سمیع خان
یہ ایک فرد کی بات نہیں ،بلکہ ۱۵۵۷ کلومیٹر پر محیط علاقے میں ۴۳۵ کے قریب طلباء و طالبات و اساتذہ کے باہمی تجربات، افکار و افعال، نظریات و احساسات کی داستانِ ضوفشاں ہے۔ تفہیم کیا ہے؟ یہ نفرت و تفریق، جمود و قعود کے ماحول میں مکالمہ اور وسعت نظری کے فروغ کی بھرپور کوشش کا نام ہے۔ یہ پراجیکٹ ایک ایسے طبقے کےلیے ترتیب دیا گیا جو کچھ عرصے میں سماج میں دینی راہ نمائی کی ذمہ داری لینے والا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مدارس کے ہونہار طلباء و طالبات کو جن کے ہاتھوں میں امت کے مستقبل کی زمام ہے، حلقہ تفریق سے دائرہِ تفہیم میں منتقل کیا جائے۔ یہ کہنا جتنا آسان ہے، عملی میدان میں اتنا ہی مشکل ہے۔
ہم نے سوچا کہ ہم اہل تشیعُ، دیوبندی اور بریلوی طلباء و اساتذہ کو ایک دوسرے کے اداروں میں بلائیں، ساتھ بٹھائیں، اک دوسرے سے ان کی بات کروائیں اور یہ کچھ دنوں کے لیے آپس میں بحث ومباحثہ اور مکالمہ کریں۔ یہ دوریاں، یہ فاصلے، یہ ان دیکھی دیواریں کافی عمیق اور گہری ہیں۔ قارئین یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں میڈیا تو کے برقی و کاغذی صفحات پر اکابرین اکثر بغل گیر و پہلو نشین نظر آتے ہیں مگر یقین جانیے! یہ جو آپ دیکھتے ہیں، یہ چند گھنٹے کی عارضی و رسمی نشستیں ہوتی ہیں اور ان میں طلباء کی جگہ کسی ایک طبقے کے عوام اسٹیج کے سامنے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ اوپر والوں کی بات اوپر رہ جاتی ہے اور نیچے کی سطح پر وہی تفریق وتقسیم برقرار رہتی ہے۔ یہ ساری باتیں لکھنے کا مقصد مایوس کرنا نہیں بلکہ تفہیم کی اہمیت اور اس کی کامیابی کے دائرے کی وسعت کو سمجھانا ہے۔
ہم یہ دعوت لے کر پہنچے، دلوں پر دستک دی، اذہان و قلوب میں اذانِ تفہیم دی اور وحدتِ ہستی کے خالق و مالک کے لطف سے دروازے کھلنے لگے۔ ترتیب کاروں کا انتخاب کیا جانے لگا، ایسے جو انھی تینوں مکاتب سے ہوں مگر ان کی نگاہ مکاتب کے دائرے سے بالا ہو۔ آخر وہ گوہر نایاب ہم کو ندیمِ اخوت و عمارِ امن و راغبِ وحدت کی صورت میں میسر آ گئے۔ ہم نے ان کو ساتھ لیا اور تربیتی کارگاہوں کی برنامہ ریزی (planning) شروع کر دی۔ جامعہ نعیمیہ لاہور، جامعہ الکوثر اسلام آباد اور جامعہ بنوریہ کراچی ہمارے ٹھکانے تھے۔ بریلوی، دیوبندی، شیعہ اور اہل حدیث طلباء و طالبات لاہور کے ایک بریلوی مدرسے میں، اسلام آباد کے شیعہ مدرسے میں اور کراچی کے ایک دیوبندی مدرسے میں آنے لگے۔ پہلے پہل ہر گروہ اپنے ساتھیوں سے الگ نہ ہوتا۔ لیکچر، کھانا، نماز سب اوقات میں الگ الگ رہتے جیسے دوسرے کسی سیارہ زحل سے آئے ہوں۔ پھر دیواریں گرتی گئیں، سلام سے مسکراہٹ تک، پھر مصافحات تک اور پھر بات چیت تک بات آنے لگی۔
منصوبے کے منتظم اعلی (پراجیکٹ مینیجر) کے طور پر میں سوچتا تھا کہ یہ محدود و منتخب طلباء تربیت کے بعد سماج میں چہار سمت پھیلے نفرت کے تعفن کے مقابل تفہیم و تقریب اور وحدت و اخوت کی خوشبو کس طرح پھیلا پائیں گے۔ جواب میں میرے شعور کے صحن میں اک نہایت پرسکون و پُرآواز كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة بإذن الله کا ترانہ گنگناتی سنائی دیتی۔
شہرِ قائد سے شہرِ اقبال تک اور شہرِ اقبال سے شہرِ ریاست تک اس کئی ماہ پر محیط منصوبے میں ہم نے جس قدر سکھایا، اسی قدر سیکھا بھی۔ تجربات، مشاہدات، مشکلات، رفاقتیں، محبتیں، حوصلہ مندی اور حوصلہ افزائی ہمارا حاصل ٹھہرا۔ سب سے اہم دو باتیں جو اس منصوبے کی شہ سرخی کہی جاسکتی ہیں وہ یہ ہیں کہ
۱) ہم ہر شہر میں بین المدارس طلباء میں دوستی کے رشتے بنا کر آئے۔ دوست، دوست سے نفرت نہیں کرتا بلکہ اس کی بات سمجھتا اور اس کو اپنی سمجھانے کی کوشش کرتا ہے ۔
۲) اس پورے منصوبے میں یہ بات بار بار سامنے آئی کہ ایک دوسرے سےملنے، مل کر رہنے، سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرنے، ایک دوسرے کے نظریا ت کی تفہیم اور نفرت سے دوری کی خواہش اکثر افراد کے اندر مدفون تھی جس پر ان کے محدود دائروں نے قدغنیں لگا رکھی تھیں۔ ہم نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے ایک سازگار ماحول مہیا کر دیا۔ تمام مدارس کے منتظمین اعلی، مدیران محترم اور معاونین کرام نے جب تفہیم کا ہدف دیکھا تو ہر مقام پر یوں ساتھ دیا جیسے یہ ان کا اپنا پراجیکٹ ہو۔ ان کے تشکر کےلیے میری لغت کے دامن میں اتنی گنجائش نہیں کہ ان کی قدر کے لائق کچھ الفاظ لکھ سکوں۔ صرف یہی ہے کہ جَزاکم الله احسن الجزاء۔
اپنی بات کا اختتام تفہیم پراجیکٹ میں شامل اک درویش بےگلیم کی اس حدیث عشق سے کرتا ہوں کہ شعور فاونڈیشن اور تفہیم پراجیکٹ اس صدف کی مانند ہے جو گہرے سمندر اور ہزار حلقہ صدکام نہنگ کے روبرو قطرہ نیسان کو گُہرِ وحدت و امن میں تبدیل کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے اور تفہیم پراجیکٹ نے یہ گُہر سازی و جوہر پروری کا کامیابی سے آغاز کر دیا ہے تاکہ یہ گہر تفرقہ و نفرت کی تیرگی میں نورِ امن و اخوت سے انفجارِ صبح امن کر سکیں۔
———————————————————
سمیع خان ، شعور فاونڈیشن کے ساتھ وابستہ ہیں اور “تفہیم” کے پراجیکٹ مینجر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جزاک اللہ۔ اللہ پاک آپ کی کاوشیں قبول فرمائیں۔