Home » قطر میں علمی تجربات
تعلیم و تعلم سماجیات / فنون وثقافت

قطر میں علمی تجربات

عاطف ہاشمی

قطر آ کر میں نے کیا کچھ سیکھا؟
اس عنوان کے تحت میں ان کورسز اور ورکشاپس وغیرہ کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جن میں میں نے شرکت کی اور خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا۔ ہو سکتا ہے یہ موضوع معمول سے طویل ہو جائے، اس لیے اس کو مزید تقسیم کیے دیتا ہوں تاکہ بیان کرنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔
1: عربی ٹیچر ٹریننگ ورکشاپس
2:میری دلچسپی کے موضوع ” مشرق وسطی” پر الجزیرہ کانفرنسز میں شرکت۔
3: آئلٹس (IELTS preparation course) (قطر یونیورسٹی )
4: ترجمہ و ترجمانی ورکشاپس ( حمد بن خلیفہ یونیورسٹی )
5: ٹوسٹماسٹر و بک ریڈر کلب

1: عربی ٹیچر ٹریننگ ورکشاپس:
قطر آتے ہوئے بہت ذہن میں تھا کہ تدریس کے ساتھ ساتھ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے جو مواقع بھی میسر آئیں گے انہیں ضائع نہیں جانے دوں گا، چنانچہ میں نے آنلائن کورسز اور ورکشاپس وغیرہ کی تلاش شروع کر دی اور جلد ہی ایک گروپ ” ملتقی معلمي اللغة العربیة” جوائن کیا جس کی طرف سے اگلے ہی روز ایک روزہ عربی ٹیچرز ٹریننگ ورکشاپ کا انعقاد ہو رہا تھا۔ میں نے آنلائن رجسٹریشن کرنا چاہی تو پتا چلا کہ سیٹیں فل ہو چکی ہیں، تاہم مجھے کہا گیا کہ اگر آپ کل صبح نو بجے سے پہلے تشریف لے آئیں تو ہم دیکھ لیں گے، اگر کوئی مقررہ وقت تک ہمیں جوائن نہ کر سکا تو ہم آپ کو اس کی سیٹ دے دیں گے۔ میں نے یہ آپشن قبول کر لیا اور اگلے دن بروز ہفتہ صبح نو بجے سے پہلے ہلٹن ہوٹل (Hilton hotel) پہنچ گیا جہاں یہ ورکشاپ ہونا تھی، توقع کے عین مطابق چند نشستیں خالی رہ گئی تھیں جن میں سے ایک مجھے دے دی گئی اور فوری رجسٹریشن بھی کر دی گئی۔
صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک مختلف ماڈیولز پر لیکچرز ہوئے، آخری سیشن آئی جیز (IGCSE) پر تھا، جس میں ایڈکسل اور کیمبرج کے نصاب کی تدریس پر بحث ہوئی، مجھے سچی بات ہے کہ یہ معلوم نہیں تھا کہ ایڈکسل اور کیمبرج میں بنیادی فرق کیا ہے، اور پھر دونوں کے عربی کے نصاب میں کیا فرق ہے؟ عربی نصاب میں فرق تو اس ٹریننگ میں سامنے آ گیا تھا لیکن مجھے سرے سے یہ بھی سمجھنا تھا کہ ان دونوں نصابوں میں کیا فرق ہے؟ واپسی پر اپنے رومیٹ سر شاہنواز صاحب سے یہ ڈسکس کیا، وہ سعودی عرب میں کیمبرج پڑھا کر آئے تھے اور ہمارے ہاں برائیٹ فیوچر میں ایڈیکسل کا نصاب پڑھا رہے تھے، اس لیے دونوں کا تجربہ رکھتے تھے جبکہ میں نے (O Level) اور (A Level) کا صرف نام ہی سن رکھا تھا، براہ راست اس سے ابھی تک واسطہ نہیں پڑا تھا کیونکہ اس سطح پر عربی کی تدریس یہاں بھی ایک سال بعد ہی شروع ہوئی تھی، تو سر شاہنواز نے بتایا کہ: “یہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں میٹرک سسٹم ہے، دنیا بھر میں اپنا اپنا تعلیمی نظام ہے، برطانیہ، کینیڈا، امریکہ و نیوزی لینڈ وغیرہ کے نظام بھی دنیا کے بعض ممالک میں رائج ہیں لیکن برطانیہ کا نظام تعلیم انٹرنیشنل سطح پر دنیا کے اکثر ملکوں میں پڑھایا جاتا ہے، پھر برطانیہ کے ہی یہ دو نظام ہیں، کیمبرج پہلے سے رائج ہے اور زیادہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے جبکہ ایڈیکسل اسی کی ذرا آسان شکل ہے جو کہ زیادہ تر عرب ممالک میں رائج ہے.”
ایک سال بعد جب منسٹری کی طرف سے کے جی (KG) سے بارہویں تک کے عرب طلبہ کے لیے عربی لازمی کا نوٹیفکیشن سامنے آیا تو ہمارے سکول میں بھی او لیول اور اے لیول کی سطح پر ایڈیکسل کی عربی شامل کر لی گئی اور اس کی تدریس کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ الحمد للہ نہ کبھی ایڈکسل پڑھانے میں دشواری ہوئی نہ ہی کیمبرج یا انٹرنیشنل بکالوریا (IB) پڑھانے میں کسی دقت کا سامنا کرنا پڑا، صرف نصاب کی شکلیات مختلف تھیں جو جلد ہی سمجھ لی تھیں۔
ملتقى معلمي اللغة العربية کی طرف سے ہلٹن ہوٹل میں منعقدہ ورکشاپ کے دوران پرتکلف ظہرانے اور ہائی ٹی کا بھی اہتمام تھا۔ میں ورکشاپ کے اختتام پر عصر کے بعد چائے ہی پی رہا تھا کہ مجھے یاد آیا آج کے دن کے لیے وائس پرنسپل صاحب نے مجھے ایک کام دیا تھا جو میں نہیں کر سکا، میں نے فورا انہیں فون کر کے اپنا عذر پیش کیا کہ اس طرح اچانک مجھے ایک ورکشاپ اٹینڈ کرنے کے لیے آنا پڑ گیا اور میں وہ کام نہیں کر سکا، ورکشاپ کا سن کر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ یہ تو ہمارا کام ہوتا ہے ٹیچرز کو ٹریننگ دینا یا ٹریننگ کے لیے بھیجنا، اگر آپ خود سے گئے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے، آپ کل سکول آتے وقت اس ورکشاپ پر ایک رپورٹ لکھ کر ساتھ لائیے گا۔
یعنی اب پہلے کام سے تو جان چھوٹ گئی تھی لیکن دوسرا کام مل گیا تھا، یہ کام بہت اہم اور مفید تھا، میں نے ویسے بھی اہم نکات نوٹ کیے ہوئے تھے، ویلا میں پہنچ کر ایک رپورٹ لکھی، رپورٹ انگریزی میں تھی اس لیے پہلے اپنے رومیٹ کو دکھائی تاکہ وہ اس کی نوک پلک سنوار دیں، اس طرح اگلے دن میں نے رپورٹ سر عاصم کو پیش کر دی، بعد میں مجھے انہوں نے بتایا کہ وہ رپورٹ انہوں نے چیئرمین سے شیئر کی تھی کہ کس طرح ایک نئے ٹیچر ازخود ورکشاپ اٹینڈ کرنے گئے اور یہ کچھ سیکھ کر آئے۔
اس ورکشاپ کے بعد ایڈیکسل (Pearson) کی طرف سے او لیول اور اے لیول کے ٹیچرز کے لیے مختلف اوقات میں منعقدہ آنلائن ورکشاپس میں سکول کی طرف سے حصہ لیا اور سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔
دو سال قبل گرمیوں کی چھٹیوں میں کیمبرج اور ایڈیکسل کو ملا کر عربی میں کمبریکسل کے نام سے کتابیں شائع کرنے والے قطر میں مقیم مشہور مصری استاد سر عمروحامد کی طرف سے دس روزہ ٹیچرز ٹریننگ ورکشاپ مری میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اٹینڈ کی اور کیمبرج و اڈیکسل پڑھانے کی تربیت حاصل کی۔
مزید برآں ایک ادھوری ٹریننگ کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں، ہوا یوں کہ وزارت تعلیم نے تین لازمی مضامین (عربی، اسلامیات، تاریخ قطر) پر ٹریننگ کے لیے سکول سے ایک ایک امیدوار طلب کیا، میری خوش قسمتی ہے کہ عربی کے لیے ادارے نے میرا نام تجویز کیا جس پر میں ادارے کا شکر گزار ہوں۔ اسلامیات کے لیے سر تیمور، اور قطر ہسٹری کے لیے سر امتیاز کا نام دیا گیا تھا۔
اس ٹریننگ کا مجھے اس لیے انتظار تھا کہ اس کے بعد قطر گورنمنٹ کی طرف سے مجھے عربی ٹیچننگ کا باقاعدہ لائسنس ملنا تھا۔ یہ دو سمسٹرز پر مشتمل تھی، اور ہفتے میں تین دن شام چار سے سات بجے تک آنلائن کلاس اٹینڈ کرنا ہوتی تھی، یہ ایسی بھرپور قسم کی آنلائن کلاس تھی کہ ٹرینر شرکاء کو ایک منٹ بھی غافل نہیں ہونے دیتے تھے اور سب کو مکمل شریک رکھتے تھے اور مختلف ایکٹیویٹز بھی کرواتے تھے۔
کرونا کے دنوں میں شروع ہونے والی اس ٹریننگ کا ہم نے ایک سمسٹر مکمل کر لیا تھا لیکن دوسرے کا انتظار ہی کرتے رہ گئے، اس طرح میں اس ٹریننگ سے کافی کچھ سیکھنے کے باوجود ٹیچنگ لائسنس سے محروم رہ گیا۔

اس کے علاوہ سکول میں کلاس کنٹرول (class control)، متاثرکن تدریس (effective learning)، ڈیلی لیسن پلان کیسے تیار کریں؟ وغیرہ جیسے موضوعات پر متعدد سیشنز ہوئے، بلکہ آخری سال میں تو تقریبا ہر دوسرے ہفتے ایچ او ڈی یا ڈیپارٹمنٹ ممبر کی طرف سے ٹریننگ دینا ضروری قرار دیا گیا تھا چنانچہ میں نے بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ کو عربی ٹیچنگ، اور منسٹری آف ایجوکیشن کے معیار کے مطابق سبق کی منصوبہ بندی جیسے عناوین پر ٹریننگ دی، بلکہ یہ موخر الذکر ٹریننگ اسی دن دی جو کہ میرا سکول میں آخری دن تھا، پرنسپل سر علی ذوالقرنین صاحب نے حکم دیا تھا کہ جانے سے پہلے مذکورہ موضوع ڈیپارٹمنٹ کے سامنے کھول کر بیان کروں، اس کے آخری حصے میں پرنسپل صاحب اور جونیر ونگ کی وائس پرنسپل مس شاہین بھی شریک ہوئیں تھیں، اس موقع پر نئی ایچ او ڈی کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے پرنسپل صاحب نے منسٹری سے متعلقہ فائل بھی نئی ایچ او ڈی کے حوالے کر دی تھی۔

* قطر خلیج تنازعہ پر الجزیرہ چینل کی کانفرنس اور موضوع پر میری تحریریں:

اپریل میں مجھے یہاں دو ماہ ہو چکے تھے کہ الجزیرہ کی قطر خلیج تنازعہ پر کانفرنس کا اعلان نظر سے گزرا، میں اس موضوع پر اس وقت بھی تجزیات میں ایک مضمون لکھ چکا تھا جب کہ قطر میں آنے کا وہم و گمان بھی نہیں تھا، 2017 میں تجزیات (tajziat.com)کے ایڈیٹر اور پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (PIPS) کے ڈائریکٹر جناب عامر رانا صاحب کی ایماء پر میں نے مشرق وسطی پر مضامین لکھنا شروع کیے تھے۔ جب قطر خلیج بحران پیدا ہوا تو کچھ عرصہ بعد اس پر ایک مضمون لکھا تھا کہ ” کیا قطر ثابت قدم رہ پائے گا؟” جس کا لنک یہ ہے:
https://www.tajziat.com/article/6108۔
اسی موضوع پر الجزیرہ کی طرف سے کانفرنس کا اعلان دیکھ کر میں نے فورا رجسٹریشن کروائی تاکہ عرب میڈیا کے سب سے بڑے چینل سے براہ راست استفادہ کر سکوں اور موضوع کو اچھی طرح سمجھوں۔ اسی کانفرنس میں ہی الجزیرہ کے معروف اینکر فیصل قاسم سے ملاقات ہوئی، اور ساتھ تصویر بھی بنائی تھی جو کہیں آگے پیچھے ہو گئی۔ یہ کانفرنس قطر کے مشہور شیریٹن ہوٹل میں ہوئی تھی جہاں امریکہ طالبان مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ اس میں خلیج کے مستقبل کے منظرنامے پر بحث کی گئی تھی، اس کی مکمل رپورٹ بھی میں نے تجزیات آنلائن کو بھیجی تھی جو ” قطر خلیج بحران کے اثرات اور مستقبل کا منظرنامہ ” کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، اس کا لنک بھی دیا جا رہا ہے:

قطر خلیج بحران کے اثرات اور مستقبل کا منظرنامہ


جب اس بحران کو دو سال مکمل ہوئے تو میں نے ایک تحریر بعنوان: قطر پر سعودی پابندیوں کے دو سال: کہا کھویا کیا پایا؟” لکھی، جبکہ اگلے سال تین بر مکمل ہونے پر ایک اور مضمون میں اسی موضوع کا جائزہ لیا گیا، اس کا عنوان تھا: “قطر محاصرہ: ثابت قدمی کے تین سال”
دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ان دونوں مضامین کے لنک بھی دیے جا رہے ہیں:

قطر پر سعودی پابندیوں کے دو سال، کیا کھویا کیا پایا؟

قطر محاصرہ: ثابت قدمی کے تین سال


بعد میں دسمبر 2020 میں سعودی عرب میں ہونے والی خلیج کانفرنس سے دونوں ممالک درمیان تعلقات پر جمود ٹوٹا، برف پگھلی اور اس کے چند ماہ بعد ہی تعلقات بحال ہو گئے، اس خلیج کانفرنس سے دو دن پہلے میں نے ایک تحریر لکھی تھی اور دوسری دو دن بعد، ذیل میں ان دونوں مضامین کے لنک بھی بمعہ عناوین دہے جا رہے ہیں تاکہ قارئین کو موضوع پر یکجا معلومات مل سکیں:
خلیج کانفرنس: کیا قطر خلیج بحران ختم ہونے کو ہے؟

کیا قطر خلیج بحران ختم ہونے کو ہے؟


صلح کی فضا میں خلیج کانفرنس کا اختتام

صلح کی فضا میں خلیج کانفرنس کا اختتام


اس کے بعد تقریبا دو سال قبل قطر ایران تعلقات پر بھی الجزیرہ نے المسیلہ ریزارٹ میں ایک کانفرنس رکھی تھی جس میں شرکت کا موقع ملا اور قطر میں ایران کے سفیر محترم سے ملاقات ہوئی۔
پھر ایک کانفرنس گزشتہ برس سوڈان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی پر تھی، یہ میریٹ ہوٹل دوحہ میں تھی، افسوس کہ ان دونوں کانفرنسز پر میں کچھ بھی نہیں لکھ سکا۔

* وزارت ثقافت کے ساتھ ایک نشست کا ذکر:
جون 2022 میں وزارت ثقافت کی جانب سے غیر عرب کو عربی سکھانے کے موضوع پر ایک نشست رکھی گئی۔ 6 جون کو وزارت ثقافت کے بیت الحکمہ ہال میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں مختلف غیر عرب ممالک کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا تاکہ وہ اپنی کمیونٹی میں عربی کو عام کرنے کے لیے تجاویز پیش کریں۔ راقم نے پاکستان کی نمائندگی کی اور یہ تجویز پیش کی کہ ایسا نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جو بیک وقت عربی زبان بھی سکھائے اور اس کے ساتھ قطری تاریخ و ثقافت سے بھی روشناس کرائے۔
پاکستان کے علاوہ ترکی، ایران، بھارت، نیپال، سینیگال، نائجیریا اور جنوبی سوڈان کے سفراء نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور نہایت اہم تجاویز پیش کیں۔
اجلاس کے بعد ترکی کے ایجوکیشن ایڈوائزر جناب مصطفی آدش صاحب بڑے پرجوش انداز میں ملے اور کہا کہ ہم پاکستان اور اہل پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں، میں نے بھی ترکیہ اور ترکوں سے اپنی محبت کا اظہار کیا، اور اس طرح یہ اجلاس ان سے اچھے تعلق کی بنیاد بن گیا۔
وزارت ثقافت نے اس نشست کے حوالے سے مختصر ویڈیو رپورٹ اپنے فیس بک پیج پر لگائی تھی جس کا لنک دیا جا رہا ہے۔
https://fb.watch/mr59HX8d8_/?mibextid=Nif5oz

قطر حکومت کا “لغتي ترسم هويتي” پروگرام:
ستمبر 2021 میں قطر حکومت نے اپنی زبان، روایات اور شناخت کے تحفظ و بقا کے لیے “لغتي ترسم هويتي” ( میری زبان میری شناخت کی آئینہ دار ہے) کے عنوان سے ایک ملک گیر مہم شروع کی، جس کا مقصد سوسائٹی میں اسلامی روایات اور قطری ثقافت کے بارے میں حساسیت پیدا کرنا تھا، فیفا ورلڈ کپ صرف ایک برس کے فاصلے پر تھا اور دنیا بھر سے فٹبال کے شائقین نے قطر کا رخ کرنا تھا، جس سے قطر کے ارباب حل و عقد کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ بہاؤ ہماری تہذیب وثقافت کو ہی اپنے ساتھ نہ بہا لے جائے، اس لیے ہر سطح پر یہ مہم چلائی گئی اور بالخصوص تعلیمی اداروں کو اس تحریک نے اپنا مرکز بنایا، اسی سلسلے میں حکومت قطر کی طرف سے ایک تعارفی پروگرام رکھا گیا جس سکولوں کے سربراہان کو دعوت دی گئی تاکہ وہ اس میں شریک ہو کر اس مہم کے اغراض ومقاصد سے واقفیت حاصل کر سکیں اور پھر اپنے اپنے اداروں میں اسے عملی جامہ پہنائیں۔
ہمارے سکول کی نمائندگی کے لیے حالیہ پرنسپل جناب علی ذوالقرنین صاحب نے مجھے بھیجا، میں نے تمام نکات نوٹ کر کے واپسی پر پرنسپل صاحب اور وائس پرنسپل صاحب سے شیئر کیے، جس کے بعد سکول میں مس شاہین کو اس مہم کا ذمہ دار مقرر کیا گیا اور ہر سطح پر قطری تہذیب وثقافت کو نمایاں کیا گیا۔ طلبہ سے ایسی سرگرمیاں کروائی گئیں جن سے انہیں قطری روایات سے آگاہی حاصل ہو سکے، یہاں تک کہ منسٹری کے کہنے پر سپورٹنگ سٹاف اور ڈرائیورز تک کو اس میں شریک کیا گیا (جن کی اکثریت غیر مسلم ہے)
میڈم شاہین نے اس حوالے سے بہترین پیپر ورک کیا اور قطر کے جھنڈے والی زبردست فائل تیار کی، جسے منسٹری نے اپنے وزٹ پر خوب سراہا۔

*جائزۃ الحمد کانفرنس میں شرکت:
اسلامی تاریخ میں مامون الرشید کے دور کو جو نمایاں مقام حاصل ہے وہ کسی صاحب علم سے مخفی نہیں، اس کی بڑی وجہ مامون کی طرف سے بیت الحکمت کا قیام اور ترجمہ میں دلچسپی تھی، قطر حکومت بھی اسلام اور مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ کی خواہاں ہے اور اس سلسلے میں از بس کوشاں ہے۔ ترجمہ کے میدان میں عمدہ کام کرنے والوں کے لیے جائزہ الحمد فاؤنڈیشن کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ فاؤنڈیشن ہر سال چند زبانیں متعین کر کے ان میں کیے گئے تراجم کے معیار کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد خطیر رقم انعامات کی مد میں مترجمین کو دیتی ہے، چنانچہ پاکستان سے گزشتہ برس پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب اور ان سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر اکرام الحق یاسین صاحب یہ انعامات حاصل کر چکے ہیں۔
مجھے اس سال جنوری میں جب اس تین روزہ کانفرنس کا علم ہوا تو چھٹی کے دن میں بھی پہنچ گیا، ادھر ہی ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب اور اسلامی یونیورسٹی میں ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ کے سابق چیئرمین استاد محترم جناب انعام الحق غازی صاحب سے ملاقات ہوئی، قطر میں اردو کمیونٹی کے ہاں معروف شخصیت جناب عبید طاہر صاحب سے بھی اسی موقع پر پہلی ملاقات ہوئی۔
ڈاکٹر انعام صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے قطر میں موجود اپنے یونیورسٹی فیلوز سے تذکرہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں، سب نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا، اس طرح اگلے ہی دن ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے ہم پانچ شاگرد (برادرم شاکر قاسمی، تیمور مبارک صاحب، علی بھائی، اور عمر فاروق صاحب)ان کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور انہیں اپنے ساتھ کتارا لے آئے، جہاں ہم نے کافی پی اور پھر دیر تک ڈاکٹر صاحب کے تجربات سے مستفید ہوتے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عاطف ہاشمی صاحب نے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے “ترجمہ و ترجمانی ” میں ایم۔ ایس کیا ہے اور قطر میں مقیم تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں