(یہ تحریر 24 دسمبر 2017ء کو اس وقت لکھی گئی تھی جب ہائی کورٹ نے شاہ رخ جتوئی کو ضمانت پر رہا کیا تھا۔ گذشتہ روز سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں حتمی فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس تناظر میں یہ تحریر دوبارہ پیش کی جا رہی ہے)
شاہ رخ جتوئی کیس کی بنیاد پر ایک بار پھر قصاص ودیت کے پاکستانی قانون ، اور پھر چھلانگ لگاکر اسلامی قانون، کے خلاف کئی لوگوں نے محاذ کھول دیا ہے۔ کوئی “انصاف کی نجکاری” کی دُہائی دے رہا ہے تو کوئی عدلیہ پر تبرا کررہا ہے اور سارے شور میں اصل سوالات پر بحث ہی نہیں ہوپارہی۔ اس سلسلے میں چند نکات پیشِ خدمت ہیں۔
قصاص و دیت کا قانون کیسے بنا؟
قصاص ودیت کا قانون پاکستان میں طویل مباحثے اور مذاکرے کے بعد وجود میں آیا ہے۔ یہ کسی “ڈکٹیٹر کا مسلط کیا گیا قانون” نہیں ہے، جیسا کہ بعض ناقدین مسلسل کہہ رہے ہیں۔ شاید یہ پاکستان کا واحد قانون ہے جسے قانون سازی کے مرحلے سے گزرنے میں اٹھارہ سال لگے اور ان اٹھارہ سالوں میں چھے حکومتوں کے ادوار آئے (نگران حکومتیں ان چھے حکومتوں کے علاوہ ہیں) ۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قصاص و دیت کے آرڈی نینس کا پہلا مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود آرڈی نینسز کے مسودات کےساتھ 1979ء میں ہی بنالیا تھا لیکن اس مسودے کو جنرل ضیاء الحق نے آرڈی نینس کی صورت میں نافذ نہیں کیا بلکہ یہ مختلف وزارتوں کے افسران کے درمیان ہی گھومتا رہا۔ پھر 1980ء میں کونسل نے دوسرا مسودہ بنا کے دے دیا ۔ اس پر بھی مختلف وزارتوں کے اعتراضات رہے تو تیسرا مسودہ 1982ء میں کونسل نے تیار کیا۔ وہ مسودہ وفاقی کونسل (جو اس وقت پارلیمان کا کام کررہی تھی) کو پیش کیا گیا اور دو سال مختلف کمیٹیوں میں زیربحث رہنے کے بعد بالآخر 1984ء میں منظور کیا گیا لیکن جنرل صاحب نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ 1984ء سے 1989ء تک کے دور میں (جب پہلے محمد خان جونیجو صاحب کی حکومت آئی اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی) یہ مسودہ سردخانے میں ہی پڑا رہا لیکن پھر حکومت کو مجبوراً اس پر بحث کرنی پڑی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ 1979ء میں گل حسن خان نامی ایک شخص نے پشاور ہائی کورٹ کی شریعت بنچ کے سامنے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان اور ضابطۂ فوجداری کی دفعات کو اس بنیاد پر چیلنج کیا تھا کہ ان دفعات کی رو سے قتل کے جرم میں معافی یا صلح کی گنجائش نہیں ہے، جبکہ شرعاً مقتول کے ورثا کو یہ حق حاصل ہے ۔ پشاور ہائی کورٹ نے 1980ء میں فیصلہ سنادیا کہ مذکورہ دفعات شریعت سے متصادم ہیں اور مقتول کے ورثا کو شرعاً معافی یا صلح کا حق حاصل ہے ۔ اس طرح کے کئی اور مقدمات دیگر ہائی کورٹس کے سامنے بھی موجود تھیں تو جنرل ضیاء الحق نے ہائی کورٹس کی شریعت بنچوں کو ختم کرکے ان کی جگہ ایک مرکزی عدالت “وفاقی شرعی عدالت” کے عنوان سے قائم کی اور یہ سارے مقدمات اس عدالت کو منتقل ہوئے۔ وفاقی شرعی عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے 1980ء میں محمد ریاض کیس میں تین – دو کی اکثریت سے وہی فیصلہ سنادیا جو گل حسن کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے سنایا تھا۔ وفاقی حکومت ان دونوں فیصلوں کے خلاف اپیل میں سپریم کورٹ میں گئی جہاں دیگر 9 مقدمات کے ساتھ ان 2 مقدمات کی بھی اکٹھے سماعت ہوئی اور 1989ء میں پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلے کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
اس فیصلے کی رو سے حکومت کو اس قانون میں تبدیلی کےلیے 23 مارچ 1990ء تک کا وقت دیا گیا ۔ پھر مذکورہ مدت میں حکومت کی مسلسل درخواستوں کے نتیجے میں اضافہ کیا جاتا رہا یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے ہاتھ کھڑے کردیے کہ مزید وقت نہیں دیا جاسکتا۔ اس دوران میں محترمہ کی حکومت ختم ہوچکی تھی ۔ چنانچہ غلام مصطفی جتوئی صاحب کی نگران حکومت نے ستمبر 1990ء میں قصاص و دیت آرڈی نینس جاری کروایا۔ یہ اس قانون کے نفاذ کی ابتدا تھی ۔
اکتوبر 1990ء میں میاں نواز شریف صاحب کی حکومت آئی تو اس آرڈی نینس کو نومنتخب قومی اسمبلی کے سامنے رکھا گیا جس نے اسے مختلف کمیٹیوں کے سپرد کیا اور ڈھائی سال بعد بالآخر جون 1993ء میں یہ مسودہ واپس قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جس نے جولائی 1993ء میں اس کی منظوری دی لیکن اگلے ہفتے قومی اسمبلی ہی تحلیل کردی گئی۔ انتخابات کے بعد پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی اور ان کے دورِ حکومت میں پارلیمان سے یہ مسودہ منظور نہیں کیا جاسکا۔ فروری 1997ء میں انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف صاحب کی حکومت آئی تو اپریل 1997ء میں بالآخر پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے قصاص و دیت کے ایکٹ کی منظوری دے کر اس قانون کو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کے سولہویں باب میں شامل کرلیا ۔
واضح رہے کہ ایکٹ کی صورت میں نافذ ہونے سے قبل اسے اکیس دفعہ (جی ہاں اکیس دفعہ!) آرڈی نینس کی صورت میں جاری کرنا پڑا۔ اتنے طویل مذاکرے، مباحثے اور مکالمے کے دوران میں اس قانون میں مختلف ترامیم بھی کی گئیں ۔ یہ بھی واضح رہے کہ ترامیم کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا جن میں بالخصوص جنرل مشرف کے دور میں 2005ء میں کی گئی ترامیم اہم ہیں۔ بعد میں بھی ترامیم ہوتی رہیں تاآنکہ بالآخر یہ قانون اس شکل میں آیا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔
“انصاف کی نجکاری”؟
یہ اعتراض کہ اس قانون کے ذریعے مقتول کے ورثا کا حق مان کر انصاف کی نجکاری کی گئی ہے ، اس مفروضے پر مبنی ہے کہ جرم ریاست کے حق کی خلاف ورزی کا نام ہے ۔ انگریزی قانون کا یہ مفروضہ اپنی مطلق حیثیت میں اسلامی قانون کی رو سے صحیح نہیں ہے۔
انگریزی قانون میں قانون کی خلاف ورزیوں کو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے : فرد کے قانونی حق کی خلاف ورزی (ایسی خلاف ورزی کو ٹارٹ اور ایسے مقدمے کو سِول مقدمہ کہا جاتا ہے) اور ریاست کے حق کی خلاف ورزی (ایسی خلاف ورزی کو کرائم اور ایسے مقدمے کو کریمینل مقدمہ کہا جاتا ہے۔ ) سول کیس میں دعوی دائر کرنے کا اختیار متاثرہ فرد کے پاس ہوتا ہے ، ثابت کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کے ساتھ سمجھوتا کرنے کا یا اسے معاف کرنے کا اختیار بھی اس کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کریمینل کیس میں مقدمے کا حق ریاست کےلیے مانا جاتا ہے ، جرم کا ثابت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا دی جاتی ہے ، خواہ جرم سے براہِ راست متاثر ہونے والا فرد اسے معاف کرنا چاہے۔ اس تصور کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جرم سے براہِ راست متاثر ہونے والا شخص ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے اور انگریزی قانون اپنی اصل شکل میں اسے پہنچنے والے نقصان کی تلافی کےلیے کوئی راستہ نہیں بتاتا۔
اسلامی قانون میں اس کے برعکس یہ ضروری نہیں کہ ہر جرم کو نظمِ اجتماعی کے حق کی خلاف ورزی قرار دیا جائے؛ بلکہ اسلامی قانون کی رو سے کرائم کی تین بنیادی قسمیں ہیں: اللہ کے حق کی خلاف ورزی (ایسے جرائم کی سزا کو حدود کہتے ہیں) ؛ فرد کے حق کی خلاف ورزی (ایسے جرائم کی سزا کو تعزیر کہتے ہیں) اور نظمِ اجتماعی کے حق کی خلاف ورزی (ایسے جرائم کی سزا کو سیاسہ کہتے ہیں) ۔ کبھی ایک ہی جرم سے دو مختلف حقوق بیک وقت متاثر ہورہے ہوتے ہیں تو پھر اسے دیکھا جاتا ہے کہ کون سا حق غالب ہے؟ قصاص کے متعلق فقہاے کرام کہتے ہیں کہ اس میں حق اللہ بھی ہے اور حق العبد بھی لیکن حق العبد اس میں غالب ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ متعلقہ فرد کے پاس مجرم کی معافی کا اختیار ہے لیکن وہ معاف نہ کرے تو پھر اس سزا کا نفاذ لازم ہے۔ (حدود میں کسی کے پاس معافی کا اختیار نہیں ہوتا ، اس لیے انھیں حقوق اللہ کہا جاتا ہے)۔
اسلامی قانون کے ان تصورات کا ایک اہم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فوجداری مقدمات میں بھی متاثرہ فریق کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی مجرم کی جانب سے کی جاتی ہے۔ چنانچہ مجرم (یا اس کے اعوان و انصار کو ، جنھیں عاقلہ کہا جاتا ہے) مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ متاثرہ فریق کو دیت ادا کردے، یا اگر زخمی کیا ہے تو ارش ادا کردے۔ واضح رہے کہ اسلامی قانون کا یہ تصور (جرم کے متاثرین کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی) کو اب مغربی ممالک اپنے قوانین میں ، بلکہ بین الاقوامی قانون میں بھی ، رائج کرنے کی سعی کررہے ہیں۔
اسلامی قانون کے ان تصورات کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ مجرم اور متاثرہ فریق کے درمیان مزید دشمنیوں کا سدباب ہوجاتا ہے اور جرم درجرم کا سلسلہ رک جاتا ہے ۔ یہ بھی یاد دلاؤں کہ مغربی ممالک بھی فوجداری قوانین میں plea bargain اور out of the court settlement کے تصورات اگر ایک جانب عدالت میں مقدمات کا بوجھ کم کرنے کےلیے ہوتے ہیں، ویسے ہی معاملہ کسی طرح ختم کرنے کےلیے بھی ہوتاہے۔ تاہم اس میں یہ امکان ہوتا ہے کہ طاقتور فریق نظامِ عدل کا مذاق نہ بنالیں۔
فقہاے کرام اس معاملے کو یوں دیکھتے ہیں کہ کیا کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں نظمِ اجتماعی کا حق بھی متاثر ہوجائے اور اس بنا پر مقتول کے ورثا کے معاف کردینے کے باوجود عدالت مجرم کو سزا دے سکے؟ اس کا جواب فقہاے کرام اثبات میں دیتے ہیں اور وہ کئی صورتیں ذکر کرتے ہیں جن میں وہ قرار دیتے ہیں کہ یہ جرم محض قتل کا جرم نہیں تھا بلکہ عمومی فساد کے زمرے میں آتا ہے اور اس وجہ سے اس جرم پر سیاسۃً سزا دی جاسکتی ہے۔ بلکہ بعض سنگین صورتوں میں وہ تصریح کرتے ہیں کہ ان صورتوں میں سیاسۃً سزاے موت بھی دی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں رائج قانون میں بھی یہ اصول مانا گیا ہے۔ چنانچہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 311 میں تصریح کی گئی ہے کہ اگر جرم محض قتل نہیں ہے بلکہ اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے تو عدالت مجرم کو تعزیری سزا دے سکتی ہے، خواہ مقتول کے تمام ورثا نے اسے معاف کردیا ہو۔ 2005ء میں کی گئی ترمیم کے بعد سے عدالت تعزیری سزا کے طور پر سزاے موت بھی سے سکتی ہے۔
اگر اسلامی اور پاکستانی قانون کی رو سے صورتِ معاملہ یہ ہے تو پھر کیسے طاقتور فریق سزا سے بچ جاتے ہیں؟ اس سوال پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مسئلہ قصاص و دیت کے اسلامی یا پاکستانی قانون میں نہیں بلکہ کہیں اور ہے۔
مسئلہ کہاں ہے؟
مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کےلیے چند حقائق پر غور کریں۔
شاہ رخ جتوئی کیس کی ابتدا میں مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ہی سناجس نے شاہ رخ جتوئی کو سزاے موت سنادی۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت ہائی کورٹ میں ہوئی اور وہاں یہ قرار دیا گیا کہ چونکہ جرم کے وقت شاہ رخ جتوئی ‘نوخیز نوجوان ‘(juvenile) تھا اس لیے اس پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ اس بنا پر مقدمہ اور ساری کارروائی غلط قرار پائی اور ہائی کورٹ نے مقدمہ واپس نیچے بھجوادیا تاکہ سیشن عدالت عام فوجداری قانون کی رو سے اس مقدمے کی سماعت کرے۔ سیشن عدالت میں اب مقدمہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات کے تحت چلایا گیا اور استغاثے نے فساد فی الارض کی دفعہ 311 مقدمے میں شامل ہی نہیں کی ۔ سیشن عدالت میں مقتول کے والد نے مجرم کی معافی کا اعلان کیا تو قصاص کی سزا دینی ممکن نہیں رہی۔ استغاثے کے پاس یہ آپشن تھا کہ وہ تعزیری سزا کےلیے دلائل دیتی لیکن استغاثے کی جانب سے راضی نامے اور مجرم کی ضمانت پر رہائی پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ چنانچہ عدالت کے پاس مجرم کو ضمانت پر رہائی کا حکم دینے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔
اب ان حقائق کی روشنی میں دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ مسئلے کی جڑ قصاص و دیت کے قانون میں نہیں ، بلکہ درج ذیل تین امور میں ہے:
اولاً حقوقِ انسانی کے بین الاقوامی قانون کے دباو کی وجہ سے پاکستانی قانون میں ‘نوخیز مجرموں’ کےلیے تخفیف کا عنصر لیکن ظاہر ہے کہ حقوقِ انسانی کے بین الاقوامی قانون پر تنقید کم از کم ان لوگوں کے بس میں نہیں ہے جو ہر معاملے میں اسلامی قانون کو ہی مسائل کا سبب گرداننے کے عادی ہوچکے ہیں ۔
ثانیاً استغاثے کی کمزوری جس کی بنا پر مقدمہ پہلے غلط عدالت میں چلایا گیا ، پھر جب قانوناً صحیح عدالت میں آیا تو وہاں وہ دفعات شامل ہی نہیں کی گئیں جن کی رو سے مجرم کو قصاص کی معافی کی صورت میں بھی تعزیر کی سزا دی جاسکتی تھی اور جب عدالت میں راضی نامہ پیش کیا گیا تو استغاثے نے ضمانت پر رہائی پر کوئی اعتراض ہی نہیں کیا ؛
ثالثاً : پاکستان کا عدالتی نظام adversarial ہے جس میں جج اپنی جانب سے الزامات یا دفعات میں اضافہ نہیں کرسکتا ، نہ ہی وہ ایسے شواہد طلب کرسکتا ہے جو استغاثے نے پیش نہیں کیے اور اس کا فائدہ ملزم کو ہوا ۔ اس وجہ سے جج کو صرف ان الزامات تک محدود رہنا پڑتا ہے جو استغاثہ اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور ان الزامات کے ثبوت کےلیے وہ صرف انھی شواہد کی طرف دیکھ سکتا ہے جو استغاثے نے اس کے سامنے پیش کیے ہوتے ہیں ۔ اس لیے بعض اوقات جج کو اگر نظر بھی آئے کہ ملزم نے کسی اور جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کا الزام استغاثے نے نہیں لگایا تو جج اپنی جانب سے کچھ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر جج محسوس کرے کہ استغاثے کے پاس ملزم کے خلاف ثبوت ہے لیکن وہ پیش نہیں کررہی تو جج کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ ملزم کو تو معصوم فرض کیا جاتا ہے جب تک استغاثہ اس کا جرم ثابت نہ کرے۔ اس نظام کی وجہ سے فوجداری مقدمے کا سارا کنٹرول جج کے ہاتھ میں نہیں بلکہ استغاثے کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔
اسلامی قانون میں قاضی کے پاس وہ اختیارات ہوتے ہیں جو معاصر دنیا میں ان نظام ہاے قوانین میں جج کے پاس ہوتے ہیں جنھیں inquisitorial system کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر استغاثے کی کمزوری کی بنا پر مجرم کے بچ نکلنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں کیونکہ اس نظام میں مقدمے کا کنٹرول استغاثے کے پاس نہیں ، بلکہ قاضی/جج کے پاس ہوتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اسلامی قانون کی رو سے قاضی کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ دو فریقوں کے درمیان تصفیہ کرے بلکہ اس کا اصل کام عدل کی فراہمی اور کمزور فریق کے حق کا تحفظ ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں انگریزوں کی جانب سے نافذ کردہ adversarial system میں جج بے چارے کے ہاتھ پیر بندھے ہوتے ہیں اور پھر جب نظام کی اندرونی خامی کی بنا پر مجرم چھوٹ جاتا ہے تو ملبہ بھی جج پر ہی گرایا جاتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ شاہ رخ جتوئی فی الحال ضمانت پر رہا ہوا ہے اور ابھی اصل مقدمے کا فیصلہ باقی ہے ۔ اس لیے اگر جذباتی نعروں سے فرصت ملے تو اس بات کی طرف توجہ دیں کہ استغاثے کی کمزوری کی وجہ سے اس کے ‘باعزت بری’ ہونے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔
کمنت کیجے