Home » جدید مغربی فکر میں مذہب کی تفہیم
تہذیبی مطالعات فلسفہ مدرسہ ڈسکورسز

جدید مغربی فکر میں مذہب کی تفہیم

 

(مدرسہ ڈسکورسز کے ونٹر انٹنسو ۲٠۲٠ء کے مباحث کا مختصر جائزہ)

محمد جاوید اقبال

مدرسہ ڈسکورسز کا حالیہ ونٹر انٹینسیو (7 دسمبر تا  18 دسمبر2020 )حسب معمول اپنے اختتام کو پہنچا جس میں شرکاء نے  طے شدہ عنوانات پر اپنے مطالعے کے خلاصے پیش کیے۔یہ  پروگرام کل چار مرحلوں پر مشتمل تھا جس میں مختلف اہل علم و ارباب دانش نے مقررہ موضوعات پر روشنی ڈالی۔

جن اہم  علماء اور مسلم  دانشوروں کے افکار کا مطالعہ حالیہ سمسٹر کے دوران کیا گیا، ان میں  علامہ ابن خلدون،  علامہ ابن تیمیہ،  ابن کثیر، علامہ ابن حزم، شیخ محی الدین ابن عربی، امام غزالی،   شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ انور شاہ کشمیری،  علامہ سید سلیمان ندوی، سید ابو الاعلی مودودی،  سر سیداحمد خاں، ڈپٹی نظیر احمد، سید حسین نصر، ڈاکٹر زغلول النجار ، ڈاکٹر صبا محمود اور  ڈاکٹر طلال اسدجیسے  اہم نام  شامل ہیں۔ ان کے علاوہ مغربی مفکرین کی بھی ایک طویل فہرست ہے جیسے ولیم جیمس،  روڈلف اوٹو،  درخائیم، الیاڈے،  ہسٹن اسمتھ،  کلفورڈ گیرٹز  وغیرہ۔

پروگرام کا  دوسرا سیشن ڈاکٹر  جوشوا  لوپو  کی  قیادت میں  منعقد ہوا ۔دوسرے سیشن میں اس دفعہ ایک نئے تجربے سے گزرنے کا موقع ملا جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک انوکھی پہل تھی ۔   ڈاکٹر جوشوا نے  شرکا کو  سمسٹر کے دوران جن مفکرین کے افکار و نظریات پر گفتگو ہوئی تھی ، ان میں سے اپنے دو پسندیدہ   مفکرین  پر دو تین صفحات میں   اردو یا انگریزی میں ایک مختصر تاثراتی مضمون لکھنے کی ذمہ داری سونپی۔ ہر مضمون نگار کو متعلقہ مفکر کو پسند کرنے کی وجہ  نیزان کے افکار کی تلخیص پیش کرنا تھی ۔  شرکاء نے  مذکورہ بالا مسلم و غیر مسلم  مفکرین کے تعلق سے اپنے قیمتی تاثرات پیش کیے ، اپنے منتخب مفکرین کے افکار  کے جامع خاکے  تیار کیےاور  فکر کے جو پہلو  ان کی پسندیدگی کی وجہ بنے، ان کی وضاحت کی۔

واضح رہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں  منتخب موضوعات کے حوالے سے مسلم اور مغربی  مفکرین   کے افکار و نظریات پر مشتمل بعض منتخب تحریریں خواندگی کے لیے شرکا کو دی جاتی ہیں تاکہ ان کے فکر و فلسفہ سے ایک گونہ تعارف  و مناسبت ہوجائے اور بعد ازاں طلبہ اپنے طور پر  مزید مطالعہ کرسکیں۔   یہ تحریریں ظاہر  ہےمختصر ہوتی ہیں جو اس موضوع یا متعلقہ مفکر کی فکر کے تمام پہلو کا مکمل احاطہ نہیں کرتیں۔یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ نے اپنے اپنے پسندیدہ مفکرین پر جو تاثرات پیش کیے ، ان کا اسی تناظر میں جائزہ لیا  جائے۔

کچھ  احباب نے  بعض مفکرین کے تئیں  اپنی پسندیدگی  ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ  ان کے  افکار کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے بعض چیزوں سے اختلاف  بھی جتایا۔  بعض احباب نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، امام غزالی اور ابن خلدون کے  تعلق سے اپنے تاثرات لکھے اور ان کے علمی اور تجدیدی کارناموں کووجہ پسندیدگی بتایا جبکہ شرکاء کی اکثریت کا رجحان ڈاکٹر طلال اسد اور ڈاکٹر صبا محمود کی طرف نظر آیا۔ علاوہ ازیں ، ایک بڑی تعداد نے اوٹو، درخائیم ، ولیم جیمس ، گیرٹز اور الیاڈے کو چنا۔ ایک قلیل تعداد ایسی بھی رہی جنھوں نے نسبتاً کم معروف مفکرین  مثلاً  نصر حامد، اسٹیفن لاء، اور ہسٹن اسمتھ کے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی۔ انتخاب میں یہ تنوع  بے حد دلچسپ ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر ایک نے محض جذباتی جھکاؤ  یا سرسری جائزے کے بجائے  زیر بحث مفکر کے افکار کی  علمی حیثیت یاعملی افادیت کا سنجیدہ جائزہ لینے کے بعد ہی اپنی پسندیدگی ظاہر کی ہے۔

جن احباب نے شاہ ولی اللہ، امام غزالی یا علامہ ابن خلدون رحمہم اللہ کو چنا، ان کے پیش نظر ان عباقرہ کے تجدیدی کارنامے تھے۔  مثلاً، سید عبد الرشید شاہ ولی اللہ کو “جدید و قدیم کے مابین  ایک پل” قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول شاہ صاحب کی تحریروں میں کتاب و سنت کی دعوت کے ساتھ ساتھ فلسفہ و تصوف سے لگاؤ بھی نظر آتا  ہے۔ معجزات  کی بحث میں جو تاویل شاہ ولی اللہ  کی ہے، سید عبد الرشید  کے  خیال میں وہ تجرباتی سائنس سے قریب تر ہےجس سے لفظ بھی باقی رہتا ہے اور عقلی تاویل بھی۔ کائنات کی تفہیم کے سلسلہ میں ان کا منہج مشاہدہ سے زیادہ قریب ہے  اورشاہ صاحب کی یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی بنا پر وہ تمام مسالک و مکاتب میں  قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔  محمد نعیم ان کی  علمی تراث کو عہد جدید کے آغاز میں    اسلام کی ایسی جامع و مفصل تعبیر و تشریح گردانتے ہیں جس سے آج بھی کئی اسلامی تحریکیں فیض یاب ہورہی ہیں۔   اسی طرح، امام غزالی کے انتخاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے اسرار گل حقانی صاحب لکھتے  ہیں  کہ “غزالی نے فلسفہ میں اجتہادی، تنقیدی اور فکری کام کیا اور اسلامی الٰہیات میں ایک تجدیدی کارنامہ انجام دیا” اور اسی طرح موصوف نے ابن خلدون کے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی۔

جیسا کہ عرض کیا گیا، احباب کی اکثریت کی اولین پسند ڈاکٹر صبا محمود اور ڈاکٹر طلال اسد ہیں اوراس پسندیدگی کی وجہ ان دونوں  شخصیات کا علمی مقام و مرتبہ  ہے ۔  جدید افکار و نظریات کا علمی تجزیہ و تنقید، مذہب اور مذہبی اصطلاحات کی  مغالطہ انگیز تعریف و تشریح پر گرفت، عورت کی خود مختاری و آزادی  کے حوالے سے  تانیثی افکار کا جائزہ ، اسلامی معاشرہ میں خواتین کے حقوق و فرائض کو رائج سیکولر نقطۂ نظر کے بجائے متبادل زاویۂ نظر عطا کرنے کی سعئ  محمود، یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ یہ دونوں پسندیدہ قرار پائے بلکہ بعض احباب انھیں اہل مدرسہ کے لیے  اسوہ قرار دیتے ہیں ۔ سیف الہادی کی بھی اولین پسند مذکورہ دونوں مصنفین ہیں ۔  چنانچہ وہ ڈاکٹر صبا محمود  کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ سیکولیرٹی کے تھوپے ہوئے  اقدارکے حوالے سے معاصر علمی حلقوں میں پائی جانے والی آمنا و صدقنا کی روش  پر ان کی تنقید نیز متبادل اخلاقی ڈھانچوں کی تعیین وتبیین تکثیری معاشروں میں  اختلافات اور اظہار رائے کی آزادی کی فضا کو سازگار بنانے میں یقیناً معاون ہیں ۔

علاوہ ازیں، شرکاء کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی رہی جنھوں نے غیر مسلم مفکرین کو چنا اور ان کے افکار کو جزوی یاکلی طور پر اثر انگیز پایا۔ان میں سے  ایک اہم نام ولیم جیمس کا ہے۔ ولیم  جیمس کے افکار کا مطالعہ وتجزیہ  کرنے والے افراد نے  ان کی پیش کردہ مذہب کی تعریف  کو اپنی  پسندیدگی کی وجہ قرار دیاہے۔جیمس کے بقول مذہب  بنیادی طور پر ایک خالص روحانی کیفیت و وجدان کا نام ہے، ان کا بیان کردہ یہی نکتہ احباب کے لیے باعث التفات ہے۔ میڈیکل میٹریلزم پر تنقید نیز مذہب کے طبی و نفسیاتی تحلیل و تجزیہ کے بجائے    انسانی معاشرہ میں اس کے عملی نتائج کی روشنی میں تجزیے پر ارتکاز کی دعوت بھی جیمس کی فکر کے دلکش پہلو ہیں۔ نور الوہاب نے  جیمس کے افکار کی بہت عمدہ تلخیص پیش کی ہے چنانچہ میڈیکل میٹیریلزم پر جیمس کی تنقید پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ اپنے تاثرات میں جیمس کے اس نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ  کسی بھی نفسیاتی و روحانی تجربے کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے لئے کس چیز کو بنیاد بنانا پڑتا ہے؟ آیا اس نفسیاتی و روحانی تجربے کے داخلی احوال و کیفیات کو اس کی بنیاد قرار دیں گے یا خارج کی کسی چیزکو؟ میڈیکل میٹیریلزم کی رو سے اس روحانی تجربے کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے لئے بنیاد اس کے داخلی احوال و کیفیات کو بنایا جائے گا، کیونکہ انہی احوال و کیفیات سے یہ تجربہ پھوٹتا ہے۔ولیم جیمز اس نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے خارجی احوال و نتائج کو اس کی قدر و قیمت کے تعین کے لئے بنیاد قرار دیتے ہیں، کیونکہ اگر داخلی کیفیات ہی کی بنیاد پر اس کی قدر و قیمت کا تعین کرنا ہے تو اس صورت میں کوئی بھی فکر کسی خاص قدر و قیمت کی حق دار نہیں ہوسکتی، یہاں تک کہ سائنسی افکار و نظریات بھی کسی  خاص نفسیاتی احوال ہی کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں۔

جیمس کے انتخاب کی ایک اور اہم   وجہ جس کی طرف رخسانہ وڑائچ نے اشارہ کیا ہے، وہ یہ کہ جیمس نے ایسے وقت میں  مذہب کے تعلق سے اپنا یہ نظریہ پیش کیا جب  لوگ اس حد تک “سائنٹیفک” ہوئے جارہے تھے  کہ ہر وہ  شے مسترد کی جارہی تھی  جس کی کوئی  علمیاتی بنیاد فراہم نہ کی جا سکے ۔ جیمس  نے ایسے ملحدانہ ماحول میں مذہب کو جواز فراہم کیا جو بلاشبہ  اس کی کاوشوں کا ایک قابل ذکر پہلو ہے۔

دوسرے اہم مفکر درخائیم ہیں جن پر کئی احباب نے  عمدہ تبصرے پیش کیے۔  درخائیم  مذہب کو ایک سماجی ظاہرہ کے طور پر دیکھتے ہیں  جس میں کائنات مقدس و غیر مقدس  میں بٹی ہوئی ہے۔ نیز مذہب معاشرہ کے اجتماعی شعور  کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کی جڑیں تاریخی اور معاشرتی وقائع میں پیوست ہوتی ہیں۔  محسنہ کہتی ہیں کہ درخائیم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مذہب کی تہہ میں ایک سماجی ڈھانچہ  اور تنظیم پائی جاتی ہے۔خدیجہ  نوفہ   نے اپنے خلاصے میں   بیان کیا کہ درخائیم کے نزدیک  مذہب سماج کی انفرادی سوچ کے بجائے  اجتماعی شعور کی عکاسی کرتا ہے ۔ نیز رسومات در اصل بعض بنیادی مفاہیم و تصورات کے عملی مظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے نزدیک مذہب معاشرے کے لیے مکمل رہنمائی  کا کام کرتا ہے کیونکہ مذہب کی بنیاد میں سماجی شعور کار فرما ہوتا ہے۔ مذہب اس طریق زندگی کا نام ہے جس کی رہنمائی  میں  اولاً معاشرہ  کی تشکیل ہوتی ہے اور بعد ازاں  معاشرہ مسلسل  اپنی تشکیل نو اور   ارتقاء کے مراحل طے کرتا ہے ۔ باوجود ایک سماجی ظاہرہ قرار دینے کے درخائیم کے نزدیک بعض مذاہب آفاقی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

بعض شرکاء کے نزدیک اوٹو بھی ایک قابلِ ذکر مفکر ہیں اور وہ  کئی احباب کو بے حد پسند بھی  آئے۔  اوٹو  کے تعلق سے ظہور احمد وانی لکھتے ہیں کہ اوٹو کا کہنا ہے کہ  مذہب کو عقلیت پر پرکھنا اور جو چیز عقل میں نہ آئے اس کو مسترد کردینا درست رویہ نہیں ہے کیونکہ  مذہب کا بنیادی  عنصر عقیدت و اعتقاد کا  لامعقول احساس ہے جسے وہ ’’نومینس‘‘ کہتے ہیں۔  یہ ایک  ایسی کیفیت کا نام  ہے جس کو الفاظ کے ذریعہ بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر مذہب سے اس کو نکال دیا جائے تو وہ مذہب ہی نہیں رہے گا بلکہ اس کی حیثیت ایک عام فلسفہ یا نظریہ کی ہوگی۔  اوٹو کے نظریہ پر بعد احباب نے سوالات بھی قائم کیے ہیں۔

اس باب میں ایک اور اہم مفکر مرسیا ایلیاڈے ہیں  جنھوں نے اس مسئلہ کو ذرا مختلف نظر سے دیکھنے کی کوشش  کی ہے۔ اوٹو کی تحقیق عقلیت و لاعقلیت پر مرکوز تھی جبکہ ایلیاڈے    نے  مظاہر تقدیس کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا۔  ایلیاڈے کی فکر کا دلکش پہلو احباب کے لیے بطور خاص یہ تھا کہ انھوں نے   ایسے فکری ماحول میں جہاں تعقل  کی حکمرانی تھی  یہ جتانے کی کوشش کی کہ عقلیت  کی بنیاد  پر ہر عقدہ حل نہیں کیا جاسکتا۔

ایک اہم مفکر کلفورڈ گیرٹز بھی ہیں جو مذہب کا مطالعہ ایک تہذیبی نظام کے طور پر کرتے ہیں۔ مذہب ان کے نزدیک  علائم و رموز کےایک ایسے نظام سے عبارت ہے جو انسانوں میں  ایسے طاقت ور،ہمہ گیر اوردیر پاتصورات و جذبات پیداکرتا ہے جس سے ایک مکمل نظام حیات تشکیل پاتا ہے۔ نیز ان  جذبات و خیالات  پر حقیقت کا ایسا رنگ چڑھا ہوتا ہے کہ ان کے نتیجے میں جو افکار یا اعمال وجود میں آتے ہیں  ان پر بھی حقیقت کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔  اقدار و معانی کا یہ نظام جامۂ رموز میں  حیات و کائنات کی سبھی اہم گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتا ہے ۔

گیرٹز کا فلسفہ کافی دلچسپ ہے اور تہذیبی پہلو سے حقیقت سے قریب تر۔ تاہم صبا انجم گیرٹز کے  نظریہ کے بعض منفی پہلووں کی طرف اشارہ کرتی ہوئی لکھتی ہیں کہ گیرٹزنے جس طرح مذہب کی ایک تہذیبی اپروچ پیش کی ہےوہ قابل ستائش ہے اس کے باوجود ان کا فلسفہ ہےاعتراضات سےخالی نہیں ہے۔ انہوں نےمذہب کی اصل شناخت ہی رسومات اور کسی گروہ کی تہذیب کو بتا یا ہے جس کے تحت عقیدےکی بنیادکس چیزپرہےیہ بات ماند پڑجاتی ہے۔ کسی بھی مذہب کی تشکیل کی صورتیں اور جو عناصر انہوں نے پیش کئے ہیں اس میں ایک ہادی و رہنماکی حیثیت یا تو بالکل ہی نہیں ہے یا اگر ہے بھی  تو واضح نہیں ہے۔ کوئی مذہب کس طرح شروع ہوتا ہے اس کی بنیادکس طرح پڑتی ہے اس کےبارےمیں وہ کوئی واضح بات نہیں کرتے۔

علاوہ ازیں، محمد احمد جعفری نے ہسٹن اسمتھ  اور ان کے فلسفۂ جاوید(perennial philosophy)  کو سراہا ۔   جعفری کے بقول ہسٹن کا نظریہ تنگ نظری  پر مبنی ان تمام نظریات کے خلاف ایک زبردست تنقید ہے جن کی تعلیم و ترویج عالمی سطح پر جامعات اور علمی حلقوں کے ذریعہ ہو رہی ہے ۔  ان کے خیال میں ہسٹن کا فلسفۂ جاوید مختلف انسانی اکائیوں کے مابین مفاہمت و رواداری کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسمتھ کے بقول تمام موجودہ مذاہب اورتہذیبیں اس فلسفۂ جاوید اور تمدن عتیق کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ جعفری کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس سے زیادہ طاقت ور فلسفہ کوئی نہیں؛ اس قدیم ترین فلسفہ میں لچک بھی ہے اور انسانی دماغ کے لیے کشش بھی۔

طوالت کا خوف دامنگیر ہے  اس مختصر تحریر میں تمام شرکاء کے تجزیوں پر اظہار خیال ممکن نہیں ہے ۔ورنہ یہ حقیقت ہے کہ   تمام شرکاء اس کے مستحق تھے کہ ان کے تبصروں کا خلاصہ پیش کیا جاتا۔  تاہم نمونے کے طور پر حسب گنجائش  معدودے چند احباب کی گراں قدر تلخیصات کا سرسری جائزہ پیش کیاگیا  ہے  تاکہ شرکاء کے عمومی رجحانات کی ایک جھلک سامنے آجائے۔

 

مولانا جاوید اقبال

مولانا جاوید اقبال، دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں اور فری لانسر کی حیثیت سے اردو سے انگریزی ترجمے کی خدمات انجام دیتے ہیں۔
iqbalqasmi@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں