Home » شے فی الذات اور کانٹ کے فلسفہ میں ماورائی تصوریت (Transcendental Idealism ) کی دوجہانی اور دوجہاتی تعبیرات
فلسفہ

شے فی الذات اور کانٹ کے فلسفہ میں ماورائی تصوریت (Transcendental Idealism ) کی دوجہانی اور دوجہاتی تعبیرات

گل رحمان ہمدرد

تنقید بر عقلِ محض(Critique of Pure Reason) کا مرکزی اور سب سے زیادہ کنٹرورشل تھیسیس یہ ہے کہ انسان اشیاء کے صرف ظاہری مظاہرکا تجربہ کرتا ہے، شے فی الذات کا نہیں۔یعنی ہمارا سارا وجدان صرف مظاہر کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ ہم چیزوں کے مظاہر کو جانتے ہیں جیسا کہ وہ حسیات کے زریعہ ہمارے لیۓ تشکیل پاتے ہیں نہ کہ شے فی الذات کو۔ اور یہ کہ اگر ہم اپنی موضوعیت کو ہٹا دیں تو زماں و مکاں میں اشیاء کے تمام روابط کے مظاہر اور تمام علمی تشکیلات معدوم ہوجاٸیں گے۔ کیونکہ مظاہر ہمارے بغیر اپنے آپ میں موجود نہیں رہ سکتے۔ہمارے حسی تجربات سے پرے وراۓ زماں ومکاں کوئی شے اگر ہے توہمارے لیۓ وہ مکمل طورپر نامعلوم رہے گی۔ ہم اشیاء کا اس طریق پر ادراک کے علاوہ جو ہمارے حسیات اور فہم کی کیٹیگریز کے زریعہ ہمارے لیۓ مخصوص ہے کسی دیگر چیز سے واقف نہیں ہوسکتے ۔

کانٹ نے اس بحث کو اپنی کتاب کے اس حصے میں متعارف کرایا ہے جسے Transcendental Aesthetic کہا جاتا ہے۔ اسکالرز اس بات پر بڑے پیمانے پر متفق نہیں ہیں کہ کانٹ کے فلسفے کی تشریح کیسے کی جائے؟۔ تاہم، تشریح کی دو عمومی قسمیں خاص طور پر متاثر کن اور مقبول عام رہی ہیں۔ ذیل میں ہم ان دونوں تشریحات کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں ۔

١۔ماورائی تصوریت (Transcendental Idealism)کی دوجہانی تشریح(Two-World Interpretation)

دو جہانی تعبیر کانٹ کے ماورائی آئیڈیلزم کی روایتی تشریح ہے۔ اس کے ڈانڈے تنقید بر عقلِ محض (Critique of Pure Reason ) کے ابتدائی ناقدین تک پہنچتے ہیں – کرسچن گاروے (1742–1798) اور جے جی فیڈر (1740–1821) کا نام معروف گوٹنگن رویویو اس کا اولین مظہر ہے ۔ اس تشریح کے مطابق، ماورائی آئیڈیلزم بنیادی طور پر ایک مابعد الطبیعاتی(Metaphysical) تھیسیس ہے جو اشیاء کے دو طبقوں(Classes) کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے; مظہر اور شے فی الذات ۔

اس تشریح کے مطابق شے فی الذات اس لحاظ سے بالکل حقیقی ہے کہ وہ اپنی تمام خصوصیات سمیت خارج میں موجود ہو گی خواہ اس کا ادراک کرنے والا کوئی موجود نہ ہو۔ دوسری طرف مظاہر (Appearences) اس لحاظ سے بالکل حقیقی نہیں ہیں، کیونکہ ان کا وجود اور خصوصیات مدرک کے ادراک پر منحصر ہیں۔ مزید یہ کہ مظاہر کسی نہ کسی لحاظ سے انسانی ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ لہذا مظاہر ذہنی ہستی(Mental entities) یا ذہنی نمائندگی(mental representations) ہیں۔ یہ اس دعوے کے ساتھ کہ ہم صرف ظہور کا تجربہ کرتے ہیں ماورائی آئیڈیلزم کو فینامینالزم یعنی مظہریت کی ایک شکل بنا دیتا ہے، کیونکہ یہ ان اشیاء کو جن کا ہم تجربہ کرتے ہیں کو محض ذہنی نمائندگی (mental representations) تک محدود کر دیتا ہے۔ ہمارے تمام تجربات – اسپیس میں موجود اشیاء اور واقعات کے بارے میں ہمارے تمام تحسسات، حتیٰ کہ وہ اشیاء اور واقعات خود، اور تمام لازمانی لیکن پھر بھی وقتی خیالات اور احساسات – مظاہر(Appearences) کے زمرے میں آتے ہیں جو انسانی ذہن میں موجود ہیں۔ یہ مظاہر ہمیں شے فی الذات جو زماں و مکاں سے ماوراء ہے کی حقیقت سے مکمل طور پر کاٹ دیتی ہیں ۔با ایں ہمہ کانٹ کے فلسفہ کی یہ تشریح اس بات کی متقاضی ہے کہ شے فی الذات موجود ہو، کیونکہ اسی کو ہی وہ حسی ڈیٹا ہمیں منتقل کرنا چاہیے جس سے ہم ظاہری صورت بناتے ہیں۔
اصولی طور پر ہم یہ نہیں جان سکتے کہ شے فی الذات ہمارے حواس پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ ہمارا تجربہ اور علم صرف ذہنوں کے ذریعے اور اس کے ظاہری مظہرکی دنیا تک ہی محدود ہے۔ اس لیے شے فی الذات کا وجود ایک طرح سے ایقانی ہےجس کی موجودگی کانٹ کے فلسفہ کو برکلے کے موضوعی تصوریت کے انجام سے دوچار ہونے سے بچانے کےلیۓ ایک علمی ضرورت کے طورپر مان لی گئی ہے لیکن عملی طور پر یہ براہ راست قابل تصدیق نہیں ہے۔
دو جہانی تعبیر کی تشریح کے ساتھ بنیادی مسائل فلسفیانہ ہیں۔ کانٹ کے زیادہ تر قارئین جنہوں نے اس کے ماورائی آئیڈیل ازم کی اس طرح تشریح کی ہے وہ اس پر اکثر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ان کا موقف رہا کہ :

١۔ کانٹ ایک طرف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم شے فی الذات کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتے، لیکن دوسری طرف وہ بغیر جاننے کے اس کے ہستی کا اقرار بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شے فی الذات نہ صرف موجود ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ وہ زماں ومکاں سے ماوراء ہے۔
یہ اعتراض جیکوبی کی طرف سے سامنے آیا تھا، جب اس نے شکایت کی تھی کہ “(شے فی الذات کے)اس قیاس کے بغیر میں (کانٹ کے) فکری نظام میں داخل نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے ساتھ میں اس کے اندر نہیں رہ سکتا” (جیکوبی 1787، 336)۔

دوسرا، اگر اس مسئلے پر قابو پا لیا جائے تو بھی بہت سے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ کانٹ کا نظریہ، جس کی اس طرح تشریح کی گئی ہے، تشکیک کی ایک بنیادی شکل پر منتج ہوتا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ذہن کے اندر پھنسا لیتا ہے اور ہمیں حقیقت سے دور کر دیتا ہے۔ اس اعتراض کے کچھ ورژن اس جگہ سے آگے بڑھتے ہیں جسے کانٹ مسترد کرتے ہیں۔ اسی تعبیر سےاتفاق رکھنے والے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ شے فی الذات حقیقی ہے جبکہ مظاہر غیر حقیقی ہیں۔ اور اس وجہ سے ہمیں حقیقت کا تجربہ یا علم نہیں ہے۔ لیکن کانٹ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ مظاہر غیر حقیقی ہیں: وہ شے فی الذات ہی کی طرح حقیقی ہیں لیکن ایک مختلف مابعد الطبیعاتی جماعت بندی(Metaphysicl Classification) میں ہیں۔ لیکن یہ حقیقت کہ کانٹ اس طرح تجرباتی سچائی کے معروضی معیار کی طرف اپیل کر سکتا ہے جو ہمارے تجربے کا اندرونی ہے کچھ ناقدین کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ کانٹٸین فلسفہ کی دوجہانی تعبیر (Two-World Interretation) تشکیک کی ایک ناقابلِ قبول شکل سے مبرا ہے۔

٢۔ماورائی تصوریت کی دو جہاتی تعبیر(Two-Aspects Interpretation)

دو جہاتی تعبیر کانٹ کے ماورائی آئیڈیلزم کی اس طرح تشریح کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے کم از کم ان اعتراضات کے خلاف دفاع کرنے کے قابل بناتا ہے۔دو پہلوؤں (Two-Aspects of One Being)کے نظریہ کا ایک زاویہ مابعد الطبیعیاتی (Metaphysical)ہے اور دوسرا علمیاتی(Epistemological) ہے۔

اس تعبیر و تشریح کے مطابق ماورائی آئیڈیلزم اشیاء کو دو طبقوں(Classes) میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ ایک اور صرف ایک ہی شے کے دو مختلف جہات (Aspects) کی بات کرتا ہے۔ اس وجہ سے اسے ایک دنیا کی تشریح(One-World interpretation) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ تعبیر کرنے والوں کا خیال ہے کہ کانٹ کی آنٹولوجی میں صرف ایک ہی دنیا ہے، اور اس دنیا میں اشیاء کے دو مختلف پہلو یا دو جہات ہیں: ایک پہلو جو ہماری حسیات کے زریعہ ہمارےفہم کے احاطہ ادراک میں ہے اور دوسرا پہلو (اگر کوئی ہے تو ) ہماری حسیات کے تجربے سے باہر ہونے کی وجہ سے ہماری فہم کے ادراک سے باہر ہے ۔اولالذکر مظہر ہے جبکہ موخرالذکر شے فی الذات ہے۔ لہذا، اس تعبیر کےمطابق مظہر محض ذہنی عکس نہیں ہے بلکہ وہ شے فی الذات ہی کی طرح حقیقی ہے۔ یہ ماوراٸ تصوریت کا مابعد الطبیعیاتی زاویہ ہے ۔

اسی یک جہانی وجودیات(One-World Ontology ) کی دو جہاتی تعبیر کا علمیاتی زاویہ بھی بہت اہم ہے ۔ اس علمیاتی (epistemological) زاویہ نظر کے مطابق شے فی الذات ان معنوں میں ایک Limiting Concept ہے کہ علمی انکواٸری میں ہم انسانی تحدیدات تک محدود ہیں۔ہماری علمی انکواٸری کی تحدیدات ہیں۔ان سے باہر کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔علمی انکوائری میں شے فی الذات ایسا ہی epistemological Limiting تصور ہے۔اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ علمیاتی تجزیے کی حدود آ پہنچی ہیں۔انسان کے علم کی حد اس کے حواس کی اس رساٸ تک ہے جو صرف زمانی و مکانی نمود(spatiotemporal appearance ) کاتجربہ کرسکتے ہے۔حواس کی فعلیت کا داٸرہ چونکہ محدود ہے اس وجہ سے حواس کے طے شدہ دائرے سے باہر اگر کوئی شے ہو تو انسانی عقل اس کے ہونے یا نہ ہونے کا حکم لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ذیل کا شعر کانٹ کے فلسفہ کی اس جہت کا جامع اظہار ہے۔

جو مجھ کو نظر آۓ صرف اس کا فہم ہے
ہر چیز کا ادراک مرا کام نہیں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گل رحمان  ہمدرد  صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں