Home » عوام یا عوامی جگہوں پر حملے کا حکم: سوال و جواب
فقہ وقانون

عوام یا عوامی جگہوں پر حملے کا حکم: سوال و جواب

کیا ایک مسلم حکومت، تمام قسم کے ظلم و جبر کے باوجود ظالم و جابر حکومت کے عام عوام یا عوامی جگہوں مثلا سکولز، ہاسپٹلز کو نشانہ بنا سکتی ہے؟

جواب:

اس کا تعلق اس سے ہے کہ مسلمان حکومت کا کسی غیر مسلم حکومت کے متعلق بنیادی موقف کیا ہے۔ اگر مسلم حکومت کسی غیر مسلم حکومت کو فی نفسہ جائز تسلیم کرتی ہے اور اس کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات ہیں تو جنگ کی صورت میں وہ فوجی اہداف سے ہٹ کر دشمن کی سول عمارتوں کو نشانہ نہیں بنا سکتی، الا یہ کہ سول عمارتیں کسی جنگی مقصد کے لیے استعمال ہو رہی ہوں۔

تاہم ایسی مسلم حکومت جو کسی غیر مسلم حکومت کے وجود کو فی نفسہ جائز نہ مانتی ہو اور اس کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہوئے اس کے خاتمے کو اپنا ہدف قرار دیتی ہو، اس پر دوران جنگ میں فوجی اور سول اہداف میں فرق کرنا لازم نہیں۔ خصوصاً جب وہ یہ اعلان بھی کر دے کہ حملوں کا مقصد اس علاقے کو ناقابل رہائش بنا دینا ہے، اس لیے شہری علاقہ خالی کر دیں۔ اپنے اصولی موقف اور مذکورہ اعلان کے بعد وہ فوجی اور سول، دونوں طرح کی عمارتوں کو نشانہ بنانے کا پورا جواز رکھتی ہے۔ ہاں، عام شہریوں، خصوصاً عورتوں اور بچوں کو براہ راست نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر دشمن ریاست نے مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم بھی کیے ہوں تو اس کا بدلہ ان کے عوام کو قصداً نشانہ بنا کر نہیں لیا جا سکتا۔ تاہم افراد سے ہٹ کر ہر قسم کی عمارتیں اور پورا فوجی یا سول انفراسٹرکچر حملوں کا ایک بالکل جائز ہدف ہے۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں