ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تاریخی شخصیت تھے اور تاریخی شخصیت وہ ہوتی ہے جس کی ذات، تعلیمات،خدمات اور معمولات زندگی وغیرہ کی تاریخی شہادت موجود ہو ۔اس کی ذات، منصب، معمولات اور تعلیمات کے حوالے سے جعلسازی نہ کی جا سکے، ان پر جھوٹ نہ بولا جا سکے اور اگر کوئی ایسی کوشش کرے تو تاریخ کی گواہی اس الزام کو مسترد کر دے ۔
رسول اللہ کی شخصیت کو تین عوامل نے تاریخی بنا دیا
1۔ قرآن
2۔ ذخیرہ حدیث
3۔ تاریخ(سیرت و مغازی )
ذرا دیکھتے ہیں کہ دیگر الہامی مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے انبیاء کی سیرت کس حد تک محفوظ کی۔
بنی اسرائیل کے علما و زعماء نے تاریخ میں کبھی دلچسپی نہیں لی ۔کبھی آپ نے سوچا کہ انہوں نے تاریخ سے اعتناء کیوں نہیں کیا؟کیونکہ وہ اپنے پیغمبروں کو جھٹلانے والے ، انہیں ایذا پہنچانے والے یہاں تک کہ انہیں قتل کرنے والے تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا یہ مکروہ چہرہ اور ان کی خدا سے بار بار کی سرکشی تاریخ میں محفوظ ہو سکے ۔وہ اپنی تاریخ کو دفن کر دینا چاہتے تھے جو انہیں نبی کش اورسرکش قوم ثابت کر سکتی تھی ۔
اگر قرآن کریم بنی اسرائیل کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی نہ ڈالتا تو ہمیں بنی اسرائیل کی اتنی تاریخ بھی معلوم نہ ہو سکتی جتنی اب ہے۔
جہاں تک مسیحیت کا تعلق ہے تو حضرت عیسی کی شخصیت اور تعلیمات پر تین صدیوں کی گرد پڑ چکی تھی ۔یہودیوں نے مسیح علیہ السلام کو(ان کے عقیدے کے مطابق ) پھانسی دے دی تھی، ان کے مٹھی بھر حواریوں کی زندگی خود خطرے میں تھی، وہ کیسے مسیح علیہ السلام کی شخصیت، منصب،اور تعلیمات کو محفوظ رکھ سکتے تھے ۔ وہ تو خود بھاگتے اور چھپتے پھر رہے تھے ۔
تین سو سال بعد جب Constantine the great بادشاہ بنا، ویسڑن رومن ایمپائر کا تو اس نے ایک طرف تو قسطنطنیہ جیسے عظیم الشان شہر کی بنیاد ڈالی اور اسے اپنا دارلحکومت بنایا تو دوسری طرف مسیحیت کی پشت پناہی کی، کیونکہ اسے تاج و تخت دلانے میں عیسائیوں کی کوششیں شامل حال رہی تھیں ۔ یوں مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں کو وہ آسانی فراہم ہوئی کہ ایک کلیسا قائم کر سکیں اور پھر مسیح علیہ السلام کی زندگی اور تعلیمات پر انہوں نے لکھنا شروع کیا ۔تین صدیوں کے بعد انہوں نے جو کچھ لکھا، اس کے استناد پر آج بھی انگلیاں اٹھتی ہیں ۔انگلیاں اٹھانے والے غیر بھی ہیں اور اپنے بھی۔
اگر قرآن کریم حضرت عیسی کی شخصیت اور تعلیمات پر کما حقہ روشنی نہ ڈالتا تو آج کوئی بھی حضرت عیسی کو ایک تاریخی شخصیت نہ مانتا ۔
یہاں ایک بات اور سمجھ میں آ تی ہے کہ بعض مستشرقین جو قرآن، ذخیرہ حدیث اور اسلامی تاریخ پر جو اعتراضات کرتے ہیں، وہ دراصل انہی کا مذہبی تجربہ ہے ۔ان کا الزام کہ حدیث تو تین سو سال کے بعد ضبط تحریر میں لائی گئ ،اس پر کیوں کر بھروسہ کیا جائے۔ دراصل ان کا اپنا مذہبی تجربہ ہے ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور تعلیمات پر قرآن اور تاریخ کی گواہی نہ ان کی تعلیمات کو دھندلانے دے گی اور نہ ان کی شخصیت پر دیومالائ تانے بانے بنے جا سکیں گے ۔آج بھی رسول اللہ کی شخصیت اور تعلیمات اتنی وضاحت سے موجود ہیں کہ جو جہاں چاہے اور جب چاہے اتباع رسول کا راستہ اختیار کر سکتا ہے ۔
——————————————–
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، شعبہ تاریخ، جامعہ کراچی کی سابق صدر اور علمی وتحقیقی مجلہ ’’الایام’’ کی مدیر ہیں۔
کمنت کیجے