عادل اشرف
زاہد صاحب نے تصوف پر داخلی تنقید کے متعدد حوالے نقل کر کے جو مقدمہ کھڑا کیا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شائد مولانا مودودی اور انکے متفقین تصوف میں ان اصلاحی کوششوں سے بے خبر ہیں- حالانکہ اگر مولانا کی مختصر و مشہور کتاب “تجدید احیاء دین” کو ہی ملاحظہ کیا جاۓ تو ان اصلاحی کوششوں کا ذکر ادھر ہی مل جاتا ہے- مثلاً شیخ احمد سرہندی کے حوالے سے مولانا فرماتے ہیں کہ انہوں نے :-
“تصوف کے چشمۂ صافی کو اُن آلائشوں سے جو فلسفیانہ اور راہبانہ گمراہیوں سے اس میں سرایت کر گئی تھیں ، پاک کر کے اسلام کا اصلی اور صحیح تصوف پیش کیا۔ ”
یہ “دماغ ماؤف” ہونے والا جملہ مولانا نے خود کہیں نہیں لکھا ہے- جہاں تک معترض کے اعتراض کی بات ہے، تو انکا اعتراض دراصل یہ نہیں تھا کہ سلسلہ تصوف میں سوچنے سمجھنے والے علماء پیدا نہیں ہوۓ بلکہ انکا اعتراض یہ تھا کہ شخصی حثیت میں جب کوئی شخص شیخ کی بیعت کرلیتا ہے تو وہاں اس بات کا خاطر خواہ احتمال ہوتا ہے کہ وہ پیر کو ہی میعار حق و منبع شریعت سمجھ بیٹھے- دیکھیں، تصوف کے practitioners شریعت میں درک رکھنے اور تقوی شعار لوگ ہی نہیں تھے بلکہ جب پیری مریدی کے اس سلسلہ نے فروغ پایا اور اسکے ذریعے سے ایک شخص دوسرے شخص کی ذاتی تحویل میں آگیا، تو کچھ بے احتیاطی کی وجہ سے اور کچھ غط و ناقص practitioners کی وجہ سے خودبخود اس میں بےشمار برائیاں در آئیں- اسکا ثبوت یہی متواتر تنقیدیں ہیں جنکا حوالہ زاہد صاحب نے پیش کیا ہے، کیونکہ جب وسیع سطح پر اس ذریعے سے غلط چیزوں نے فروغ پایا تبھی اتنی وافر تنقیدوں و جرحوں کی ضرورت پڑی۔۔
اب لیتے ہیں رکنیت سے بیعت شیخ کے موازنہ کو, تو ہمارے نزدیک یہ ایک false equivalence fallacy ہے کیونکہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں- رکنیت میں ایک شخص دستور پر حلف اٹھاتا ہے اور دستور کوئی ناقص یا استحصالی پیر نہیں بلکہ ایک کھلی دستاویز ہوتی ہے- علاوہ بریں جماعت کے دستور کی یہ خاصیت ہے کہ مولانا نے اسے تیار کرنے کے بعد ہندوستان کے تمام جید علماء کو ارسال کیا کہ وہ اسے تنقیدی نگاہ سے دیکھ کر اپنی تجاویز فراہم کریں- اسی طرح دستور میں ترمیم کا راستہ بھی کھلا ہوتا ہے-
رہا عام رکن کا مولانا کی آرا کا معتقد ہونے کا اعتراض، تو اس حوالے سے یہ توجہ دلانا چاہوں گا کہ ایسا کس بااثر شخصیت کے ساتھ نہیں ہوتا؟ اسلامی تاریخ میں ایسے بےشمار علماء، فقہاء، صلحاء گزرے جنہوں نے اپنے اپنے حلقہاۓ اثر چھوڑے اور اس بابت مولانا مودودی جتنی احتیاط برت سکتے تھے کم ہی لوگ ایسا کر پاۓ ہیں- انہوں نے بار بار ارکان کو یہ ہدایت دی کہ فقہہ، مسائل، کلام وغیرہ میں انکی تقلید نا کی جاۓ، جماعت میں خود داخلی تنقید کا ایک نظام بنایا،اپنی شخصی آراء کے بیان میں ہمیشہ شدت و تنگ نظری کے بجاۓ ندامت سے انہیں پیش کیا اور قاری کو تنقید پر ابھارا۔۔۔
بہرحال ، یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ بعیت کے عمل میں بہت سے extra risk factors ایسے موجود ہیں کہ ذرا سی بے احتیاطی سے گمراہیوں کے باب در باب کھل جاتے ہیں-
آخر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مولانا مودودی بعیت شیخ کو فی نفسہ حرام نہیں ٹھراتے، دیکھیے ضمیمہ تجدید و احیاء دین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل اشرف نے حال ہی میں ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی ہے ۔ آپ کتب بینی اور فکری مسائل میں تفکر کے عادی و شائق ہیں۔
E-mail :- aadilash38@gmail.com
کمنت کیجے