اور وہ انسان کی حسیات اور شعور میں منعکس ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ یہاں پر لینن نے علامت (Symbol) اور تمثالی پیکر (Image) میں امتیاز قائم کیا ہے۔ارنسٹ ماخ کے مطابق ”اشیا حسیات کا مجموعہ ہیں۔“ جب کہ لینن کے مطابق حسیات میں اشیا کے تمثالی پیکر منعکس ہوتے ہیں، نہ کہ اشیا حسیات کا مجموعہ ہوتی ہیں۔
یہاں ہم لینن کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جس میں اس نے اینگلز کے خیالات کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ لینن لکھتا ہے،
”فلسفیانہ رجحانات کے وہ کون سے دو خط ہیں اینگلز جن کا یہاں تقابل کرتا ہے؟ ایک خط یہ ہے کہ حواس ہمیں اشیا کا درست تمثالی پیکر دیتے ہیں اور یہ کہ ہمیں اشیا بالذات کی خبر ہے اور یہ کہ خارجی دنیا ہمارے حسیاتی عضویات پر عمل پذیر ہوتی ہے۔ یہ مادیت ہے جس سے ”لا ادری“ واقف نہیں ہیں۔ تو پھر لا ادری کے خط کا جوہر کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ وہ حسیات کی حد سے پرے نہیں جاتا۔ وہ مظاہر کے ”اس طرف“ رُک جاتا ہے۔ حسیات سے پرے کسی بھی یقینی چیز کا انکار کرتا ہے۔ یہ ”اشیا جیسی کے یہ اندر ہیں۔“ اشیا فی الذات“ کے متعلق۔۔۔۔ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ اس پر لاادری دو ٹوک اصرار کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ تضاد جس کے بارے میں اینگلز بات کرتا ہے (وہ یہ ہے) کہ مادیت پسند ”اشیا فی الذات“ کی موجودگی اور ان کے قابلِ فہم ہونے کی تصدیق کرتا ہے، ”لا ادری“ اشیا فی الذات کے بارے میں سوچنے سے بھی انکار کرتا ہے، اور مصر ہے کہ ہم ان کے بارے میں ”یقین“ سے کچھ بھی نہیں جان سکتے۔“ (مادیت اور تجربی انتقاد، ص، 124)۔
لینن کا یہ اقتباس اغلاط کی آماجگاہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لینن نے کانٹ کو نہیں پڑھا اور نہ ہی اینگلز نے کانٹ کا مطالعہ کیا۔ لینن ساری کتاب میں اینگلز اور فیورباخ کے طویل اقتباسات پیش کرتا ہے، انہیں گڈ مڈ کرتا ہے اور ان سے غلط نتائج اخذ کرتا ہے۔ اینگلز کی تمام تفہیم فیورباخ کی مرہونِ منت ہے۔ ہم فیورباخ کی کانٹین فلسفے کی تفہیم کا جائزہ بعد میں لیں گے۔ دونوں (اینگلز اور لینن) نے یہ تصور کر لیا ہے کہ کانٹ مادے کو اس کے جوہر سمیت جاننے کا انکار کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اینگلز اور لینن دونوں ہی اس غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں کہ ”لاادری شے فی الذات کے بارے میں سوچنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔“ دونوں (اینگلز اور لینن) یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ ”شے فی الذات“ سوچ ہی کا نتیجہ ہے، اور ہر سوچ جس کا مافیہا (Content) موجود نہ ہو وہ ”شے“ نہیں بلکہ ”لاشے“ ہوتی ہے، اور بقول کانٹ اس ”لاشے“ کو جانا نہیں جا سکتا۔ یعنی ہر وہ تصور جو محض ایک تصور ہو، وہ لاشے کہلاتا ہے۔ اس پر کانٹ خود طویل بحث کر چکا ہے۔ جہاں تک مظاہر کا تعلق ہے تو ان کو ان کے جوہر سمیت جانا جا سکتا ہے۔ کانٹ رقم طراز ہے،
”مادہ بحیثیت مظہر جوہر ہے۔ اس کے اندرونی تعین کا اندازہ ہم اس امکان سے کرتے ہیں کہ جس میں وہ واقع ہے اور ان اثرات سے جو وہ ڈالتا ہے، اور یہ سب ہمارے خارجی حواس کے مظاہر ہیں۔ پس ہمیں ان کے اندرونی تعین کا نہیں بلکہ صرف اضافی اندرونی تعین کا علم ہوتا ہے اور سچ پوچھیے تو ”مادہ کا حقیقی“ اندرونی تعین فہم محض کے مطابق ایک واہمہ ہے اس لیے کہ مادہ فہم محض کا معروض ہو ہی نہیں سکتا۔ اب رہی وہ فوق تجربی شے جو اس مظہر کا جسے ہم مادہ کہتے ہیں، سبب خیال کی جاتی ہے تو وہ ایک نامعلوم چیز ہے۔ اگر کوئی سمجھا بھی سکتا کہ وہ کیا ہے تو ہم اسے نہ سمجھتے اس لیے کہ ہم صرف اس چیز کو سمجھتے ہیں جس کے جوڑ کی کوئی شے مشاہدے میں آسکے۔“
(تنقید عقلِ محض،اے275 / بی 330)۔
کانٹ حسیاتی ادراکات کو تجربے کا پابند کرتا ہے۔ کانٹ کا یہ اقتباس ان لوگوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے جو کبھی بھی اس کے تصورِ ”شے فی الذات“ کو نہیں سمجھ سکے۔ کانٹ نے وضاحت کر دی ہے کہ ہم صرف ان مظاہر کو ان کے جوہر سمیت جانتے ہیں جو ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ان مادی مظاہر کے ایسے ”اندرونی تعینات“ موجود نہیں ہیں جو براہِ راست (حس کی شمولیت کے بغیر) ہماری فہم میں آ سکیں، (یہ مقدمہ لائبنیز اور وولف کا تھا)۔ لہذا ان معنوں میں کہ جب فہم مادے کے اندرونی تعینات کو براہ راست سمجھنے کا دعویٰ کرتی ہے تو وہ غلطی کا ارتکاب کرتی ہے۔ کیونکہ مظاہر کے وہ تعینات فہم کا معروض اس وقت ہوتے ہیں۔ جب حسی مشاہدہ دیا ہوا ہو۔ اندرونی تعینات سے مراد یہ ہے کہ جب ہم مظاہر کو جاننے کا آغاز کرتے ہیں تو جاننے کا ہر اگلا مرحلہ بھی مظاہر اور ان کی صفات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور کبھی بھی ایسا لمحہ نہیں آتا کہ فہم یہ دعویٰ کرے کہ وہ مظاہر اور ان کے جوہر کے علاوہ کسی ”شے فی الذات“ کو بھی جانتی ہے۔ کانٹین مفہوم میں ”شے فی الذات“ مادے یا مظہر کی خصوصیت نہیں ہے جو مادی حیثیت سے مظاہر کے اندرونی تعینات کی حیثیت رکھتی ہے۔ بلکہ یہ محض ایک سوچ ہے، جس کے بارے میں کانٹ خود یہ واضح کر چکا ہے کہ یہ مافیہا سے ”خالی“ ہے۔ یہ مادے سے منسلک کوئی سچائی نہیں ہے، یہ یہ مادے کی صفت نہیں ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ممکن ہے کہ مظہر (مادے) کی کوئی غیر مادی علت ہو۔ یہ صرف ہماری سوچ ہے، جو مادے کے اندرونی تعینات کے بارے میں نہیں بلکہ مادے کے متصورہ ”خالق“ کے بارے میں ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے کہ جہاں کانٹ ”شے فی الذات“ کے تجربے میں عدم امکان کو رَد کرتا ہے۔ شے کو جاننے کے عمل میں جوں ہی شے کے اندرونی تعینات بحیثیت مظہر حسیاتی ادراک میں ظاہر ہوتے جائیں گے، ان کو جان لیا جائے گا، وجہ یہی کہ تصورات کو ان کے جوڑ کے مشاہدات مہیا ہو گئے ہیں۔ کانٹ یہ واضح کر دیتا ہے کہ حسی ادراکات کے بغیر ہمارے تصورات ”خالی“ ہیں۔ بعض حمقا ”نئی دریافتوں“ کو کانٹ کے استرداد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ حمقا اس معمولی نکتے کو بھی نہیں سمجھ پاتے کہ ”نئی دریافتیں“ مظاہر ہوتی ہیں اور مظاہر کو ان کے ’جوہر‘ سمیت جانا جا سکتا ہے۔ جس کو نہیں جانا جا سکتا وہ شے یا اس سے منسلک خصوصیت نہیں ہے، بلکہ وہ خالص فکر ہے، اور وہی فکر “شے فی الذات” ہے، جب اس کے جوڑ کا مشاہدہ دستیات نہ ہو۔
”شے فی الذات“ کے بارے میں ایک انتہائی اہم نکتہ جو کہ اینگلز اور لینن کی سمجھ سے ماورا رہا وہ یہ تھا کہ کانٹ جہاں مظاہر (مادے) سے پرے سوچنے کے عمل کو “لا شے” کے متماثل گردانتا ہے تو وہاں فہمِ محض کے موضوعی مقولات کو Noumena کہتا ہے۔ یعنی ”شے فی الذات“ صرف مظاہر سے پرے ہی نہیں ہے بلکہ موضوعی سطح پر فہم محض کے مقولات بھی ”شے فی الذات“ کہلاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ تجربے سے ماورا داخلی سطح پر تصورات اور مظاہر سے پرے کسی ”غیر مادی“ علت کو جانا نہیں جا سکتا۔ اور جہاں تک مظاہر کا تعلق ہے تو جیسے کہ پہلے کہا گیا ہے کہ وہ مادہ بحیثیت جوہر ہے۔ جس کو جاننے کا کانٹ اعتراف کرتا ہے۔ کانٹ کا یہ انتہائی اہم اقتباس توجہ کا متقاضی ہے۔
”پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حواس معروضات کی مظہری حیثیت کا اور فہم ان کی حقیقی حیثیت کا ادراک کرتی ہے تو واقعی حیثیت کے لفظ کو ماورائے تجربی معنی میں نہیں، بلکہ تجربی معنی میں لینا چاہیے یعنی وہ حیثیت جو اشیا بحیثیت معروضات تجربہ کُل مظاہر کی نسبت سے رکھتی ہیں نہ کہ وہ حیثیت جو کہ امکانی تجربے اور حس سے قطع نظر کر کے بہ طور معروضات فہمِ محض رکھتی ہیں۔ اس لیے کہ ہر شے ہمیشہ ہمارے لیے نامعلوم رہے گی بلکہ ہم اس قسم کا ماورائے تجربہ علم کا کم سے کم مقولات کے تحت ممکن ہونا بھی تصور نہیں کر سکتے۔ ہمارے نزدیک حس اور فہم کے ملنے ہی سے معروضات کا تعین ہو سکتا ہے۔ اگر ہم انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دیں تو یا تو تصورات سے خالی مشاہدات رہ جائیں گے یا مشاہدات سے خالی تصورات اور ان دونوں صورتوں میں ہم اپنے ادراک کو کسی معروض پر عائد نہیں کر سکتے۔“ (تنقید عقلِ محض، اے/256 بی 322)۔
فہم کی استعداد کُلیات کی حامل ہوتی ہے جو لازمی اور یونیورسل ہوتے ہیں۔ حسیات جزئیات (Particulars) فراہم کرتی ہیں۔ جزئیات(حسی مشاہدات) میں کلیات (تصورات) موجود ہوتے ہیں۔ اگر عقلی کُلیات حسیات پر لاگو نہ کیے جا سکتے ہوں تو وہ ’خالی‘ تصورات ہیں، جنہیں ”لاشے“ کہا جاتا ہے۔ حس خود پر کُلیات لاگو نہیں کر سکتی، کیونکہ وہ کلیات کو جان ہی نہیں سکتی۔ وجہ یہ کہ حس صرف جزئی (Particular) تک محدود ہوتی ہے۔ حس کُلی اور لزوم کا تعین کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ کُلی اور لزوم فہم کے مقولات ہیں۔ لہذا لینن جب یہ کہتا ہے کہ ہماری حسیات ہمیں خارجی دنیا کا ”حتمی“ علم عطا کرتی ہیں تو وہ غلطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیونکہ کُلی اور لزوم کو دریافت کرنا حس کے تفاعل سے خارج ہے۔ لینن نے اپنی اس غلطی کی تصحیح ہیگل کے لاجک کو پڑھتے ہوئے کر لی تھی۔ لینن سوال اٹھاتا ہے،
The crux lies in the fact that thought must apprehend the whole representation in its movement, but for that thought must be dialectical. Is sensuous representations close to reality than thought? Both yes and no
(Philosophical Notebook, P, 227)
اس اقتباس سے یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری حسیات ”حتمی معروضی سچ“ (جیسا کہ لینن اینگلز کی تقلید میں دہراتا رہا ہے) کو ہمارے ذہن میں منعکس نہیں کرتیں، اور نہ ہی ہمیں ”حتمی سچ“ عطا کرتی ہیں۔ بلکہ حسیات ہمیں صرف معروضات پیش کرتی ہیں۔ ”معروضی سچ“ گھڑا گھڑایا نہیں ہوتا جو حسیات کی وساطت سے ذہن میں منعکس ہوتا ہے، بلکہ اس ”معروضی سچ“ میں موضوع کی فعال شمولیت موجود رہتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کانٹ نے یوں کی ہے،
”ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حواس کبھی غلطی نہیں کرتے مگر اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح تصدیق قائم کرتے ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حواس سرے سے کوئی تصدیق قائم ہی نہیں کرتے۔ سچ اور جھوٹ اور اس کے ساتھ التباس بھی جو جھوٹ کی طرف لے جاتا ہے صرف تصدیقات میں، یعنی اس علاقے میں جو معروض ہماری عقل سے رکھتا ہے، پایا جاتا ہے۔“ (تنقید عقلِ محض، اے292 / بی 348)۔
لینن یہاں دو اغلاط کا مرتکب ہوتا ہے: ایک یہ کہ جب وہ کہتا ہے کہ حسیات ہمیں ”حتمی سچ“ عطا کرتے ہیں تو وہ بدیہی (a priori) بنیادوں پر یہ طے کر چکا ہوتا ہے، نہ کہ اس کے ذہن میں مختلف انسانی صلاحیتوں کا ایسا تفاعل موجود ہے جس کی بنیاد پر ان صلاحیتوں کی تخصیص کی جا سکے۔ دوسرا یہ کہ عقل حسی مواد کو اپنے تصورات کے تحت جانچتی ہے۔ یہ تصورات عقل تشکیل دیتی ہے، اور یہی وہ تصورات ہیں جو حواس کی پہنچ سے ماورا رہتے ہیں۔ ان حواس کے درمیان منطقی روابط تلاش کرنا عقل کا کام ہے۔ لینن پر یہ نکتہ اس وقت آشکار ہوا جب وہ ہیگل کو پڑھ رہا تھا۔ لینن لکھتا ہے،
Ordinary perception grasps the difference and the contradiction, but not the transition of one to the other
یہاں لینن ایک بار پھر اپنی حسیاتی ادراک کی حدود کو واضح کرتا ہے۔ اس سے اس کی”مادیت اور تجربی انتقاد“ میں پیش کیے گئے اس دعوے کی نفی ہوجاتی ہے کہ خارجی دنیا میں موجود”حتمی سچ“ ہماری حسیات میں منعکس ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ لینن ان نتائج پر بھی پہنچ گیا تھا کہ فکر اپنا معروض خود تخلیق کرنے کی اہل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ منطق خارجی بنتروں کا اصول ہے۔ لینن کہتا ہے،
Logic is the doctrine not of external forms of thought but of the laws of devel opment ”of all material, natural and spiritual things. (Notebook, P, 92)
اس اقتباس سے لینن کا ”مادیت اور تجربی انتقاد“ میں پیش کیا گیا سارا مقدمہ منہدم ہوجاتا ہے۔ وہ مقدمہ لینن کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ ”مادہ ایک فلسفیانہ زُمرہ ہے اور اس معروضی حقیقت پر دلالت کرتا ہے جو انسان کو اس کی حسیات میں دی گئی ہے اور جسے (معروضی حقیقت) ہماری حسیات نے نقل کیا، عکسی تصویر (فوٹوگراف) بنائی، منعکس کیا، ان سے (حسیات سے) آزادانہ موجود رہتے ہوئے۔“ مادیت اور تجربی انتقاد، ص، 128)۔ بعد ازاں وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ منطق (جو کہ خالص عقلی فعلیت ہے) ”ہماری فکر کی خارجی بنتروں کے اصولوں پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ وہ مادی، فطرتی اور روحانی اشیا کی نشو و نما کے قوانین پر مشتمل ہے، اور منطق فکر کی سائنس ہے۔ ہیگل نے کہا تھا کہ منطق اشیا کا فکری مطالعہ ہے، نہ کہ حسی۔ کیونکہ منطق میں آغاز ’حسیات‘ سے نہیں بلکہ فہم سے ہوتا ہے۔ منطق میں فہم کا معروض جزئی نہیں بلکہ کُلی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیگل نے کہا تھا کہ جدلیات کا آغاز خیال سے ہوتا ہے۔ لینن کو بھی بعد ازاں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ جدلیات کے عمل کو بحیثیت مجموعی منعکس کرنا حسیات کے بس کا کام نہیں ہے۔ حسیات کی حدود وہیں متعین ہو جاتی ہیں جب وہ ایک شے کی دوسری شے میں عبوریت کے لمحہ کا ادراک نہیں کرتیں، اس طرح حسیات سے ”قطعی“ حقیقت کو منعکس کرنے کا دعویٰ کرنا باطلِ محض ہے۔ لینن نے ”مادیت اور تجربی انتقاد“ میں جو پوزیشن اختیار کی تھی، وہ نئی ہرگز نہیں تھی، بلکہ وہ سترھویں صدی کی برطانوی تجربیت کی تکرار تھی، جس کے تحت انسانی ذہن کے تمام تصورات کا ماخذ حسی تجربہ ہوتا ہے اور تجربے سے پہلے ذہن مکمل طور پر خالی ہوتا ہے۔
لینن کے ”معروضی سچ“ اور اس کے علم کے حصول کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم کانٹ کی ”شے فی الذات“ سے متعلق مختلف مادیت پسندوں کے افکار کا مختصر تجزیہ پیش کرتے ہوئے اسے مزید گہرائی میں کریدنے کی کوشش کریں۔ ہم اوپر یہ کہہ چکے ہیں کہ لینن نے کانٹ کا مطالعہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی اینگلز نے براہِ راست کانٹ کو پڑھا تھا۔ ہمارے اس دعوے کو اس وقت تقویت ملتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لینن ہو یا اینگلز دونوں ہی کانٹ کا کوئی حوالہ نہیں دیتے۔ لینن کی صورتحال تو یہ ہے کہ وہ ”مادیت اور تجربی انتقاد“ میں اینگلز اور فیورباخ کے طویل اقتباسات پیش کرتا ہے اور ان کا کانٹ کی فلسفیانہ فکر سے موازنہ کیے بغیر ہی ان میں موجود نتائج کو قبول کر لیتا ہے۔ جب کہ یہی لینن “فلسفیانہ بیاض” میں فیورباخ کے انہی مفاہیم پر تنقید کرتا ہوا نظر آتا ہے جن کی وکالت لینن خود “تجربی انتقاد” میں کر چکا تھا۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فیورباخ خاصی حد تک کانٹ کی ”شے فی الذات“ کے تصور کو سمجھ چکا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پہلا فلسفی جس نے ”شے فی الذات“ کو واہمہ کہا وہ خود کانٹ تھا۔ اس نکتے کی سمجھ صرف اسی صورت میں آ سکتی تھی اگر کانٹ کے فلسفے کا مطالعہ کیا جاتا۔ کانٹ کا ہم عصر اور کانٹین فلسفے پر مقالہ لکھنے والا جرمن فلسفی یوہان فختے اس نکتے سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس نے اپنی کتاب ”سائنس آف نالج“ کے تعارف میں ”شے فی الذات“ کی حقیقت کو یہ کہہ کر عیاں کر دیا تھا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے، یہ صرف ایک ’واہمہ‘ (Chimera) ہے، (یہی لفظ کانٹ نے شے فی الذاتکے لیے استعمال کیا تھا)۔ فختے کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ ہم تسلیم کر لیں کہ عمومی تجربے (حسی) کے علاوہ بھی ایک تجربہ ہوتا ہے اور اس تجربے میں آغاز حس کے برعکس سوچ سے ہوتا ہے، یعنی سوچ اپنے معروض کا تعین بطور’کلیہ‘ کرتی ہے۔ اگرچہ سوچ اپنی نفی کرتی ہے۔ سوچ کی نفی، دراصل” اسی “شے فی الذات” کی نفی ہے کیونکہ یہ شے فی الذات تجریدی سوچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ بعد ازاں فیورباخ ہو بہو اسی خیال تک پہنچا۔ لینن اس بات سے آگاہ تھا، لیکن اس کی تفہیم سے قاصر تھا۔ کیونکہ وہ فلسفے کی باریکیوں سے آگاہ نہیں تھا۔ لینن اسے یوں پیش کرتا ہے،
”فیورباخ کی ”شے فی الذات“ کانٹ کی شے فی الذات سے مختلف ہے۔ آئیے ہم فیورباخ کے پہلے سے کہے گئے مقولے کی جزیات کو دہرائیں جہاں وہ کانٹ کی سرزنش کرتا ہے، کیونکہ موخرالذکر کی شے فی الذات حقیقت کے بغیر تجرید ہے۔ فیورباخ کی شے فی الذات حقیقت کے ساتھ تجرید ہے۔ وہ یہ کہ ہم سے باہر کی طرف موجود دنیا مکمل طور پر قابلِ ادراک ہے اور بنیادی طور پر ظہور سے مختلف نہیں ہے۔ (مادیت اور تجربی انتقاد، ص، 136-135)۔
ہم پہلے بھی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ کانٹ کی شے فی الذات مادے یا مظاہر سے منسلک کوئی شے نہیں ہے، بلکہ یہ ذہن میں پیدا ہونے والا ایک آئیڈیا ہے جس کا کوئی مشمول نہیں ہے۔ فیورباخ کی شے فی الذات مادے سے کی گئی تجرید ہے۔ ان دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔ ایک حقیقت سے تجرید ہے، ایک خیالِ محض ہے۔ تاہم مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب کانٹین شے فی الذات کو مظاہر سے منسلک ”جوہر“ تصور کر لیا جاتا ہے اور امید یہ کی جاتی ہے کہ وہ خود کو ظاہر کرے۔ اب خیالِ محض خود کو کیسے ظاہر کرے؟ یہ ایسا نکتہ ہے جس کو سمجھ لیا جائے تو کانٹ کے فلسفے پر کی گئی تنقید کا ایک بڑا حصہ خود بہ خود منہدم ہو جاتا ہے۔ وہ مابعد الطبیعاتی مادیت پسند اور میکانکی مارکسیت کے حامی جو اس اہم پہلو کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں وہ کانٹ پر بے جا تنقید کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کانٹ کے خیال میں شے فی الذات حقیقت سے منسلک ہے اور کانٹ اسے مخفی رکھتا ہے۔ وہ اس اہم نکتے کو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کانٹین شے فی الذات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فیورباخ کی تقلید میں لینن نے ٹھیک کہا ہے کہ وہ حقیقت کے بغیر تجرید ہے۔ لہذا وہ کوئی ایسی حقیقت نہیں ہے جسے کسی فلسفی نے جان بوجھ کر مخفی رکھا ہو۔ کانٹ کے ذہن میں شے فی الذات کا یہ تصور کیسے پیدا ہوتا ہے جو خارجی حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا، اس کی وضاحت ہم نے اپنے کئی مضامین میں کی ہے۔ ویسے بھی یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ یہ نکتہ اچھی طرح سے ذہن نشین ہو جانا چاہیے کہ شے فی الذات جو کہ عقل کا آئیڈیا ہے وہ کسی مظہر یا معروض سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا، وہ خالصتاََ ایک تصور ہے۔ اور اس تصور کو اس وقت تک نہیں جانا جا سکتا، جب تک اس تصور کا معروض تجربے میں دیا ہوا نہ ہو۔ اگر کوئی معروض یا مظہر تجربے میں دیا ہوا ہو گا تو پھر اس مظہر یا معروض سے جو تصور قائم کیا جائے گا وہ انہی سے متعلق ہوگا۔ چونکہ یہ تصور (شے فی الذات) تجربے میں نہیں دیا گیا اس لیے اس کا اطلاق بھی تجربے پر ممکن نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک خارجی مظاہر یا معروضات کا تعلق ہے، تو کانٹ انہیں ان کی کُلیت میں جاننے کا تقاضا کرتا ہے۔ کانٹ نے اگرچہ بارہ مقولات پیش کیے تھے، لیکن وہ بتاتا ہے کہ ان کے علاوہ فرعی مقولات بھی ہیں۔ یہ مقولات مظہر یا مادے کے بحیثیت جوہر متعینات ہیں جنہیں بہت احتیاط سے الگ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانٹ کہتا ہے کہ ہماری حسیات معروضات کا ادراک ایسے کرتی ہیں جیسے کہ وہ ظاہر ہوتے ہیں، اور ہماری فہم ان مظاہر یا معروضات کو ایسے جانتی ہے جیسے کہ وہ حقیقت میں ہیں۔کانٹین فلسفے کا یہی وہ پہلو ہے جسے لینن نے فیورباخ کی تقلید میں پیش تو کر دیا، لیکن اسے سمجھنے میں ناکام رہا۔
لینن کو ہیگل کا لاجک پڑھنے کے دوران میں شے فی الذات کے “خالی تجرید” ہونے کی تفہیم ہو چکی ہوئی تھی۔ اس لیے اس نے بطور حاشیہ یہ الفاظ درج کیے کہ شے فی الذات کچھ نہیں، یہ “خالی تجرید” ہے۔ تفہیم کی وجہ یہ کہ ہیگل لاجک کا آغاز اسی “فکر محض” سے کرتا ہے، اور نتیجہ یہ نکالتا ہے کہ “فکر محض” کچھ نہیں ہے۔ ہیگل کے یہ خیالات کانٹ کے ان خیالات کی ہی نقل تھے کہ میری ذات کا شعور ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجھے اپنی ذات کا علم بھی ہے۔ اس کے لیے خارجی حوالے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوچ کی نفی سوچ کے اندر ہوتی ہے اور پھر اس نفی کی نفی سے اثبات کا تعین ہوتا ہے۔ یعنی حقیقت دو نہیں بلکہ ایک ہے اور اس کے دو پہلو ہیں: ایک فکری اور دوسرا مقرونی، دونوں باہم نفوذ پذیر ہیں۔ نہ کہ ایک دوسرے سے الگ جیسا کہ لینن نے انہیں “تجربی انتقاد” میں پیش کیا تھا۔
نوٹ: مضمون کے دوسرے حصے میں مارکس کے “فیورباخ پر تھیسس” اور لینن کے انہیں نظر انداز کرنے کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا۔ اگرچہ ان تھیسس کا ذکر اس نے تجربی انتقاد میں کیا تھا، لیکن غلط!
کمنت کیجے