عمران شاہد بھنڈر
مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ مابعد جدیدیت کوئی سیاسی آئیڈیالوجی نہیں ہے، بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی ثقافتی صورتحال ہے۔ اس کے علاوہ مابعد جدیدیت اپنی ایک علمیاتی بنیاد رکھتی ہے جس کو بروئے کار لاکر بڑے بیانیوں کے اندر شگاف دکھائے جاتے ہیں۔ نظری سطح پر یہ تضادات اور شگاف موجود ہیں۔ سیاسی سطح پر ان شگافوں اور تضادات سے مراد قومی، نسلی، لسانی گروپ ہیں جو کہ بڑے بیانیوں کی سیاست کو چیلنج کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ علمیاتی صورتحال میں اگر بڑے بیانیے میں شگاف رونما ہوتے دکھایا جاتا ہے تو کیا چھوٹا یا مائیکرو بیانیہ اس شگاف سے بالاتر ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے مابعد جدیدیت کے دو اہم مفکر مثل فوکو اور ژاک دریدا کے فلسفیانہ افکار کو ممیز کرنا ضروری ہے۔ فلسفیانہ سطح پر اگر یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ بڑے بیانیے میں موجود متعینات جن کے تحت رَد و نمو (Sublation) کا عمل طے پاتا ہے اور جو کلّیت پسندانہ فکر کی عکاسی کرتے ہیں، اگر رَدِ تشکیل سے متعینات کی رَد و نمو کا عمل متاثر ہوتا ہے تو کیا چھوٹے بیانیے کے متعینات اس ردِ تشکیل سے ماورا رہتے ہیں؟ واضح رہے کہ بڑے بیانیے میں بہت سے متعینات ہوتے ہیں جیسا کہ ہم ہیگلیائی لاجک میں دیکھتے ہیں۔ چھوٹا بیانیہ ان متعینات میں سے ایک ہے۔ فوکو نے چھوٹا بیانیہ تشکیل دیا تھا۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے دریدا نے شناخت کر لیا تھا اور اس نے لیوٹارڈ اور فوکو کے ان افکار پر یلغار کی جو کہ مائیکرو سیاست کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ متعینات (نسلی، گروہی، علاقائی، لسانی قومی) اگر بحیثیت مجموعی لاتشکیل کی زر پر ہوں تو چھوٹے بیانیے جو کہ محض انہی متعینات کا ایک حصہ ہیں اور اہم نکتہ یہ کہ وہ اسی کلّیت پسندی میں تبدیل ہونے کا خلقی رجحان رکھتے ہیں، لہذا رد تشکیل کے بعد ان کی سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ جاتی۔ کیونکہ کلّیت پسندی پر مبنی متعینات (لسانی، گروہی، قومی، علاقائی وغیرہ) کا مقصد اگر”رد و نمو“ ہے تو انہی بیانیوں کا مقصد خود میں کلّیت پسندی کے داخلی رجحان کے تحت اسی ردو نمو کو روکنا ہے۔ تاہم یہ بات ہمیں اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ قومی، لسانی، علاقائی، یا نسلی تعینات میں بڑے بیانیہ بننے کا نہ صرف رجحان ہوتا ہے بلکہ یہ آخری تجریے میں بڑا بیانیہ ہی ہوتے ہیں۔ تاہم جب ہم مابعد جدیدیت کو صورتحال تسلیم کر لیتے ہیں اور مائیکرو بیانیے جیسا کہ تانیثیت، ہم جنس پرستی، کالوں یا دوسرے گروہوں کے حقوق کی خاطر آواز اٹھاتے ہیں تو ان بیانیوں میں بڑا بیانیہ بننے کا کوئی خلقی رجحان نہیں پایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں سماجی تحریکیں برپا ہوئیں اور مائکرو بیانیوں کو صرف ثقافتی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ یہی وہ ثقافتی صورتحال ہے، میں جس کی حمایت کرتا ہوں۔
رفیع اللہ میاں کہتے ہیں،
”امریکہ میں گورے اور کالے کی تفریق کے برعکس پاکستان جیسے معاشرے میں نسلی اکائیوں کے درمیان اس حد کی تفریق کی عدم موجودی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ نسلی اکائیاں بھی خود کو دوسروں سے بہتر اور برتر سمجھتی ہیں، اور اس کے لیے نسلی اکائی میں کچھ امتیازی خصوصیات بھی بیان کی جاتی ہیں۔ یہ ثقافتی برتری ان کی سیاست میں بھی جھلک رہی ہوتی ہے، یہاں بھی نسلی سیاست کرنے والا کوئی شخص پوسٹ ماڈرن کیسے ہو سکتا ہے؟“
یہ ایک حقیقی تضاد ہے جس کی نشاندہی رفیع اللہ میاں نے کی ہے۔ ثقافتی صورتحال میں نسلی تفاخر کے خلاف مابعد جدیدیت ایک اہم علمیاتی موقف ہے۔ واضح رہے کہ یہاں علمیاتی سے میری مراد اس کا ردِ تشکیلی پہلو ہے۔اگرچہ ردِ تشکیل خود کسی علمیات کی تشکیل نہیں کرتی، بلکہ پہلے سے موجود علمیات سے متعلق تشکیکی رویہ رکھتی ہے۔ میں نے آغاز میں ہی اس نکتے کی وضاحت کردی ہے کہ یہ سیاست اور ثقافت کا فرق ہے۔ ثقافتی فرق کی بنیاد پر قومی، فرقہ وارانہ، لسانی سیاسی تحریکیں نہیں چلائی جا سکتیں، صرف حقوق اور شناخت کے لیے جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ فرانس میں ستر کی دہائی میں مثل فوکو خود ہاتھ میں بینرز اٹھائے ان تحریکوں کی حمایت میں نکلتا تھا۔ چونکہ فوکو کی مائکرو سماجی تحریکوں میں وہی خلقی رجحان پایا جاتا ہے جو ایک بڑا بیانیہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی فوکو اور دریدا کی فکر کے درمیان تضاد ہے۔ فوکو کے مطابق مائکرو شناخت سماجی تحریکوں کا جزو لاینفک ہے۔ دریدا کے مطابق فلسفیانہ سطح پر کُلی شناخت کو ایک مقولے کے طور پر متعین نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب شناخت اپنی علمیاتی اساس بطورِ بڑا بیانیہ علمیاتی بحران کا شکار ہے تو اس کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد کا مقصد کیا ہے؟ یہ وہی طاقت ہے جس کے اندر حقیقی تضادات کو کچلنے کی صلاحیت اور رجحان پایا جاتا ہے۔
لہذا پاکستان میں نسل، قوم، زبان کے نام پر سیاست ہو رہی ہے نہ کہ کوئی ثقافتی مسئلہ درپیش ہے۔ اگرچہ ثقافتی شناخت اس سیاست کو جواز فراہم کرتی ہے۔ ان معنوں میں کہ جب علمیاتی اعتبار سے شناخت کا مقولہ ہی متعین نہیں کیا جا سکتا تو لسانی، قومی یا دیگر علاقائی رجحانات کی بنیادوں پر سیاسی جدو جہد اگرچہ غیر متعلقہ نہیں ہے، البتہ اپنے علمیاتی جواز کا مطالبہ کرتی ہے۔ دریدا جب ”شناخت“ کے مقولے پر ضرب لگاتا ہے تو اس کے اثرات طبقاتی اور مذہبی شناخت پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر بطورِ بڑا بیانیہ جدوجہد کو جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ طبقات کا خاتمہ ہو گیا ہے اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ محض تھیوری کی بحث ہے۔ یہ ایک حقیقی نظری تقاضا ہے جس کی جڑیں سوویت یونین کے انہدام اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں پیوست ہیں۔ یہاں تھیوری کی جڑیں صورتحال میں ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں مارکسزم جو کہ ایک بڑا بیانیہ ہے، لیکن حقیقی صورتحال میں طبقات کی عدم شناخت کے پہلو کی بنیاد پر مارکسزم بطورِ بڑا بیانیہ اپنا جواز کھو دیتا ہے۔ (میں اس نکتے کی طرف بعد میں آوں گا) ۔واضح رہے کہ میں تھیوری کو صورتحال پر لاگو نہیں کر رہا، صورتحال کے اندر سے طبقاتی شناخت کے شعور کے بحران کو منعکس کر رہا ہوں۔ طبقاتی شعور ایک طرف حقیقی صورتحال میں ”زیرِ زمین“ چلا گیا ہے جیسا کہ فرڈرک جیمیسن نے کہا تھا، تو دوسری طرف منطقی و علمیاتی سطح پر شناخت کو بطور مقولہ متعین کرنے کا الگ چیلنج ہے جس سے طبقاتی سیاست کرنے والوں کو نبرد آزما ہونا ہے۔
میاں صاحب کا آخری اہم نکتہ کچھ یوں ہے،
”آپ نے کہا کہ آپ مائکرو سیاست کے قائل نہیں ہیں، لیکن اگر کوئی فکری مہابیانیوں اور مرکزیتوں کو ڈی کسنٹرکٹ کرتی ہے، تو ثقافتی شناخت کی بنیاد پر سیاست ہو یا وفاق کی سطح کی سیاست، دونوں ہمیشہ زد پر رہیں گی۔ ایسے میں کیا کسی ایک کا استرداد کسی ایک مہابیانیے کی طرف جھکاؤ نہیں ہے؟“
سوال بتا رہا ہے کہ میاں صاحب اس کا جواب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
بہرحال یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے جس کی مختصر بحث ہم نے اوپر کر دی ہے۔ اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر ایک مائیکرو کو نظر انداز کر دیا جائے تو دوسری طرف بڑے بیانیے کی سیاست باقی رہتی ہے۔ مابعد جدیدیت میں بالخصوص دریدا کے بعد ”مرکز“ کا لفظ اگرچہ تشکیک کا شکار ہے اس کے باوجود مرکزی سیاست کو کسی ایک سیاسی جماعت یا طاقت کے اکلوتے مرکز کے سپرد کرنا ہی وہ بدترین آمریت ہے جو نظری سطح پر ناقابلِ مدافعت ہے، جبکہ عملی سطح پر ناقابلِ قبول ہے۔ ایک سے زائد جماعتیں اگرچہ مرکز کی سیاست میں شامل ہیں، لیکن وہ ان اکائیوں کی بنیاد پر ہی شامل ہیں۔ ایسے میں مرکز کی سیاست کُلی طور پر ”مرکزی“ سیاست ہے بھی اور نہیں بھی! یعنی اگر وہ مرکزی سیاست کا حصہ ہیں تو وہ مرکزی ہیں۔ اگر وہ اکائی کی بنیاد پر”مرکزیت“ کا حصہ ہیں تو مرکزی نہیں بھی ہیں کیونکہ اس طرح مرکزیت کُلی طور پر مرکز بہ مائل نہیں ہے۔ یعنی جو ہمیں مرکز (وفاق) وغیرہ دکھائی دیتا ہے وہ دراصل مرکز ہے بھی اور نہیں بھی۔ کیونکہ اس مرکز کی تشکیل میں اکائیاں شامل ہیں ان کا”مرکز“ (صوبائیت) کہیں اور بھی ہے۔ اور جو مرکز کہیں اور ہے وہ مرکز بھی وہاں نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک بڑے مرکز کو بھی مرکز بنا رہا ہے۔ ثقافتی سطح پر بھی اگر اسی علمیاتی قضیے کو مدِ نظر رکھا جائے تو کسی ایک ”میٹا کلچر“ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ تکثیری ثقافت جہاں ایک ثقافت کو مرکز سے خارج کرتی ہے تو دوسری طرف خود اس مرکزیت میں شامل ہو کر ہی ایسا ممکن ہوتا ہے۔ لہذا وہ مرکزیت سرے سے ہی کوئی مرکزیت نہیں ہے، کیونکہ اس مرکزیت کے مراکز کہیں اور ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون برادر عزیز رفیع اللہ میاں کے اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں لکھا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے