محمد خزیمہ الظاہری
امام ابن جریر طبری کی تفسیر دو چیزوں کا مرکب ہے, صحابہ و تابعین کی تفسیر اور پہلی تین صدیوں کے تفسیری لٹریچر کا محاکمہ. یعنی ایک طرف امام طبری نے سلف کی تفسیری تراث کو جمع کر کے محفوظ کیا ہے اور دوسرا یہ کہ اپنے سے قبل کی اس تفسیری تراث کا از خود جائزہ لے کر خود ترجیحات قائم کی ہیں اور ہر جگہ یہ بتایا ہے کہ تیسری صدی ہجری تک ظاہر ہونے والے تفسیری اقوال میں راجح کیا ہے اور مرجوح کیا. اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام طبری نے سلف کی تفسیر پر اپنی رائے کا اضافہ کیا ہے اور اپنے میلان و رجحان کو سلف کی تفسیر کے راجح و مرجوح ہونے کا معیار بنایا ہے. بظاہر معلوم ہونے والے اس طرز عمل سے پتہ چلتا ہے کہ امام طبری نے سلف کی تمام تر تفسیر کو ہو بہو قبول نہیں کیا ہے اور خود فیصلہ کرنے کی کوشش کی ہے. تو کیا یہ رویہ اس بات کا عکاس نہیں ہے کہ طبری سلف کی تفسیر کو ہو بہو حجت نہیں سمجھتے ہیں اور انکے مطابق سلف کی تفسیر میں بھی بہت سے مرجوح اقوال پائے جاتے ہیں ؟
جواب : امام طبری ایسا تو کرتے ہیں کہ “اولى بالصواب” جیسے الفاظ میں تقریباً ہر جگہ سلف کے اقوال میں بھی ترجیح قائم کرتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ طبری اپنے فیصلے کو سلف پر حاکم بناتے ہیں. بلکہ (1) انہوں نے از خود وضاحت کر رکھی ہے کہ سلف کی تفسیر ہی درست ہے اور (2) جہاں بعض صحابہ و تابعین کے تفسیری اقوال کو مرجوح قرار دیتے ہیں وہاں عام طور پر انکی مراد یہ نہیں ہوتی کہ یہ اقوال مردود ہیں بلکہ یہ صراحت مقصود ہوتی ہے کہ یہ اقوال “بطورِ تفسیر” راجح نہیں ہیں. یعنی آیت کی مراد یہ نہیں ہے. اس سے انکا مردود ہونا لازم نہیں آتا ہے بلکہ یہ اقوال تفسیر کی بجائے آیت سے نکلنے والے کسی استنباط پر مبنی ہوتے ہیں. لہذا یہ اقوال عین تفسیر ہونے کے لحاظ سے مقبول نہیں ہوتے لیکن آیت سے نکلنے والے استنباط کے طور پر درست ہوتے ہیں. جبکہ تفسیری قول کے طور پر بیان اس لئے ہوتے ہیں کہ انکا تعلق اسی فن کی تصنیفات سے ہے. یہ ضابطہ نہ صرف اس اشکال کو رفع کرنے کے لیے کافی ہے کہ طبری سلف کی تفسیر سے از خود پِک اینڈ چوز کے طریقے پر چیزیں لیتے ہیں بلکہ سلف کا وسیع تر تفسیری مواد سمجھنے کی بھی بنیاد ہے کہ سلف نے ہر قول بطور تفسیر نہیں کہا ہے بلکہ کبھی تفسیر کی ہے, کبھی استنباط اور کبھی آیت کے کسی مخصوص پہلو کی جانب اشارے پر اکتفاء کیا ہے. اس وجہ سے ایک ہی آیت کے تحت سلف کے مختلف اقوال ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہونے کی بجائے اپنی اپنی کیٹگری میں بالکل درست منطبق ہو رہے ہوتے ہیں. چنانچہ جن اہل علم نے کہا ہے کہ سلف کے تفسیری اقوال میں اختلاف صرف تنوّع کی حد تک ہے, نہ کہ تضاد تک پہنچا ہوا. انکا یہی مقصود ہے جسکی تفصیل بیان ہوئی ہے.
(امام طبری کے مقصدِ تفسیر کی وضاحت)
گزشتہ تفصیل کے بعد یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ حافظ ابن جریر نے علم تفسیر میں جو بنیادی کارنامہ انجام دیا ہے, وہ سلف کی تفسیر پر اپنی جانب سے محاکمہ نہیں بلکہ سلف کی تفسیر کا اثبات ہے کہ صحابہ و تابعین کی تفسیر سے ہٹنے کی بجائے اسی کی وضاحت کر کے بتاتے ہیں کہ کن آثار میں تفسیر ہے اور کونسے آثار تفسیر کی بجائے اضافی استنباط پر مبنی ہیں.
اس سلسلے میں آپ نے بنیادی خدمت یہ کی ہے کہ سلف کی تفسیر کو دیگر دلائل و قرائن سے ثابت کیا ہے. چنانچہ تفسیرِ سلف کی تائید میں کلام عرب سے سینکڑوں ہزاروں شواہد جمع کر دئے ہیں اور عقل و نقل, دونوں لحاظ سے سلف کی تفسیر کو محکم کیا ہے. اس تمہید میں اس دوسرے سوال کا جواب ہے جو ذیل میں دیا گیا ہے.
دوسرا سوال : طبری اکثر و بیشتر آیات کا سیاق و سباق دیکھنے کی بجائے اقوال پر فیصلہ سنا دیتے ہیں اور سلف کی تفسیر میں بھی یہی چیز محسوس ہوتی ہے کہ آیات کے سیاق اور مدعا سے ہٹ کر کلام کی گئی ہوتی ہے.
جواب : طبری سلف کی تفسیر کو جن قرائن سے ثابت کرتے ہیں. ان میں ایک قرینہ سیاق کو بھی ٹھہرایا ہے کہ ترجیح کے مواقع پر سیاق سے تعیین کی جائے. لہذا بیشتر مقامات پر آیات میں جاری گفتگو, شان نزول اور گفتگو کے متعلق وغیرہ کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ ان اشیاء سے موافقت کی وجہ سے فلاں قول راجح ہے. الغرض یہ قطعاً درست نہیں کہ سیاق سے ہٹ کر سلف نے تفسیر کی ہے یا امام طبری نے سیاق سے موافقت کی بجائے فقط اقوال برائے اقوال کی بنیاد پر تفسیر کے تمام مدارج طے کئے ہیں.
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف کے ہاں قرآن فہمی میں نہایت توسع اور تنوع ہے کہ قرآن کو محدود کرنے کی بجائے اس کے اشارات سے بھی مختلف مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے تھے. اور بعد کے ائمہ تفسیر کے ہاں بھی یہی طریقہ رائج رہا ہے کہ تفسیر کے نام پر قرآن کی ہدایت کو کسی زیر بحث واقعے میں محصور کرنے کی بجائے اس سے مزید نصیحتوں کا دروازہ بھی کھلا رکھتے تھے. اور یہی قرآنی ہدایت کی آفاقیت و ابدیت کا حق ہے کہ تفسیر کے ساتھ ساتھ اعتبار کو بھی ملحوظ رکھا جائے.
ان دو سوالات کے جواب میں ایسے دیگر کئی ایک سوالوں کا جواب مل جائے گا, اس لئے مزید تفصیل کی حاجت نہیں ہے.
بطور مثال ایک آیت سے متعلق امام طبری کی وضاحت دی جا رہی ہے کہ قرآن نے مشرکوں کی شکست کی پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا کہ : انا نأتي الأرض ننقص من اطرافها (سوره رعد) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مشرکوں کے لئے زمین تنگ ہو رہی ہے اور انکے علاقے مفتوح ہو کر سکڑ جائیں گے. لیکن سلف سے ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد علماء کی موت ہے. بظاہر یہ دو الگ الگ قول ہیں اور یہ دو تفسیریں ایک دوسرے کے مخالف ہیں. لیکن حقیقت میں اس آیت کی تفسیر یہی ہے کہ مشرکوں کو انکے علاقے چِھن جانے کی خبرداری ہے جبکہ علماء کی موت والا قول اس آیت سے نکلنے والا اشارہ ہے کیونکہ حدیث میں وضاحت ہے کہ اہل علم کے اٹھنے سے زمین زمین نہ صرف تنگ ہو گی بلکہ فنا کے گھاٹ اتر جائے گی اور قیامت برپا کر دی جائے گی. اور اسی طرح اہل علم کی موت سے زمین اپنی خیر و برکات کھوتی جاتی ہے اور یہ بھی زمین کی تنگی کی ہی ایک شکل ہے.
لہذا ایک قول بطور تفسیر درست ہے اور دوسرا اس آیت سے بطور استنباط درست ہے. جبکہ امام طبری نے بھی اس آیت میں سیاق ہی کی بنیاد پر ترجیح قائم کی ہے جسے انکی تفسیر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.
کمنت کیجے