ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ قانون کے سربراہ رہے ہیں۔ قانونی و فقہی حوالے سے ڈاکٹر مشتاق صاحب کی مہارت اہل علم سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان میں رویت ہلال کے مسئلہ کے بارے میں کافی چہ میگوئیاں ہوتی رہتی ہیں اور اس بارے میں عوام تو کیا کئی خواص بھی اس کی پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مسئلہ کا مختلف پہلوؤں سے احاطہ کیا ہے جس کو کتاب محل لاہور نے “رویت ہلال: فقہی و قانونی تجزیہ” کے نام سے شائع کیا ہے۔
کتاب کا پیش لفظ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ ایک اسلامی ملک یا کم از کم مسلم ملک میں بہت سے معاملات میں حکومت ہی اتھارٹی ہوتی ہے۔ مولانا نے بتایا ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے قیام سے پہلے گوجرانوالہ کی جامع مسجد کی رویت ہلال کے بارے میں وہی حیثیت تھی جو مسجد قاسم علی خان کی ہے، مگر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے قیام کے بعد اس کی رونقیں ختم ہو گئیں۔
کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر مشتاق صاحب نے اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتایا کہ ان کے دادا مفتی مدرار اللہ نقشبندی عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ زونل رویت ہلال کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ اس لحاظ سے رویت ہلال کے مسئلہ سے ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی بچپن سے تھی۔ دادا کے انتقال کے بعد ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ان کی اس مسئلہ سے دلچسپی کم ہو گئی مگر بعد میں ڈاکٹر صاحب کے عم محترم پروفیسر عبدالمعبود صاحب جو کہ ڈاکٹر صاحب کے استاد بھی ہیں نے اس مسئلہ پر توجہ دلائی ۔ ایک دلچسپ بات ڈاکٹر صاحب نے لکھی کہ ان کے عم محترم مکتب فراہی سے متاثر تھے، ڈاکٹر صاحب فکر غامدی کے اوپر نقد بھی کرتے رہتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مکتب فراہی سے ان کا خاندانی رشتہ ہے۔
اپنے مقدمے میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب کی مباحث کو جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ جس کو پڑھنے سے کتاب کو پڑھنے کا شوق مزید بڑھ جاتا ہے۔ یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے اپنے مقدمے میں ڈاکٹر صاحب نے ہر باب کے موضوعات کو مختصراً بیان کیا ہے۔
پہلے باب میں رویت ہلال کے فیصلے کے اختیار اور رویت ہلال کی شرائط کو ذکر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے شروع میں ہی بہت واضح کر دیا ہے کہ کسی غیر سرکاری کمیٹی کے پاس شرعاً یہ اختیار نہیں ہے کہ رمضان و عیدین کے متعلق اپنا فیصلہ عامتہ الناس پر نافذ کرے۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ فقہاء نے رمضان اور عید (یعنی شوال) کے چاند کی رویت کے احکامات میں فرق کیا ہے۔ رمضان کے چاند کی رویت کی خبر کو روایت جبکہ شوال کے چاند کی رویت کو شہادت قرار دیا گیا ہے۔ رویت اور شہادت میں آگے ڈاکٹر صاحب نے فرق کو بیان کیا ہے کہ رویت میں قاضی کے سامنے بیان دینا ضروری نہیں جبکہ شہادت میں ضروری ہے۔ رویت ہر اس شخص کی قبول کی جاتی ہے جو کہ بظاہر عادل ہو جبکہ شہادت اس وقت قبول کی جاتی ہے جب گواہ قابلِ اعتماد ثابت ہو۔ رویت میں مرد و عورت ، غلام و آزاد سب کی خبریں قبول ہیں مگر شہادت میں دو عورتوں کی شہادت مطلوب ہے، ایسے ہی آزاد کی گواہی قبول ہے مگر غلام کی نہیں مطلب رویت میں شہادت کی نسبت کافی نرمی پائی جاتی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ رمضان کے چاند کے لیے غیر ضروری جرح ناجائز جبکہ عید کے چاند کے لیے جرح ناصرف جائز بلکہ ضروری ہے۔رویت کے لیے نصاب کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ اس میں دیکھا جائے گا کہ مطلع صاف تھا یا نہیں ، دوسرا راوی باہر کسی شہر یا ایسے مقام سے تو نہیں آیا جہاں رویت کا امکان زیادہ غالب تھا۔ اگر مطلع ابر آلود تھا تو حاکم ایک گواہ کی رویت بھی قبول کرے گا اگر موسم صاف ہو کثیر تعداد میں لوگوں کا رویت کی شہادت دینا ضروری ہے۔ یہ کثیر تعداد کی وجہ اس لیے ہے کہ ممکن ہے ایک دو آدمی چاند دیکھنے میں غلطی کریں، البتہ حنفی فقہاء میں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ایک شاگرد حسن بن زیاد رحمہ اللہ نے یہ روایت کی ہے کہ مطلع صاف ہونے کے باوجود رویت کے لیے ایک مرد یا دو عورتوں کی گواہی کافی ہے۔ یہی بات علامہ ابنِ نجیم حنفی رح اور علامہ ابنِ عابدین شامی رح نے کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ جب لوگ چاند دیکھنے میں کاہلی کریں تو اس رائے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس رویت ہلال شوال چونکہ شہادت میں آتا ہے یہاں پر گرد الود موسم میں فقہاء نے ایک کی بجائے دو گواہوں کی شرط رکھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے رمضان کا چاند دیکھا اس پر واجب ہے کہ وہ روزہ رکھے بھلے حاکم اس کی رویت کو قبول نہ کرے جبکہ اس کے برعکس اگر اس نے شوال کا چاند دیکھا اور اس کی شہادت حاکم نے قبول نہیں کی تو وہ اگلے دن روزہ رکھے ۔
وہ علاقے جہاں پر حکمران مسلمان نہیں یعنی مسلم ریاست نہیں ہے اور حکومتی سطح پر رویت ہلال کا انتظام کا کوئی اہتمام نہیں ہے تو وہاں کے معتبر علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ رویت ہلال کا فیصلہ کریں گے۔ اس لیے یہاں پر باامر مجبوری رویت کی شرائط مختلف ہو جاتی ہیں۔ مگر یہ صورتحال غیر مسلم حاکم کے متعلق ہے۔ بعض لوگ مسلم حکمران کے حکم کو بھی ضروری نہیں سمجھتے اس مؤقف کو ڈاکٹر صاحب نے کمزور قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ رمضان کے فیصلے کے لیے بیشک حکم حاکم ضروری نہ ہو لیکن جب حکمران نے اس کے بارے میں فیصلہ کر دیا تو سب پر اس کی پابندی لازم ہو گی خواہ حاکم کا فیصلہ بعض فقہاء کے مسلک کے مطابق غلط ہو۔
جیسے کہ پہلے یہ بات گزر چکی کہ رمضان کے چاند کی رویت کی قبولیت کے لیے شرائط میں نرمی ہے۔ لیکن اگر تیس روزے گزرنے کے بعد صاف موسم میں بھی چاند دکھائی نہ دے تو جس کی گواہی پر روزے رکھے گئے تھے اس کے لیے فقہاء نے تعزیری سزا کی تصریح کی ہے کیونکہ اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا۔
جہاں تک مسلم ممالک میں رمضان و عیدین کے اعلان کا تعلق ہے تو یہ حق حکمران کے پاس ہے۔ اس لیے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ حاکم چاہیے عادل ہو یا فاسق بلکہ اگر وہ کافر بھی ہو تو اس کی جانب سے قاضی کا تقرر کرنا جائز ہے۔ قیام پاکستان کے بعد رویت ہلال کا مسئلہ حکومت پاکستان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ اس لیے علماء نے بڑھ کر یہ ذمہ داری لی، ۱۹۵۴ میں مفتی محمد شفیع صاحب نے قاسم العلوم ملتان میں علماء کا اجلاس بلایا جس کے نتیجے میں ‘زبدۃ المقال فی رویته الھلال’ کے نام سے فتوی تیار کیا۔ اب پاکستان میں مسلمانوں کی حکومت ہے اس لیے ان کا فیصلہ جس کی اہل علم نے تصدیق کی ہو نافذ العمل اور واجب الاتباع ہے۔ بھلے حکمران شرعی احکام سے واقفیت نہ رکھتے ہوں یا وہ شریعت کے معیار پر پورا نہ اترتے ہوں۔ اس لیے فقط مرکزی اور صوبائی رویت ہلال کمیٹیاں ہی قانونی و شرعی اختیار رکھتی ہیں کہ وہ رمضان اور عیدین کا اعلان کریں۔
دوسرے باب میں فلکی حسابات کے اعتبار و عدم اعتبار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بہت درست بات کی کہ ہمارے ہاں دو انتہاء پر لوگ پائے جاتے ہیں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو سائنسی تحقیقات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ہیں جو سرے سے اس کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جو لوگ سائنسی تحقیقات کے حامی ہیں ان میں سے کئی لوگ علم فلکیات سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اس کے نمونے کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے ایک اخبار سے پیش کیے ہیں
ڈاکٹر صاحب نے فلکی حساب اور شہادت کے توافق و اختلاف کے بارے میں چار صورتیں ذکر کی ہیں۔ جن میں دو کے بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں۔ایک یہ کہ فلکی حساب سے رویت ناممکن ہو اور پھر رویت کی شہادت بھی نہ ملے۔ دوسری یہ کہ فلکی حساب سے رویت ممکن ہو اور رویت کی شہادت بھی مل جائے۔ان دونوں صورتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہو گا۔
تیسری صورت یہ ہے کہ فلکی حساب سے رویت ممکن ہو مگر کوئی شہادت موصول نہ ہو۔ جبکہ چوتھی صورت یہ ہے کہ فلکی حساب سے رویت ناممکن ہو لیکن رویت کی شہادت آ جائے۔ ان دونوں مسائل کا ڈاکٹر صاحب نے تفصیلی جائزہ لیا ہے اور ماہرین فلکیات کی رائے کی قانونی و فقہی حیثیت پر گفتگو کرنے کے بعد بتایا ہے کہ تیسری صورت میں اگر رویت نہیں ہو سکی تو شرعاً اگلا مہینہ شروع نہیں ہو گا جب تک کوئی اس پر شہادت نہ موصول ہو۔ جبکہ چوتھی صورت میں فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر مطلع صاف ہو اور گواہی قابل قبول ہو تو اس پر اعتماد کیا جائے گا مگر ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی ہے کہ اب چاند کی پیدائش کے حوالے سے فلکی حساب سے یقینی طور پر معلوم کیا جا سکتا ہے اس لیے ان امور کا انکار قطعیات کے انکار کے مترادف ہے اس لیے اگر سائنسی اعتبار سے رویت ناممکن ہو تو پھر حاکم یا قاضی کو شہادت کو قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ قطعیات کے انکار پر ہے۔
جو فقہاء ماہرین فلکیات کی رائے لینے میں تامل کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کو علم نجوم سے علیحدہ تصور نہیں کرتے اور احادیث میں نجومیوں اور کاہنوں کی خبر کی تصدیق پر سخت وعید ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اس حدیث کو بطور استدلال بنانے سے اختلاف ہے اور وہ اس استدلال کو درست نہیں سمجھتے ، ان کے نزدیک فلکی حسابات میں ماہرین فلکیات کی آراء “ماہرین کی رائے” ہے۔
رویت ہلال کے بارے میں کچھ لوگ جو سائنس کو حرف آخر سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ قمری مہینوں کے اثبات کے لیے فلکی حسابات پر مبنی ایک کلینڈر تشکیل دے دینا چاہیے۔ یہ رائے کچھ علماء کی بھی ہے جیسے کہ شیخ الازہر مصطفی المراغی ، شیخ احمد شاکر ، شیخ مصطفی الزرقا اور شیخ علی طنطاوی اس رائے کے حامل ہیں ۔ اس کے ساتھ شمالی امریکہ کی مجلس فقہی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذوالفقار علی شاہ بھی اس رائے کے حامل ہیں جنہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب نے ڈاکٹر ذوالفقار علی شاہ کے دلائل کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔
فلکی حساب سے رمضان و عیدین کا فیصلہ کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل نمازوں کے اوقات سے ہے کہ جس طرح تقریباً ہر مسجد نے شمسی تقویم کے مطابق نمازوں کے وقت کا کلینڈر لگایا ہوا ہے تو ایسے ہی قمری کیلنڈر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اس طبقے کی سب سے اہم دلیل ہے اور اس کو وہ سب سے مضبوط دلیل قرار دیتے ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ قمری مہینوں کی ابتداء کے لیے شریعت نے چاند کی رویت کو ضروری قرار دیا ہے اور رویت نہ ہونے کی صورت میں مہینہ تیس دنوں کا قرار دیا ہے۔
دوسرا فلکی حساب سے چاند کی پیدائش کو تو معلوم کیا جا سکتا ہے مگر اس کی رویت کی حتمی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ چاند کی پیدائش اور رویت میں فرق ہے۔ چاند جب اپنا چکر پورا کر لے تو نئے ماہ کے چاند کی پیدائش ہو جاتی ہے مگر پیدائش کے اٹھارہ گھنٹے تک چاند ننگی آنکھ یعنی naked eye سے نہیں دیکھا جا سکتا جب وہ تیس گھنٹے پورے کر لے تو وہ قابلِ رویت ہوتا ہے۔ اٹھارہ سے تیس گھنٹے کے درمیان کبھی قابلِ رویت ہوتا ہے اور کبھی نہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے چاند کی رویت وہی معتبر ہو گی جو ننگی آنکھ naked eye سے ہو گی، دوربین یا دیگر آلات سے رویت اصطلاحی طور پر درست نہیں۔ اس پر کچھ لوگ عینک کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں تو اس کا جواب بھی ڈاکٹر صاحب نے دیا ہے کہ عینک فقط انسانی نظر جو کہ کمزور ہو کو عام انسانی سطح پر لاتی ہے۔
قمری کیلنڈر کے لیے ایک اور تجویز چاند کے قابل رویت ہونے کی بھی مگر یہ بھی درست نہیں کیونکہ بصری رویت اور قابلِ رویت ہونے میں فرق ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر ذوالفقار علی شاہ صاحب کے بارہ دلائل کا ڈاکٹر مشتاق صاحب نے تنقیدی جائزہ لیا ہے اور ان کی کمزوری کو واضح کیا ہے۔
تیسرے باب میں اختلاف مطالع کے اعتبار و عدم اعتبار اور عالمی سطح پر وحدت عیدین و رمضان کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ اختلاف مطالع کا وجود ایک حقیقت ہے جس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ متقدمین فقہاء کو اختلاف مطالع کے بارے میں شبہ تھا۔ اختلاف مطالع فقط قمری نہیں بلکہ شمسی بھی ہوتا ہے اس لیے ہر وقت دنیا میں دو تاریخیں چل رہی ہوتی ہیں۔ شمسی اختلاف مطالع کی بنیاد پر یہ ممکن نہیں ہے کہ پوری دنیا میں نماز کا ایک وقت ہو اس لیے شمسی مطالع کے اختلاف کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ جہاں تک قمری اختلاف مطالع کی بات ہے تو اس میں فقہاء کی تین آراء ہیں
پہلے وہ جو اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں کرتے، ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ فقہ حنفی میں ظاہر الروایہ یہی قول ہے۔
دوسرے وہ جو اختلاف مطالع کا اعتبار کرتے ہیں ، اس کو بالخصوص شافعی فقہاء معتبر مانتے ہیں۔ اس پر شافعی فقہاء یہ بھی کہتے ہیں کہ اختلاف مطالع کے لیے ماہرین فلکیات کی آراء پر انحصار کرنا ہو گا۔
فقہاء میں تیسری رائے یہ ہے کہ اختلاف مطالع کو وہاں معتبر مانا گیا ہے جہاں فاصلہ بہت زیادہ ہو جہاں فاصلہ قریب ہو وہاں اختلاف مطالع کو معتبر نہیں مانا گیا۔ حنفی فقہاء میں سے علامہ کاسانی حنفی رح، علامہ ابن عابدین شامی رح اور امام فخرالدین زیلعی حنفی رح اس رائے کے قائل ہیں۔ تاہم اس بارے میں ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی ہے کہ مطالع کے قریب یا بعید ہونے کا فیصلہ تخمینوں پر نہیں بلکہ جدید سائنسی تحقیقات پر کرنا ضروری ہے۔خود ڈاکٹر مشتاق صاحب کا رجحان اس تیسری رائے کی طرف ہے جیسے کہ انہوں نے اس باب کے خلاصہ بحث میں ذکر کیا ہے
ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے پر لازم ہونے کی شرائط پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق صاحب نے بتایا ہے کہ اگر ایک علاقے میں رویت ہلال ہو جائے تو دوسرے علاقے کے حاکم کے پاس اختیار ہے کہ وہ پہلے علاقے کی رویت کو قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے اس کے اپنے علاقے میں عید یا رمضان کا فیصلہ اس کے اعلان سے ہوگا۔
اب مطالع اور حکومت کے عوامل کو جمع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں چار صورتیں سامنے آتی ہیں۔
اول دونوں علاقوں کا مطالع بھی ایک ہو اور ان پر حاکم بھی ایک ہو۔ اس صورت میں کوئی ابہام نہیں ہے ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے پر بھی نافذ ہو گی۔ پاکستان میں یہی صورتحال ہے
دوسری صورت دونوں علاقوں کا مطالع تو ایک ہو مگر حاکم الگ الگ تو اس صورت میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے اس وقت تک معتبر نہیں ہوگی جب تک وہاں کا حاکم اس کو قبول کر کے فیصلہ نہ کرے۔ پاکستان، افغانستان اور بھارت کا مطلع ایک ہے مگر حاکم الگ الگ اس لیے ایک حاکم کا فیصلہ دوسرے ممالک پر حجت نہیں جب تک وہاں کے حاکم اس کو قبول نہ کریں
تیسری صورت دونوں علاقوں کا مطلع تو الگ الگ ہو مگر حاکم ایک ہو ، متحدہ پاکستان میں مشرقی و مغربی پاکستان کے وقت یہ صورتحال تھی۔ اس صورت میں جو فقہاء اختلاف مطالع کو معتبر نہیں مانتے ان کی رائے تو واضح ہے۔ البتہ جو اختلاف مطالع کو معتبر مانتے ہیں ان کے نزدیک حاکم نے جس فقہی مسلک کے مطابق فیصلہ کر دیا وہ سب کو ماننا ہو گا بھلے وہ لوگوں کے فقہی مسلک کے خلاف بھی ہو۔
چوتھی صورت جہاں مطالع بھی الگ ہوں اور حاکم بھی الگ ، پاکستان اور سعودی عرب کا یہی معاملہ ہے۔ اس صورت میں بھی حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اختلاف مطالع کو معتبر مانتا ہے یا قبول نہیں کرتا، اس کا فیصلہ ہی نافذ العمل ہوگا۔ اس لیے اگر پاکستان کے ارباب اختیار سعودی عرب کی رویت کو قبول کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں اختیار انہیں کے پاس ہے اور عوام کو ان کا فیصلہ ماننا ہوگا۔
جہاں تک پوری دنیا میں ایک دن روزہ اور عید کی بات ہے تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ یہ عملاً ممکن نہیں ہے۔ اس پر بعض لوگوں نے تجویز دی ہے کہ مکہ مکرمہ جہاں تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے اس کو معیار بنا لیا جائے اور فلکی حساب سے جب چاند کی پیدائش ہو تو روزہ و عیدین کا اعلان کر دیا جائے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ رائے بھی ناقص ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب اختلاف مطالع میں بلاد بعیدہ اور بلاد قریبہ کے فرق کو درست سمجھتے ہیں اور چاند کی پیدائش اور رویت پر بھی جو اختلاف ہے اس کا ذکر بھی ہو چکا ہے۔
البتہ کچھ فقہاء جو اختلاف مطالع کو معتبر نہیں مانتے ان کے نزدیک تو یہ بات درست ہے مگر اس میں بھی اصل اختیار ہر ملک کی اپنی حکومت کو ہے۔ اگر تمام مسلمان ممالک آپس میں کوئی معاہدہ کر لیں کہ مکہ مکرمہ یا کسی اور شہر کی رویت پر روزہ و عیدین کا فیصلہ ہو گا تو پوری دنیا میں ایک دن روزہ و عیدین ہو سکتی ہیں۔ مگر یاد رہے اس معاہدے کے پابند فقط مسلمان ممالک ہوں گے غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمان اس فیصلے کے پابند نہیں ہوں گے ان کا فیصلہ مقامی علماء ہی کریں گے۔
