محمدرشید ارشد
خلاصہ انیسویں صدی سے فلسفے، نفسیات اور اکثر سماجی علوم میں انسان کو موضوع بنا کر اس کی نئی تعریف متعین کرنے کا ایک باقاعدہ منصوبہ بنایاگیا۔ جدیدیت نے ایک نیا ورلڈ ویو بنا کر پہلے دنیا کو اس کے مطابق کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کر لی، پھر اس کے بعد اس کامیابی کو زیادہ معنی خیز بنانے کیلئے انہوں نے آدمیت کے نئے سانچے بنانے کا آغاز کیا۔اپنے کلاسیکی سیاق و سباق سے دنیا کو نکال دینے کا مطلوبہ نتیجہ اس وقت تک برامد نہیں ہوسکتا تھا جب تک انسان کا کوئی ایسا تصور وضع نہ کرلیا جاتا جس کی بدولت نئی صورت اور نئے معنی کے امتزاج اور ان کے باہمی تال میل سے بننے والا ایک ایسا مکمل نظام وجود میں آجاتا جو جدیدیت کا اصل ideaتھا۔ اقبال کا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا کہ دور ِجدید کی قطعا ًناسازگار فضا میں مذہبی انسان کو تصور اور عمل کی سطحوں پر کیسے برقرار رکھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جدید نظریات اور علمیات سے بنی ہوئی دنیا میں مذہبی انسان کے رہنے کی جگہ بنانے کی کوشش کی اور مذہب کو ماننے اور اس کی نتیجہ خیزی کو نئے فلسفے اور نفسیات کی روشنی میں دکھانے کی کاوش کی۔اس کام کو سرانجام دینے کیلئے انہوں نے ولیم جیمز،وائٹ ہیڈ اور ایک خاص معنی میں برگساں سے کچھ ضروری اصول مستعار لے کر مذہبی تصورِانسان کے دفاع کی ذمہ داری لی۔
کلیدی الفاظ: اقبال، مذہبی تجربہ، نفسیات، تصور ِانسان، موضوع اور معروض۔
برگساں اور ولیم جیمزکے زیر ِاثر ہمارے یہاں بھی انسان کے باطنی وجود کے بارے میں غوروفکر کرنے کی ایک نیم فلسفیانہ اور نیم نفسیاتی روایت کا بیسویں صدی کے اوائل میں آغاز ہوا۔اس کی تہ میں یہ خیال کارفرما تھا کہ سائنس اور دیگر تہذیبی و تجربی علوم کی ایک خاص رخ پر پیش قدمی کی وجہ سے انسان کی مذہبی و روحانی ساخت کو کچھ خطرات لاحق ہوگئے ہیں جن سے نکلنے کیلئے انسان کو سائنسی اور تجربی منطق کے دائرے سے باہر نکالے بغیر ، کچھ ایسے احوال اور صلاحیتوں کا حامل دکھایا جائے جن سے کم ازکم یہ ثابت کرنا یا اس بات پر استدلال کرنا ممکن ہوجائے کہ انسانی شعور کے بعض منطقے ایسے ہیں جن کے اندر مافوق ِتجربی امور اپنی رہنمائی کے واضح آثاروشواہد رکھتے ہیں۔اس تناظر میں، یعنی کہ انسان کو مذہبی و روحانی وجود ثابت کرنے کےلئے مذہبی اور صوفیانہ تجربات کے عنوانات سے شعور کے کچھ بعید حصوں میں برپا ہونے والی چند علمی اور عرفانی تشکیلات کا clinical اور مروجہ معنی میں عقلی تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی۔(۱) یہ سارا عمل دراصل جدید علمیت episteme کے غلبے کو مان لینے کے بعد شروع ہوا اور اس میں کوشش کی گئی کہ سائنس وغیرہ سے تعمیر ہونے والے جدید ذہن کیلئے مذہب اور مابعد الطبیعیات کو کم ازکم اس درجے تک مانوس بنا دیا جائے کہ وہ ان کے انکار کی طرف مائل نہ ہوسکے۔ہمارے یہاں اس تطبیقی روش کے دو بڑے نمائندے ہیں:سرسید اور اقبال۔
گو کہ سرسید کے اثرات مسلمانان ِہند کیلئے تقدیری نوعیت کے ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہند اسلامی روایت میں ان کے برابر کی مو¿ثر شخصیت کوئی نہیں ہے، تاہم ان کا تطبیقی منصوبہ مغرب پرستی کے جذبے سے تیار ہوا تھا۔ اقبال کا معاملہ دوسرا ہے۔ ایک تو یہ مغرب کو سرسید کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانتے تھے اور دوسرے مغرب کے بارے میں خاصے تنقیدی جذبات بھی رکھتے تھے اور سرسید کی طرح مغرب کے اندھادھند مقلد نہیں تھے، اور تیسرے یہ کہ اقبال کو تہذیبوں کے بننے بگڑنے کے قوانین سے بہت گہری آگاہی میسر تھی۔گو کہ تہذیبوں کی تشکیل کے عملی اصول سرسید اقبال سے بہت زیادہ جانتے تھے اور اس کے اظہار پر بھی اقبال سے بہت زیادہ قادر تھے لیکن تہذیب کی نظریاتی بناوٹ کے بارے میں ان کا علم بھی کم تھا اور وہ اس طرف زیادہ متوجہ بھی نہیں تھے۔اسی لئے سرسید نے مذہبی انسان کو اگر موضوع بنایا بھی تو بہت سرسری انداز سے جب کہ اقبال کا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا کہ دور ِجدید کی قطعا ًناسازگار فضا میں مذہبی انسان کو تصور اور عمل کی سطحوں پر کیسے برقرار رکھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جدید نظریات اور علمیات سے بنی ہوئی دنیا میں مذہبی انسان کے رہنے کی جگہ بنانے کی کوشش کی اور مذہب کو ماننے اور اس کی نتیجہ خیزی کو نئے فلسفے اور نفسیات کی روشنی میں دکھانے کی کاوش کی۔اس کام کو سرانجام دینے کیلئے انہوں نے ولیم جیمز،وائٹ ہیڈ اور ایک خاص معنی میں برگساں سے کچھ ضروری اصول مستعار لے کر مذہبی تصورِانسان کے دفاع کی ذمہ داری لی۔لیکن اس میں مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ مذہب اور مذہبی عقائد و احوال کو اپنے اثبات کیلئے ایک خالص موضوعیت pure subjectivity) ( پر انحصار کرنا پڑا جس کی وجہ سے ان میں جدید ذہن کیلئے معمولی حد تک ایک پراسرار سی کشش تو پیدا ہوگئی لیکن اسے تسلیم کی جگہ تک لانے میں کوئی کامیابی نہ ہوسکی۔
انیسویں صدی سے فلسفے، نفسیات اور اکثر سماجی علوم میں انسان کو موضوع بنا کر اس کی نئی تعریف متعین کرنے کا ایک باقاعدہ منصوبہ بنایاگیاجو تحریک ِتنویر) (Enlightenment Projectکا دوسرا مرحلہ تھا۔(۲) جدیدیت نے ایک نیا ورلڈ ویو بنا کر پہلے دنیا کو اس کے مطابق کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کر لی، پھر اس کے بعد اس کامیابی کو زیادہ معنی خیز بنانے کیلئے انہوں نے آدمیت کے نئے سانچے بنانے کا آغاز کیا۔اپنے کلاسیکی سیاق و سباق سے دنیا کو نکال دینے کا مطلوبہ نتیجہ اس وقت تک برامد نہیں ہوسکتا تھا جب تک انسان کا کوئی ایسا تصور وضع نہ کرلیا جاتا جس کی بدولت نئی صورت اور نئے معنی کے امتزاج اور ان کے باہمی تال میل سے بننے والا ایک ایسا مکمل نظام وجود میں آجاتا جو جدیدیت کا اصل idea تھا۔انسان اور اس کی دنیا کے بارے میں جو کلاسیکی تناظر تھا اسے کانٹ نے بڑی حد تک تازہ رکھنے کی کاوش کی لیکن کانٹ کی تمام تر clinicity کے باوجود اس کے کام سے لازمی طور پر پیدا ہونے والے نتائج کو گویا قوت سے روک دیا گیا۔ لیکن چونکہ کانٹ تاریخ ِفلسفہ میں کلاسیکی صلابت اور کلیت کا سب سے بڑا وارث ہونے کی حیثیت سے فلسفے کی وہ آخری شخصیت تھاجس نے علم اور ہستی کے پورے order کی اصولی تقسیم کرکے اس کے اجزا کو بھی اور اس کے کل کو بھی ایک نظریاتی تیقن اور ریاضیاتی قطعیت کے ساتھ متعین define کردکھایا۔جدیدیت چیزوں کو نئے سرے سے منظم کرنے اور انہیں پرانی تعریفات سے نکال کر نئے مقاصد میں صرف کرنے آئی تھی، اس لئے جدیدیت پسند مفکرین کی سب سے بڑی کمزوری یہ بن گئی تھی کہ وہ چیزوں کو معروضیت کے ساتھ تعریف دینے کے تقریبا تمام راستے اپنے اوپر بند کرچکے تھے، اس وجہ سے انہیں ذہن اور اشیاءکے درمیان کسی بھی طرح کا تعلق پیدا کرنے کے لئے ان دونوں کی جو اصولی تعریفات درکار ہیں وہ میسر نہ تھیں۔اس باب میں انہوں نے بڑی حد تک کانٹ کے منہج کو اختیار کیا۔(۳)
جس طرح کانٹ نے شعور ِانسانی کو چند fixities کا مجموعہ بنا کر علم کے ایک لحاظ سے آفاقی حدود بہت بے لچک انداز میں متعین کردیے تھے، اسی طرح اس صدی میں عقلی اور نفسیاتی علوم میں انسان کو ایک شعوری اور طبیعی وجود کی حیثیت دے کر اس کا ایسا تجزیہ کرنے کی کئی زاویوں سے کاوش کی گئیں جس سے یہ پتہ چل سکے کہ آدمی کو جن حقائق کا مظہر یا معمول بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے یہ اپنی نفسیاتی اور ذہنی بناوٹ میں اس سے کوئی عملی مناسبت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔(۴) اس clinical تحقیق نے رفتہ رفتہ یہ رنگ اختیار کر لیا کہ انسان چند پیچ دار mechanics اور کچھ آپس میں مدغم ہوتی ہوئی صورتوں سے تو وجودی اور شعوری مناسبت رکھتا ہے لیکن اس میں کسی مستقل اور ماورائی idea سے مناسبت رکھنے والے عملی امکانات تقریبا ناپید ہیں۔(۵)
انسان کے مطالعے کا یہ طریقہ بلکہ رویہ اتنی ہمہ گیری اختیار کرچکا تھا کہ کلاسیکی تصور ِانسان کو برقرار رکھنے کیلئے کسی علم کی کمک ملنا بہت دشوار ہو چکا تھا۔ اب انسان کے بارے میں ایسا کوئی نظریہ بے وقعت ہو چکا تھا جو نفس اور ذہن کی تحلیل و تجزیے کے نتیجے میں نہ بنا ہو۔ اس روش نے شعور کی مابعد الطبیعی ساخت پر خاص طور پر بڑی ضرب لگائی اور خصوصا مذہبی مسلمات جیسے خالص تخیل بن کر رہ گئے۔ اس ناسازگار صورت ِ حال میں کچھ لوگوںکی طرف سے انسان کے کلاسیکی تصور اور اس کے مابعد الطبیعی یا مذہبی اطراف کو نئے سرے سے اور نئی شرائط پر پھر سے استوار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس معاملے میں نفسیات کے دائرے میں کچھ ایسے کام کئے گئے جن کی کامیابی سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ انسان کا مذہبی وجود اپنی شعوری اٹھان کے ساتھ اس کی تاریخ متعین کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ بالفاظ ِدیگر انسان کے مذہبی شعور اور وجود کا اثبات کرنے کی ان کوششوں کا نصب العین یہ تھا کہ جدید تصور ِ انسان میں کلاسیکی تصور ِ انسان کے بعض اجزا شامل ہوجائیں اور انہیں قبول بھی کرلیا جائے۔ اس تحریک میں ایک جوہری نقص تھا، اور وہ یہ کہ انسان اور مذہبی حقائق کے درمیان تعلق کو ثابت کرنے کے لئے جدید تصور ِ انسان کو رد نہیں کیا جارہا تھابلکہ اسے کل مان کر مذہبیت کے بعض اجزا کی گنجائش نکالی جارہی تھی اور ان اجزا کی placing بھی اس تصور کے مرکز میں نہیں کی جارہی تھی بلکہ انہیں ایک ماتحت اور ثانوی حیثیت دے کر اس نئے تصور میں قدرے توسیع کی کوشش کی جارہی تھی۔(۶)
جدید فلسفہ چونکہ اس نئے تصور کا بانی تھا اس لئے اس میں مذہبی شعور کے کلی یا جزوی احیا کی طرف کوئی نمایاں میلان نہیں پیدا ہوسکا تاہم نفسیات میں کچھ بڑے لوگوں نے یہ کام کرنے کا بیڑہ اٹھایا، جیسے یونگ اور ولیم جیمز۔ یونگ کے پیش ِنظر یہ تھا کہ انسان میں ایک لائق ِتصدیق کلیت دریافت کر لی جائے اور اس میں مذہبی شعور اور احساسات کی گنجائش بھی نکال لی جائے۔ انسانوں کے لئے ایک غیر تاریخی ماضی فرض کرلیا گیا اور اس میں جیسے افلاطون کے عالمِ مثال کو انسانی دنیا کے جغرافیے میں کھپانے کی کوشش کی گئی۔مراد یہ ہے کہ جس طرح عالمِ مثال ،عالمِ اشیا پر ایک ایسا ماورائی تصرف رکھتا ہے جس کا ادراک اس دنیا میں پائے جانے یا نہ پائے جاسکنے والے شعور کے بس کی بات نہیں ہے، عین اسی نمونے پر انسانی شعور کو ایک ماورائی ( transcendental )کل یا غیر شخصی اصول مان کر اس میں کارفرما اسباب و عوامل میں افلاطونی تصور) (Platonic Idea کی سی سریت پیدا کی گئی اور یہ مفروضہ تراشا گیا کہ شعورِانسانی میں تعقل،تخیل،تصور وغیرہ کا ہر عمل دراصل ایک Archetypal شعور میں موجودتصورات ( idea) کے ایسے انعکاس (reflection ) کے ذریعے سے ہورہا ہے جس کو دیکھنا ،سمجھنا اور محسوس کرنا ہمارے اس شعور کی استعداد سے باہر ہے جس سے ہم مانوس ہیں۔شعور کی اصل ایک غیر تاریخی،غیر تجربی مگر فعال لاشعور میں استوار کر کے بہت پیچیدہ طریقے سے یہ ثابت کرنے کی کاوش کی گئی کہ خدا،مذہب وغیرہ اس اجتماعی لاشعور کا ایک idea ہے جو کبھی اس شعور پر تصرف کرتا ہے اور کبھی نہیں۔ اس لئے مذہبی عقائد اور مثالیت) Idealism (کی تمام شکلیں انسان کے لئے کوئی باہر کی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس کے اندر ہی گندھی ہوئی ہیں۔اس طرح کے تمام خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہبی حقائق شعور کو کہیں باہر سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ یہ اسی کی مخلوق ہیں۔یونگ وغیرہ کا متعلقہ کلام ایک سوچا سمجھا منصوبہ لگتا ہے کہ شعور میں ایک مابعد الطبیعی پن (metaphysicality) کا اس طرح اثبات کردیا جائے کہ اس کا تجربی مزاج اجنبیت محسوس نہ کرے۔ مختصر یہ کہ یونگ کے یہاں شعور کے مابعد الطبیعی تصورات، جو کردار کی تشکیل میں موثر بھی ہیں، کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ خود شعور ہی کی ان قوتوں سے پیدا generate) ( ہوتے ہیں جو آد می کے فہم اور اختیار سے باہر ہیں۔ظاہر ہے کہ یونگ کے discourse میں خدا ایک موضوعی (subjective) وجود بلکہ تصور idea) ( ہے ۔اور یہ تصور (idea) ، ماقبل ِتجربہa-priori) (کی طرح شعور کے تاریک مرکز میں کبھی کبھی اپنی فعال موجودگی کا احساس دلاتا ہے جس کے نتیجے میں شخصیت کے اندر ایک علمی اٹھان اور اخلاقی گہرائی پیدا ہوجاتی ہے اور آدمی اپنی زندگی کے بعض حصوں کو اس تصور (idea) سے منصوب کرنے کی ایک خواہش پیدا کرلیتا ہے۔ اس خواہش میں ایسی بے ساختگی ہوتی ہے کہ خدا کا یہ تصور کسی پہلو سے قابل تسلیم ہوجاتا ہے۔لیکن رہتا بہرحال تصور ہی ہے،جو آدمی کو یہ وثوق پیدا کرنے کا راستہ نہیں دیتا کہ خدا خارج میں موجود ہے ، خالق کی حیثیت سے، رب کی حیثیت سے، معبود کی حیثیت سے۔یہ ایک موضوعی (subjective) خداہے جوانسانی تخیل کی بعض سطحوں کو تشکیل دینے کا موجب ٹھہرتا ہے۔ یونگ سے زیادہ سے زیادہ یہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ خدا کا وجود اگر ثابت نہیں ہے تو بھی اس کے تصور سے وجود اور شعور کے بعض مستقل مطالبات پورے ہوجاتے ہیں اور آدمی کی زندگی کے بنیادی رنگ اس کی تاثیر کی وجہ سے بدل سکتے ہیں۔ اسی لئے یونگ خوابوں کی تحلیل و تعبیر کو بہت اہمیت دیتا ہے، خصوصا ًایسے خواب جو مذہبی اور روحانی نوعیت کے ہوں۔ یونگ کے زیر ِاثر مذہبیت اور روحانیت ہم معنی ہوگئے۔یعنی نفس کے داخلی ترفع inner) (sublimation ہی کو مذہبیت/روحانیت مان لیا گیا۔ اس پورے عمل میں مذہب جیسا کہ ہے، اس کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ اس سے وجود ِباری تعالی اور رسالت کا ادارہ ادنی درجے میں بھی define نہیں ہوتا۔ اس طرح کی انفسی مذہبیت کچھ روحانی تصورات کا جواز تو فراہم کردیتی ہے لیکن اس سے مذہب کے تمام ڈھانچے(structures) گر جاتے ہیں اور اس نوع کی روحانیت مذہب کو پوری طرح غیر مطلوب اور غیر متعلق بنادیتی ہے ۔ یہ وہ نتیجہ ہے جو ضدی تجربیت سے بھی شایدنہ پیدا ہوتا ہو۔ یونگ کیلئے نفس ِانسانی میں ایک روحانی فضا ضروری ہے لیکن اس کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس فضا میں خدا ہے کہ نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ یونگ کے تصور ِنفس نے مذہب کی قبولیت کے امکانات کو مزید دھندلا دیا، ہاں اتنا ضرور ہوا کہ مذہبی شخصیت کا تجزیہ بھی clinical psychology کا موضوع بن گیا۔ اب مذہبی تصورات و احوال کو abnormal کہنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی۔(۷)
دوسری طرف ولیم جیمز نے نفس ِانسانی کی مذہبی ساخت کو آفاقی بنانے کی بھی کوشش کی۔ اس نے مذہبی احوال کی ،جنہیں وہ تجربات کا نام دیتا ہے،اکثر انواع کو ایک مستندy clinical stud کا موضوع بنایا، اور یہ دریافت کرنے کی کوشش کی کہ ان احوال کے پیچھے جو محرک کارفرما ہے وہ محض تصور نہیں ہے بلکہ اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔یعنی مذہبی واردات کا نظام نفس کے اندر محصور نہیں ہے یہ کہیں باہر سے تشکیل پارہا ہے۔ ولیم جیمز کی Varities of Religious Experience جدیدیت کی تاریخ میں ایک بہت بڑے anti-thesis کی طرح سامنے آئی جس میں جدید ذہن کے بعض مستقل مفروضوں کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش کے نتیجے میں مذہبی شعور اور اس کا تمام تر data علم کہلانے کا مستحق قرار پایااور خدا کی طرف دلالت کرنے والے استدلال کو محض مغالطہ fallacy) ( قرار دینے کا رویہ کسی حد تک کمزور ہوگیا……..تاہم اس میں بھی وہی مشکل ہے جو یونگ کے ہاں نظر آتی ہے۔ ولیم جیمز بھی مذہبی واردات کو روحانی واردات ہی سمجھتا ہے اور اس میں نبی اور غیر ِنبی کے احوال و واقعات میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اگر بالفرض انبیاءکے لئے مذہبی واردات کی ترکیب کو درست مان لیا جائے تو بھی نبوی واردات غیر ِنبی کے مذہبی تجربات سے اتنا بعد اور امتیاز رکھتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی خفیف سی قدر ِ مشترک بھی دریافت نہیں کی جاسکتی یا مذہب کا فہم رکھنے والے دماغ میں اس دریافت کا داعیہ ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔ نبی نزول ِوحی کے عمل میں ایک crystallized passivity کا مجسمہ ہوتا ہے اور خود اس کے لئے بھی یہ کوئی نفسیاتی تجربہ نہیں ہوتا جو اس کی نفسیات میں بعض محرکات اور عوامل کا اضافہ کردیتا ہو، یہ ایک تاریخی واقعہ ہوتا ہے جس میں نبی ایک کردار کی حیثیت رکھتا ہے، محض نفس اور دماغ کی نہیں۔ ولیم جیمز نبی، صوفی، شاعر اور دیوانے میں کوئی اصولی فرق نہیں دیکھتا اور ان سب کے مذہبی نوعیت رکھنے والے واقعات کو ایک ہی طرح کے تجزیے کا موضوع بناتا ہے اور ایک ہی طرح کی صحت کا حامل گردانتا ہے۔ اس پورے discourse کو مذہبی ذہن کسی امکان ِبعید کے طور پر بھی قبول نہیں کرسکتا۔ اس میں مذہب اور مذہبیت کی crystallized objectivization کا نہ کوئی ادراک پایا جاتا ہے نہ اثبات۔ ولیم جیمز کے انداز ِتحقیق کو اگر قبول کر لیا جائے تو نبوت کو ہر شخص کی استعداد ماننا پڑے گا جو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصل ساخت ہی سے مغائر اور متصادم ہے۔مذہب کا انکار بھی اس کو اس خلط مبحث میں نہیں ڈالتا جو کہ اس طرح کا اقرار ڈال دیتا ہے۔ لیکن بعض مسلم مفکرین نے اس بنیادی نقص کو نظر انداز کر کے ولیم جیمز کے تصور ِ واردات ِ مذہبی کو دفاع ِدین کے اپنے منصوبے میں ایک بنیادی استدلال کے طور پر استعمال کیا ، جیسے علامہ اقبال۔ اقبال کی مذہبی فکر کی تشکیل ِجدید دراصل ولیم جیمز ہی کے مقدمات پر استوار ایک بیانیہ narrative) ( ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا theme ہی یہ ہے کہ مذہبی واردات و تجربات کے نتائج کو باقاعدہ علم قرار دیا جاسکے، اور علم بھی وہ جسے تجربی منطق قبول کرلے اور جو ہر طرح کے فلسفیانہ اور clinical معیار پر پورا اترے۔
مذہبی آدمی کے نفسیاتی یا روحانی تجربات کو ایک justified علم کا سبب قرار دینے کے خاصے پیچیدہ عمل میں جو بات بالآخر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ نبی ہو یا کہ غیر ِنبی دونوں حق کے مفید ِعلم حضور کا ایسا تجربہ رکھتے ہیں جس میں وہ شدت بھی پائی جاتی ہے جس کے بغیر علم قابل ِاعتبار نہیں ہوتا، اور وہ اشتراک بھی پایا جاتا ہے جو اگر نہ ہو تو کسی تصور کو علم کہنا محال ہے۔ لیکن اقبال کا پورا استدلال یہ بتانے میں ناکام ہے کہ ہر مذہبی یا روحانی تجربہ موضوع اور معروض کے تعلق سے تشکیل پانے والا تجربہ ہے تو اس میں تجربے کے دونوں سرے یعنی موضوع اور معروض کس طرح قطعیت کے ساتھ شریک ِعمل ہیں۔کیونکہ سادہ لفظوں میں کہا جائے تو مذہبی تجربے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف خدا ہے جو اپنے کسی بندے کو علم بن سکنے والے کچھ احوال،مشاہدات اور احساسات فراہم کررہا ہے ،یعنی تجربہ چاہے مذہبی ہو یا غیر مذہبی ،روحانی ہو یا نفسیاتی،عقلی ہو یا تجربی، ہر صورت میں اس کی اساس ایک corresponding object پر ہوتی ہے۔ اگر کسی تجربے میں سے وہ object غائب ہو تو پھر یہ تجربہ کچھ اور تاثیرات کا حامل تو ہو سکتا ہے لیکن علم بننے کی کوئی بھی شرط پوری نہیں کرسکتا۔
اقبال اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ مذہبی تجربے کو object correspondence /subject تک محدود نہ رکھا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اس کا مبنی اور مرجع انسان کے داخلی وجود کے باہر موجود ہے ایک شان ِتصدیق پذیری (mode of verifiability)کے ساتھ۔ اس سے بڑی مشکلات پیدا ہوتی ہیں جو مذہبی تجربے کو محض ہلوسا(hallucination)کہنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ یہاں اس بات کی آڑ نہیں لی جاسکتی کہ ہم ولیم جیمزکی طرح یہ کہ کر مطمئن ہو جائیں کہ مذہبی واردات عملی اور اخلاقی نتائج پیدا کرتے ہیں۔ عملی اور اخلاقی نتائج ، تصور ِمحض اور واہمہ بھی پیدا کرسکتا ہے اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان نتائج کا محرک میرے دماغ سے باہر کہیں موجود ہے۔اقبال کا مسئلہ اس لئے بھی نزاکت اختیار کرجاتا ہے کہ وہ اسلامی روایت میں کھڑے ہوکر کلام کر رہے ہیں۔ اگر مذہبی تجربات کے بارے میں ان کے خیالات کو اسلامی روایت کے دھارے میں لانے کی کوشش کی جائے تو پہلے ہی قدم پر یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ تصورات اس روایت میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتے، کیونکہ ان کا بنیادی مادہ تشکیل ہی اس روایت کے تمام شعبوں کے لئے نامانوس ہے۔ اقبال کے ہاں سب سے بڑی مشکل وہی ہے جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا، وحی اور غیر ِوحی کا امتیاز باقی نہ رہنا۔نبی اور غیر ِنبی کے حالات اور احوال کو اپنے جوہر میں ایک سمجھنا، اور آمد ِوحی کو صوفیانہ اور نفسیاتی تجربے کی طرح کا ایک تجربہ سمجھنا۔اور مسئلہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اقبال نزول ِوحی کے آفاقی تناظر کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں ،مشکل یہ بھی ہے کہ وہ وحی کے نتیجے میں نبی کو میسر آنے والے علم کو دیگر انسانی علوم کی سطح تک اتار دیتے ہیں اور یہاں تک پہنچ جاتے ہیںکہ اگر نبی ماورائے حس و عقل حقائق سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے تو پھر اس امکان کو تمام انسانوں کے لئے مانا جا سکتا ہے۔(۸) یہ ایک ایسی بات ہے جس کو مذہبی ذہن لائق ِغور بھی نہیں سمجھے گا۔اور صرف مذہبی ذہن ہی نہیں بلکہ فلسفہ مذہب کی روایتوں میں بھی پیغمبرانہ علم کو انسانی علم سے مخلوط نہیں کیا جا سکتا،یعنی فلسفہ بھی مذہب کے نظام ِحقائق پر غور کرتے ہوئے عین اسی نتیجے تک پہنچتا ہے جو ٹھیٹھ مذہبی ذہن میں ایک عقیدے اور مسلمے کی طرح پہلے سے موجود ہے کہ وحی سے حاصل ہونے والا عمل صرف نبی کو میسر ہے اس میں کوئی دوسرا شرکت کا دعوی نہیں کرسکتا اور پھر یہ علم بھی خود نبی کی کسی کوشش یا ارادے کا نتیجہ نہیں ہے۔حقائق کی معرفت نبی کو بھی کامل انفعال کے درجے کو پہنچا کر ودیعت کی جاتی ہے۔اور ان معارف میں کسی بھی طرح کی فعلیت شعورِوحی کے تجربے سے گزر جانے کے بعد بھی عمل میں نہیں آتی۔اب اگر اسی پہلو سے دیکھیں تو علم ِنبوت اور علم ِانسانی میں ایک ناقابلِ عبور نوعی فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ انسانی علم میں شعور کی فعلیت مطلقا ً معطل نہیں ہوتی۔ شعور اپنی فعلیت سے دستبردار ہو کر ذہن میں برپا ہونے والے کسی بھی تجربے کو کوئی معنی دے ہی نہیں سکتا۔جب ذہنی تجربات معانی ہی سے محروم رہ جائیں گے تو علم کی تو گویا ابتدائی تشکیل بھی نہ ہوسکے گی۔اور دوسری طرف یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مذہبی ہی نہیں بلکہ تمام حقائق کو اس اصول سے لاتعلق نہیں کیا جاسکتا کہ ان کا انکشاف انسان کی باطنی دنیا تک محدود ہے۔ جب تک انکشاف ِحقائق کا پورا عمل اپنی بنیاد میں معروضی objective) ( نہیں ہوگا، حقیقت کی کسی بھی موضوعی صورت subjective form) (کو علم کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اسی لئے نبی اپنے مذہبی data کو کسی سرِی اور داخلی containment سے بالکل پاک رکھتا ہے اور انکشاف ِحقائق کے پورے عمل کو ایک تاریخیت کے ساتھ قبول بھی کرتا ہے اور اسے اظہار بھی اسی طرح دیتا ہے۔ ہاں غیر ِنبی کے مذہبی یا روحانی واردات و احوال کے بارے میں ولیم جیمز اور اقبال کا تجزیہ درست معلوم ہوتا ہے۔وہاں اس تجربے کی بناوٹ انبیاءکے برعکس داخلی ہی ہوتی ہے اور ان کے حوالے سے ہم یہ اعتماد سے کہنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ روحانی تجربات کو بھی نفسی واردات کی طرح clinically explain کیا جاسکتا ہے اور نفسیاتی تجربات علم میں ڈھلنے کی جتنی صلاحیت رکھتے ہیں اتنی ہی صلاحیت روحانی واردات کو بھی حاصل ہے۔ہم ان کی بنیاد پر بھی کسی علم میں کچھ نئی جہتیںاور کچھ نئے دلائل داخل کر سکتے ہیں۔لیکن ان کی اساس پر کوئی نیا دعوی ایجاد نہیں کرسکتے۔ پہلے سے موجود کسی علمی بیان ) knowledge statement (کی تاثیر میں اضافہ ضرور کر سکتے ہیں۔ مذہبی تجربے کو علم بنانے کی سعی کے پیچھے ایک بہت بڑا سمجھوتہ برسر ِعمل دکھائی دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے علم کی جدید تعریف کو قبول کرلیا ہے اور مذہب کو بھی اس تعریف کے دائرے میں لانا چاہتے ہیں۔یہ مذہب کو empiricize کرنا ہے جو کسی بھی درجے میں خود مذہب ہی کے لئے ناقابل ِقبول ہے۔یہ تمام کوشش بے بس ہو کر کی جا رہی ہیں اور ان کے نتیجے میں مذہب کو سکیڑنے کا رویہ لازما پیدا ہوتا ہے۔اقبال نے بھی مذہبی تجربے کو فلسفیانہ کسوٹی پر پرکھنے کا جو اہتمام کیا ہے اس میں کہیں بھی علم اور تیقن کی موجودہ ساختوں کو مسمار یادرست کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ انہیں معیار مان کر مذہبی حقائق و احوال کو ان کی سطح تک پہنچانے کا ڈول ڈالا گیا ہے۔یہ فرض کرنا بھی بہت عجیب لگتا ہے کہ ایمان بالغیب کی اساس پر تعمیر ہونے والی عمارت حواس تک محدود ہوجانے والے تیقن کے دائرے میں لائی جاسکتی ہے۔مذہبی واردات کی نفسیاتی اور عقلی تحلیل کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا کہ ہم مذہب سے تشکیل پانے والے مجموعی شعور کی روشنی میںعلم اور تیقن کی موجودہ conditions کو پرکھتے اور ان کی اصالت (principalization) کا وہ اہتمام کرتے جو مذہبی شعور اور روحانی تناظر کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔لیکن ہم نے بالکل مختلف کام کیا اور اس کا نتیجہ اب بھگت رہے ہیں۔مذہب اگر ہماری بنائی ہوئی دلالتوں کا مدلول نہیں ہے تو اسے ماننے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اقبال کا بیشتر تصور ِمذہب یہی ظاہر کرتا ہے کہ مذہب کو اپنی بقا کے لئے علمی طور پر empiricize ہونا ہوگا، اقداری سطح پر pragmaticہونا ہوگا اور اخلاقی طور پر utilitarian ہونا ہوگا۔
حاصل ِکلام یہ کہ Enlightenment Project کا ایک ہدف یہ تھا کہ ہر چیز کو humanize کر دیا جائے حتی کہ مذہب کو بھی۔ ولیم جیمز اور ان کے زیر ِاثر اقبال بھی اسی منصوبے کی تکمیل کے ذرائع کی حیثیت اختیار کرگئے۔مذہب کو سائنس،فلسفے، شاعری اور نفسیات کے جھنڈ میں داخل کردینے والا مزاج دراصل سائنس وغیرہ کو نہیں بدلنا چاہتا بلکہ مذہب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔یہ جدیدیت کے سب سے بڑے نعرے کو غیر متزلزل طریقے سے عمل میں لانے کی وہ لگن ہے جو انسان کے شعور اور زندگی پر اثرانداز ہونے یا ہوسکنے والے تمام معتقدات کو تجربیت بلکہ ارادیت کی سطح پر اتارنے کو اپنا مقصود ِاعظم بنا چکی ہے۔جدیدیت کا بنیادہ نعرہ تھا کہ انسان ہی سب چیزوں کی کسوٹی ہے۔انسان کا وجودی دروبست،وجود کے حدود اور حقائق کو متعین کرے گا اور انسان کا شعوری سانچہ چیزوں کی معلومیت کے حدود طے کرے گا۔ہر چیزکو خواہ وہ مابعد الطبیعی حقائق ہی سے کیوںنہ تعلق رکھتی ہو انسانی وجود کے حدود میں سمانا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ مذہب اور حالات میں تطبیق پیدا کرنے کی ہر علمی،تہذیبی اور شاعرانہ کوشش محض اس رخ پر ہے کہ مذہب کی حقیقت جو بھی ہو اس کا جواز بہرحال یہ ہے کہ وہ انسان کو اپنے اوپر حکم ماننا قبول کرے۔اس رویے نے نفس ِمذہب اور مذہبی حقائق کے خودساختہ versions کو بظاہر بڑی وسیع المشربی اور خوش دلی کے ساتھ قبول کر رکھا ہے لیکن یہ قبولیت بلکہ سرپرستانہ قبولیت صریح انکار سے زیادہ نتیجہ خیز اور موثر ہے۔
حواشی:
۱۔ اس روایت کا ایک مکمل بیان ولیم جیمز کے ہاں ملتا ہے۔ دیکھیے: The Reality of the Unseen: Lecture III The Varities of Religious Experience, pp 52-77.،
۲۔ انیسویں صدی میں انسان اور دنیا دونوں کو نئی تعریف دینے کا ہمہ گیر عمل صرف علمی شعبوں ہی میں جاری نہیں تھا بلکہ شعرو ادب اور دیگر فنونِ لطیفہ میں بھی اس کے واضح آثار نظر آتے ہیں۔ اس صورتِ حال کا ایک مجموعی جائزہ دیکھنے کے لیے دیکھیے: The Misninterpretation of Man, Paul Roubiczek.
۳۔ دیکھیے: “Kant: Man’s New Freedom”, The Misninterpretation of Man, pp 9-30.
۴۔ ولیم جیمز کی The Varities of Religious Experience میں اس کام کی تقریباً تمام اصولی بنیادیں فراہم کر دی گئی ہیں۔
۵۔ اس کاایک کثیر الجہت بیان ایرک فرام (Erich Fromm) کی کتاب Escape From Freedom میں دیکھا جاسکتا ہے۔
۶۔ دیکھیے: Alfred North Whitehead, Process and Relaity, Discussions & Applications, Chapter 1, Part 2. pp 39-60.
۷۔ دیکھیے: Psychology And Religion: The Basic Writings of C. G. Jung, pp 469-498.
۸۔ دیکھیے: “Nor is there any reason…………mutual rejuvenation”. Knowledge and Religious Experience. p 2.
کتابیات:
1۔سید نذیرنیازی (مترجم)، تشکیلِ جدید الہیات ِاسلامیہ، محمد اقبال، (مصنف)، ۲۱۰۲، لاہور: بزم ِاقبال
2. Bergson,Henry. Creative Evolution. New York: Random House, 1944
3. Fromm, Erich. Escape From Freedom. New York: Henry Holt & Co., 1994.
4. Iqbal, Allama Muhammad. The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 1989.
5. James, William. The Varities of Religious Experience. New Yotk: Penguin Americal Library, 1982.
6. Laszlo, Violet Stab Le (ed.). The Basic Writings of C. G. Jung. New York: Random House, 1959.
7. Roubiczek, Paul. The Misintrepretation of Man. London: Routledge and Kegan paul Ltd., 1949.
8. Whitehead, A. N. Process and Reality. New York: The Free Press, 1978.
(بشکریہ الحکمۃ، Volume 33 (2013) p.p. 37-48)
رشید صاحب اپنے خیالات سے آگہی فراہم کرنے پر بندہ آپکا بے حد ممنون ہے ۔
جزاک اللہ خیرا