عربی زبان کی اُن خصوصیات کی ایک طویل فہرست ہے جو کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی ہیں.. ان میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ عربی میں اصوات و حروف اور الفاظ کا اپنے معانی سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور دنیا کی کسی دوسری زبان میں یہ خصوصیت نہیں ملتی ہے.
الفاظ،حروف اور أصوات کے معنیٰ و مفہوم سے تعلق کی عربی زبان میں کئی ایک صورتیں ہیں جنکی مختصر وضاحت پیش کی جا رہی ہے.
1 : حروف کی معانی پر دلالت :
بعض حروف ایسے ہیں جو کسی کلمے کے شروع میں آئیں تو مخصوص معنیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہیں،مثلاً :
_ حرفِ حاء / ح سے شروع ہونے والے الفاظ میں حدّت و شدّت اور تیزی و زیادتی کا مفہوم ملتا ہے.. چنانچہ “حبّ،حرب،حرارة،حرية،حرق،حتف،حر،حزم،حماسة،حصار،حنان،حنق،حدة” وغيرہ وغيرہ،ان تمام الفاظ میں اپنے معنیٰ میں تیزی اور شدت کا مفہوم بھی شامل ہے.
_ حرفِ شین / ش سے شروع ہونے والے کلمات میں شر اور استنکار کا مفہوم ملتا ہے.. مثلاً “شنّ،شرّ،شدّة،شرس،شؤم،شحّ،وغيرہ کے الفاظ میں اپنے معنیٰ میں شر اور نکارت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے.
_ حرفِ خاء / خ سے شروع ہونے والے الفاظ میں خباثت کا مفہوم شامل ہوتا ہے.. لہذا “خداع،خوف،خلف،خبل،خذلان،خيانة،خشونة،خشية،خطأ،خططل”وغیرہ کے الفاظ اپنے معانی میں خباثت کا مفہوم بھی رکھتے ہیں.
_ حرفِ راء/ر سے شروع ہونے والے کلمات میں حرکت کا مفہوم پایا جاتا ہے.. مثلاً “راح،رجع،رجف،رحل،رفع،رقص،ركب،رمى،رحى” وغیرہ الفاظ میں انکے معانی کے ساتھ حرکت کا مفہوم بھی شامل ہے.
_ حرفِ نون/ن سے شروع ہونے والے لفظوں میں ظاہر ہونے کا مفہوم ملتا ہے.. چنانچہ “نبت،نبح،نبر،نبش،نشر،نبغ،نور،نفر” وغیرہ اسکی مثالیں ہیں اور ان الفاظ میں اپنے معانی میں ظہور کا مفہوم بھی شامل ہے.
_ حرفِ فاء/ف سے شروع ہونے والے لفظوں میں کُھلنے اور الگ ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے.. چنانچہ “فتح،فسح،فت،فك،فلق،فق،فتک،فجر،فرج،فرد،فسر” کے الفاظ میں کھلنے اور الگ ہونے کا مفہوم بھی شامل ہے.
2 : حروف کے علاوہ مستقل طور پر پورے کے پورے کلمات بھی لفظی مشابہت کی بنیاد پر معنیٰ کی مشابہت اختیار کر لیتے ہیں.. اسکی واضح مثال ہمیں قرآنِ مجید سے بھی ملتی ہے جس وجہ سے باقی مثالوں کی زیادہ ضرورت نہیں ہے.. چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
“لیملل الذی علیه الحق” (سورہ بقرہ،٢٨٢).
اس میں “یُمْلِل” کا لفظ اِملاء کرنے اور لکھنے کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے جبکہ یہ لفظ “یملل” اپنے معنیٰ میں یہ مفہوم نہیں دیتا ہے.. چنانچہ مفسرین نے اسکے معنیٰ میں بہت سی تاویلات کی ہیں.. مگر راجح بات یہ ہے کہ یہاں پر” یملل” کا لفظ “یملئ” کے لفظ سے لفظی طور پر مشابہت رکھتا ہے تو اسے (یعنی یملل کو) یملئ کے لفظ سے لفظاً (صوتی طور پر) مشابہت کی بنیاد پر لکھنے کے معنیٰ میں استعمال کر لیا جو کہ “یملئ” کا لغوی معنی ہے.
* علمائے عربیّت میں سے کئی ایک ائمہ لغت و ادب نے اس موقف کو وضاحت سے پیش کیا ہے جن میں بالخصوص فلسفہ عربیّت کے امام ابو الفتح ابن جِنّی نے اپنی معروف کتاب “الخصائص” میں تفصیل سے اس بات کا اثبات کیا ہے اور بہت سی مثالیں دی ہیں.. .. انہوں نے اسکے لئے الخصائص میں “باب فی امساس الالفاظ اشباه المعانى” کے عنوان سے طویل باب قائم کیا ہے.
* علمائے بلاغہ اور عربی زبان کے اکابر نقّاد میں یہ مسئلہ ہمیشہ سے زیرِ بحث رہا ہے کہ عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا تعلق اسکے الفاظ سے ہے یا معانی و مفاہیم سے ؟
یہی اختلاف عربی ادب کے ادوار میں سے خاص طور پر عباسی،اندلسی اور فاطمی دور کے شاعروں اور ادیبوں کے اسالیب پر بھی اثر انداز ہوا ہے کہ انکی بڑی تعداد نے صرف لفظی جمالیات کو فصاحت کی کنجی سمجھتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں نہایت تکلّف سے کام لیا اور معانی و مفاہیم کا پہلو یکسر نظر انداز کر دیا جس وجہ سے انکے شعر و نثر میں لفظی تکلّفات کی بھرمار رہی اور معنیٰ کے لحاظ سے ایک ساقط کلام کہلائی گئی.. اسکی واضح مثال مقاماتِ حریری میں ملتی ہے کہ الفاظ کے چناؤ کی طرف تمام توجہ ہے جبکہ معانی نہایت سخیف ہیں.
اسی طرح یہ اختلاف قدیم عربی ادب کی نصوص کے دراسات میں بھی اثر انداز ہوتا ہے.. چنانچہ اس اختلاف اور اسکے ان نقصان دہ اثرات سے بچنے کے لئے الفاظ و معانی کو ایک ساتھ لے کر چلنے کا سلسلہ نہایت کارآمد ہے اور کلام کی خوبیوں کا اصل حق بھی اسی صورت میں ادا ہو سکتا ہے.. لہذا الفاظ و معانی میں مشابہت کا یہ نظریہ قبول کر لینے سے اس خیال کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے کہ کلام کے دونوں پہلو (الفاظ و معانی) بیک وقت اہمیت کے حامل ہیں.. اور دونوں میں گہرا ربط تسلیم کرنے سے بیک وقت دونوں پہلوؤں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کا سلسلہ بحال ہو گا جس سے الفاظ و معانی کو ایک ہی سانچے میں رکھ کر دیکھا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے