Home » مابعد جدیدیت
تہذیبی مطالعات زبان وادب سیاست واقتصاد فلسفہ

مابعد جدیدیت

عمران شاہد بھنڈر

تحقیق خواہ علم کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، ذمے داری اور سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔تحقیقی عمل آسان نہیں ہوتا، تاہم فلسفیانہ تحقیق اور بھی زیادہ مشکل کام ہے ۔ اس میں درپیش مشکلات کا ادراک صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو اس مرحلے سے گزرے ہوں اور جن کی فکری تربیت میں علمیات و منطق نے اہم کردار ادا کیا ہو۔ جب فلسفیانہ تحقیق میں حقائق کو جوں کا توں پیش کرنے کے علاوہ ان کا تنقیدی تجزیہ بھی مقصود ہو تو مشکل افکار کی تفہیم، ان کے درمیان لازمی تعلق، امتیاز، افتراق اور مختلف تناظر میں ان کے متعلقہ یا غیر متعلقہ ہونے کا معاملہ مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ تحقیق اور تنقید حتیٰ کہ فلسفے کے بارے میں کہانیاں لکھنے والوں اور شعراء کے علاوہ وہ لوگ بھی رائے دینے کے لیے تیار رہتے ہیں جو اس مخصوص موضوع کے بارے میں یا تو بالکل ہی کچھ نہیں جانتے یا پھر ان کا علم بہت ہی محدود ہوتا ہے۔ آزادانہ تفکر کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے فلسفیانہ خیالات کے بارے میں اذعانی طبع کے ادیبوں سے رائے لی جاتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسی قسم کے اذہان رکھنے والے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو معیاری مطالعے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔مغربی ممالک میں جہاں شاعری زوال کا شکار ہوئی ہے تو وہاں تحقیق کی اہمیت میں بہت اضافہ ہوچکا ہے، اگرتنقید و تحقیق کی اہمیت دریافت کرنی ہے یا مختلف معاشروں پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا ہے تو ابتدا مغربی ناقدین اورمحققین کے افکار کے جائزے سے کرنی چاہیے نہ کہ اردو کے مجہول ناقدین کے چربہ شدہ افکار سے! ہمارے سامنے وہ معاشرے رہنے ضروری ہیں جو تحقیقی عمل کے نتیجے میں ارتقا پزیر ہوئے ہیں اور وہ محقق جن کے فکری نتائج لوگوں کے اذہان اور معاشرتی عمل پر اثر انداز ہوئے ہیں۔تنقید، تخلیق اور تحقیق تین مختلف میدان ہیں۔’’ تخلیق ‘‘کی برتری کے خیال کی جڑیں اٹھارویں اور انیسویں صدی کی رومانیت میں پیوست ہیں، جنھیں بیسویں صدی کے آغاز میں ہی کھوکھلا کردیا گیا تھا۔’’تخلیق‘‘ کا احساس اب صرف اردو سے وابستہ چند لوگوں کا نفسیاتی مسئلہ ہی رہ گیا ہے۔ روس میں انقلاب کے بعد ’’تنقیدی حقیقت نگاری‘‘ اور فرانس میں انیس سو پچاس کے بعد تنقیدی نظریات کے معاشرے پر گہرئی سے اثر انداز ہونے کے رجحان کی شناخت ہوچکی تھی۔ عہد حاضر میں تنقیدی نظریات نے جس طرح لوگوں کو ایک مختلف فکری جہت عطا کی ہے اس سے تنقید کی اہمیت میں حد درجے اضافہ ہوا ہے۔ آج فلسفے و تنقید سے جنم لینے والے خیالات سیاسی و سماجی علوم کا حصہ بن چکے ہیں۔کون کہہ سکتا تھا کہ ادب و تنقیدسے ظہور کرتی ہوئی ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری کے گہرے اثرات سیاسیات، سماجیات، علم الانسان حتیٰ کہ سائنس پر بھی نمایاں نظر آتے ہیں ۔ژاک دریدا نے ادب سے ماخوذ تصور “To        Come” کو ’’جمہوریت‘‘ پر لاگو کردیا۔ لہذا وہ لوگ جنہوں نے ادب برائے ادب کا واویلہ کیا ان کی کم عقلی عیاں ہوگئی کہ اب صرف شور مچانے یا بڑے بڑے دعوے کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ علوم کا دروازہ کسی نقاد پر تو بند ہوسکتا ہے، اور وہ اس قسم کے مہمل دعوے کرسکتا ہے، تاہم علوم کو علوم کے لیے شجرِ ممنوعہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علوم باطنی طور پر مربوط ہوتے ہیں، جو اپنی تخصیصی حیثیت کے باوجود ایک دوسرے سے باطنی ربط رکھتے ہیں۔ اگر مابعد جدید فکری مباحث کو ان کے حقیقی پسِ منظر میں پیش کیا جائے تو مغربی و امریکی علمیاتی اور ادبی رجحانات کے لوگوں کے اذہان پر اثر کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، خواہ ان کے خیالات بعض سطحوں پر فسطائیت ہی کی عکاسی کیوں نہ کررہے ہوں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مابعد جدیدیت کے نظری مباحث نے بعض مقامات پر عقلیت کے اس روشن خیالی پروجیکٹ کو سخت چیلنج سے دوچار کردیا ہے جس کی ابتدا رینے ڈیکارٹ سے ہوتی ہے اور انتہا جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کے فلسفے پر !مثال کے طور پر فلسفے میں تعقل کا عدم استحکام اور ترکیبی قضایا کا بحران سامنے آچکا ہے۔ مابعد جدیدیت کے بنیادی عدم تعقلات جیسا کہ ادب میں معنی کا التوا، مصنف کی لامرکزیت اور لامرکزیت کا یہی تصور سماجیات،ثقافت اور ریاست کے کلیت پسندانہ کردار کے بحران کو نمایاں کرچکا ہے۔ جس تصور کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے وہ بلاشبہ مرکزیت اور مآخذ کا تصور ہے، دیگر تمام تصورات اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ فلسفے میں جب اس کو نقصان پہنچتا ہے تو تعقل میں عدم استحکام کی وجہ سے ترکیب کا عمل مشکل تر ہوجاتا ہے جو علمیات کے سوال کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ادب اور شاعری میں مرکزیت کے انہدام کا مطلب مصنف و شاعر کے معنی پر دعوے کے تصور کا خاتمہ ہے۔ جب مصنف بطورِ مرکز موجود ہی نہیں ہوگا تو خواہ وہ علمیات کی بحث میں خارجیت کی تخفیف کا عمل ہو یا ادب میں معنی کا تعین کیے جانے کا عمل، اس کا کردار فیصلہ کن نہیں رہے گا۔اس کے علاوہ جب ریاست پر لامرکزیت کے تصور کا اطلاق کیا جائے گا تو اس کے کلیت پسندانہ کردار کو زک پہنچے گی۔ ریاست، مصنف اور ہر قسم کے بڑے بیانیے کا آفاقی کردار ختم ہوجائے گا۔یہ وہ خیالات ہیں جو فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا اور ادبی نقاد رولاں بارتھ کے افکار میں موجود ہیں۔ اور جنہیں بعد ازاں ایک اور فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈ نے ۱۹۷۹ میں’’ ترقی یافتہ معاشروں‘‘ کی ثقافتی اور علمیاتی سطحوں کا تعین کرتے وقت اختیار کرلیا تھا۔بڑے بیانیے پر تشکیک سے سیاست میں مائکرو سیاست کے تصور کا آغاز ہوا، مگر دریدا کے لاتشکیلی خیالات سے مائکرو سیاست کو بھی دھچکا لگا، کیونکہ اصل مقصد اس تعیین کو چیلنج کرنا تھا جو کلیت کے تصور کے وسیلے سے ممکن تھی۔ مائکرو سطح پر بھی مرکزیت کے تصور کا انہدام ممکن نہ تھا، اس کے بغیر معنی کے التوا کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا۔ ادب میں شیکسپیئر، گوئٹے، ملارمے سمیت وہ تما م ادبا و شعر اس مابعد جدید تصورکی زد پر تھے جن کا بحیثیت ایک ’’بڑا بیانیہ‘‘ حوالہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مغرب میں مابعد جدیدیت کے بعد شیکسپیئر کی اہمیت کم ہوچکی تھی، سوائے ان چند’’ قدامت پسندوں‘‘ کے جو ابھی تک ادب میں ’’ویلیو ججمنٹ‘‘ پر یقین رکھتے تھے، مگر اس کے باوجود شعری و ادبی متون کا تجزیہ یہ ثابت کردیتا تھا کہ جس معنی کی تشکیل کی کوشش شعرا اور ادبا نے کی ہے اس کی حیثیت محض ایک افسانے جیسی ہے اور وہ ’’تخلیق کار‘‘ کے اپنے ذہن کے علاوہ کہیں موجود نہیں ہے۔ اس طرح اعلیٰ ہونے کا تصور محض ایک طرح کی آئیڈیولاجیکل تشکیل بن جاتا ہے۔ کوئی ازلی و ابدی سچائی نہیں ہے، اس فکری پس منظر کے تحت نئے عہد کا تقاضا تھا کہ شیکسپیئر کی بطور ایک ’’اعلیٰ ادیب‘‘ کے تحت قائم ہوئی ’’باطل‘‘ شناخت کو ختم کیا جاتا تاکہ ’’بڑے بیانیے‘‘ کے حوالے کے تحت کسی بھی فن پارے کو نہ پرکھا جاسکے۔ مابعد جدیدیت کی نظری جہات کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان میں کلی طور پر تجریدی خیالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ مغربی ثقافتی نقادوں نے اسے مغربی معاشرے کی ثقافتی حالت سے تعبیر کیا ہے۔ ہر ثقافت ایک ٹھوس سماجی پسِ منظر رکھتی ہے، جبکہ معاشرتی حالت ایک واضح شکل رکھتی ہے،جو کسی ایسے ابہام کی عکاسی نہیں کرتی کہ جس کی ہر تشریح کو درست تسلیم کرلیا جائے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ فرانس میں مختلف طبقات تشریحات کا اپنا اپنا معیار قائم کرلیں مگر اس کے باوجود ایک واضح شکل ایسی ہوگی جو مکمل فرانسیسی معاشرے کی عکاسی کرے گی۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہوا ہے کہ سبھی ’’نقادوں‘‘ نے خیالات کو مستعار لیتے وقت ان کے پسِ منظر کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔ اردو میں مابعد جدیدیت کو ایک مخصوص مغربی تناظر کی اہمیت کے پیش نظر متعارف کرایا جاسکتا تھا، مگر ایسا کسی نے نہیں کیا۔ بعض جلد بازوں نے تو مابعد جدید تنقیدی نظریات کا اطلاق بھی اردو ادب پر کرنا شروع کردیا، یہ تجزیہ کیے بغیر کہ ان نظریات کا اطلاق کیوں ضروری ہے؟ مغرب میں مابعد جدیدیت کے نظری مباحث کی بنیاد پر کئی نعرے بلند ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند بنیادی نوعیت کے نعروں میں آئیڈیالوجی کا خاتمہ، انسان کا خاتمہ، تاریخ کا خاتمہ،ادب کا خاتمہ، مصنف کا خاتمہ، معنی کا خاتمہ، موجودگی کا خاتمہ بلکہ یہاں تک کہ خاتمے کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ادب کی افضلیت ختم ہوگئی، شاعر کو تخلیق کار گرداننے والے رومانوی خیال کا خاتمہ ہوگیا ۔ نتیجتاََ شاعر کو بھی مختلف ٹکڑے اکھٹے کرکے پیش کرنے والا مداری گر تصور کرلیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جن فلسفیوں اور نقادوں نے وہ تضادات تلاش کیے اور جو ان ماورائی نوعیت کے تصورات کے خاتمے کا اعلان کررہے تھے، وہ سب فلسفی اور ناقدین غیر معمولی طور پر ذہین تھے۔ ان سے برسرِ پیکار ہونا شعرا اور کہانی کاروں کے بس کا روگ نہیں تھا۔ اس حوالے سے مارکسیت کے نقطہ نظر سے لوئی التھیوسے، پیئر ماشیرے، گولڈمان کے نام اہم ہیں۔ جن مفکرین کے خیالات مابعد ساختیات کے نظری مباحث میں ابتدا ہی سے سرایت کرگئے تھے، ان میں ژاک دریدااور رولاں بارتھ کے نام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم اردو کے مترجمین اور شارحین کے لیے یہ دیکھنا لازمی تھا کہ مغرب میں مرکزیت، مآخذ، مصنف اور معنی کے خاتمے جیسے خیالات سے کیا مراد تھی اور ان کا تعلق اس مغربی معاشرے سے کس نوعیت کا تھا جن میں ان خیالات کا ظہور ہوا تھا۔ اور پھر یہ کہ ہمارے ہاں ان وسیع سطح پر ہونے والے اعلانات کا کیا جواز تراشا جانا ضروری تھا؟ افسوس کہ ہمارے ہاں اس سطح کی کوئی تحقیق سامنے نہیں آتی۔ محض خود کو تسلی دینے کی چند کاوشیں ہیں۔ حقیقت میں ’’خاتمے‘‘ کے تصورسے مراد ان تعقلات کی معذوری کو عیاں کرنا تھا جن کی بنیاد پر مذکورہ بالا تمام آئیڈیالوجیز کو متشکل کیا گیا تھا ۔ جب مخصوص تعقلات نئے ظہور کرتے ہوئے معاشرتی، ثقافتی اور ادبی رجحانات کی شناخت نہ کرسکتے ہوں تو اس عمل کو ان تعقلات کی معذوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مغرب میں ژاک دریدا، پیئر ماشیرے اور رولاں بارتھ کے خیالات کے تحت ان تعقلات میں ایسے تضادات یا گیپس دکھائی دینے لگے کہ جن کے عیاں ہونے سے ان تعقلات کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ۔لہذا فلسفے میں کلیتی رجحان، تنقید میں معنی کا التوا اور مصنف کی لامرکزیت لازمی نتائج تھے۔ معنی کے التوا، مصنف کی لامرکزیت چانوکہ صارفی کلچر سے ہم آہنگ تھے، اس لیے پیدا کنندے سے زیادہ صارفیت کو اہمیت دی جانے لگی۔ مابعد جدید عہد میں قاری صارفیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس تناظر میں مصنف اور معنی کا التوا میں جانا لازمی تھا۔ تاہم مغرب میں بھی لامرکزیت و معنی کے التوا جیسے رجحانات کو ’’بحران‘‘ سے تعبیر کیا گیا تھا۔ حقیقت میں مابعد جدیدیت لبرل ازم کے مثالی آدرشوں کا انہدام ہے۔تاہم ہمارے ہاں اس ’’بحران‘‘ کی کہیں کوئی تفصیل نہیں ملتی جو مغربی عینیت پسند اور تجربیت پسند ناقدین و مفکرین کے ہاں ملتی ہے۔ اُردو کا سماج اپنی ہیئت میں عینیت کے قریب رہا ہے، خواہ وہ مذہبیت کا رجحان ہو یا تصوف کی کوئی جہت، اس حوالے سے دیکھیں تو مابعد جدیدیت اُردو ثقافت پر بھی ایک سخت حملہ ہے، لیکن کسی نے ان ’’بحران‘‘ کی عکاسی کرنے والے عناصر کو دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مابعد جدیدنظری مباحث بڑی باریکی سے مغربی سماج کے سماجی، فلسفیانہ، ادبی اور ثقافتی متون کو انتہائی قریبی ربط میں رہ کر گیپس یا تضادات کی تلاش کرتے ہیں۔لاتشکیل مابعد جدیدیت کی ارتقا شدہ شکل ہے، جو لیوٹارڈ اور فوکو کی مابعد جدیدیت سے خاصی دور ہے، بلکہ لاتشکیل ان دونوں کو روشن خیالی کا ہی تسلسل قرار دیتی ہے۔لاتشکیل مغربی معاشرے کے داخلی تضادات کا اظہار ہے، اس کا گہرا تعلق ’’موجودگی کی مابعد الطبیعات‘‘ کی بنیاد پر پنپنے والے ان رجحانات کے ساتھ ہے جو الٰہیات، منطق اور علم الوجود کے اس اشتراکی نکتے کی بنیاد رکھتی ہے جو مرکزیت کی عکاسی کرتاہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ دریدا اور بارتھ کے ذہن میں لاتشکیل کی تشکیل کرتے وقت اسلام کا کوئی پہلو موجود نہیں تھا۔ اس کی مثالیں دریدا کی مغربی متون کی قرأت سے نمایاں ہوجاتی ہیں۔ دریدا نے بار بار واضح کیا کہ مابعد الطبیعات سے اس کی مراد مغربی مابعد الطبیعات کے ساتھ ہے، جسے وہ ’’موجودگی کی مابعد الطبیعات‘‘ قرار دیتا ہے اور جو فوقیتی ترتیب کو تشکیل دے کر، یکطرفہ مرکز کو قائم کرتے ہوئے، خارجیت کی تخفیف اور معنی کی تشکیل کا دعویٰ کرتی ہے۔ مابعد جدیدیت کی لاتشکیلی جہت جن متون کو ڈی کنسٹرکٹ کرتی ہے، اور متعین معنی سے تضادات کو برآمد کرتی ہے، وہ ایک مخصوص لیکن جبری و استحصالی پسِ منظر میں متشکل ہوئے تھے، اس لیے ان کے تضادات کو دکھانا، مغربیت کے حقیقی جابر و ظالم اور استحصالی چہرے کو منکشف کرنے کے لیے لازمی تھا۔ ان کے جبری و استحصالی کردار کی وجہ سے انہیں ڈی کنسٹرکٹ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔لہذا اگلا مرحلہ معنی کی عدم تعیین کا ہے، یعنی معنی کی تعیین کے بعد اس کی عدم تعیین بھی مغربی سماج ہی کے تضادات کو نمایاں کرتی ہے۔ لہذا دونوں ہی صورتیں یعنی متن کی تشکیل اور لاتشکیل ایک مخصوص تناظر کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس عمل کی تفہیم کے بغیر نظری اوزاروں سے اپنے سماج میں پنپنے والے تضادات کو عیاں کرنے کا مطلب گمراہی پھیلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ مابعد جدیدیت اپنی سرشت میں سیاسی ہے۔ ڈی کنسٹرکشن کو دریدا خود بنیاد پرستی کی حد تک سیاسی کہتا ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے میں نے کئی اہم نکات پر اپنی کتابوں میں بحث کی تھی جنہیں دہرانا یہاں مناسب نہیں ہے۔ مابعد جدیدیت میں مضمر سیاست کو اس کی پیش کردہ ثقافتی شکل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مابعد جدید مباحث میں دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کی بنیاد تحریر کے اصولوں پر رکھی گئی ہے اور جہاں تک تحریر کا تعلق ہے تو ا س کے بارے میں سیوسئیر سے دریدا تک تمام نقاد متفق ہیں کہ تحریر حقیقت میں ثقافتی تشکیل ہے۔ اگر تحریر ثقافتی تشکیل ہے اور سماج کی تمام جہات تحریر کے اصولوں کے تحت متعین ہوتی ہیں تو تحریر کی حیثیت مرکزی کہلاتی ہے۔ اس مفہوم میں تحریر یعنی ثقافتی تشکیل ہی سیاسی عمل کا تعین کرتی ہے۔ تحریر کے اصولوں کے تحت ہی سیاسی متون کی قرأت کا عمل طے پاتا ہے۔ تحریر کی ’’مرکزیت‘‘ ہی بورژوا سیاست میں کم از کم نظری سطح پر سبجیکٹ کے انہدام کا باعث بنتی ہے۔ تحریر کی مرکزیت کی بنیاد پر ہی کنارے لگے ہوئے طبقات کو’’ مرکز‘‘ میں لانے کی سعی کی جاتی ہے۔ تحریر کی مرکزیت ہی سے معنی کا التوا ممکن ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو تحریر ہی وہ بڑا بیانیہ ہے جو خود تو بڑا بیانیہ رہتا ہے مگر تاریخ کے بڑے بیانیے کو جسے پہلے ہی کنارے پر پڑا تصور کرلیا گیا تھا، اس کے اوصاف سے محروم کرکے مرکز میں لاتا ہے۔ لیوٹارڈ نے تحریر کی مرکزیت کا سوال اٹھا کر یہ واضح کردیا تھا کہ اب تحریر ہی تعقل کے راستے میں حائل ہوگی۔ یہی وہ نکات ہیں جن کی وجہ سے ثقافت اور سیاست کے مابین ایک اندرونی تعلق قائم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں، مغربی ممالک کے برعکس، پیداواری قوتوں کے عدم ارتقا کی وجہ سے عقل اس سطح پر نہیں پہنچ پائی کہ وہ ایسے انتظامی معاشرے کی تشکیل کرتی، جو انسان کی مرکزیت قائم ہوتا۔ عقل کے تعقلاتی نظام کو مابعد جدیدیت کے نام پر اسی صورت منہدم کیا جاسکتا ہے جب پہلے اس کی تشکیل کرلی جائے۔ اس لیے اردو کی مابعد جدیدیت، اگر کوئی تھی،تو تعقلات کی تشکیل اور پس منظر میں پیداواری قوتوں کے اغلب کردار اور سماجی ہیئت کی تفریق و امتیاز قائم نہ کرسکنے کی وجہ سے باطل محض تھی۔ ہمارے ہاں شناختوں کا بحران تو ہے مگر یہ روشن خیالی پروجیکٹ کے بحران کا نتیجہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں صنعتی پیداوار کے عمل غالب نہیں ہے، جس پر مرکزیت کا مختلف تصور تشکیل پاتا۔ ہمارے ہاں حقیقی بحران روشن خیالی کا نہ پنپنا تھا، ا س میں سے جس شناخت کا قضیہ پھوٹتا ہے وہ دراصل روشن خیالی کے ارتقا کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مغرب میں روشن خیالی کے بحران سے جس مابعد جدیدیت کا ارتقا ہوا ہے اس کی کوئی سمت نہیں ہے۔ بے سمت ہونے کو بھی مابعد جدیدیت کا بحران کہا جاسکتا ہے۔ اقدار کی شناخت کی عدم تعیین بحران نہیں تو اور کیا ہے۔ کم ازکم عینیت پسندانہ تہذیب کے رکھوالوں کے لیے تو یہ بحران ہی کی عکاسی کرتا ہے۔لیکن یہ بحران دراصل ہے کس فلسفیانہ، تنقیدی، یا ثقافتی عمل کا؟ بلاشبہ یہ بحران جدیدیت کے قضایا کا بحران ہے۔ اگر ’’بحران‘‘ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے تو اس کا مطلب مابعد جدیدیت کو قبول کرنا ہوگا۔ اسی طرح اگر ماضی کی حاصلات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ’’بحران‘‘ کو تسلیم کیر لیا جائے تو یقیناََ یہ جدیدیت کے فلسفیانہ و تنقیدی قضایا کے حوالے سے عدم اطمینانی کا اظہار ہوگا، کیونکہ مابعد جدید نظری و ثقافتی مباثح میں انہی تصورات اور رویوں کو چیلنج کیا گیا ہے جو جدیدیت کی فکری اساس پر قائم تھے۔ ایک اور نکتہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ مغرب میں شناختوں کا بحران کسی نئی شناخت کا پیش خیمہ نہیں ہے، جبکہ ہمارے ہاں انسان کی مرکزیت پر قائم کی جانے والی اس شناخت کا مسئلہ اہم ہے، جسے الٰہیاتی مابعدالطبیعات نے ایک عرصے سے دبا رکھا ہے۔ مختصر یہ کہ اردو میں کوئی بھی ’’نقاد‘‘ یا محقق اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ اردو میں مابعد جدیدیت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ وجہ یہ کہ ان کے ذہن میں ایسا کوئی سوال موجود ہی نہیں تھا۔ ایسی علمیاتی، جمالیاتی ،علم البشریاتی اور سیاسی تحریکیں جو فرانس اور امریکہ میں شروع ہوئیں انھیں پاکستان یا ہندوستان میں کسی بھی طرح کے تنقیدی جائزے کے بغیر قبول کرنا یا ان کا درس دینا ناقدین کی ذاتی خواہشات کی تسکین کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ خیالات کہیں خلا میں جنم نہیں لیتے کہ انہیں آفاقی تسلیم کرلیا جائے۔ ان کی آفاقیت کو تناظر کی تبدیلی سے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اگر خیالات کو آفاقی گردان بھی لیا جائے تو اس صورت میں بھی آفاقیت کا قضیہ نہ صرف مابعد جدید یت بلکہ مادیت کی نظری جہت کی بھی زد پر رہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں