خزیمہ الظاہری
قرآنی اعراب اور نحوِ عربی آپس میں اس انداز سے قطعاً نہیں ٹکراتے ہیں جس انداز میں ہمارے ہاں انکا ایک دوسرے سے ٹکراؤ بیان کیا جاتا ہے.
اس غلط فہمی کی بنیاد میں دو غلط یا کم از کم لا علمی پر مشتمل امور ہیں جنہیں سمجھنے سے بات کنارے لگتی ہے۔
امرِ اوّل یہ ہے کہ ایک غلط دعویٰ اپنا لیا گیا ہے کہ گرامر (نحو) قرآن کے زمانے سے بہت بعد میں وجود پذیر ہوئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نحو کے پہلے مصنف سیبویہ عجمی النسل تھے اور انہوں نے دوسری صدی ہجری میں آ کر یہ کام کیا. یہ خیال کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً :
١ : سیبویہ پہلے نحوی نہیں ہیں اور انکے استاد خلیل بھی پہلے نحوی نہیں ہیں. بلکہ ان سے قبل بہت سے علمائے نحو گزرے ہیں. چنانچہ (1) تابعین کے دور میں بہت سے علماء کے تراجم میں انہیں نحوی قرار دیا گیا ہے اور (2) سیبویہ نے الکتاب میں کئی ایک جگہوں پر کہا ہے کہ : نحویوں کے ہاں ایسے ہے. یعنی بہت سی جگہوں پر پہلے سے گزرے ہوئے علمائے نحو سے نقل کرتے ہیں نہ کہ نحو کے قواعد از خود بناتے ہیں۔
٢ : اس سے بھی پیچھے جائیں تو علی رضی اللہ عنہ اور انہی کے زمانے میں تابعی بزرگ ابو الأسود دولی، ان دونوں بزرگوں سے متعلق بیشتر تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ نحو کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے انہوں نے عربی گرامر کے ضوابط وضع کئے. یہ تاریخی روایات جس کثرت سے عربی زبان و ادب کی تاریخ کے قدیم ترین مآخذ میں بیان ہوئی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بے اصل قصے نہیں ہیں بلکہ ان روایات کی حقیقت موجود ہے۔
٣ : اس سے بھی پچھلے زمانے کا رخ کریں اور یہ دیکھیں کہ کیا نحو کے قواعد دورِ جاہلی سے ہی تو نہیں چلے آ رہے تو ہمیں بہت سے ائمہ نحو و ادب کا یہ موقف ملتا ہے کہ عربوں کے ہاں نحو کے قواعد کسی نہ کسی حد تک دورِ جاہلی سے ہی موجود تھے. چنانچہ فیلسوفِ عربیت ،امام ابن جِنّی نے الخصائص میں اور فقيهِ عربیت، امام ابن فارس نے الصاحبي فى فقه اللغة میں بیان کیا ہے کہ کلامِ عرب کے ضوابط (نحو وغيرہ) پہلے سے ہی موجود تھیں اور جاہلی دور سے ہی عرب انکا لحاظ کرتے تھے اور انہیں جانتے تھے. یہ ائمہ بعض ایسی روایات بھی لاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلی دور کے عربوں نے نحو و عروض وغيرہ کے بعض ضوابط کو استعمال کیا اور انکی معرفت رکھتے تھے. اب یہ امر بظاہر عجیب سا لگتا ہے اور بہت سے دوسرے مؤرخین و محققینِ زبان و ادب نے اس موقف پر تنقید بھی کی ہے کہ نحو کے قواعد ہو بہو جاہلی دور سے چلے آ رہے ہوں. ان ناقدین میں خاص طور پر گزشتہ صدی کے عظیم محقق اور ادیب، علامہ مصطفیٰ صادق رافعی ہیں جنہوں نے اس پر کڑی تنقید کی ہے. مگر اس امر کی تاریخی روایات، معتد بہ علمائے نحو و ادب کے موقف اور زبانوں کے قواعد کی تاسیس و ارتقاء کے فطری پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ : زبان کے قواعد فوراً سے معرضِ وجود میں نہیں آ جاتے ہیں کہ مثلاً حضرت علی کے حکم پر ابو الاسود دولی اٹھے اور اکیلے ہی شخص نے زبان کا پورا فلسفہ وضع کر دیا یا قواعد ترتیب دے ڈالے. یہ نا ممکن بات ہے اور زبانوں کے قواعد ابتداء میں لازماً اس طویل مرحلے کے محتاج ہوتے ہیں کہ جن سے گزر کر مکمّل ضوابط طے پا سکیں. خاص طور پر نحو کے قواعد میں جسقدر وسعت اور پائیداری ہے، یہ کہنا بالکل محال ہے کہ یکدم صحابہ یا تابعین کے دور میں پورا فن وضع کر دیا گیا ہو. لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علمائے نحو کی اس بات میں تو مبالغہ ممکن ہے کہ نحو جس انتہائی شکل میں موجود ہے، وہ ساری کی ساری جاہلی دور کے عربوں کے ہاں ہو بہو موجود تھی مگر اتنی بات ضرور ہے کہ نحو جِماعی عمل سے وجود میں آئی ہے جس میں جاہلی دور کا بھی حصہ ہے۔
یوں یہ امر اپنی صحت کھو بیٹھتا ہے کہ نحو کا وجود قرآن کے بہت بعد میں ہے. مگر یہ عربی زبان کے قواعد کا ایک تاریخی پہلو ہے جس سے ایک غیر عِلمی دعوے کی تردید تو ہوتی ہے مگر اشکال حل نہیں ہوتا. اسکے لئے دوسرے امر کی وضاحت ضروری ہے۔
امرِ ثانی یہ ہے کہ بھلے یہ قواعد قدیم ہوں مگر جب سے قرآن پر انکا اطلاق شروع کیا گیا ہے تو کئی ایک جگہوں پر قرآنی اعراب و استعمال کو شاذ وغيرہ کیوں قرار دیا گیا ہے ؟
یہ ایک دلچسپ سوال تو ہے مگر اپنے اندر بہت بڑی کج فہمی چھپائے ہوئے ہے اور وہ یہ ہے کہ علمائے نحو و لغت نے قواعد کی تقعید اور لغت میں فصیح کلمات و استعمالات کی تقیید میں اصلاً کلامِ عرب کو موضوع بنایا ہے نہ کہ قرآن کو، (اسکا سبب یہ نہیں کہ قرآن کی زبان پر اعتبار نہ تھا بلکہ قرآن سے استشہاد موجود ہے مگر زبان کے قواعد کو اہلِ زبان کے استعمال سے مستقل بنیادوں پر کشید کیا گیا ہے اور یہی سبب ہے کہ قرآنی اور غیر قرآنی زبان میں اعجاز القرآن کو بیان کرتے وقت علماء ان دونوں میں تفریق کر سکے ہیں). جبکہ قرآن اپنے اسلوب میں کئی مواقع پر بدیع ہے اور خود سے اسلوب تراشتا اور بیان کرتا ہے. چنانچہ علماء نے مبتکرات القرآن کے عنوان سے مستقل بیانی کی ہے کہ کن کن اسالیب میں قرآن نے وہ اندازِ گفتگو اختیار کیا ہے کہ عرب ان سے واقف ہی نہیں تھے. ایسی صورت میں جب قرآنی اعراب وغیرہ کو کلام عرب کے خلاف کوئی نحوی قرار دے چھوڑے یا کہے کہ یہ فصیح نہیں یا شاذ ہے، وغیرہ وغیرہ. تو اصلاً اس پر اعتراض واقع ہی نہیں ہوتا کیونکہ نحوی کی بات کا مقصود یہ نہیں کہ قرآن کا استعمال غیر فصیح ہے یا شاذ ہے بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ کلامِ عرب میں اسکا استعمال شاذ ہے. جبکہ قرآن نے عربوں کے ہاں غیر فصیح وغيرہ سمجھے گئے الفاظ و تراکیب کو بھی اسطرح استعمال کیا ہے کہ وہ کلامِ عرب کے مطابق فصیح نہیں مگر قرآن میں انکی فصاحت بن گئی ہے۔
لہذا بہت حد تک علمائے نحو پر قرآن کے بعض استعمالات کو شاذ وغيرہ کہنے پر اعتراضات کی حیثیت نہ سمجھی پر مبنی ہے. البتہ اسکے باوجود جیسے دیگر علوم کے ماہرین غلطیوں میں پڑتے رہے ہیں، اسی طرح نحویوں نے بھی بیشتر مقامات پر غلطیاں کھائی ہیں مگر یہ امور اس عظیم فن کی اہمیت ذرا بھی نہیں گھٹاتے ہیں کیونکہ اس فن نے قرآن کی اسقدر خدمت کی ہے کہ دین کا کوئی بھی طالب عالم اس سے مستغنی نہیں ہے. ہم نے اس خاص صورت کا تذکرہ کیا ہے جہاں نحویوں پر شدید اعتراض کئے جاتے ہیں جبکہ ان اعتراضات کے پیچھے انکی مراد اور طریقہ نہ سمجھنے کا مرض کارفرما ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے