امور عامہ اور وجود کے متعلق مباحث میں موجود کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیاجاتا ہے۔ ان میں سے ایک تقسیم “وجود بالقوۃ” اور “وجود بالفعل” کی ہے۔
احکام عقلیہ:
لیکن آگے جانے سے پہلے، یہ بات پیش نظر رہے کہ انسانی ذہن جو تصور باندھتا ہے، وہ اپنے وجود نفس الامری کے لحاظ سے، تین طرح کا ہے:
۱: واجب کہ جس کی بابت عدم کو فرض کرنا کسی محال کو جنم دے اور تضاد کا پیش خیمہ بنے جیسے اس کائنات کے حادث وجود کو تسلیم کر لینے کے بعد ایک قدیم واجب الوجود قدرت، ارادہ، علم رکھنے والی زندہ ذات کو ماننا واجب ہے یا جیسے جب آپ نے مان لیا کہ ایک مکانی صورت تکون ہے تو یہ ماننا واجب ہے کہ اس کے زاویوں کا مجموعہ ۱۸۰ ہے۔
۲: ممتنع کہ جس کی بابت ، واجب کے برعکس، وجود کو فرض کرنا کسی تضاد کامقدمہ بنے جیسے ایسی تکون جس کے چار اطراف ہوں۔
۳: ممکن وہ تصور ہے کہ اس کا وجود کسی تضاد پر منتج ہو نہ اس کا عدم۔ اس لیے، “وقوع” صرف ممکن کا ہو سکتا ہے ۔
آگے جانے سے پہلے، واضح رہے کہ یہ تین احکام واجب، امکان اور امتناع یہ “احکام عقلیہ” ہیں اور “معرفت” کے قبیل سے ہیں۔ چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں امر ممتنع ہے تو اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ وہ موجود ہے بلکہ کہنا یہ ہوتا ہے کہ یہ تصور ہی ناممکنات کے قبیل سے ہے۔
پس واجب ومحال میں انسان کسی تصور کے حوالے سے باقاعدہ دعوی کرتا ہے کہ وجود اس کی ذات کا تقاضا ہے یا وجود کی کرنیں اس پر پھوٹ ہی نہیں سکتیں اس کے برعکس، ممکن میں انسان اپنی لاعلمی کا اقرا رکرتا ہے کہ کسی تصور کے بالمقابل اس کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس کی بنیاد پر اس کے وجود کو واجب ولازم یا ممتنع وناممکن گردانے۔بلکہ اس کے”وقوع” پر باقاعدہ دلیل دینی ہوتی ہے اور اگر کوئی یہ کہےوہ معدوم ہے، تو اسے بھی دلیل دینی ہوتی ہے۔ تاہم صرف امکان کا دعوی کرنے والا مدعی نہیں کہ وہ حقیقت میں کوئی دعوی نہیں کرتا۔
موجود بالقوۃ اور موجود بالفعل:
اب ہم امور عام اور علم وجود (ontology)میں موجود کی ایک تقسیم موجود بالقوۃ اور موجود بالفعل کی طرف آتے ہیں۔
یہاں موجود بالقوۃ سے مراد وہ ممکن تصور ہے جو ابھی تک وجود میں نہیں آیا لیکن آ سکتا ہے۔چنانچہ ایک بیج حاضر وحالت موجودہ کے لحاظ سے بیج ہی ہے کہ بالفعل موجود ہے لیکن وہ پیڑ ہے۔ اس لحاظ سے، آپ بیج کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ بالقوۃ ایک درخت ہے بالکل ایسے جیسے قانون کے ایک طالب علم کو دیکھ کر کوئی ہے کہ یہ ایک وکیل ہےکہ اگریہ اسی طرح چلتا ہے تو اس میں صلاحیت ہے کہ وہ ایک وکیل بن جائے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ موجود بالقوۃ ہمیشہ ممکن الوجود ہوتا ہے۔ واجب الوجود پر یہ تصور منطبق ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کا وجود کسی علت وغیرہ کا محتاج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ارسطو وغیرہ کے نظام میں “بالقوۃ” کو نقص اورعیب گردانا گیاکہ کسی چیز کا موجود بالقوۃ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز موجود نہیں اگرچہ مستقبل میں اس میں وجود کی جوت جگ سکتی ہے۔
خدا کا کوئی بھی پہلو بالقوۃ نہیں:
دلیل حدوث کی بنیاد پر عقل ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کی ذات اور اس کی صفات ہمیشہ سے ہیں اور کوئی بھی کمال ایسا نہیں جو اس کے لیے “منتظر” ہو۔ اسی لیے، اللہ تعالی کی ذات بھی قدیم اور اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔ کوئی بھی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ قدرت یا تکوین(واضح رہے کہ خالقیت قدرت کا یا تکوین کا مظہر ہے)اللہ تعالی کو حاصل نہیں تھے پھر حاصل ہو گئے۔یہ بدییہات میں سے ہے۔ اس لیے، “خدا کو پوٹینشل خالق” کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ اللہ تعالی میں کوئی صفت نہیں تھے اور پھر آ گئی۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قدرت کے مظاہر بالقوۃ موجود ہوتے ہیں جنہیں ہمیں عالم یا مخلوقات کہتے ہیں۔ اس کے برعکس، ان مظاہر کے صدور کا مبدا، یعنی قدرت،ہمیشہ سے موجود ہیں۔
اس تصور کو سمجھنے کے لیے آپ اس مثال پر غور کیجیے: ایک بچہ بڑا ہوکر ایک اچھا قلم کار بنتا ہے۔ جب تک وہ بچہ بڑا نہیں ہوتا اس وقت تک “انشا پردازی”اس کے لیے ایک بالقوۃ وصف ہے کہ اسے حاصل ہی نہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کی ذہنی وجسمانی ونفسی صلاحیتیں بڑھتی رہیں اور ایک وقت آیا کہ اس نے ایک خوبصورت کہانی لکھی جس نے اسے شہرت کی معراج پر پہنچا دیا۔ غور کیجیے کہ کیا وہ “ماہر انشا پردار” اس کہانی کے وجودمیں آنے کے بعد ہوا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اگر اس میں مہارت پیدا نہ ہو چکی ہوتی، تو وہ یہ کہانی رقم ہی نہ کرسکتا۔ تاہم یہ کہنا درست ہے کہ اس کی صلاحیت کا اظہار ، “ہمارے علم میں”، اس کہانی سے ہوا۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ چونکہ ہمارے علم میں اس لکھاری کا کوئی شاہکار نہیں آیا، اس لیے اس میں انشا پردارازی کی صلاحیت معدوم تھی، تو وہ دراصل عدم علم سے علم عدم پر استدلال کر رہا ہے اور یہ ایک واضح منطقی مغالطہ ہے۔ اس وقت اللہ تعالی کی صفات سے متعلق جو بحث چل رہی ہے اس کی پیروی کرنے والوں کو اس بات پر غورکرتے رہنا چاہیے ۔اسی منطقی
مغالطے کی ایک مثال یہ تبصرہ ہے:
مخلوق سے پہلے کوئی خالق نہیں ہوتا:
دیکھیے یہ بات درست ہےکہ جب تک زید موجود ہی نہیں، تو میں یہ سوال نہیں کر سکتا کہ زید کا خالق کون ہےکیونکہ وہ موجود ہی نہیں تو اس کے خالق کا سوال چہ معنی دارد؟ اس سوال کے غلط ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ کوئی ایسی ذات موجود نہیں جو “تخلیق کر سکتی” ہےبلکہ وجہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز وجود ہی میں نہیں آئی تو اس کے وجودی حالات سے متعلق سوال غلط ہے۔(تاہم یہاں بھی میں یہ سوال اٹھا سکتا ہو، کسی منطقی تضاد کے بغیر، کہ اگر احمد کے ہاں بیٹے کی ولادت ہواور اس کا نام “زید” رکھے، تو اس کا خالق کون ہو گا؟)
لیکن یہ کہنا کہ جب تب کوئی مخلوق موجود نہیں اس وقت تک کوئی خالق نہیں ایک دعوے سے زیادہ کچھ نہیں بلکہ منطقی مغالطہ ہے کیونکہ مخلوق سے اللہ رب العزت کی خالقیت کا اظہار ہوا ۔ یہ نہیں ہوا کہ مخلوق سے وہ خالق بن گیا ہو۔
فعل بمعنی صلاحیت اور فعل بمعنی اظہار:
اسی بات کو لسانیات کے پہلو سے دیکھیے کہ ہماری زبان میں افعال دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں:
۱: ایک وہ جو کسی حدوث کو بیان کریں جیسے کھڑا ہونا، بیٹھنا وغیرہ۔ہمارے روایت میں کہا جاتا ہے کہ یہ افعال حدوث پر دلالت کرتے ہیں۔
۲: دوسری وہ افعال جو دراصل کسی صلاحیت کے موجود کا پتہ دیتے ہیں۔ ہمارے روایت میں کہا جاتا ہے کہ یہ افعال “ثبوت” پر دلالت کرتے ہیں۔ انہیں انگریزی میں Stative Verbs کہا جاتا ہےجیسے کریم ہونا، بخیل ہونا وغیرہ۔ان افعال کے لیے کسی مفعول کا ہونا ضروری نہیں۔ چنانچہ ان دو الفاظ میں کیجیے:
- سامع: اسے کہتے ہیں جو باقاعدہ سن رہا ہوں۔
- سمیع: اسے کہتے ہیں کہ جس میں سننے کی صلاحیت ہو اگرچہ وہ سن نہ رہا ہو۔
اب یہ بات کہ خالق اس وقت خالق ہے جب مخلوق ہے دراصل پہلے قسم کی تعبیرات کی بابت درست ہو سکتی ہے کہ وہاں کسی خاص مفعول سے فاعل کی وابستگی ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کی تعبیرات سے یہ بات وابستہ نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں کسی خاص مفعول سے وابستگی کا پہلو ہی نہیں۔
اس گفتگو کے بعد، آپ متکلمین اور عمومی طور سے مسلمانوں، کے ہاں جو خالق کا نظریہ ہے اس پر یہ تبصرہ غور کیجیےجو شاہد بھنڈر نے ڈاکٹر زاہد مغل صاحب کے ساتھ گفتگو میں کیا:
آپ نے کہا خدا خالق ہے۔ ہم نے کہا مخلوق سے پہلے کوئی خالق نہیں ہوتا۔ پھر آپ نے پوزیشن بدلی اور کہا کہ خدا پوٹنشئل خالق ہے۔ ہم نے کہا مخلوق بھی پوٹنشئل مخلوق ہے۔ خدا جب بطور خالق حقیقی (ایکچوئلائز) ہو گا، مخلوق بھی حقیقی ہو گی۔ اس سے پہلے دونوں بطور صفات نتھنگ ہیں یعنی عدم ہیں۔
اوپر کی گئی گفتگو کی روشنی میں، اس میں درج ذیل مسائل ہیں:
- پہلے بات یہ کہ خالق کو مخلوق سے پہلے پوٹنشئل خالق کہنے میں دراصل نقطہ نظر بدلنا نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ خدا فعل کے پہلے معنے میں پوٹنشئل خالق ہے۔ اور حقیقت میں، یہاں موجود بالقوۃ مخلوق ہوتی ہے۔
- نیز یہاں بالفعل مخلوق کے پیدا ہونے کو “خالق حقیقی” کہا گیا ہے جبکہ یہ درست تعبیر نہیں کیونکہ جب کچھ نہیں تھا اس وقت بھی وہ خالق حقیقی ہی تھاکہ اس کا مبدا بکمال موجود تھا۔
- “بطور صفات کے نتھنگ” کی بات کی غلط ہے اور خالق ومخلوق دونوں کے لحاظ سے غلط ہے: وجود سے پہلے مخلوق بطور ذات وصفات دونوں طرح سے معدوم ہے جبکہ خالق بطور ذات وصفات دونوں طرح سے موجود ہے۔
- نیز اگر کوئی کہے کہ “خدا” معدوم ہے، تو یہ منفی قضیہ ہے اور دعوی ہے۔ اس لیے، اس پر دلیل دینی ہو گی۔ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ مجھےاس کے ہونے کا علم ہے نہ معدوم ہونے کا، تو یہ دعوی نہیں بلکہ یہ اپنی کم علمی کا اظہار ہے۔اس لیے، صفات میں بحث میں کوئی یہ کہے کہ خدا “نفی” ہے توجب تک وہ اس کی باقاعدہ دلیل نہ دے، تو اپنےبے بنیاد عقیدے کا اظہار کررہا ہے اور بس۔
- یہاں یہ بھی واضح کر دینا مناسب ہے کہ اللہ تعالی ذاتی وفعلی صفات کی تقسیم میں، فعل در حقیقت اللہ تعالی کی ان معنوں میں صفت نہیں کہ وہ ذات کے ساتھ قائم ہے بلکہ اللہ تعالی کا فعل مفعول ہی ہے۔اس لیے، مخلوق جو اللہ تعالی کا فعل ہے،اس کی فعلی صفت اس معنے میں ہے کہ اس کی ذاتی صفت قدرت یا تکوین کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔
- اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جب تک کسی صلاحیت اور مبدا کا اظہار نہ ہو،تو وہ معدوم ہے تو یہ ایک نرا دعوی ہے جو ہمارے مشاہدے ہی کے خلاف ہے۔اور جب تک اس پر کوئی دلیل نہ دی جائے، یہ ایک بے بنیاد عقیدے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
والله هو الهادي
کمنت کیجے