Home » سیکیولر ایج اور پاکستان
احوال وآثار انگریزی کتب تہذیبی مطالعات کلام

سیکیولر ایج اور پاکستان

 

ڈاکٹر فاروق عادل
چارلس ٹیلر ایک فلسفی ہیں۔ کینیڈا میں رہنے والے اس بزرگ کے ذہن میں جانے کیا سمائی۔ وہ اس کھوج میں لگ گئے کہ مغربی معاشرہ تو اچھا خاصا مذہبی تھا پھر یہ کیسے سیکیولر ہو گیا یعنی موجودہ سیکیولر ایج میں کیسے جا پہنچا؟ سیکیولرزم کی اصطلاح پر ہمارے یہاں مچیٹا ہو جاتا ہے۔ ایک فریق کا خیال ہے کہ سیکیولرزم کا مطلب ہے، لا دینیت۔ دوسرے گروہ کو سیکیولرزم کی اس تعبیر سے اتفاق نہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب لادینیت نہیں، بس فکر کی آزادی ہے۔ اِدھر ہم لوگ اس قسم کی بحثوں میں الجھے رہے، ادھر چارلس ٹیلر دوسری راہ پر جا نکلے۔ انھوں نے فیصلہ یہ سنایا کہ ایک زمانہ تھا کہ مغربی باشندے کی زندگی خدا کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی لیکن اب وہ سمجھتا ہے کہ اب میں اس کا محتاج نہیں رہا۔ میرا کام اس کے بغیر ہی چل سکتا ہے۔
انسانی فکر میں یہ تغیر یوں ہی کوئی پلک جھپکنے میں رونما نہیں ہو گیا، یہ سفر کوئی پانچ سو برس میں مکمل ہوا۔ یہ پانچ سو برس بھی ایسے نہیں جنھیں سیدھا سیدھا دو حصوں میں بانٹ ہم نچنت ہو جائیں کہ اس حصے میں خدا کے بغیر گزارا نہیں ہوتا تھا اور یہ حصہ وہ ہے جو ترقی کر کے اس سب سے بے نیاز ہو گیا ہے۔یہ کایا کلپ اتنی سادہ نہیں ہے۔ مغرب کو یہ جست بھرنے میں صرف پانچ سو ہی برس نہیں لگے، اس سفر میں کم و بیش آٹھ فکری پڑاؤ بھی آئے ہیں۔ چارلس ٹیلر نے مغربی ذہن کی اس تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش کی تو تقریبا نو سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم دفتر وجود میں آ گیا۔ یہی دفتر ہے جو دنیا بھر کے علمی حلقوں میں ‘ سیکیولر ایج’ نامی کتاب کے نام سے مقبول ہوا۔ اس کتاب نے ان دنوں دینیت اور لادینیت کی بحث میں ایک طوفان اٹھا رکھا ہے۔
یوں سمجھ لیجئے کہ اس بزرگ نے مغرب کے فکری ارتقا کی ایک نئی تفسیر ہی نہیں کر دی بلکہ مغرب کے اس فکری سانچے کو ہمارے سامنے یوں لا کھڑا کیا ہے کہ بحث کے پرانے موضوعات ایک نئے قالب میں ڈھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔یہ سوال اس روز اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ میں زیر بحث تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس علمی و فکری ادارے کی بنیاد تو جانے کن مقاصد کے لیے رکھی تھی لیکن ان دنوں یہ ادارہ ایک نیک مقصد کے لیے سرگرم عمل ہے ۔ اس ادارے کے روح رواں ڈاکٹر حسن الامین ہر دم اس جستجو میں رہتے ہیں کہ پاکستان کے مذہبی طبقات اور جدیدیت پسندوں کو کسی ایسے نکتہ اتفاق پر لا کھڑا کیا جائے جس کے نتیجے میں یہ ہمارے ہاں مختلف انتہاؤں میں بگٹٹ دوڑتے ہوئے ان لوگوں کے درمیان نہ صرف مکالمے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے بلکہ ملک و ملت کے مفاد میں بقائے باہم کی کوئی صورت بھی پیدا ہو جائے۔یہی مقصد تھا جس کے لیے انھوں نے اس کتاب کا انتخاب کیا اور اس کی تفہیم کے لیے ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر کو مدعو کیا۔
ڈاکٹر صاحب ہمارے علمی حلقوں کی ایک منفرد شخصیت ہیں۔ ان کی پرورش و پرداخت تو خالصتا روایتی دینی حلقے میں ہوئی۔ ان کے والد گرامی علامہ زاہد الراشدی ایک روایتی عالم دین ہیں لیکن اس بزرگ کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے مسجد اور حجرے کی تقویم میں رہتے ہوئے بھی اپنا پیغام اس زاویے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جسے نئے عہد کی دنیا سمجھ سکے۔ ایک ایسے مخلص بزرگ کی اولاد پر بھی تو اس کے مثبت اثرات پڑنے چاہئیں تھے اور وہ پڑے۔ ڈاکٹر عمار خان ناصر اسی بزرگ کے فرزند ارجمند ہیں۔ یہ نوجوان دانش ور مدرسوں کی دنیا سے نکل کر جدید تعلیم اداروں تک پہنچے اور اس میں کمال پیدا کیا۔ یہ کمال کسی ایک عنوان تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع دنیا ہے جس میں جھانکنے کے لیے بھی کافی وقت درکار ہے۔
ڈاکٹر عمار خان ناصر کی اس تر دامنی کا تازہ مظاہرہ یہ تھا کہ ڈاکٹر حسن الامین نے انھیں مدعو کیا کہ وہ نہ صرف ہمیں اس مشکل کتاب اور اس کے مباحث سے آگاہ کریں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ ان کا اطلاق ہمارے معاشرے پر کس طرح سے ہو تا ہے۔
کسی اہم اور بڑے فکری موضوع پر کسی کتاب پر تبادلۂ خیال یوں بھی بڑی بات ہے لیکن اس نشست کی ایک اور بھی خاص بات تھی۔ یہ 1933 ء کی بات ہے، چینیوث کے قریب ایک قصبے محمدی شریف میں دو بزرگوں مولانا محمد ذاکر اور مولانا محمد نافع نے ایک مسجد اور ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی۔ یہ دونوں بزرگ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے لیکن ان کی واحد پہچان یہ نہ تھی، وہ بریلوی مکتبہ فکر سے نظریاتی قربت رکھنے والی خانقاہ سیال شریف کے معتقد ہی نہیں وہاں سے بیعت بھی تھے۔ اب جو انھوں نے محمدی شریف میں دارالعلوم بنایا، اس میں صرف بریلوی اور دیوبندی کو جگہ نہ دی، شیعہ مکتب فکر کے لیے بھی جگہ رکھی۔
یوں کہہ لیجئے کہ یہ مدرسہ برصغیر پاک و ہند کا واحد مدرسہ ہے جہاں فرقہ دارانہ مسالک کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ طالب علم کو ان دینی مشترکات کا ماہر بنایا جاتا ہے جو اسلام کے مشترکات ہیں۔ اس دارالعلوم کے سربراہ مولانا محمد قمر نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ان کے یہاں اگر ایک فرقے سے تعلق رکھنے والا عالم دین خطبہ جمعہ دیتا ہے تو دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والا نماز کی امامت کرتا ہے۔ اس طرح فرقہ دارانہ تفریق پر عملا کلہاڑا چلا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عمار خان ناصر نے اس مدرسے کے اساتذہ اور طلبہ کے سامنے اس نئی اور پیچیدہ بحث کی تفصیلات پیش کیں۔
عمومی خیال یہ ہے کہ ہمارے علما اپنے زمانے سے اس قدرلاتعلق رہتے ہیں کہ انھیں گرد و پیش کی خبر ہی نہیں ہوتی اور زمانہ قیامت کی چال چل جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان علما نے اس بحث میں نہ صرف گہری دلچسپی لی بلکہ کچھ ایسے سوالات بھی اٹھائے جو اس بحث میں نئے اور دلچسپ اضافوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
برادرم ڈاکٹر حسن الامین کو کوئی اور نہ ملا تو انھوں نے اس نشست کی صدارت مجھے سونپ دی۔ میں نے اس موقع پر یہ عرض کیا کہ مغرب میں نیا پرانا ہو جانے والا یہ تجربہ اب ہمارے گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔ جدیدیت کی برکات سے استفادے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کے لیے ہم نے اپنے بچوں کو زر کثیر خرچ کر کے جو تعلیم دلائی ہے، اس کی برکت سے اب اسی قسم کے سوالات ہماری اولادوں کے ذہنوں میں بھی پیدا ہونے لگے ہیں، اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ اب کوئی چارلس ٹیلر ہمارے یہاں بھی پیدا ہو۔ ویسے پچھلی صدی میں ایک مفکر ہمارے یہاں بھی پیدا ہوا تھا اور اس نے چارلس ٹیلر جیسے دانش ور سے بھی پہلے ایک بات کہہ کر بہت سے مسائل حل کر دیے تھے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں یہ اقبال ہی ہیں جنھوں نے کہا تھا
لا دینی و لاطینی، کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا لاغالب الا ھو
(بشکریہ آوازہ !)

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں