Home » کیا حیاتیاتی اعتبار سے گائے اور بھینس ایک ہیں؟
فقہ وقانون

کیا حیاتیاتی اعتبار سے گائے اور بھینس ایک ہیں؟

آپ بھینس کی قربانی کے قائل ہیں یا نہیں؟ یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے فقہاء اور اہل لغت کے اقوال کی بنا پر یہ بحث پیدا کی ہوئی ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ بھینس، گائے ہی کی ایک جنس ہے۔ اگر حیاتیاتی اعتبار سے بات کریں تو فقہاء اور اہل لغت کا میدان نہیں ہے کہ وہ اس کا تعین کریں کہ بھینس، گائے کی جنس سے ہے یا نہیں۔

اس بارے اینیمل سائنسز اور زوالوجی کے لوگوں کی بات معتبر شمار ہو گی کہ یہ دونوں حیاتیاتی اعتبار سے ایک جنس سے ہیں یا نہیں۔ حیاتیاتی اعتبار سے ایک ہی نوع مثلا گائے بیل کی مختلف انواع میں، اور ایک ہی جنس مثلا گھوڑا گدھی میں کراس بریڈنگ ہو سکتی ہے، لیکن مختلف اجناس میں کراس بریڈنگ تقریبا ناممکن ہے جیسا کہ گائے اور بھینس۔ لہذا گائے اور بھینس کو ایک جنس شمار کرنے والی بات سائنسی طور درست نہیں ہے۔

البتہ زکوۃ کے مسائل میں بھینس کو گائے پر قیاس کیا جا سکتا ہے اور اس کی علت گائے کا سائمہ ہونا ہے یعنی چارہ چرنے والا جانور ہونا جو کہ بھینس میں بھی پایا جاتا ہے۔ البتہ قربانی کے معاملے میں بھینس کا گائے پر قیاس درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ قربانی عبادات میں سے ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک عبادات میں اصلا قیاس نہیں ہے بلکہ نص کی اتباع ہے۔ اور قرآن مجید اور سنت کی نص میں چار قسم کے جانوروں کی قربانی ہی کا ذکر ہے یعنی اونٹ اونٹنی، گائے بیل، بھیڑ دنبہ اور بکری بکرا۔ لہذا ہماری نظر میں بھینس کی قربانی سے احتیاط بہتر عمل ہے جبکہ قربانی کے دیگر جانور وافر میسر ہیں۔

زکوۃ بندے کا حق ہے یا اللہ کا حق، یہ فقہاء میں اختلافی مسئلہ ہے۔ اسی اعتبار اس میں عبادت کا پہلو غالب ہے یا معاملات کا، یہ بھی اختلافی مسئلہ ہے۔ اور اس بنیاد پر بہت سے فقہی معاملات میں اختلاف بھی ہوئے۔ ہمارے نزدیک زکوۃ کو معاملات کے ذیل میں رکھتے ہوئے اس میں بہت سے مسائل میں قیاس کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن قربانی کے عبادات کے ذیل میں داخل ہونے کی وجہ سے قیاس نہیں کرنا چاہیے۔

جنس کا ایک تصور منطق کا بھی ہے۔ اس کے مطابق حیوان ایک جنس ہے۔ اور اس جنس کے نیچے انسان، گھوڑا، بھینس، گائے، شیر، چیتا وغیرہ سب انواع ہیں۔ لہذا منطقی اعتبار سے گائے اور بھینس کو ایک جنس کہا جا سکتا ہے لیکن یہاں جنس کا تصور اتنا وسیع ہے کہ اس میں انسان بھی شامل ہو جاتا ہے اور گدھا بھی کیونکہ سب حیوان ہیں۔ مناطقہ کا اصل مقصود چیزوں کو ڈیفائن کرنا تھا نہ کہ ان پر فقہی حکم لگانا۔

دوسرا جنس کی ایک تعریف اصول فقہ میں معروف ہے۔ اس کے مطابق بھی جنس کے لیے لفظ اور خلقت کو بنیاد ٹھہرایا گیا ہے جیسا کہ لفظ صلوۃ یعنی نماز ایک جنس ہے کہ جس کی انواع نفل نماز اور فرض نماز ہے اور کھجور ایک جنس ہے کہ جس کی انواع میں عجوہ اور مبروم وغیرہ ہیں۔ لفظ کے اعتبار سے بھی گائے اور بھینس ایک جنس نہیں ہیں کیونکہ گائے اور بھینس یعنی بقر اور جاموس دو علیحدہ لفظ ہیں۔ اسی طرح خلقت یعنی حیاتیاتی اعتبار سے بھی گائے اور بھینس ایک جنس نہیں ہیں اور ان کی کراس بریڈنگ بھی تقریبا ناممکن ہے۔

البتہ بعض فقہاء لفظ اور خلقت سے ہٹ کر عرفی معنی میں بھی جنس مراد لیتے ہیں یعنی عرف اور رواج میں اگر دو جانوروں کو ایک جنس شمار کیا جاتا ہو تو وہ ان کے نزدیک ایک ہی جنس ہوں گے اور ان پر ایک ہی حکم لاگو ہو گا۔ اس اعتبار سے بعض فقہاء اور اہل لغت کے ہاں گائے اور بھینس کو ایک جنس کہا گیا ہے کہ عرف، استعمال اور فائدہ کی بنیاد پر گائے اور بھینس ایک ہی جنس ہیں۔ لیکن ہماری نظر میں جنس کے اس تصور کو بھی مالی معاملات میں تو قیاس کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے لیکن عبادات میں پھر بھی بچنا ہی چاہیے۔ جزاکم اللہ خیرا

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں