Home » اسالیب القرآن للفراھی
تفسیر وحدیث زبان وادب عربی کتب مطالعہ کتب

اسالیب القرآن للفراھی

معاویہ محب اللہ

مولانا حمید الدین فراہی ؒ کی قرآنی بصیرت اور کلامِ الہی کے لیے آپ کی خدمات کا تعارف کرانا سورج کو چراغ دکھانے کے مرادف ہے، علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے مولانا کی وفات پر وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی وفات پر استعمال ہوئے تھے ’’الصلوۃ علی ترجمان القرآن‘‘۔

مولانا ان الفاظ کے صحیح معنوں میں مصداق تھے۔ یوں تو مولانا فراہی ؒ نے قرآنیات اور علوم القرآن کے بہت سارے مباحث پر لکھا ہے، نفیس سے نفیس، قیمتی سے قیمتی اور نایاب نہیں تو کم یاب تحقیقات ضرور چھوڑی ہیں، عربیت کا ذوق، زبان وبیان کا ملکہ اور جاہلی شاعری کے اسلوب و بلاغت کا جو حصہ مشیتِ ایزدی نے مولانا کو عطا فرمایا تھا، بر صغیر میں ایسے افراد خال خال ہی نظر آئے ہیں۔

’’اسالیب القرآن‘‘ بھی مولانا فراہی کی قرآنیات کے متعلق تحقیقات میں سے ایک ہے، یہ کتاب در حقیقت مولانا کے حسین خواب کی نامکمل تعبیر ہے، آپ کا ارادہ تھا کہ کلامِ عرب کے اسالیب کا احاطہ کسی ایک ہی رسالہ میں یکجا دستیاب ہو جائے تاکہ بلاغتِ مبین سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی تسکین کا سامان ہوسکے، لیکن مولانا اپنے اس خیال کو پورا نہ کرسکے تھے کہ وعدۂ اجل آ پہنچا، مولانا کی وفات کے بعد اسی نامکمل کام کو مولانا بدر الدین اصلاحی ؒ نے’’ من افاداتہ‘‘ کے اضافہ کے ساتھ شائع کیا۔

اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اس کے مخاطبین کی بلیغ ترین زبان میں نازل کیا ہے، یہی عربی زبان ترجمان الوحی رسول اللّٰہ ﷺ کی زبان تھی: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم سمجھ سکو (يوسف۲)۔

عربی زبان بھی وہ جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں فصحاء اور شعراء بولا کرتے تھے، اس وقت کے عربی معاشرہ میں فصاحت وبلاغت اور زبان وبیان کا نہایت اعلی اسلوب رائج تھا، یہی وجہ ہے کہ قرآن چیلنج اور تحدی کے ساتھ دعویٰ کرتا ہے کہ اس جیسی محض ایک سورت بلکہ ایک آیت ہی بنا لاؤ۔ گویا قرآن مجید اسلوبِ عربی کا اولین مآخذ ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ذات اس ذوقِ عربیت کی بہترین ترجمان ہے،اسی سے بلاغت و فصاحت اور نحو و صرف کی حدود کا آغاز و انتہا ہے، لہذا لفظ کے معنی، جملہ کی تالیف اور کلام کے سیاق و سباق میں عربی اسالیب کا لحاظ ناگزیر ہے۔

کتاب کے مضامین نہایت اعلی اور منفرد ہیں، عربی اسالیب کا ذوق حاصل کرنے کے لیے اس کتاب سے استفادہ بہت اہم ہے، امام فراہی ؒ نے اس کتاب میں ۳۲ اسالیب کا طویل و مختصر دونوں انداز میں بھرپور تعارف کرایا ہے، میں نے کتاب کا حرف حرف بغور پڑھا اور بار بار پڑھا، بعض اسالیب کا تعارف بہت مختصر اور ایجاز کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، ایسے مواقع پر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کاش مزید تفصیل کے ساتھ بیان ہوتا تو بہترین مواد ہاتھ آجاتا ! بہت سے اسالیب میں بہترین تفصیل اور تطبیقی مثالوں کے ساتھ وضاحت فرمائی گئی ہے ؛ وصل و قران، خطاب و التفات، حذف، استفہام، عود علی البدء، جملہ معترضہ، نفی، واو عطف (بیان) ، تعمیم و تخصیص، تکرار وغیرہ۔ سب سے زیادہ دادِ تحقیق مولانا نے خطاب و التفات کے اسلوب میں پیش کی ہے، یہ باب نہایت ہی مفید ہے اور قرآنی بصیرت حاصل کرنے والوں کے لئے گراں مایہ تحفہ ہے، مولانا لکھتے ہیں ؛ “كَانَ القُرْآنُ قَامَ خَطِيبًا سَمَاوِيًّا، يُخَاطِبُ أهْلَ الأرضِ كَافّةً، فَيَلْتَفِتُ يَمِينًا وَ شِمَالاً، وَ يُخَاطِبُ هَذَا وَ ذَاكَ” (أساليب القرآن،١٩) ترجمہ : قرآن مجید ایسا آسمانی خطیب ہے جو تمام اہل زمین سے خطاب کرتے ہوئے دائیں اور بائیں التفات بھی کرتا ہے اور کبھی اِس سے اور کبھی اُس سے مخاطب ہوتا ہے”

مولانا نے حذف کے 13 اسالیب کا تذکرہ کیا ہے، ان میں “حذف جانبین من المتقابلین ” نہایت ہی دلچسپ نکتہ ہے، اس سے قرآن مجید کے بہت سارے مقامات کے حل کرنے میں سہولت ہوجاتی ہے، اس کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں : وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْؕ-مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ [الأنعام ٣٨] آیت کے پہلے حصہ میں “فی الأرض” کی مناسبت سے ” تدب علی أرجلھا” کو حذف کردیا گیا، اور دوسرے حصہ میں ” یطیر بجناحیه ” ہے تو ” فی السماء” محذوف ہوگیا۔ یہ اسلوب پورے قرآن میں جابجا پھیلا ہوا ہے۔ اسی طرح ” عطف بالواو ” جو عربی میں مختلف معانی کے کئے مستعمل ہے، لیکن ” بیان ” کے لئے ہونا مولانا فراہی کا منفرد زاویۂ نظر ہے، حیرت انگیز طور پر مولانا نے یہ اسلوب پیش کیا ہے، وہ عطف کبھی جملہ کا جملہ پر ہوگا یا لفظ کا دوسرے لفظ پر، جملہ کی مثال کتاب میں مذکور ہے، لیکن لفظ پر دوسرے لفظ کا عطف نہایت بہترین اسلوب میں قرآن مجید میں موجود ہے ؛ اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ الْمِیْزَانَؕ-وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ [الشورى ١٧] ” میزان ” سے مراد قرآن مجید ہے، کیونکہ یہاں کتاب پر میزان کا عطف ” عطف للبیان” ہے۔ ایسے ہی ” ذکر الاثر لما یخفی ” نہایت کی اہم اسلوب میں سے ہے، اس کی مثالیں قرآن مجید کو تفہیم و تدبر کے ساتھ پڑھنے والے کے لئے عیاں ہیں۔ مثلا ؛ وَ شَدَدْنَا مُلْكَهٗ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَ فَصْلَ الْخِطَابِ [ص ٢٠] پیش کردہ آیت میں سیدنا داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کئے جانے کا تذکرہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ اس حکمت سے مراد کیا ہے؟ چنانچہ آگے والے جملے سے وہ مخفی اثر واضح ہوگیا کہ وہ “فصل الخطاب” اور قوتِ فیصلہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے بطور حکمت انھیں عنایت فرمایا ہے۔ بالکل ایسے ہی ایک اور اسلوب جس میں بہت سارے قرآن مجید کے مترجمین ملحوظ رکھے بغیر ترجمہ کرتے ہیں تو معنی کہیں کا کہیں ہوجاتا ہے، نحو کی کتابوں میں اسے ” تضمین” کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے جسے مولانا فراہی نے ” اختلاف الصلۃ والفعل” کے عنوان سے ذکر کیا ہے، در اصل سے تضمین سے کچھ مختلف نوعیت کا اسلوب ہے ؛ ” جب صلہ اور فعل میں مناسبت نہ ہوتو وہاں تضمین ہوتی ہے، یعنی کوئی ایسا فعل وہاں محذوف مانیں گے جو موجود خلا کو بھر سکے” جیسے ؛ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ [البقرة ١٨٨] فعل تدلوا “إلى” صلہ کے ساتھ مستعمل نہیں ہے، لہذا یہاں (تبلغوا) کو محذوف ماننا ہوگا۔

غرض 32 اسالیب میں : (1)قِران و وصل (2) خطاب و التفات (3) حذف (4) عود علی البدء (5) اجمال کے بعد تفصیل (6) بعض اجزاء کے بیان پر اکتفا (7) مخفی اثر کا بیان (8) وصل و فصل کے مقامات (9) عطف میں اسالیب کا اختلاف (10) جملہ معترضہ (11) ایک اسلوب کا استعمال دوسرے کے بدل میں (12) زیادت (13) استفہام (14) شرط (15) دو متصل کے درمیان فصل (16) اثبات (17) حال (18) نفی (19) تکرار (20) بدل (21) وصف (22) معرفة و نکرة (23) عطف بالواو (24) تردید (25) تقدیم و تاخیر (26) تخليص (27) تعميم و تخصيص (28) اختلاف الصلة والفعل (29) مقابلة و تفصیل (30) اختلاف الوضاحة على التقابل (31) ابهام ثم إیضاح (32) تضمن القول دلیله خلاصۂ کلام یہ کہ کتاب نہایت عمدہ اور علمی ہے، علمِ بلاغت اور قرآنیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب اپنے مطالعہ میں ضرور رکھنی چاہئے ! راقم اس کتاب کا مسلسل تین مہینہ سے مطالعہ کرتا رہا، اور الحمد للّٰہ ان اسالیب کی روشنی میں بے شمار آیات پر نوٹس بناتا گیا اور یوں مقالہ کی ترتیب بنتی گئی، اس حیثیت سے قرآنیات پر لکھنے والوں کے لئے عمدہ مواد بھی ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں