عمران شاہد بھنڈر
نظمِ کلام سے متعلق مکالمہ ابھی تک جاری ہے۔ اسی سلسلے کا ایک اور پروگرام دیکھا ہے جس میں علامہ عمار خان ناصر صاحب نے مختلف مفسرین کے تصورِ نظم سے متعلق ان کی تعبیرات کی وضاحت کی ہے جس سے کچھ نئی جہات کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ میں اگلی سطور میں اسی پروگرام سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔ سب سے پہلا تو سوال یہی ہے کہ تصورِ نظم کی وضاحت کی جائے۔ نظم کا مفہوم واضح کرتے ہوئے علامہ عمار خان ناصر صاحب فرماتے ہیں کہ
”قرانِ مجید کی کسی ایسی سورہ میں جس میں بظاہر کئی طرح کے مضامین جمع ہوں تو نظم کا مطلب یہ ہو گا کہ ان سارے مضامین کو جوڑنے والا ایک نکتہ تلاش کیا جائے، ایک ایسا مرکزی نکتہ جس کے ساتھ وہ سارے مضامین جڑے ہوئے ہوں۔ اور گویا مختلف پہلوؤں، مختلف زاویوں سے ایک بنیادی مرکزی مضمون یا ایک سے زیادہ مضامین کو واضح کردے۔“
نظم کی یہ تعریف بہت واضح ہے، اگرچہ “مکمل” نہیں ہے۔ علامہ صاحب اس کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ”یہ نظم خود الفاظ میں بیان نہیں ہوا کہ یہ جو مضمون پیچھے بیان ہوا ہے اس سے پہلے جو مضمون بیان ہوا ہے اس کے ساتھ اس کا باہمی رشتہ یا تعلق کیا ہے۔“ مزید فرماتے ہیں کہ چونکہ ”یہ رشتہ یا تعلق کلام میں بیان نہیں ہوا ہے اس لیے اس پر غور کر کے اخذ کرنا پڑتا ہے۔“یہاں ایک اہم نکتہ جس کی وضاحت انہوں نے بخوبی کر دی ہے کہ یہ مفسر کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک غور و خوض کرکے وہ ربط تلاش کرتا ہے۔ اس سے جو فکری زاویہ عیاں ہوتا ہے یہ ہے کہ متن اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن متن کی تفہیم موضوعی ہوتی ہے۔ یعنی اپنی تفہیمی صلاحیت کے مطابق اس متن میں موجود نظم کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔
اس وضاحت سے یہ نتیجہ لازمی طور پر نکلتا ہے کہ مفسر نظم کو دریافت کر بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اب اگر ایک مفسر نظم کو دریافت کر لیتا ہے اور کوئی دوسرے مفسر کو وہ نظم کہیں دکھائی نہیں دیتا تو ہم کم از کم یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ دونوں مفسرین میں سے زیادہ باصلاحیت مفسر کون ہے۔ اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر دو مفسرین کی صلاحیت کا ہی تعین نہیں ہو سکتا تو قرأت کا عمل لازمی طور پر اضافی ہے کیونکہ نظم کی تعین صلاحیت کی بنیاد پر ہو گی۔ لہذا نظم ایک خارجی تقاضا ہے جو متن کے اصولوں کے تحت نہیں ہوا، کیونکہ ایسے کوئی اصول موجود ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ قران میں تو حتمی نظم کی وضاحت نہیں کی گئی اور نہ ہی ان مضامین کے درمیان رشتوں کی وضاحت کی گئی ہے جیسا کہ خود علامہ صاحب فرما چکے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن خود نظم قائم کرنے کا کوئی معیار فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ مفسرین پر منحصر ہے۔
اب اگر کوئی مفسر خود کے زیادہ باصلاحیت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ ایک موضوعی دعویٰ ہے جس کو قران کے معیار پر پرکھا نہیں جا سکتا کیونکہ بقول علامہ ناصر صاحب، قرآن ایسا کوئی معیار فراہم ہی نہیں کرتا، یا ان کے الفاظ میں یوں کہ ”یہ رشتہ یا تعلق کلام میں بیان نہیں ہوا۔“ میرا خیال ہے کہ علامہ صاحب کا یہ نتیجہ بہت اہم ہے اور اس میں میرے حالیہ مضمون میں پیش کیے گئے خیالات کی تصدیق ہوتی ہے۔ جب قرآن میں مختلف خیالات کے درمیان ربط کی ایسی کوئی تعیین نہیں ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ قرآن میں قرأت کا انحصار قاری پر ہے کہ وہ ایسی کوئی تعیین قائم کرتا ہے یا نہیں!
علامہ صاحب بھی اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”یہی وجہ ہے کہ مختلف مفسرین جو قرآن کی سورتوں میں نظم تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے زاویہ نظر کے درمیان ہمیں فرق دکھائی دیتا ہے۔“ یہاں یہ بات واضح رہے کہ علامہ صاحب کی بات سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ قرآن خود اس رشتے یا تعلق کے بارے میں نہیں بتاتا۔ لہذا نظم کا ہونا صرف صلاحیت ہی نہیں بلکہ موضوعیت پر منحصر ہے، نہ کہ قرآنی قرأت کا کوئی داخلی تقاضا ہے۔ اگر ایسا کوئی تقاضا ہوتا تو اس کی تعیین خود قرآن نے قائم کر رکھی ہوتی۔ اب اگر کوئی شخص یہ تصور کرے کہ قرآن میں نظم موجود ہے لیکن قارئین اس تک پہنچ نہیں پا رہے تو یہ ایک متضاد بیان ہے کہ جس تک ابھی پہنچ ہی نہیں پائے اس کے بارے میں یہ فیصلہ بھی کیونکر کر لیا گیا ہے کہ قرآن میں موجود ہے۔ لہذا جب بھی قرآن میں ایسا نظم تلاش کیا جائے گا جو قرآن کے مصنف نے قائم نہیں کیا تھا تو اس نظم کا قرآن کے مصنف کی منشا سے تضاد میں آنا یقینی ہے۔
علامہ صاحب نے ایک دلچسپ اور اہم نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ جو مفسرین قرآن میں نظم متعین کرتے ہیں اس سلسلے میں ان کے پیشِ نظر جو اصول ہوتے ہیں وہ بھی ان اصولوں کی کوئی وضاحت نہیں کرتے بلکہ ان مفسرین کے قاری کو ان کی تفاسیر پر خود”غور کر کے ان میں سے سمجھنا پڑتا ہے کہ انہوں نے یہ نظم کیسے متعین کیا ہے۔ اس طرح اس میں ایک اور فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔“ یعنی قرآن کا قاری جب مفسرین کی کُتب کو پڑھتا ہے تو قرآنی نظم جس کا کہ قرآن میں تعین نہیں کیا گیا، وہ ان کُتب کے مطالعہ کے دوران خود کو ان کی تفسیر سے اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اصل متن جو کہ خود گزشتہ الٰہیاتی متون کی بین المتونیت پر استوار ہے، یہ تفاسیر اس متن کی ”بنیاد“ پر ایک اور بین المتونیت تشکیل دیتی ہیں۔ یعنی تفسیر میں جو کچھ موجود ہے وہ بنیادی قرآنی متن کے علاوہ بھی ایک متن ہے۔
علامہ ناصر صاحب کی مذکورہ بات کا نتیجہ یہ ہے کہ مفسرین مختلف طریقوں سے قرآنی اجزا کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ جوڑنے کے اس عمل کی وضاحت خود قرآن میں نہیں ہے۔ ’جوڑنا‘ ایک موضوعی مقولہ ہے اور جب جوڑنے کے عمل کو اس طرح سے بروئے کار لایا جائے کہ خود متن اس ترتیب سے نہ جڑا ہو تو اس سے واضح یہی ہوتا ہے کہ نظم کا جو تصور قائم کیا گیا ہے وہ موضوعی ہے۔ اسی لیے مختلف تفاسیر متضاد مفاہیم سمیٹے ہوئے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی متن کی مختلف اوقات قرأت کی جائے تو ایک ہی انسان اپنی گزشتہ تعبیر سے مختلف مفاہیم اخذ کرتا ہے۔ اگر انہی مفسرین کو ایک ایسی سورت دی جائے کہ جس کی تعبیر یہ دس برس پہلے کر چکے ہوں اور ان سے یہ کہا جائے کہ اس کی دوبارہ تفسیر لکھیں تو امکان اغلب ہے کہ وہ اپنی گزشتہ تفسیر سے کئی مقامات پر مختلف مفاہیم پیش کریں گے۔ ادبی تنقید میں یہ تفہیم یا متن کا کوئی نقص نہیں ہوتا، بلکہ قرأت لازمی طور پر تقلیب کا عمل ہے۔ کوئی بھی تفسیر مرکزی متن (قرآن) کی تقلیب کرتی ہے، قطع نظر اس سے کہ اصل متن اپنی جگہ پر موجود ہے۔
میں پہلے بھی یہ وضاحت کر چکا ہوں کہ لاتشکیلی تنقید میں ”فرق“ ہی وہ ”مقولہ“ ہے جو معنی کی کثرت کی لازمی “بنیاد” ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ ”فرق“ صرف دوسرے سے نہیں بلکہ خود کی گزشتہ قرأت سے بھی قائم ہوتا ہے۔ یعنی اگر میں نے آج ایک اقتباس پڑھا اور اسے جن معنوں میں سمجھا، ممکن ہے کہ کل میرا اس اقتباس بارے فہم مختلف ہو چکا ہے۔
اس کے بعد سانول عباسی صاحب ایک اہم سوال قرآن کی آفاقیت کے بارے میں کرتے ہیں۔ علامہ صاحب نے اس سوال کا مدلل جواب دیا ہے کہ قرآن کی مختلف سورتوں کا ایک تناظر ہے اور اس تناظر کو سمجھنا ازحد ضروری ہے۔ علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ ”ہماری تفسیری روایت میں لوگ نظم ِ قرآن کے قائل ہوں یا نہ ہوں، ہماری تفسیری روایت کا عمومی موقف یہ ہے کہ قرآن کا خطاب خاص ہے۔ وہ براہِ راست جن مشرکین کو مخاطب کرتا ہے وہ اس کے زمانہ نزول کے مخاطب ہیں۔“یہ بہت اہم بات ہے اور جدید تصورِ نظم میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ سیاق، تناظر، حالات یا صورتحال تصورِ نظم کے سات اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔
جب تک وہ حالات ہی واضح نہ ہوں جن حالات میں کوئی بات کہی گئی ہو تو اس بات کو کسی نظم میں لانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر حالات، تناظر، سیاق یا صورتحال کا تعین ہی نہ کیا جائے تو نظم کا دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہاں صورتحال پیچیدگی اختیار کر لیتی ہے۔ اگر صورتحال یا حالات واضح نہیں ہیں تو نظم کا قیام کیسے ہو سکتا ہے جبکہ یہ حالات یا صورتحال نظم کا جزوِ لازم بھی ہوں؟ یہ ممکن نہیں ہے کہ حالات یاصورتحال کو حذف کر کے قرآنی متن کو سینکڑوں برس بعد کسی ایسی صورتحال پر لاگو کر دیا جائے جو اپنے اندر ایک نظم کا تقاضا رکھتی ہو؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن جب سے موجود ہے اس وقت سے آج تک حالات بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ اب اس انوکھے نتیجے سے تو کوئی بھی معقول انسان متفق نہیں ہو سکتا۔
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ اگر ایک ایسا نظم جو صرف اسی صورتحال یا حالات سے اخذ کیا گیا ہے تو وہ صدیوں بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے لیے اپنے نظم کو برقرار بھی نہیں رکھ سکتا، کیونکہ حالات اور صورتحال نظم کا حصہ ہوتے ہیں۔ قرآن کوئی تجریدی خیالات کا مجموعہ نہیں ہے کہ جسے جہاں چاہیں چسپاں کر دیں۔ قرآن کی اہمیت استقرائی نقطہ نظر سے زیادہ ہے۔ یہ استخراجی منطق کا کوئی جزو یا اصول نہیں ہے کہ جس کے مصنف کی نظر محض کُلیات پر تھی اور وہ براہِ راست حسیات پر ظاہر ہونے والے مقرونی حالات کو نظر انداز کر رہا تھا۔
اس نکتے پر علامہ ناصر صاحب کی یہ وضاحت منطقی تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے کہ اس تناظر کو نظر انداز کرکے ”ایک صفحے سے اگلے صفحے تک نہیں جا سکتے، الجھنیں پیدا ہو جائیں گی۔“ علامہ صاحب کے مثالوں کے ساتھ پیش کیے گئے تجزیے کو سننے کے بعد سانول عباسی صاحب کہتے ہیں کہ ”خدا کا منشا اگر یہی ہوتا کہ اس کو واقعاتی تناظر میں ہی بیان کرنا، اس کا فہم حاصل کرنا مقصود ہوتا تو ترتیبِ نزولی اس کا سب سے بہترین آپشن تھا۔ لیکن ترتیبِ نزولی میں وہ نہیں ہے۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ قرآن اس واقعاتی تناظر سے ہٹ کر ایک چیز ہے۔“ وہ مزید کہتے ہیں کہ جب قرآن کی ترتیبِ نزولی ہی ہٹا دی تو پھر قرآن بھی آفاقی ہو جاتا ہے۔ اگر ان کی اس بات پر غور کریں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی آفاقیت اس کی ترتیب میں مضمر ہے نہ کہ اس کے مافیہا میں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آیات کی ترتیب کی تبدیلی سے ان آیات کا مافیہا بھی تبدیل ہو جاتا ہے یا ان کا تناظر وہی رہتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہو گا کہ ترتیب قرآن کے نظم پر تو اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن کسی بھی سورت کے مافیہا کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی سورت خواہ کہیں بھی رکھ دی جائے، اس کا تعارف اس کے تناظر کو واضح کر دے گا اور وہی تناظر اس کے مفاہیم کی تشکیل کی اہمیت کو سامنے لائے گا۔ قرآن ترتیب کی تبدیلی سے تجریدی شکل اختیار نہیں کرتا کہ جو ہر قسم کے معنی و مفاہیم سے مبرا ہو کر اپنی پہلی ترتیب کے لیے اضافی شکل اختیار کر چکا ہو۔
اگر اس ترتیب نزولی کی تبدیلی کو آفاقیت سے ہم آہنگ کرنا ہے تو لازمی طور پر وہ تناظر جس میں قرآن ”نازل“ ہوا وہ اضافی ہو جاتا ہے کیونکہ جس تناظر میں وہ ”نازل“ ہوا وہ سانول عباسی صاحب کے لیے مخصوص تھا آفاقی نہیں۔ لیکن اس طرح جو نتائج نکلتے ہیں وہ سانول عباسی صاحب کے لیے بہت غیر خوشگوار ہوں گے۔ کیونکہ انہوں نے خود ہی یہ بتا دیا ہے کہ پہلی ترتیب اضافی ہو جاتی ہے۔ اگر پہلی ترتیب کو اضافی تسلیم کر لیا جائے تو دوسری ترتیب پہلی ترتیب کے لیے اضافی ہو جاتی ہے۔ یعنی جو ترتیب نزول میں سچ تھا وہ دوسری ترتیب میں سچ نہیں رہا۔ اور جو دوسری ترتیب میں سچ ہوا، وہ پہلی ترتیب کا غیر سچ ہو گیا۔ اگر پہلے اور بعد دونوں کو مخصوص اور مختلف تناظر میں پڑھیں تو دونوں کی متعلقیت برقرار رہتی ہے اور کُلی، عمومی یا آفاقی کی جزئی یا مخصوص سے تجرید کر لی جائے۔ آفاقی، کُلی یا عمومی کی تجرید سے صرف مافیہا، جزئی یا مخصوص غیر متعلق ہوجائے گا۔
جیسا کہ علامہ صاحب نے فرمایا ہے کہ کچھ قضایا آفاقی ہیں، لیکن مخصوص چیزیں اضافی ہیں۔ انہیں زبردستی آفاقیت کا جامہ نہیں پہنانا چاہیے۔ قرآن چونکہ آفاقی، عمومی یا کُلی سے زیادہ جزئی اور مخصوص پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس لیے اس میں سے آفاقی کو نکالنا ایک کٹھن کام ہے۔ اس کے لیے صرف ترتیب بدل دینا کافی نہیں ہے۔ قرآن کو سانول عباسی صاحب کے مفاہیم میں آفاقی ثابت کرنے کا جو نتیجہ نکلا ہے اس کا خمیازہ لوگ بھگت رہے ہیں۔ جہادی حضرات کفار کے متعلق کوئی بھی آیت اٹھاتے ہیں اور اس کی آفاقی تعبیر کرتے ہیں جیسے یہ ہر عہد کے لیے اور ہمہ وقت قابلِ عمل ہے۔ تمام انسانی و اخلاقی اقدار اپنی بنت میں آفاقی ہوتی ہیں، لیکن اپنے مافیہا میں اضافی ہوتی ہیں۔ جیسا کہ انصاف ایک آفاقی قدر ہے لیکن انصاف کیا ہے اس کا تعین ایک مخصوص تناظر میں ہی کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں علامہ صاحب متن میں کثرتِ معنی سے متعلق بہت اہم سوال کا دلچسپ جواب دیتے ہیں جو غیر تسلی بخش تو ہے لیکن غیر متعلق نہیں ہے۔ وہ متن کی قرأت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، پھر ان میں سے پیچیدہ معنی کی مزید گہری سطحوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں۔ ایک متن کا ظاہری معنی، دوسرا متن کی پیچیدہ سطحوں میں اتر کر کسی حتمی معنی کا تعین کرنا۔ علامہ صاحب نے پیچیدہ کے لیے ”ثانوی“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ پیچیدہ سطحوں میں معنی کی حتمی تعیین بہت مشکل کام ہے۔ اس کا ادراک تعین نظم کے حوالے سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ لاتشکیلی تنقید معنی کا انکار ہرگز نہیں کرتی، صرف معنی کی حتمی تعیین کی منکر ہے۔ ظاہری سطحوں میں معنی کی تفہیم آسان مرحلہ ہے۔ اسی طرح اگر معنی کی ترسیل میں استعارات، علامتوں اور تشبیہات سے زیادہ کام لیا گیا ہے تو ابہام کا در آنا یقینی ہے۔ ابہام Ambiguity کی ادبی تنقید میں سات اقسام ہیں، جنہیں ادبی نقاد ویلیم ایمپسن نے انتہائی توجہ سے علیحدہ کیا ہے۔ میں نے بہت محتاط قرأت سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ قرآنی متن میں یہ ساتوں اقسام موجود ہیں، لیکن فی الوقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے۔ میں کثرتِ معنی پر چونکہ پہلے ہی اپنے مضمون میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں، اس لیے اسے دہرانے سے گریز کروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں۔
کمنت کیجے