چوتھا باب رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے بارے میں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ ابتداء میں یہ مسئلہ حکومت کی توجہ کا مرکز نہیں تھا اس لیے علماء نے اس کا حل نکالنے کی کوشش کی اور مفتی شفیع صاحب نے قاسم العلوم ملتان میں علماء کا اجلاس بلایا اور اس پر ایک متفقہ فتویٰ تیار ہوا۔
ریاستی و حکومتی سطح پر رویت ہلال کے بارے میں سنجیدہ کوشش ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی اور اس کے نتیجے میں ۱۹۷۴ میں ایک قرارداد کے ذریعے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا قیام عمل لایا گیا۔ پہلے اس کمیٹی کے ذمے رمضان و عیدین کے فیصلے کی ذمہ داری تھی جو بعد میں آگے ہر قمری ماہ کے اعلان تک چلی گئی۔
پہلی کمیٹی کے درج ذیل نو ممبران تھے۔
مولانا احتشام الحق تھانوی
مولانا مہدی حسن علوی
مولانا عطاء اللہ حنیف مولانا سید محمود احمد رضوی
پیر کرم شاہ الازہری
مولانا محمد ایوب بنوری
مولانا عبدالغفور
مولانا عارف اللہ شاہ قادری
پیر قاسم جان سرہندی
۱۹۷۴ سے لیکر ۱۹۸۷ تک اس کے ممبران کی تعداد نو تھی۔ ۱۹۸۸ میں اس میں اضافہ کیا گیا جب ارکان کی تعداد تیرہ ہوئی اور ۲۰۱۷ میں جب یہ کتاب لکھی گئی اس وقت تعداد بڑھ کر ۲۶ ہو چکی ہے۔ پہلے اس کو محکمہ موسمیات کا تعاون حاصل تھا اب سپارکو ، پاکستان بحریہ ، پاکستان فضائیہ ، وزارت اطلاعات و نشریات ، تمام ڈسٹرکٹ آفیسر اور اوقاف بھی معاونین میں شامل ہیں ۔ صوبائی اور ضلعی زونل کمیٹیاں اس کے علاوہ ہیں۔
قرارداد کے مطابق چیرمین کا ایک سال کے لیے منتخب ہونا تھا مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ اس کے ۱۹۷۴ سے لیکر گیارہوے چئیرمن تک کی مدت کو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے۔ پہلے چئیرمن مولانا احتشام الحق تھانوی جبکہ گیارہوے چئیرمن مفتی منیب الرحمان صاحب تھے جو طویل مدت تک تقریباً انیس سال تک اس عہدے پر رہے۔ مفتی منیب الرحمان سے پہلے چیئرمین تین سال یا دو سال تک تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مفتی منیب الرحمان صاحب کی علمیت اور فقاہت کا اعتراف کرنے کے ساتھ ان کے طویل مدت پر اس عہدے پر قائم رہنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اب مولانا عبدالخبیر آزاد اس کے بارہویں چئیرمین ہیں، یہ کتاب ان کی تقرری سے پہلے لکھی گئی تو ان کا ذکر نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے رویت ہلال کمیٹی کے طریقے کار اور اس کے ڈھانچے میں اصلاحات پر کچھ تجاویز پیش کی ہیں اور موجودہ نظام میں جو قابل اعتراض پہلؤ ہیں ان پر بات کی ہے۔ بالخصوص اس میں چیئرمین کے بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے جبکہ اصل قرارداد میں اکثریتی فیصلے کا ذکر ہے۔ چیرمین شپ کے لیے ڈاکٹر صاحب نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی تجویز دی ہے اور کہا کہ اس کا تقرر سال سے زائد نہیں ہونا چاہیے اور پھر کمیٹی کے ممبران میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں تکنیکی اداروں کے ساتھ ہر صوبے سے دو دو ارکان لیے جائیں۔
ڈاکٹر صاحب نے تجویز یہ دی ہے کہ جیسے اٹھارویں ترمیم کے بعد بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں، یہ بھی صوبوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے جہاں ہائیکورٹ کا ریٹائر جج اس کا سربراہ ہو۔ اس پر ایک اعتراض کہ اس سے ہماری وحدت کو نقصان پہنچے گا کو ڈاکٹر صاحب نے مسترد کیا ہے اور اس بنیاد پر مصنوعی اتحاد کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ پھر اگر صوبائی کمیٹیوں کا فیصلہ مرکزی کمیٹی کر دے تو یہ مسئلہ بھی نہیں رہے گا
جہاں تک سعودی عرب کی رویت ہلال کے طریقے کار کا معاملہ ہے تو ڈاکٹر مشتاق صاحب نے بتایا ہے کہ یہ ہماری خوش گمانی ہے کہ وہاں کا طریقہ بالکل درست ہے ان کے طریقے کار پر بہت سے اہل علم نے اعتراضات کیے ہیں۔ پھر ان کا طریقہ کار فقہ حنفی سے مطابقت نہیں رکھتا جبکہ پاکستان میں حنفیوں کی اکثریت ہے تو اس پر بھی تحفظات ہیں۔ لیکن اگر حکومت سعودی عرب کے ساتھ رمضان و عیدین کا فیصلہ کرے تو یہاں کے شہریوں کو اس کا ماننا لازم ہے۔
رویت ہلال کمیٹی کے بارے میں ایک مغالطہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس کے اجلاس پر بھاری خرچ ہوتا ہے اور اس کے ارکان بھاری تنخواہیں اور مراعات موصول کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بارے میں بھی وضاحت کی ہے اور اس بات کو وزارت مذہبی امور کی دستاویزات سے غلط ثابت کیا ہے اور بتایا ہے کہ اجلاس کے موقع پر چئیرمن اور ارکان کو معمولی اعزازیہ دیا جاتا ہے اور ایک روز کے لیے بیسویں گریڈ کے سرکاری افسر کی سطح کا ٹی اے ڈی اے دیا جاتا ہے۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے نجی رویت ہلال کمیٹیوں کو سختی سے مسترد کیا ہے اور نئے مجوزہ قانون کے مطابق اس کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے تو اس پر ڈاکٹر صاحب نے اضافی تجویز یہ پیش کی ہے اس کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا جائے۔
آخر میں حکومتی سطح پر بالخصوص اوقاف کے زیر انتظام مساجد و مدارس میں قمری تقویم کو رائج کرنے کی تجویز دی ہے اور بتایا ہے کہ شمسی تقویم درست ہے مگر قمری تقویم کا اہتمام فرض کفایہ ہے۔
ڈاکٹر مشتاق صاحب نے بہت عمدگی سے مسئلہ کے جملہ پہلوؤں اور پاکستان کے تناظر میں رویت ہلال کمیٹی کے بارے قانونی اور انتظامی پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ جس سے عام آدمی کو بھی اس مسئلہ کی نوعیت سمجھ آ جاتی ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے جو رویت ہلال کمیٹی میں اصلاحات کے حوالے سے تجاویز پیش کیں ہیں اس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے جدیدیت سے متاثر ذہن کے شبہات کو دوسرے باب میں بہت عمدگی سے ڈاکٹر ذوالفقار علی شاہ صاحب کے دلائل کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا ہے۔
ایک چیز جس کی کمی محسوس ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب نے زیادہ تر حنفی فقہاء کا موقف پیش کیا ہے اس بارے میں دیگر فقہ کی کیا آراء ہیں بالخصوص حنابلہ کی رائے کیا ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب کی رویت پر تحفظات ہیں اور اس کے ساتھ اہل تشیع کا نکتہ نظر بھی اگر مختلف ہے تو اس کی بھی کمی محسوس ہوئی ہے۔ کتاب کی جامعیت کے پیش نظر شاید اس طرف توجہ نہیں گئی ورنہ یہ اس سے زیادہ علمی و تحقیقی دستاویز بن سکتی ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ کتاب ناصرف ایک عام ذہن کے بہت سے اشکالات کو دور کرتی ہے بلکہ جو لوگ اس حوالے سے قدامت پسندی کے خدشے کا اظہار کرتے ہیں ان کے تحفظات کا بھی جواب دیا گیا ہے۔
کمنت کیجے