Home » قربانی کس پہ واجب ہے؟
فقہ وقانون

قربانی کس پہ واجب ہے؟

ڈاکٹر فرخ نوید

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ جاننا چاہیئے کہ قربانی واجب بھی ہے یا نہیں۔ حنفیہ کے نزدیک قربانی واجب جبکہ آئمہ ثلاثة کے ہاں سنت موکدة ہے اور دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

اگر ہم قربانی کو واجب ہی مان لیں (جیسا کہ حنفیہ کا نقطہ نظر ہے) تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کس پر واجب ہے۔ اس ضمن میں حنفیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قربانی ہر اس شخص پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہو (باعتبار زکوة کے)۔ یعنی جس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی ہو۔

گویا یہاں قربانی کے وجوب کو زکوة کے وجوب پہ قیاس کیا گیا ہے اور یہ گمان کیا گیا ہے کہ جو شخص صاحب نصاب ہو گا (باعتبار زکوة) تو وہ لازما صاحب وسعت بھی ہو گا۔ قربانی کے نصاب کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملتی اس لئے اس کو زکوة پہ قیاس کیا گیا ہے۔

بعض حضرات قربانی کے نصاب کے ضمن میں ایک حدیث پیش فرماتے ہیں کہ جس میں نبی علیہ سلام نے ” من وجد سعة ولم یضحِی ” کے الفاظ ارشاد فرمائے ہیں۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ قربانی صاحب وسعت شخص پر واجب ہے اور چونکہ ہر آدمی جس پر زکوة فرض ہو جائے (یعنی صاحب نصاب ہو باعتبار زکوة) تو وہ صاحب وسعت ہی ہوتا ہے لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ قربانی اس شخص پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہو باعتبار زکوة۔

ہمارے نزدیک درج ذیل وجوہ سے یہ استدلال درست معلوم نہیں ہوتا

١- پہلی بات یہ ہے کہ یہ حدیث ابن ماجہ میں مروی ہے اسی طرح مسند امام احمد ابن حنبل میں بھی مروی ہے۔ اسکی سند میں عبداللہ ابن عیاش نامی راوی ہے جس پہ کچھ اس طرح کلام کیا گیا ہے

إسناده ضعيف، عبدالله ابن عياش ضعيف يعتبر به، وقد اضطرب فيه أيضاً۔

قال الإمام أحمد بن حنبل: “هذا حديث منكر”، نقله عنه ابن الجوزي في (التحقيق في أحاديث الخلاف) (2/ 161)، وكذلك ابن القيم في كتابه (الفروسية – ط عطاءات العلم) (1/ 200)، وعزاه ابن القيم لرواية حنبل.

وقال البوصيري في (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه) (3/ 222): “هذا إسناد فيه مقال عبدالله بن عياش، وإن روى له مسلم، فإنما روى له في المتابعات والشواهد، فقد ضعفه أبو داود والنسائي، وقال أبو حاتم: صدوق، وقال ابن يونس: منكر الحديث۔

بہرحال جس روایت کا یہ حال ہو اس سے استدلال درست نہیں۔

٢- دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس حدیث کو درست مان لیا جائے تب بھی اس سے استدلال ٹھیک نہیں کیونکہ۔حدیث کے الفاظ ” من وجد سعة” ہیں جس کا مطلب ہے کہ جو شخص وسعت رکھتا ہو اور قربانی نہ کرے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ جس کے پاس نصاب جتنا مال ہو اور وہ قربانی نہ کرے ۔۔

لہذا اس حدیث سے صراحتا قربانی کا نصاب ثابت نہیں ہوتا بلکہ اسے  (قربانی کے نصاب کو ) قیاس کرنا پڑتا ہے زکوة کے نصاب پہ اور یہ قیاس کرنا بھی درست نہیں جیسا کہ آگے وضاحت آئے گی۔

٣- اس حدیث میں ” من وجد سعة کے الفاظ آئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ صاحب وسعت پہ قربانی لازم ہے۔ اب بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص صاحب نصاب تو ہوتا ہے لیکن صاحب وسعت نہیں ہوتا۔

اسکی مثال حج سے دی جا سکتی ہے کہ حج کی۔فرضیت کے بارے میں رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ یہاں حج اس پر فرض کیا گیا ہے جو صاحب استطاعت ہو نہ کہ صاحب نصاب ۔ کیونکہ صاحب نصاب تو آدمی ساڑھے باون تولے چاندی سے بھی ہو جاتا ہے (جسکی آج کل کی مالیت تقریبا ڈیرھ لاکھ ہے) جب کے حج پر ایک آدمی کا خرچہ آج کل تقریبا بارہ سے پندرہ لاکھ روپیہ ہوتا ہے۔ اسی لئے رب العزت نے حج صاحب استطاعت پہ فرض کیا ہے نہ کہ صاحب نصاب پہ۔ یہاں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو شخص صاحب نصاب ہو لازمی نہیں کہ وہ۔صاحب استطاعت ہو جبکہ قربانی کے وجوب میں حنفی فقہاء ہر صاحب نصاب کو صاحب استطاعت گمان کر کے اس پہ قربانی کے وجوب کا حکم لگاتے ہیں۔

آپ اگر حدیث من وجد سعة کے الفاظ پہ غور فرمائیں تو یہاں بعینہ وہی مادہ استعمال ہوا ہے جو حج کے ضمن میں من استطاع الیہ سبیلا میں استعمال ہوا ہے۔ تو اگر حج صاحب وسعت پہ فرض کیا جاتا ہے تو قربانی بھی صاحب وسعت پہ ہونی چاہیئے نہ کہ صاحب نصاب پہ۔ کیونکہ اگر ہر صاحب نصاب پہ قربانی واجب کریں گے (چاہے چاندی کے نصاب سے ہو) تو لوگ حرج میں مبتلا ہو جائیں گے۔ یعنی چاندی کے نصاب کی کل مالیت تقریبا ڈیڑھ لاکھ ہے جبکہ آجکل جانوروں کی قیمتیں مہنگی ہونے کی وجہ سے مناسب سا جانور بھی چالیس پچاس ہزار میں ملتا ہے۔ اب وہ غریب جس کی کل مالیت ہی ڈیرھ لاکھ ہو اس پہ اتنی رقم کی قربانی واجب کرنے سے وہ حرج و تنگی میں مبتلا ہو گا۔

اور اگر چاندی کی بجائے سونے کو نصاب بنایا جائے جیسا کہ آج کل بعض مفتیان فتوی دیتے ہیں توآج کل ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت تقریبا 15 لاکھ سے بھی کچھ زائد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کے پاس 7 تولہ سونا کی مالیت ہو تو اس پہ قربانی واجب نہیں کیونکہ نصاب ہی پورا نہیں۔ اب 7 تولے سونے کی قیمت آجکل تقریبا 14 لاکھ روپے ہے۔ اب اس فتوے کی رو سے 14 لاکھ والے پہ قربانی واجب نہیں حالانکہ اگر و چاہے تو آسانی سے پچیس تیس ہزار گائے میں حصہ ڈال کر قربانی کر سکتا ہے لیکن فتوے کی رو سے اس پر واجب ہی نہیں۔ اب وہ شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ 14 لاکھ کی رقم کے ہوتے ہوئے میرے پاس وسعت ہے اورمجھے  قربانی دینی چاہیئے جبکہ فتوی اس پہ قربانی واجب ہی نہیں کر رہا۔

اب وسعت و استطاعت اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ قربانی واجب ہو جبکہ سونے کا لگا بندھا نصاب اس بات کا متقاضی ہے کہ  واجب نہ ہو۔ یہ ہے دراصل وہ الجھن جو ایک لگے بندھے نصاب کو (چاہے سونے کا ہو یا چاندی کا) قربانی کے مسئلے میں فالو کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔

لہذا اس کا حل یہ ہے کہ قربانی صاحب نصاب پہ نہیں بلکہ صاحب استطاعت پہ واجب کی جائے اور استطاعت ہر آدمی کی مختلف ہوتی ہے۔

نوٹ۔ یہ تمام معروضات اہل علم کے غور و فکر کے لئے پیش کی گئیں ہیں۔ یہ کوِئی فتوی نہیں بلکہ محض رائے ہے جس میں غلطی کا بھی امکان ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحب نے مینجمنٹ سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ہے ائیر یونیورسٹی اسلام آباد سے۔ ان کے تخصص کا میدان فنانس ہے خصوصا اسلامک و کارپوریٹ فنانس اور اس میں مختلف مقالات بھی تحریر فرمائے چکے ہیں جو موقر بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں شائع ہوئے ہیں۔ علوم اسلامیہ میں درس نظامی کے بھی فاضل ہیں۔ آج کل رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد میں مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں