Home » چند اساتذہ کا ذکر خیر ۔ 1
احوال وآثار مدارس اور تعلیم

چند اساتذہ کا ذکر خیر ۔ 1

 

برادرم ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کی تحریر سے داعیہ پیدا ہوا کہ چند منتخب اساتذہ کا ذکر خیر کیا جائے جن سے تعلیمی زندگی کے مختلف مراحل  میں کسب فیض کا موقع ملا۔

تو بسم اللہ کرتے ہیں حفظ قرآن کے اساتذہ سے۔

حفظ قرآن

غالباً‌  1979 یا 1980 میں، جب میں چار یا پانچ سال کا تھا، گکھڑ سے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ منتقل ہوئے تو ایمن آبادی دروازے میں (میاں انعام الرحمن صاحب کے والد) علامہ محمد احمد لدھیانوی رح کے قائم کردہ حبیب کالج میں اسکول کی ابتدائی ایک دو کلاسیں (کچی اور پکی) پڑھنے کے بعد جامع مسجد میں حفظ کی کلاس میں داخل کروا دیا گیا۔ اس وقت قاری جمیل الرحمن کشمیری صاحب یہاں استاذ تھے، لیکن وہ جلد ہی سعودی عرب چلے گئے اور تقریبا تیس سال کے بعد واپس پاکستان آئے۔ ان سے شاید ایک آدھ پارہ ہی حفظ کیا ہوگا، لیکن معلوم نہیں کن اسباب سے ان کی یاد اور محبت نہ صرف میرے دل میں بھی تازہ رہی، بلکہ قاری صاحب نے بھی ہمیشہ یاد رکھا اور اب تک ان کی شفقت میسر ہے۔ آج کل غالباً‌ پیپلز کالونی گوجرانوالہ میں مقیم ہیں۔

قاری صاحب کے جانے کے بعد جامع مسجد میں ایک بحرانی سی کیفیت رہی اور ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں، پاکستان کے ابتدائی وزرائے اعظم کی طرح، کوئی دس بارہ اساتذہ آتے اور جاتے رہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے اب نام بھی ذہن میں نہیں، البتہ ایک استاذ ڈیرہ غازی خان کے قاری اللہ بخش صاحب نے نسبتاً‌ زیادہ وقت گزارا۔ ان کی محنت سے منزل بھی بہتر ہوئی اور مقدار بھی آگے بڑھی۔ قاری صاحب سے اس کے بعد زندگی میں ایک آدھ دفعہ ہی ملاقات ہوئی۔ معلوم نہیں، ان کے ذہن میں ہوگا یا نہیں، لیکن مجھے ان کا چہرہ، شریفانہ مزاج اور محنت خوب یاد ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ جہاں بھی ہوں، ان کو سلامت رکھے۔

حفظ کے آخری استاذ قاری محمد اسلم شہزاد صاحب تھے۔ ان کے آنے سے بحرانی صورت حال کئی سالوں کے لیے ختم ہو گئی۔ انھوں نے بڑی دل جمعی اور توجہ سے حفظ کی کلاس کو استحکام دیا، تعداد بڑھائی اور بہت محنت سے درجنوں طلبہ کی تحفیظ مکمل کروائی۔ فروری 1985 میں میرا حفظ قرآن بھی انھی کے پاس مکمل ہوا۔ حفظ کے رائج الوقت ضابطوں کے مطابق وہ سخت گیر بھی تھے اور ہم نے اساتذہ میں سے بس انھی سے مار کھائی ہے اور کافی کھائی ہے۔ کلاس کی سختی کے علاوہ ہماری غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے اور اس سارے عرصے میں کسی دوکان پر کھڑے ہو کر یا محلے کے ایک قریبی گھر میں ٹی وی پر کرکٹ میچ یا ریسلنگ دیکھتے ہوئے ہماری سانس خشک ہی رہتی تھی کہ اب اس کی شکایت ان تک پہنچ جائے گی۔

اسی دوران میں ان کا نکاح ہماری خالہ سے طے پا گیا اور وہ ہمارے خالو استاذ قرار پائے۔ ان کے بڑے دو بچے، ہما اور شیزی وہ پہلے بچے تھے جنھیں گود اٹھانے اور کھلانے ہنسانے کا ہمیں موقع ملا۔ قاری صاحب پھر کچھ سالوں کے بعد سعودی عرب چلے گئے اور تین چار سال پہلے پوری فیملی کے ساتھ امریکا منتقل ہو چکے ہیں۔ آج کل ورجینیا میں مقیم ہیں۔ میرے حفظ قرآن کی تکمیل، پھر دہرائی اور منزل کی پختگی وغیرہ کا اجر انھی کے کھاتے میں جاتا ہے۔ ہمارے اساتذہ میں پانی پتی لہجے کے وہ واحد استاذ تھے اور ہم انھی کے ذریعے سے اس لہجے سے روشناس ہوئے۔ فجزاہ اللہ خیر الجزاء

حفظ کے تعلق سے چند ایک مزید اساتذہ کا بھی یہاں ذکر ہونا چاہیے، گو کہ ان کے ساتھ تعلیمی تعلق نسبتاً‌ مختصر رہا۔

قاری عبد الجبار مجاہد صاحب جامع مسجد کے بحرانی دور میں یہاں حفظ کے لیے آئے تھے۔ نوجوان تھے اور انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے تھوڑے عرصے میں حفظ مکمل کر لیا۔ ان کی صلاحیت وقابلیت کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے یہیں ان کا بطور استاذ تقرر ہوا۔ میں بھی اسی کلاس میں تھا۔ پھر وہ بازار بھابڑہ میں مدرسہ فیض القرآن میں منتقل ہو گئے اور اب تک وہیں تحفیظ کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ سیکڑوں حفاظ کے استاذ ہیں اور حفظ کے معیاری اور نامور اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنے تدریسی تجربات پر مبنی ایک کتاب بھی انھوں نے شائع کی ہے۔

اسی دور میں چند ماہ کے لیے ہمارے چچا مولانا عبد الحق خان بشیر کا بھی بطور استاذ حفظ یہاں تقرر ہوا۔ ان کی کلاس کی خاص بات یہ یاد ہے کہ انھوں نے “نماز حنفی” نامی کتابچہ بھی نصاب میں شامل کیا اور ہم نے چھ کلمے، دعائیں اور نماز کے اذکار وغیرہ اسی کتابچے سے یاد کیے۔

قاری محمد اسلم شہزاد صاحب کے ساتھ بعد کے دور میں ایک دوسرے استاذ قاری محمد ادریس صاحب کا بھی تقرر ہوا جن کا تعلق رام رائیاں گاؤں سے تھا۔ پھر وہ بھی سعودی عرب چلے گئے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔ ان کے فرزند عزیزم محمد سرفراز مرحوم نے مجھ سے نصرت العلوم میں درس نظامی کے کچھ اسباق بھی پڑھے، لیکن تین چار سال قبل سعودی عرب میں ایک ٹریفک حادثے میں اس کی شہادت واقع ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مدرسہ انوار العلوم

1986 میں دہرائی وغیرہ کے بعد جامع مسجد کے ساتھ متصل مدرسہ انوار العلوم میں میرا داخلہ درس نظامی میں کروا دیا گیا۔ یہاں 1991 تک درجہ خامسہ تک کے اسباق مکمل کیے گئے اور اس دور کے سبھی اساتذہ کا ذکر کرنا بنتا ہے۔

درس نظامی کی ابتدا میں اس وقت تک فارسی باقاعدہ پڑھائی جاتی تھی۔ دوسرا اہم مضمون علم صرف اور علم نحو ہوتا ہے۔ یہ مضامین مجھے والد گرامی اور مولانا قاری جمیل احمد گجر صاحب سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

درس نظامی کے پہلے باقاعدہ استاذ مولانا جمیل احمد گجر صاحب تھے۔ پہلا سال ہم نے تقریباً‌ انھی سے کسب فیض کیا۔ علم صرف میں قانونچہ کھیوالی اور علم الصیغہ انھوں نے پڑھایا اور گردانوں اور قواعد کی مشق کروائی۔ فارسی کا قاعدہ اور فقہ کا منظوم رسالہ نام حق بھی انھی سے پڑھا۔ عربی گریمر اور فارسی کی تعلیمی بنیاد یوں مولانا جمیل احمد صاحب نے ہی رکھی۔ طبیعت کی سادگی اور محنت واخلاص میں نمایاں شخصیت ہیں۔ آج کل کنگنی والا میں جامعہ فرقانیہ میں اور غالبا نوشہرہ سانسی میں بھی مدرسہ فتاح العلوم میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

والد گرامی مدرسے کے نظام الاوقات کے لحاظ سے باقاعدہ تدریس نہیں کرتے تھے، بلکہ اپنی جماعتی وتنظیمی مصروفیات کی وجہ سے صرف فجر کی نماز کے متصل بعد دو تین اسباق اعزازی طور پر پڑھاتے تھے۔ عام طور پر ان کے پسندیدہ اسباق نور الانوار اور دیوان الحماسہ ہوتے تھے جو سینئر طلبہ پڑھتے تھے۔ لیکن مجھے انھوں نے خصوصی طور پر فارسی میں کریما سعدی اور شیخ عطار کا پندنامہ پڑھایا۔ اس کے علاوہ، ابتدائی مرحلے کے بعد، علم صرف میں مراح الارواح کا رسالہ ان سے پڑھا جس کا طریقہ قراءة عليه کا تھا، یعنی عبارت پڑھ کر اس کا مفہوم بیان کرنا میرے ذمے ہوتا تھا۔ صرف ونحو کے بنیادی قواعد کا اجرا میں نے انھی کی نگرانی میں پارہ عم کی سورتوں پر کیا۔ بعد کے سالوں میں اصول الشاشی، نور الانوار، مقامات حریری اور دیوان الحماسہ کے کچھ حصے بھی والد گرامی سے ہی پڑھے۔ ان کا انداز تدریس متن کے بنیادی مضمون کی تفہیم پر ترکیز کرتا تھا۔ زائد اور اضافی بحثیں اس میں بالکل شامل نہیں ہوتی تھیں۔

اللہ کا خاص کرم جہاں اچھے اساتذہ ملنے کی صورت میں ہوا، وہاں بعض اساتذہ نہ ملنے کی صورت میں بھی ہوا۔ یاد ہے کہ علم صرف کی ابتدائی تعلیم کے لیے شہر کے ایک ایسے مدرسے میں بھیجا جانا بھی زیر مشورہ آیا جہاں صرف کی تعلیم ایک خاص نہج پر دیے جانے کی شہرت تھی۔ لیکن معلم موصوف طبیعت کے اکھڑ پن، بد لحاظی اور پھکڑ بازی میں بھی خاص شہرت رکھتے تھے۔ گردانیں اور قواعد سکھاتے ہوئے طلبہ کو دوران درس میں ماں بہن کی فصیح وبلیغ گالیوں کا بھی اجرا کروایا جاتا تھا۔ میں اسے اللہ کا خاص فضل ہی سمجھتا ہوں کہ والد گرامی کے ذہن میں یہ آپشن آنے کے باوجود اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا اور مجھے انوار العلوم میں ہی داخل کروا دیا گیا۔

انوار العلوم میں دو اور اساتذہ کے ساتھ صرف تعلیمی نہیں بلکہ ایک ذاتی تعلق بھی قائم ہوا۔ یہ دونوں اساتذہ، حضرت مولانا سید عبد المالک شاہ صاحب اور حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحب، اب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالٰی بلند درجات اور حسنات کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین

سید عبد المالک شاہ صاحب بہت سادہ، مخلص اور محنتی بزرگ تھے۔ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ میں سرگرم تھے اور ساری عمر، کم وسائل اور سہولیات والی زندگی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ والد صاحب کے ساتھ، جو اس وقت درخواستی گروپ میں تھے، سیاسی اختلاف کے باوجود ذاتی دوستی بھی تھی اور ہمارے ساتھ چچاؤں والی شفقت برتتے تھے۔ پھر ان سے تلمذ بھی حاصل ہوا اور شرح جامی کا دوسرا حصہ جو مبنیات سے شروع ہوتا ہے، ان سے پڑھا۔

انوار العلوم میں غالب تعداد پٹھان طلبہ اور پٹھان اساتذہ کی ہوتی تھی اور اکثر اسباق پشتو میں ہوتے تھے۔ میرے کلاس میں ہونے کی وجہ سے شاہ صاحب کو یہ دقت رہتی تھی کہ وہ بات اردو میں شروع کرتے، لیکن درمیان میں غیر شعوری طور پر پشتو کی طرف منتقل ہو جاتے۔ پھر کچھ دیر کے بعد تنبہ ہوتا تو کہتے، اوہو میں تو پشتو میں گفتگو کرتا رہا۔ (میں بھی خاموش رہتا تھا، کیونکہ اردو میں کون سا شرح جامی کے مباحث آسانی سے سمجھ میں آتے تھے! ) زندگی کے آخری کئی سال مراد ٹرسٹ آئی ہاسپٹل کی مسجد کے خطیب وامام بھی رہے جہاں غالبا اب ان کے صاحب زادے یہی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

استاذ محترم حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ کو تقریباً‌ پینتیس برس تک صبح وشام دیکھا، جامع مسجد میں ان کے عوامی دروس سنے، ایساغوجی، تلخیص المفتاح، فصول اکبری، شرح جامی اور رضی علی الکافیہ جیسی فنی کتابوں کا درس لیا، اور آخری عمر میں ایم این اے بنتے ہوئے بھی دیکھا۔ سارے عرصے میں ان کی سادگی، شفقت اور تعلیم وتدریس سے والہانہ شغف میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ بچپن میں وہ مجھے ’’حافظ’’ اور رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعد ’’علامہ صاحب’’ کہہ کر پکارتے تھے، اور ان کے محبت وشفقت میں گندھے ہوئے انداز تخاطب کی یاد آج بھی کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔

اللہ تعالی استاذ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے ہزاروں تلامذہ ومتوسلین کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

2012 میں ان کی وفات پر ایک تفصیلی شذرہ لکھا تھا جو الشریعہ میں شائع ہوا۔

http://alsharia.org/2012/may/khatirat-ammar-nasir

اسکول کی تعلیم

1991ء میں، انوار العلوم سے مدرسہ نصرت العلوم کی طرف روانگی ہوئی اور 1994ء تک سادسہ، موقوف علیہ اور دورہ حدیث کے درجات کی تکمیل یہیں ہوئی۔ لیکن یہاں کے اساتذہ کے ذکر سے پہلے ایک اور استاذ کا ذکر فرض بھی ہے اور قرض بھی، کیونکہ ان کا کبھی ذکر نہیں ہوا۔

یہ ہمارے ماسٹر عبد الحمید صاحب ہیں جو بہت عرصے تک بازار بھابڑہ میں ڈاکٹر رشید چودھری مرحوم کے کلنک کے ساتھ والی گلی میں مقیم رہے اور اب کئی سال سے پیپلز کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔ گورنمنٹ سیکنڈری اسکول، شیخوپورہ موڑ میں تدریسی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ مجھے پرائیویٹ ٹیوشن دے کر میٹرک کا امتحان پاس کروانا ماسٹر عبد الحمید صاحب کی ہی عنایت خاص تھی۔

وہ زیادہ تر نمازیں جامع مسجد میں ادا کرتے تھے۔ والد گرامی کی گزارش پر انھوں نے مجھے شام کے اوقات میں تقریبا ایک گھنٹہ دینا منظور فرمایا اور تین سال تک آٹھویں جماعت سے لے کر دسویں تک انگریزی اور ریاضی کے مضامین کی ٹیوشن دیتے رہے تاآنکہ 1991 میں، میں نے میٹرک کا امتحان گوجرانوالہ بورڈ سے پاس کر لیا۔ لیکن اس کی صورت یہ تھی کہ انھوں نے ٹیوشن فیس قبول نہیں کی، وہ جامع مسجد میں ہی آ کر والد گرامی کے کمرے یا مسجد کے برآمدے میں مجھے ٹیوشن دیتے تھے اور ناغے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب کبھی چھٹی کا موڈ ہوتا تو کوئی حیلہ بہانہ کر کے مجھے ہی ان سے معذرت کرنی پڑتی تھی۔

پھر ایسا نہیں کہ وہ صرف والد گرامی کی گزارش کا پاس رکھنے کے لیے وقت گزاری کرتے رہے۔ حاشا وکلا۔ انھوں نے دونوں مضامین کی اتنی توجہ اور محنت سے تیاری کروائی کہ میٹرک میں مجھے انگریزی کے پرچے میں 150 میں سے 128 نمبر ملے اور اتنی استعداد بن گئی کہ اس کے بعد انٹر میڈیٹ اور بی اے کے امتحان کے لیے مجھے ٹیوشن کی ضرورت نہیں پڑی۔ میں نے خود ہی انگریزی کا نصاب پڑھ کر امتحانات دیے، یہاں تک کہ انگریزی ادب میں ایم اے کا ارادہ کیا تو بحمد اللہ اس میں بھی ایک دن کی بھی ٹیوشن نہیں لی۔

ماسٹر صاحب کے پاس 1988 میں بھی بائیسکل ہی تھی اور آج بھی جب بھی کہیں نظر آتے ہیں تو بائیسکل پر ہی نظر آتے ہیں۔خدا جانتا ہے، بے لوثی، خلوص اور دیانت وامانت کی ایسی مثال میں نے زندگی میں نہیں دیکھی۔ حیرت ہوتی ہے، ایسی مثالیں ہمارے دور میں بھی چلتی پھرتی موجود ہیں۔

اس سے پہلے حفظ کے دوران میں انگریزی کی تعلیم کی ابتدا قاری محمد اسلم رحمت صاحب سے کی تھی۔ انھوں نے مجھے اور ایک دو دیگر طلبہ کو Pick Me UP نامی ایک سیریز سے انگریزی پڑھانا شروع کی جس کے غالباً‌ دو تین حصے تھے۔ یاد نہیں کہ ان سے کتنے حصے ہم نے پڑھے۔ وہ نومسلم تھے۔ پھر ان کی شادی ایک مسلمان خاندان میں ہوئی۔ کئی سال کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔ واپسی پر تین چار سال قبل ان کے بھی انتقال کی خبر سننے میں آئی تھی۔ اللہ تعالٰی مغفرت فرمائے۔ آمین

ماسٹر عبد الحمید صاحب سے ٹیوشن شروع کرنے سے پہلے غالباً‌ کچھ ہفتوں کے لیے والد گرامی کی ہدایت پر جناب سید احمد حسین زید صاحب سے ساتویں اور آٹھویں کی ریاضی پڑھی تھی۔ وہ بھی ہمارے چچاؤں جیسے تھے اور اب بھی ہیں، سو یہ ٹیوشن بھی فیس کے بغیر تھی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے صحافی تھے اور ہفت روزہ ترجمان اسلام کے مدیر بھی رہے۔ گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول شیخوپورہ موڑ میں بطور استاذ کام کرتے رہے اور اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے ذمہ داران میں سے ہیں۔ ان دنوں میں مجلس کے دفتر واقع سیالکوٹی دروازہ میں شام کے اوقات میں بیٹھتے تھے اور وہیں میں ان سے ٹیوشن لینے کے لیے جاتا رہا۔

مدرسہ نصرۃ العلوم

1991 میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخلہ ہوا۔ یہ درجہ سادسہ کا سال تھا۔ یہاں کی بزرگ ترین علمی شخصیات یعنی دادا محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور ان کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ سے تو گھر کا رشتہ تھا۔ سو دونوں کی شفقت، محبت اور توجہ حاصل ہونا فطری تھا۔ دونوں بزرگوں کی شخصیت اور محبت وعنایت کے تفصیلی احوال ۲۰۰۹ء میں الشریعہ کی اشاعت خاص کے لیے لکھی جانے والی تحریر میں پیش کیے گئے ہیں۔ (لنک درج ذیل ہے)۔

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش – محمد عمار خان ناصر (alsharia.org)

لیکن یہاں جن اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا، وہ ان دونوں بزرگوں کے علاوہ بھی بہت سے تھے اور ان سب کا ذکر خیر یہاں ہونا چاہیے۔

عم مکرم حضرت مولانا رشید الحق خان صاحب عابد کا مشفقانہ تعلق پہلے بھی حاصل تھا، یہاں آنے کے بعد اس میں تلمذ کا پہلو بھی شامل ہو گیا۔ ان سے ہدایہ نکاح پڑھنی شروع کی، لیکن شاید دو تین مہینے کے بعد ہی وہ مدرسے سے رخصت ہو گئے۔ ان سے تلمذ کا دورانیہ تو مختصر رہا، لیکن انداز تدریس کی انفرادیت ذہن پر نقش ہے۔ زیر تدریس متن کے مضمون پر گرفت اور چند جملوں میں اس کا جوہر بتا دینے کا ملکہ جتنا ان کے ہاں دیکھا، کسی اور میں نہیں دیکھا۔ وہ بہت تیز رفتاری سے پڑھاتے تھے اور دو تین منٹ کے لیے بھی اگر توجہ ادھر ادھر ہوئی تو پانچ سات سطروں کا گزر جانا یقینی ہوتا تھا۔ لیکن اختصار کا مطلب تشنگی نہیں ہوتا تھا، بلکہ مسئلہ اور اس کا استدلال بہترین طریقے سے ذہن نشیں ہو جاتا تھا۔

یہ کمال انھوں نے دوران تعلیم میں غیر معمولی ریاضت سے پیدا کیا تھا۔ درس نظامی کے مشکل اور دقیق متون، مثلاً‌ التوضیح والتلویح وغیرہ انھوں نے خود اپنی محنت سے حل کر کے اساتذہ کو سنائے تھے۔ معقولات میں انھیں حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ اور حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحبؒ سے تلمذ حاصل تھا۔ البتہ مدرسے سے رخصت ہونے کے بعد وہ درس وتدریس یا تصنیف وتالیف کی طرف متوجہ نہیں ہوئے، بلکہ کلیتاً‌ تصوف اور روحانی مجاہدہ وریاضت میں مشغول ہو گئے اور اسی مناسبت سے خاندان اور ہمارے حلقے میں ’’پیر صاحب’’ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ والد گرامی ان کے متعلق عموماً‌ یہ کہا کرتے ہیں کہ دادا محترم کی اولاد میں ان کی جگہ سنبھالنے کی علمی صلاحیت اور استحقاق سب سے زیادہ ’’پیر صاحب’’ میں تھا، لیکن انھوں نے خود کو ضائع کر لیا۔ (ظاہر ہے، پیر صاحب کو اس رائے سے اتفاق نہیں ہوگا۔ )

نصرت العلوم میں ایک استاذ جن سے کافی طبعی اور ذوقی مناسبت ہو گئی، مولانا سیف الرحمن قاسم صاحب تھے۔ وہ کافی سال مکہ مکرمہ میں رہ کر آئے تھے اور عربی صرف ونحو کی تدریس کا ایک خاص ذوق رکھتے تھے۔ ان کا نصرت العلوم میں نیا نیا تقرر ہوا تھا۔ درس نظامی کا کوئی باقاعدہ سبق ان سے کون سا پڑھا، یہ ذہن میں نہیں لیکن علم صرف پر ان کی اپنی کتاب “مفتاح الصرف” ان سے میں نے سبقا” پڑھی۔ نحو کی مروج درسی کتب کے علاوہ دیار عرب میں مروج متون مثلا شرح ابن عقیل اور ابن ہشام کے متون دیکھنے کا ذوق انھوں نے ہی پیدا کیا۔ مغنی اللبیب کے علاوہ کافیہ کی کچھ دیگر شروح اور خصوصا” رضی کی شرح شافیہ وغیرہ بھی اسی کے بعد دیکھنا شروع کیں۔

مولانا قاسم صاحب کے ساتھ سالہا سال تک بہت اچھا تعلق رہا۔ ایک دفعہ ان کے ذاتی کتب خانے میں کچھ مکرر کتابوں کے نسخے بھی میں نے ان سے خریدے جن میں روح المعانی، نیل الاوطار، فتح القدیر لابن الہمام اور کچھ دیگر کتب شامل تھیں۔ استاذ محترم نے ادائیگی میں بہت سہولت دی اور غالبا” ڈیڑھ دو سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں نو یا دس ہزار روپے کی رقم ان کو تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کی گئی۔ (یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بیشتر کتابیں اور کئی دوسری محبوب کتابیں ایک موقع پر ایک دوست کی مدد کے لیے فروخت کرنی پڑیں۔)

البتہ اب کئی سال سے استاذ محترم کو میرے بعض نظریات اور وابستگیوں کی وجہ سے شدید ناراضی ہے جس کی نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی پر غیر مہذب اسلوب میں تنقید سے منع کرنے کے جرم میں میری اور والد گرامی کی تکفیر فرماتے ہیں اور بڑے اصرار سے ہمارے ارتداد کا فتوی دیتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں قادیانیوں کے مذہبی جذبات کو قانونی تحفظ حاصل ہونے کی بات کہنے والا مرزا صاحب کے دعوائے نبوت کو درست تسلیم کرتا اور انھیں نبیوں کی صف میں شامل کرتا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

مدرسہ نصرت العلوم میں ان دنوں میں تین پشتیں بیک وقت تدریس کرتی تھیں۔ حضرت شیخ الحدیثؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ سب سے بزرگ تھے اور تقریباً‌ باقی سب اساتذہ ان کے شاگرد تھے۔ ان سے تلمذ رکھنے والے سینئر بزرگوں میں حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد عیسی خان گورمانیؒ شامل تھے۔ شیخین کے ساتھ ساتھ ان دونوں بزرگوں سے تلمذ رکھنے والے اساتذہ میں عم مکرم مولانا عبد القدوس خان قارن، مولانا رشید الحق خان عابد، مولانا سیف الرحمن قاسم، مولانا محمد یوسف کشمیریؒ، مولانا پیر اشرف صاحب، مولانا عبد المہیمن ہری پوریؒ اور مولانا حبیب اللہ ڈیرویؒ وغیرہم شامل تھے اور ہماری پشت کو ان تینوں پشتوں سے کسب فیض کرنے کا موقع ملا۔

جن اساتذہ سے ہم نے پڑھا، ان میں سے اس وقت صرف عم مکرم مولانا عبد القدوس خان قارن بدستور تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مولانا رشید الحق صاحب ۱۹۹۱ء میں مدرسہ سے چلے گئے تھے، مولانا سیف الرحمن بھی اب کافی سال سے اپنے الگ ادارے میں کام کر رہے ہیں، جبکہ شیخینؒ، مولانا ہزارویؒ، مفتی محمد عیسیٰ خان صاحبؒ، مولانا محمد یوسف صاحبؒ، مولانا عبد المہیمن صاحبؒ اور مولانا حبیب اللہ ڈیرویؒ صاحب انتقال فرما چکے ہیں۔ غفر اللہ لہم ورحمہم

حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ، شیخین کے بعد سب سے بزرگ استاذ تھے۔ ان سے ہم نے موقوف علیہ میں ہدایہ ثالث اور دورہ حدیث میں صحیح بخاری جلد دوم کا درس لیا۔ لیکن ان کا خاص ذوق معقولات کا تھا اور وہ منطق وغیرہ کی کتابیں زیادہ اہتمام سے پڑھاتے تھے۔ اسی مناسبت سے برادرم مولانا ظفر فیاض صاحب (استاذ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم) نے ان سے تعطیلات میں منطق کی کسی کتاب کا درس لینے کی فرمائش کی جو انھوں نے منظور فرما لی۔ قطبی اور میر قطبی کا مطالعہ طے پایا اور ہم نے شاید دو تین ہفتے ان سے ان کتابوں کا درس لیا تھا۔

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ سینئر اساتذہ میں سے بھی تھے اور دار الافتاء کے صدر بھی تھے۔ ان سے ہم نے دیوان الحماسہ، محیط الدائرہ اور سراجی پڑھی۔ لیکن اپنی خاص شفقت سے انھوں نے مجھے انفرادی طور پر مدرسہ کی سالانہ تعطیلات میں اپنی کتاب ’’اعجاز الصرف’’ بھی سبقاً‌ پڑھائی۔ بہت مہربان اور شفیق بزرگ تھے۔ تفسیر میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے استفادہ کیا تھا اور ماشاء اللہ وسعت مطالعہ کے ساتھ بہت عمدہ استحضار بھی رکھتے تھے۔ بعد میں نوشہرہ سانسی میں مدرسہ فتاح العلوم کے نام سے الگ ادارہ بھی قائم فرمایا۔ نادر کتابوں اور مخطوطات کا بھی خاص ذوق رکھتے تھے اور ان کے ذخیرے میں کئی نایاب چیزیں موجود تھیں۔

حضرت مولانا محمد یوسف کشمیری ؒ بہت سادہ مزاج بزرگ تھے اور طلبہ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ ان سے ہم نے جلالین شریف اول پڑھی۔ شفقت کی وجہ سے دوران امتحان ان کا مسلک وہی تھا جو شیخ الادب مولانا اعزاز علی رح کا بتایا جاتا ہے، یعنی اگر کوئی طالب علم نگران سے کچھ پوچھ لے تو اس کو نہ بتانا کتمان علم میں آتا ہے۔ دوران سال کے امتحانی پرچوں میں طلبہ اچھے نمبروں کی فرمائش کرتے تو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے۔ پھر چائے بھی پلاتے اور طلبہ کے حسب خوشنودی نمبر بھی عنایت کرتے۔ کافی سال قبل انتقال فرما چکے ہیں۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ

عم مکرم مولانا عبد القدوس خان قارن زید مجدہم کو اب یہاں تدریس کرتے ہوئے کم وبیش نصف صدی ہو چکی ہے۔ تدریسی ملکہ، علمی قابلیت اور نہایت بلند آواز میں القائے دروس میں ممتاز ہیں۔ تصنیف وتالیف سے بھی اشتغال رکھتے ہیں اور مکتبہ صفدریہ کے عنوان سے حضرت شیخ الحدیث رح کی تصانیف کی اشاعت وطباعت کی انتظامی ذمہ داری بھی ربع صدی سے ان کے اور ان کے بچوں کے سپرد ہے۔ ہم نے ان سے میبذی، شرح عقائد، ہدایہ رابع اور دورہ حدیث میں سنن ابی داود کا درس لیا۔

مولانا حبیب اللہ ڈیروی ؒ علم حدیث کے فنی پہلوؤں مثلا احادیث کے طرق اور رجال وغیرہ سے خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ حضرت شیخ الحدیث سے ان کے جن چند تلامذہ کو یہ خاص ذوق منتقل ہوا، ان میں مولانا ڈیروی نمایاں تھے۔ ان کی بعض اختلافی موضوعات پر تصانیف بھی ہیں اور مدرسے میں متون حدیث کی تدریس بھی فرماتے تھے۔ ہمیں ان سے جلالین شریف دوم پڑھنے کی سعادت ملی۔ چند سال قبل اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں وفات پا چکے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

مولانا پیر محمد اشرف صاحب کے ذمے مدرسے کی لائبریری کا انتظام وانصرام تھا اور جزوی تدریس بھی فرماتے تھے۔ ہم نے ان سے آثار السنن اور کتاب الآثار للشیبانی پڑھی۔ آثار السنن کا انھوں نے اردو میں ترجمہ بھی شائع کیا تھا۔ دم درود اور تعویذ کا فن جانتے ہیں اور اسی مناسبت سے پیر محمد اشرف کہلاتے ہیں۔ اب کئی سال سے نصرۃ العلوم سے وابستہ نہیں، بلکہ گرجاکھ میں ایک مسجد ومدرسہ کا نظام چلاتے ہیں۔

برادر گرامی جناب مولانا حاجی محمد فیاض خان صاحب سواتی (مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم) نے بتایا ہے کہ جس سال میں نے دورہ حدیث میں شرکت کی، اس سال موطا امام محمد کی تدریس ان کو تفویض کی گئی تھی جو سال کے آخر میں گنتی کے چند دن ہی جاری رہی اور اس کا وقت بھی دن کے آخری حصے میں مقرر کیا گیا تھا ۔ شاید مختصر دورانیے کی وجہ سے مجھے کلاس کے ساتھیوں نے اطلاع نہیں دی یا پھر میری طرف سے ہی سستی ہوئی کہ میں ان اسباق میں شریک نہیں ہو سکا۔ بہرحال اس مناسبت سے جناب حاجی صاحب کا نام بھی ہمارے اساتذہ کی فہرست میں شامل ہے۔

ان کے علاوہ لالہ جی مولانا عبد العزیز صاحبؒ (فاضل دیوبند) اگرچہ تدریس نہیں کرتے تھے، لیکن ناظم امتحانات کے طور پر امتحانات منعقد کرنا اور خصوصاً‌ دورہ حدیث کے سال فضلاء کی اسناد تیار کرنا اور ان پر مختلف توصیفی کلمات اپنے قلم سے درج کرنا انھی کی ذمہ داری تھی۔ اس لحاظ سے ان کا شمار بھی اساتذہ میں ہی ہونا چاہیے۔

درجہ سادسہ اور موقوف علیہ کے سال میں مختلف ممتحنین تشریف لاتے رہے ہوں گے جن کا نام ذہن میں نہیں، البتہ دورہ حدیث کی مختلف کتابوں کا امتحان ہم نے جن ممتحنین کو دیا، ان میں سے مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ، مولانا محمد فیروز خان ثاقبؒ، مولانا حافظ مہر محمدؒ میانوالوی اور مولانا حافظ عزیز الرحمنؒ کے نام ذہن میں ہیں۔ یہ سب حضرات اب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور ایک درجے میں ان ممتحنین کا ذکر بھی اساتذہ کی فہرست میں بنتا ہے۔

مدرسہ نصرۃ العلوم کے اساتذہ کا ذکر مکمل ہونے کے بعد اب عصری تعلیمی اداروں کی طرف چلتے ہیں اور گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ اور شیخ زاید اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اساتذہ کا تھوڑا تھوڑا ذکر خیر ہوگا۔ ان شاء اللہ

(جاری)

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں